48 کانگریس مین نے جو بائیڈن
کو خط لکھے
اہم نکات:
طالبان لوگوں کو بنیادی انسانی
حقوق سے محروم کرتے رہے ہیں
10 لاکھ بچے فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں
غربت کی وجہ سے لوگ اپنی نابالغ
بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہیں
وہ اپنے بیٹوں کو بیچنے کی
بھی کوشش کرتے ہیں
حکومت سرکاری ملازمین کو تنخواہ
نہیں دے سکتی
بینک تباہی کے دہانے پر ہیں۔
----
نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
9 مارچ 2022
-----
(Photo: Kashmir Times)
-----
گزشتہ دسمبر میں، امریکی کانگریس
کے 48 ارکان نے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں جنگ زدہ افغانستان کے
حوالے سے ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی گئی تھی، جہاں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف دو
دہائیوں تک طویل جنگ لڑی تھی، اور انہوں نے بائیڈن پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان
کے 9.4 بلین ڈالر جو امریکہ نے ضبط کیے ہیں، اسے کو رہا کرے، تاکہ افغانستان کو شدید
اقتصادی بحران سے نمٹنے کے قابل بنایا جا سکے۔ اراکین نے لکھا کہ تقریباً 10 لاکھ بچے
فاقہ کشی کے کے دہانے پر ہیں اور انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو ایسے ملک میں فاقہ
کشی کا سبب نہیں بننا چاہیے جہاں اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران لاکھوں بے گناہ
لوگوں کو ہلاک کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ حکومت نقدی کے شدید بحران
سے دوچار ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بینک تباہی کی کاگار پر ہیں؛ خط
میں نشاندہی کی گئی کہ ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہوں
کی ادائیگی حکومت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔
کانگریس مین نے یہ بھی کہا
کہ انسانی حقوق پر طالبان کا ٹریک ریکارڈ خراب رہا ہے اور اس کی حکومت میں انسانی حقوق
کے کارکنوں، خواتین کے حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کو پابندیوں، ہراسانی
اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے اراکین نے صدر پر زور دیا کہ وہ افغانستان
میں انسانی بحران کو روکنے کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ کوئی عملی اقدام کریں۔
--------
افغانستان تباہی کے دہانے
پر
رابرٹ کوہلر
3/3/2022
"ہم طالبان کی نئی حکومت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں،
سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن اور خواتین اور LBGTQ پر جبر کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم، اس کے باوجود موجودہ
حکام کے ساتھ امریکہ کے عملی اقدامات لاکھوں خواتین، بچوں اور معصوم شہریوں کو ہونے
والے بے مثال نقصان کو روکنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔"
حقیقت میں، ہم جنس پرستوں
کے حقوق، خواتین کے حقوق بہت سے امریکی قدامت پسندوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں، لیکن
دنیا کے دوسری خطوں میں ان حقوق کے تحفظ کا دعوی جنگ کا ایک بہت بڑا بہانہ ہے۔
اور آپ کو جنگ کے لیے بموں
کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ کو صرف غلبہ حاصل کرنے کی خواہش اور "دشمن"
کو غیر انسانی بنانے کی صلاحیت کی ضرورت ہے، تاکہ جب اور جہاں ضروری ہو ان کی زندگیوں
کو برباد کیا جاسکے۔
اگر صدر بائیڈن نے اپنے اثاثوں
میں سے 9.4 بلین ڈالر ملک کے مرکزی بینک کو جاری کرنے سے انکار کر دیا، جو اس نے بیرون
ملک یو ایس فیڈرل ریزرو میں، 20 سالہ جنگ کے دوران جمع کرائے تھے، تو جب میں افغانستان
کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے اوپر ایک سکتے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
گزشتہ اگست میں امریکی انخلاء کے بعد طالبان کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد، صدر نے
ان اثاثوں کا کنٹرول اپنے قبضے میں لے لیا، ممکنہ طور پر افغانستان کو معاشی طور پر
مفلوج کرنے کے لیے۔
"اقوام متحدہ کے حکام خبردار کر رہے ہیں کہ سردیوں سے پہلے لاکھوں
افغانوں کی خوراک ختم ہو سکتی ہے، 10 لاکھ بچوں پر فاقہ کشی کا خطرہ منڈلا ہے۔"
خوراک اور طبی امداد میں کوئی
بھی اضافہ بنیادی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بینکنگ کے خاتمے، ادائیگیوں کے توازن
کے بحران، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر روک، اور دیگر سنگین نتائج والے معاشی نقصان
کی تلافی نہیں کر سکتا جو پورے افغان معاشرے میں پھیل رہے ہیں، جن سے سب سے زیادہ کمزور
طبقے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔"
یہ الفاظ گزشتہ دسمبر میں
بائیڈن کو لکھے گئے ایک خط کے ہیں، جس پر کانگریس کے 48 اراکین نے دستخط کیے تھے، جس
میں بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ افغانستان کے لوگوں کے ساتھ معاشی جنگ نہ کھیلے،
