مولانا عبید اللہ خالد
7 جولائی 2023
الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا؟ جس نے
تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا۔
ہرگز نہیں، بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو حالانکہ تم پر
نگراں مقرر ہیں، ایسے معزز کاتب جو تمہارے
ہر فعل کو جانتے ہیں ۔‘‘
(الانفطار:۶؍تا۱۲)
الله تعالیٰ کے یہ
ارشادات ہم انسانوں کیلئے ہیں، ہم اپنے آپ کو دیکھیں او راپنے ارد گرد جو عالم
الله تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اس کا جائزہ لیں، آسمانوں کو دیکھیں، زمین کو
دیکھیں، چاند ستاروں کو دیکھیں، اس زمین سے اُگنے والے درختوں کو دیکھیں، ہر چیز
مرتب ہے، منظم ہے اور ایک ایسا توازن ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں۔
الله تعالیٰ نے جو یہ
کائنات بنائی ہے، یہ آسمان بنایا ہے، یہ زمین بنائی ہے، یہ سورج بنایا ہے، چاند
بنایا ہے، یہ ساری کی ساری کائنات اور یہ سارے کا سارا عالم توازن کے ساتھ ہے،
سورج نکلتا ہے، آپ حیران ہوں گے کہ دنیا میں جو بہت قیمتی اور اعلیٰ درجے کی
گھڑیاں، جو بادشاہوں کے لئے بنائی جاتی ہیں، جن کو عام آدمی خریدنا تو دور کی بات
خریدنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اُن پہ لکھا ہوتا ہے کہ اس کے وقت کی صحت یعنی
ایکوریسی اور درستی سورج کے اعتبار سے ہے۔
سورج کے نکلنے کا آج جو
وقت تھا اور ہر دن جو سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اس میں ذرہ برابر فرق
نہیں۔ قرآن مجید کی آیت ’’اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا
اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت ِمقرر تک کیلئے چل رہی ہے‘‘ (الرعد: ۲) کی تفسیر میں ”معارف
القرآن“ میں ہے:
’’مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو جس جس کام پر لگا دیا ہے،
برابر لگے ہوئے ہیں، ہزاروں سال گزر گئے ہیں ،لیکن نہ کبھی ان کی رفتار میں کمی
بیشی ہوئی ہے، نہ تھکتے ہیں، نہ کبھی اپنے مقررہ کام کے خلاف کسی دوسرے کام میں
لگتے ہیں… اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ہر ایک سیارے کیلئے ایک
خاص رفتار اور خاص مدار مقرر کر دیا ہے، وہ ہمیشہ اپنے مدار پر اپنی مقررہ رفتار
کے ساتھ چلتا رہتا ہے… ان سیاروں کا عظیم الشان وجود پھر ایک خاص مدار پر خاص رفتار
کے ساتھ ہزاروں سال سے یکساں انداز میں اسی طرح چلتے رہنا کہ نہ کبھی ان کی مشین
گھستی ہے، نہ ٹوٹتی ہے نہ اس کو گریسنگ کی ضرورت ہوتی ہے، انسانی مصنوعات میں
سائنس کی انتہائی ترقی کے بعد بھی اس کی نظیر تو کیا ، اس کا ہزارواں حصہ ملنا بھی
ناممکن ہے، یہ نظام ِقدرت بآواز بلند پکار رہا ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والی
کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو انسان کے ادراک وشعور سے بالاتر ہے۔ ‘‘
اور وہ سورج اس دنیا کے
کرہ سے ہزاروں لاکھوں گنا بڑا کرہ ہے،
کیسے چلتا ہے، کہاں غروب ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری کی روایت ہے: آپ ﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے پوچھا جس وقت سورج غروب
ہوا:” کیا تم جانتے ہو سورج کہاں جاتا
ہے؟“ حضرت ابو ذرؓ فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا ’’الله اور اس کے رسولؐ خوب جانتے
ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ جاتا ہے اور
عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے، پھر اجازت طلب کرتا ہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے۔“
اور وہ زمانہ قریب ہے کہ
وہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور نکلنے کی اجازت چاہے گا تو اسے
اجازت نہیں ملے گی، بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے تو آیا ہے وہیں لوَٹ جا،
چنانچہ اُس دن وہ مغرب ہی سے طلوع ہو گا۔ پس یہی مطلب ہے ارشاد باری تعالیٰ کا
’’اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا
ہوا حساب ہے۔‘‘ (یٰسین : ۳۸) (الجامع الصحیح للبخاري،
کتاب بدء الخلق، باب صفة الشمس والقمر بحسبان)
اس تمہید کے بعد اصل
معاملہ پر غور کیجئے کہ الله تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے چند
مظاہر کا ذکر کرکے انسان کو الله کی توحید اورعلم و قدرت کاملہ پرایمان لانے کی
دعوت دی ہے … آفتاب کے متعلق مذکورہ آیت
میں غور کیجیے کہ مقصد اس کا یہ بتلانا ہے کہ آفتاب خود بخود اپنے ارادے
اوراپنی قدرت سے نہیں چل رہا، بلکہ یہ ایک عزیز وعلیم یعنی قدرت والے اور جاننے
والے کے مقرر کردہ نظم کے تابع چل رہا ہے۔ اس کے تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو اس کا
سجدہ قرار دیا گیا، کیوں کہ سجدہ ہر چیز کا اس کے مناسب حال ہوتا ہے، جیسا کہ
قرآن نے خود تصریح فرما دی:’’ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے۔‘‘
(النور:۴۱) یعنی ساری مخلوق
الله کی عبادت اور تسبیح میں مشغول ہے، مگر ہر ایک کی عبادت وتسبیح کا طریقہ الگ
الگ ہے، اس لئے آفتاب کے سجدہ کے یہ معنی سمجھنا کہ وہ انسان کے سجدہ کی طرح زمین
پر ماتھا ٹیکنے ہی سے ہو گا صحیح نہیں ۔
حدیث کا حاصل مضمون یہ ہوا کہ آفتاب اپنے پورے دورے میں زیر عرش الله کے
سامنے سجدہ ریز رہتا ہے، یعنی اس کی اجازت اور فرمان کے تابع حرکت کرتا ہے اور یہ
سلسلہ اسی طرح قرب قیامت تک چلتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کی بالکل قریبی علامت
ظاہر کرنے کا وقت آجائے گا، تو آفتاب کو اپنے مدار پر اگلا دورہ شروع کرنے کے
بجائے پیچھے لوٹ جانے کا حکم ہو جائے گا۔ اس حکم کی تعمیل میں وہ مغرب سے طلوع ہو گا، اس وقت دروازہ توبہ کا بند
ہو جائے گا۔ کسی کا ایمان و توبہ اس وقت مقبول نہیں ہوگا۔ (ملخص من معارف القرآن)
یہ تو کائنات کا قصہ ہے۔
الله تعالیٰ نے انسان میں بے شمار صفات پیدا فرمائی ہیں، آج کل لوگ متاثرہیں
کمپیوٹر اور سپر کمپیوٹر سے، نامعلوم کیا کیا چیزیں اس میں جمع ہیں، ایک بٹن دبانے
سے برسوں پرانی چیزیں فوراً سامنے آجاتی
ہیں مگر کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کمپیوٹر کو کس نے بنایا؟
وہ انسان ہے او راس انسان
کو الله تعالیٰ نے بنایا ہے اور اس میں تسخیر و ایجاد کی صلاحیتیں رکھی ہیں۔ آپ
دیکھیں اپنے ہاتھوں کو، پیروں کو، اپنی انگلیوں کو، اپنے چہرے کو ، ناک، کان،
آنکھوں کو، اپنے جسم کے تمام اعضاء وجوارح کو کہ الله تعالیٰ نے صرف پیدا نہیں
کیا،بلکہ اس میں توازن رکھا ہے۔ پھر اس کی صورت گری میں جو ترتیب اور ترکیب قائم
کی وہ کس اعلیٰ معیار کی ہے! ایک ماں باپ
ہیں، بیس بیٹے اور بیٹیاں ہیں، لیکن ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے، صورت، سیرت اور
مزاج بھی الگ ہے اور پوری دنیا میں جتنے انسان موجو دہیں یا جو دنیا سے جاچکے یا
جو دنیا میں آئینگے سب ایک دوسرے سے الگ۔ آپ نے دیکھا ہو گا، بائیو میٹرک ،
انگوٹھے کا نشان لگایا جاتا ہے اور دُنیا میں جتنے انسان ہیں، سب کے یہ مختلف ہیں
اور اس سے آگے کی بات ہے کہ آنکھ، آپ جائیں بیرون ملک، کیمرے لگے ہوتے ہیں،
کہتے ہیں اس کی طرف دیکھیں سارے انسان، آٹھ بھائی ہیں ،سب کی آنکھوں کے اندر کی کیفیت
الگ ہے، کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا، یہ کس نے بنایا ہے؟ یہ الله تعالیٰ نے بنایا
ہے۔اس کا حق کیا تھا؟ اس کا حق یہ تھا کہ ہم اپنے مہربان رب اور اپنے پیدا کرنے
والے خالق و مالک کی طرف رجوع ہوتے، ہم اس کے احکام پر عمل کرتے، لمحہ بہ لمحہ شکر
ادا کرتے۔
الله رب العزت جو اس
انسان کی ہر چیز کے خالق ہیں، وہ جو
کراما ًکاتبین ہیں، جو کچھ تم کرتے ہو اس
سے وہ واقف ہیں، سب جانتے ہیں، سب لکھا جارہا ہے اور جب انصاف کا دن قائم ہوگا اور
میدان حشر سب کے سامنے ہوگا، اس وقت ہر ہر
چیز انسان کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ اُس وقت
انسان حیران ہو گا کہ اس کے اعمال نامے میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔
میرے دوستو! ہمیں اپنی
تخلیق پیش نظر رکھنی چاہئے کہ الله نے ہمیں پیدا فرمایا، الله نے یہ خوبیاں اور
صفات ہمارے اندر پیدا فرمائیں، ہمارے ذمے ہے کہ ہم الله تعالیٰ کی بندگی کریں،
الله کے سامنے رجوع ہوں، الله تعالیٰ کی
صفات کا اقرار اور اعتراف کریں، جتنے دن ہمیں دنیا میں رہنا ہے الله کی بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرکے زندگی گزاریں۔
7 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism