New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 03:29 AM

Urdu Section ( 28 Jun 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Universality of Islamic Mysticism اسلامی تصوف کی آفاقیت

 سمت پال، نیو ایج اسلام

 24 جون 2022

 "پوری دنیا ایک بڑی درگاہ ہے۔ تمہیں ایک درگاہ کے اندر اتنے درگاہوں کی ضرورت کیوں ہے؟"

 اہم نکات:

 1. تصوف نہ اسلامی ہے، نہ ہندو یا عیسائی۔

 2. تصوف نہ ایک مخصوص فلسفہ ہے اور نہ ہی ایک دلفریب خیال۔

 3. ہر وجود کے چیتنا (شعور) کو جان لینا اور فوری طور پر اس سے جڑ جانا ہی تصوف کا ایک آفاقی مقصد ہے۔

 -------

 "تصوف اس مادی دنیا سے بالاتر اور نام نہاد روحانی دائرے سے بھی باہر ہے۔ یہ انسانیت کا امرت ہے اور تمام مذاہب کا جوہر ہے۔"

 ----- سر ہیملٹن گِب، عربی اور اسلامیات کے برطانوی اسکالر

 -------

(File Photo on Mysticism)

-------        

 برسوں پہلے، میں نے فارسی کے عظیم صوفی خاقانی کا ایک اقتباس پڑھا تھا، "پوری دنیا ایک بڑی درگاہ ہے۔ تمہیں ایک درگاہ کے اندر اتنے درگاہوں کی ضرورت کیوں ہے؟" یہ اقتباس اپنی خوبصورتی، اثر انگیزی اور ہمہ گیریت کی وجہ سے میرے دل و دماغ پر چھا گیا۔

 درگاہ کی سیاست اور پولرائزیشن کے اس ہنگامہ خیز دور میں خاقانی کا اقتباس تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتا ہے، نہیں، بلکہ یہ ویرانی اور پستی کے صحرا میں ایک باد صبا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ، تصوف نہ اسلامی ہے، نہ ہندو یا عیسائی۔ یہ غیر مذہبی اور غیر مسلکی ہے۔ ہم اسلامی تصوف کی اصطلاح کو آسان اور قابل فہم بنانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ تصوف عالمگیر ہے۔ یہ ہر جگہ موجود ہے اور کائنات کے ہر ذرے میں بسا ہوا ہے۔ اردو کے شاعر اکبر الٰہ آبادی نے اسے مختصراً کہا ہے، ’’ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے/ ہر سانس یہ کہتی ہے، ہم ہیں تو خدا بھی ہے"۔

یہ روحانیت اور تصوف کا جوہر ہی ہے جو مذہب اور عبادت گاہوں کے تنگ دائرے تک محدود نہیں ہے۔ فارسی کے برطانوی اسکالر رینالڈ اے نکلسن کے حوالے سے 'یہ ذاتی طور پر ذاتی ہے۔ (اسلامی) تصوف کی خوبی جلال الدین رومی بلخی کی تصنیف میں مل سکتی ہے جنہوں نے سب کو گلے لگایا، چاہے وہ مومن ہو، کافر ہو، آتش پرست ہو یا ملحد ہو۔ ہر ذی روح ایک آفاقی روح کا حامل ہے اور اس کی صفات یکساں ہیں: حقیت ایک ہے ہر شئی کی، خاکی ہو یا نوری/ لہو خورشید کا ٹپکے آگر ذرے کا دل چیریں (علامہ اقبال)

 اپنشدوں اور ویدانتک فلسفے سے متاثر ہو کر، ایرانی صوفیاء انسانوں کے افقی نہیں بلکہ عمودی تبدیلی پر یقین رکھتے تھے۔ جب انسان عمودی جہت میں ارتقاء کرتا ہے تو وہ روحانیت تک پہنچ جاتا ہے اور خود میں موجود روحانیت سے آگاہ ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ تصوف کی زبان میں کہتے ہیں، 'جب روح بلند ہو جاتی ہے/ تو کوئی فرق نہیں رہتا۔ رومی عثمانی ترکی میں کہتے ہیں - جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ترکی لکھنا شروع کیا اور ترکی کے قونیہ میں ہی مدفون ہوئے - تی شف مزبان افطور امازن ای ناف بت پرستان، نحاف مسلماں (انسان کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے جب وہ بت پرست یا مسلمان ہونے سے آگے نکل جاتا ہے، بے شکل خدا کی عبادت کرتا ہے)۔ دوسرے لفظوں میں انسانیت کے خالص ترین جوہر کو حاصل کرنا روحانیت ہے۔

ہر فرد کو یکساں رحمت اور یکساں معرفت حاصل ہے۔ اور ایک عارف روح آفاقی روح کے ساتھ ضم ہو جاتی ہے تاکہ مشہور اپنشدک سترا، اہم برہماسمی یا انا الحق اور تت توم آسی کا آئنہ دار بن سکے۔ یاد رکھیں، ایک حقیقی صوفی کبھی گوشہ نشین نہیں ہوتا ہے۔ وہ ایک دنیاوی وجود ہے جو جامع معرفت رکھتا ہے اور روحانیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اس دنیا سے جڑا رہتا ہے اور دکھاوے کے بغیر دنیاوی معاملات سے وابستہ رہتا ہے۔

 تصوف ایک مخصوص فلسفہ یا ایک دلفریب نظریہ نہیں ہے۔ یہ انسانی فطرت کا نکھار ہے، اپنی ذات کا ارتقاء اور حقیقی وحدانیت کا عرفان ہے۔ ایک صوفی ہر انسان کی کامیابی کا جشن مناتا ہے اور ہر انسان کے درد، جذبہ، تکلیف اور مصیبت کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ نر ہی نارائن ہے / اتر سب اکارن ہے (انسان ہی خدا ہے / باقی سب بیکار ہے) یہ ہر اس صوفی کا قول ہے جو پوری انسانیت کی فکر کرتا ہے۔

 ایک صوفی کا دل قبولیت سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو طمانیت، توازن اور یکسانیت کے احساس کے ساتھ سب کو گلے لگاتا ہے۔ مساوات پرستی تصوف کی جڑ ہے اور جامعیت اس کی اساس ہے۔ فارسی کی مشہور کہاوت ہے کہ ہمدردی سے بھرا دل صوفی کا دل ہوتا ہے۔ دنیا میں صوفی موجود ہوتا ہے، مگر وہ کبھی اس کے کاروبار میں شامل نہیں ہوتا ہے۔ وہ ایک ضرب المثل درشٹا ہے، وہ ایک مبصر ہے جو تعصبات اور قیاس آرائیوں سے پاک ہے: دنیا میں ہوں، دنیا کا طلبگار نہیں ہوں/بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں۔

اب جب کہ انسانی دلوں سے ہمدردی اجتماعی طور پر ختم ہو چکی ہے، تو سمجھداری یہی ہے کہ وہ عالمگیر محبت کو یاد رکھیں جو ان صوفیا نے پیش کیے ہیں جنہوں نے ہر چیز میں، جاندار و غیر جانبدار میں اگاپے (تلفظ، A-G-A-P-A-Y، عیسائیت میں محبت الہی) کی چنگاری کا مشاہدہ کیا۔ ہر وجود کے چیتنا (شعور) کو جان لینا اور فوری طور پر اس سے جڑ جانا ہی تصوف کا ایک آفاقی مقصد ہے۔ ایک فرد کو اس کی قدر و قیمت سے آگاہ کر کے، تصوف انسان کو خدا کے درجے تک پہنچا دیتا ہے جس سے اس کے اندر اس غم دنیا کی کوئی جگہ نہیں بچتی جسے ہم ہر آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیں، ایک صوفی انسان کے بنائے ہوئے مذہب کے تمام مظاہر سے بالاتر ہوتا ہے۔ ٹیگور ایک جدید صوفی شخصیت تھے جو مندر یا مسجد کے مخصوص سانچے سے آگے بڑھ سکتے تھے۔ ان کی 'گیتانجلی' ایک غیر مذہبی دیوتا کے لیے ایک غیر فرقہ وارانہ عشائے ربانی ہے۔ شکیل بدایونی نے کہا ہے، 'پہونچا ہوں وہاں نہیں دور جہاں، بھگوان بھی میری نگاہوں سے'۔ یہ ہے تصوف کی روح!

 یہ تصوف دنیا کو ایک بہتر جگہ کیسے بنا سکتا ہے:

 قارئین کے علم میں ہوگا کہ البرٹ آئن سٹائن نے تصوف کو مسٹ آف مائنڈ (ذہنی دھن) بتا کر اسے مسترد کر دیا تھا کیونکہ اس نے حقیقت میں اس موضوع کو دھندلا اور مبہم پایا۔ ویسے، مشہور ایٹمولوجی کا ماننا ہے کہ مسٹس ازم اور مسٹ (معنی کوہرا) دونوں کی اصل ایک ہی ہے کیونکہ دونوں دھندلے اور مبہم ہیں۔ لیکن ایک لاادریہ اور مذہب مخالف ہونے کے ناطے اس عظیم سائنسدان کو ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ تصوف کا کسی خدا یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کبیر ایک صوفی تھے، اگرچہ ان کا معاملہ واضح نہیں تھا، جو آخر تک ایک مرد مجاہد اور سماجی مصلح رہے اور نہ خود کو ہندو مت سے جوڑا اور نہ ہی اسلام سے۔ تصوف محبت کرنے اور محبت کرنے والا دل رکھنے کا نام ہے کیونکہ محبت کرنے والا دل ہر علم کا مبداء ہے۔

 اس مروجہ عقیدے کے برعکس، کہ تصوف اور بالخصوص اسلامی تصوف، کافی مبہم اور غیر واضح ہے اور ماورائی محبت کی بات کرتا ہے جو کہ کافی دقیق اور ناقابل فہم ہے، تصوف ایک دعویٰ ہے کہ 'کائنات کی ہر چیز آپ کے اندر ہے۔ سب خود سے ہی پوچھو'' (رومی)۔ یاد رکھیں، یہ رومی ہے، جو آپ کو اپنے دل کی دھڑکنوں میں گہرائی سے دیکھنے کی تلقین کرتا ہے اور آپ کو کسی خیالی خدا یا اللہ پر یقین کرنے پر مجبور نہیں کرتا ہے۔ جب تک آپ اپنے آپ کو نہیں جانیں گے، آپ نہیں جان پائیں گے کہ کیسے جینا ہے۔ یاد رکھیں صدقہ گھر سے شروع ہوتا ہے۔ تصوف ہمیں خود آگہی کے احساس کے ساتھ بامعنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اور یہ خود آگہی معاشرتی شعور میں پھولتی پھلتی ہے اور آخر کار عالمگیر محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ جب اس صدی کے آغاز میں 9/11 ہوا تو پرنسٹن یونیورسٹی کے عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر پروفیسر برنارڈ لیوس نے کہا، "سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے مقالے 'تہذیبوں کا تصادم' سے کہیں زیادہ، بنی نوع انسان کو آج رومی، حافظ، جامی، الڈوس ہکسلے اور ٹیگور کی گہری صوفیانہ تعلیمات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ مذاہب، جنگیں، صحیفے، دیوتا یا فرقوں سے نہیں، بلکہ سب کے لیے صوفیانہ محبت کی سمجھ ہی دنیا کو تباہی اور مایوسی کی کھائی میں ڈوبنے سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔" بالکل سچ۔ آج انسانیت کو غیر فرقہ وارانہ محبت کی اشد ضرورت ہے جو انسانوں کی بنائی ہوئی تمام حدود کو گرا دیتی ہے۔ ہمیں محبت کی ضرورت ہے، طاقت کے کھیل کی نہیں کیونکہ جہاں محبت کی حکومت ہوتی ہے، وہاں طاقت کی نہیں چلتی۔ اور جہاں طاقت غالب ہے، وہاں محبت کا بس نہیں چلتا۔ ایک دوسرے کا سایہ ہے۔

اگر آپ باریک بینی سے سوچیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ یہ سب طاقت کی بات ہے۔ اپنے اپنے مذہب، خدا، فرقہ، قوم وغیرہ کی طاقت۔ لیکن، محبت کہاں ہے؟ دوسروں پر کسی بھی انداز میں طاقت کا استعمال دراصل کمزوری ہے جسے طاقت مان لیا گیا ہے۔ محبت ایسی کوئی تفریق نہیں کرتی اور سب کو گلے لگاتی ہے کیونکہ محبت بذات خود ایک طاقتور ترین شئی ہے۔ خلیل جبران، جو کہ دور جدید کے ایک عظیم صوفی ہیں، انہوں نے اس فلسفہ کو ان الفاظ میں سمیٹ لیا ہے، "محبت کی توانائی دوسروں تک پھیلتی ہے- ہمارے بچوں، پڑوسیوں، برادری، یہاں تک کہ ان لوگوں تک بھی جو ہم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور انہیں ہم نہیں جانتے۔"

 صوفی یہ خانقاہی لوگ نہیں ہیں۔ اور نہ ہی وہ غیر عملی مزاج کے حامل وہ لوگ ہیں جو صحیفوں کی خرافات پر وقت ضائع کرتے ہیں اور ہر وقت عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ انوری کہتے ہیں، 'اپنے صحیفوں، ان کی بیکار تشریحات اور خشک رسومات سے آگے بڑھو۔ اپنی وجود کو محبت میں ڈبو کر اپنا صحیفہ خود لکھو۔' اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ صوفیاء سخت گیر مسلمانوں کے نزدیک ملعون و مطعون ہیں، جو مذہب اور اپنے حاسد اللہ کے نام پر خون خرابہ کر رہے ہیں۔ ایک صوفی ایک عالمی شہری ہے۔ وہ خود کو کسی انسان کے بنائے ہوئے مذہب اور اس کے من گھڑت خدا کے دائرے تک محدود نہیں رکھتا۔ ایلڈوس ہکسلے نے پیشین گوئی کی تھی کہ نئی دنیا میں ایسے لوگ آباد ہوں گے جن میں ایک اعلیٰ جذبہ اور حقیقی جوہر ہوگا۔ جو کہ ایک سچے صوفی کے اندر کثرت سے پایا جاتا ہے۔

 ----

 نوٹ: یہ مضمون مختصر میں ٹائمز آف انڈیا میں پہلی بار 18 جون 2022 کو شائع ہوا تھا۔

 ----

English Article: The Universality of Islamic Mysticism

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/universality-islamic-mysticism/d/127339

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..