حالانکہ حکومت طالبان کی ہے۔ 20 سال کی جنگ کو برداشت کرنا ایک چیز ہے، لیکن مکمل معاشی
تباہی کے درمیان زندہ رہنے سے سے اس کا کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔
ایک ملین بچے بھوک سے مر سکتے
ہیں۔
یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ درحقیقت،
لوگ زندہ رہنے کے لیے ناقابل تصور اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق،
افغانستان کے بے سہارا لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں، بہت سے لوگ مایوس کن فیصلے کر
رہے ہیں۔ کیونکہ یہ قوم غربت کے بھنور میں پھنس چکی ہے،" ۔ مثال کے طور پر:
"بہت کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کا اہتمام پورے خطے میں ایک عام رواج ہے۔ دولہے
کا خاندان جو کہ اکثر دور کے رشتہ دار ہوتے ہیں- معاہدے پر مہر لگانے کے لیے رقم ادا
کرتے ہیں، اور بچے عام طور پر اپنے والدین کے ساتھ اس وقت تک رہتے ہیں جب تک کہ ان
کی عمر کم از کم 15 یا 16 کے قریب نہ ہو جائے۔ بہت سے لوگ بنیادی ناں و نفقہ کے اخراجات
بھی برداشت نہیں کر سکتے، پھر بھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ہونے والے دولہے کو بہت کم
عمر لڑکیوں کو لے جانے کی اجازت دیں گے یا وہ اپنے بیٹوں کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پیس ایکشن کے جین ایتھے، اس
بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ امریکہ نے افغانستان جنگ پر تقریباً 2.3 ٹریلین ڈالر خرچ کیے
ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ: "افغانستان کے لوگوں کے لیے، نہ تو جنگ ختم
ہوئی ہے اور نہ ہی ہلاکتیں بند ہوئی ہیں۔ توقع ہے کہ اس نئی اقتصادی جنگ کی وجہ سے
اس موسم سرما کے چار مہینوں میں بیس سالوں میں ہونے والی ’کائنیٹک‘ جنگ سے زیادہ افغانوں
کی ہلاکت ہونے والی ہے۔ کسی کو بھی نہیں لگتا کہ طالبان کے لیڈروں کو کوئی بھی نقصان
پہنچے گا۔ لیکن سب اس بات پر متفق ہیں کہ لاکھوں بچے مر جائیں گے۔ درحقیقت، 2022 میں
افغانستان بدترین انسانی تباہی والا ایک ملک ثابت ہونے والا ہے۔
اس طرح کے اعداد و شمار لامتناہی
سوالات کو جنم دیتے ہیں، جن میں سے سب سے اہم سوال بس ایک ہی ہے: کیوں؟
جنگ کا شعور اب بھی غالب ہے۔
بنیادی طور پر خلاصۂ جواب صرف یہ ہے: طالبان ظالم اور سفاک ہیں اور بہت سے لوگوں کو
بحیثیت انسان ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سچ ہو، امریکی
حکومت اور اس کے اندھے حمایتی اس پر ہمارے جھوٹے غم و غصے کو دیکھنے میں ناکام کیسے
ہو سکتے ہیں، جب کہ ہم وہاں کئی دہائیوں سے شہریوں کو بغیر کسی سزا کے قتل کر رہے ہیں
اور اب بھوک کے مارے ہولوکاسٹ کی سرپرستی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مزید برآں، ہم پوری
دنیا میں وحشیانہ اور جابرانہ حکومتوں کے ساتھ بخوشی حمایت اور اتحاد کرتے ہیں، جب
تک کہ وہ ہماری خواہشات پوری کریں اور خود کو ہمارے "مفادات" کے تابع کر
لیں۔
اب وقت آگیا چکا ہے کہ ہم
بھک مری کے دہانے پر کھڑے دس ملین بچوں کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں اور معاشی
جنگ سمیت جنگ کی نہ ختم ہونے والی ناکامی کو براہ راست تسلیم کریں۔ کیونکہ کہ اس کا
شکار ہمیشہ معصوم لوگ ہوتے ہیں۔
کانگریس کے 48 ارکان کی طرف
سے بائیڈن کے نام اس خط کا جواب بمشکل 10 فیصد ایوان نے اس طرح پیش کیا:
"ہم طالبان کی جانب سے نئی حکومت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف
ورزیوں، سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن اور خواتین اور LBGTQ پر جبر کی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود موجودہ حکام
کے ساتھ امریکہ کے عملی اقدامات دسیوں ملین خواتین، بچوں اور معصوم شہریوں کو ہونے
والے بے مثال نقصان کو روکنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تعزیری معاشی پالیسیاں طالبان
رہنماؤں کو کمزور نہیں کر پائیں گی، اور وہ سنگین نتائج سے بچا لیے جائیں گے، جب کہ
ان اقدامات کا زبردست اثر ان معصوم افغانوں پر پڑے گا جو پہلے سے ہی دہائیوں کی جنگ
اور غربت کی مار جھیل رہے ہیں۔"
خط کا اختتام ورلڈ فوڈ پروگرام
کی میری-ایلن میک گروارٹی کے ایک اقتباس کے ساتھ ہوتا ہے: "ہمیں سیاست کو انسانی
ضروریات سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔"
اگر اس کے بجائے ہم
"برائی کے خلاف جنگ" جاری رکھیں گے جو جارج ڈبلیو بش نے شروع کی تھی، تو
ہم اس برائی کا حصہ بنتے رہیں گے۔ ان لاکھوں افغانوں کے بارے میں سوچیں جو اپنے بکھرے
ہوئے ملک میں بھوک کا شکار ہو رہے ہیں، پھر تصور کریں کہ ان کے گھر آنے والے نتائج
کیا ہوں گے۔
-----
ماخذ: Afghanistan on
the Brink of Disaster
English
Article: The US Should Pragmatically Engage With Taliban to
Avoid Humanitarian Catastrophe in Afghanistan, Says Robert Koehler
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism