سلمان حسینی ندوی
16 ستمبر ، 2020
میں آج پھر پوری وضاحت
اور صراحت کے ساتھ اس کا اعلان کرتا ہوں کہ میں اپنے نانا حضرت مولانا ابوالحسن علی
حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس طریقہ پر گامزن ہوں جس کو انہوں نے بابری مسجد کے
تحفظ کے لئے شنکر اچاریہ سے ملاقات کرکے طے کیا تھا، جس کی اساس وبنیاد یہ تھی اور
ہے کہ ہمیں اس ملک میں اور دنیا میں ہر جگہ انسانی برادری کے ایک پر امن فرد کی
طرح رہنا ہے، دین کا تعارف کرانا ہے،اور اس کی تبلیغ کرنا ہے، اور اسلام کے امن و
سلامتی کے پیغام کو عام کرنا ہے۔لیکن یہ بڑا المیہ ہے کہ کچھ متشدد مولویوں اور
کچھ سیاسی بازی گروں نے حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کا تاریخی معاہدہ طے نہیں ہونے
دیا ،مسجد شہید کر دی گئی اور ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے۔ اب ادھر جب مسجد مندر کی
تحریک پھر گرم ہوئی، تومیں نے ہندومسلم بھائی چارہ کے لئے، اور مسئلہ کے کسی بہتر
حل کے لئے آپس میں گفتگو کی دعوت دی، تو میرے خلاف فتوی بازوں نے فتووںکے خوب تیر
چلائے، اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کی دہائی دینے لگے، اور اس کے عدل وانصاف کی قسم
کھانے لگے، آخر اس نے اپنے تاریخی فیصلہ کا اعلان کردیا، تو پھر فضا کو بگاڑنے کے
لئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو غلط قرار دیا جانے لگا، اور یہاں تک دھمکی دے ڈالی گئی۔
دوسرا موضوع امت مسلمہ کے
فرقوں کا ہے،ہمارا ایمان ہے کہ نبیﷺ فرقوں کے خاتمہ کے لئے تشریف لائے تھے، کافروں
مشرکوں کو دعوت دینے کے لئے تشریف لائے تھے، آپ پر جو آخری کتاب برحق اتاری گئی
وہ پوری انسانیت کو برادرانہ بنیاد پر ہدایت دینے کے لئے اتاری گئی تھی۔لیکن نبی
اکرم ﷺ کی وفات کے بعد امت کے ٹکرے شروع ہوگئے،اور دھیرے دھیرے جنگوں اور فتووں کی
گرم بازاری نے امت کو توڑدیا، اور زوال کے مہیب راستہ پر ڈال دیا۔میں سالہاسال سے
امت کے اتحادکی دعوت دے رہا ہوں،یہی کام پرسنل لابورڈ کے قیام نے کیاتھا،اوراس نے
ہندوستان میں ملت کو جوڑاتھا، اور جن فرقوں پر مولوی صاحبان اپنی تقریروں اور تحریروں
میں کفر کے فتوے صادر کرتے تھے ،ان کو مسلمان شمار کرکے ایک پلیٹ فارم پر ایک
اللہ،ایک رسول خاتم، اور ایک قرآن کی بنیاد پر متفق کیاتھا، کاش کہ ملت اسی پر
قائم رہتی۔امریکہ کے ایجنٹ اور مجرم شاہ ایران کے خلاف جب آیۃ اللہ خمینی صاحب کا
انقلاب کامیاب ہوا، تو پوری امت کو شاہ ایران کے جرائم سے واقف کرانا چاہئے تھا، لیکن
اللہ غریق رحمت کرے مولانا منظور نعمانیؒ نے خمینی صاحب اور ان کے انقلاب کے خلاف
ایک کتاب تصنیف فرما کر اور برصغیر کے علماء کے فتاوی جمع کرکے شیعوں کو کافر قرار
دیا، جبکہ چودہ سو سال سے ان کو کافر قرار دینے کے دس اجتماعی فتوے بھی کبھی شائع
نہیں ہوئے۔ بہر حال مولانا کی تحریک تکفیر کامیاب نہ ہوسکی اور سعودی حکومت میں ان
کا مضمون بھی شائع کرنا گوار نہ کیاگیا،مولانا کی اس تحریک کی مخالفت اس وقت حضرت
مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمائی تھی، اورمولانا علی میاںؒ بھی تحریک تکفیر
سے متفق نہیں تھے۔ہم لوگ نوجوان تھے، کچا علم تھا، مولانا منظور صاحب ؒکے پیدا
کردہ جوش وخروش میں بیانات بھی کرتے رہے، لیکن دھیرے دھیرے ان نزاعی مسائل پر سنجیدگی
سے غور وفکرنے،اور ان کی پاکستان،اور عراق وشام پھرلبنان اور یمن میں ہولناکیاں دیکھ
کر، یہ محسوس کرلیا کہ فتووں کا یہ راستہ صحیح نہیں ہے۔شیعہ حضرات قرآن کی تحریف
کے قائل نہیں ہیں۔اس طرح شیعہ حضرات اپنے اماموں کو نبی اکرام ﷺ پر فوقیت نہیں دیتے،یہ
ان پر الزام ہے، اور ان کے ہاں کسی طرح قابل قبول نہیں ہے،مسئلہ کا آسان طریقہ
اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ خود اس سے دریافت کیاجائے، جس کے بارے میں بات کی
جارہی ہے ،کبھی علمائے اہلسنت مولانا کلب صادق اور مولانا کلب جوادسے کسی علمی
مجلس میں پوچھ لیتے کیا آپ کے یہ عقائد ہیں، اور پھر وہ اپنے جو عقائد بتاتے اس
پر آپ اپنی رائے پیش کرتے،اور قرآن پاک سے دلائل دیتے، لیکن افسوس ہے کہ یہ
اسلامی طرز معددم ہوگیاہے۔میں نے الزامی طور پر یہ مطالبہ کیا اور دیگر اہلسنت
علماء سے کہ اگر یہ فتاوی برحق ہیں کہ شیعہ کافر ہیں،تو کافروں کے حرمین شریفین میں
داخلہ پر پابندی ہونی چاہئے،پھر آئیے ہم سب مل کر سعودی حکومت سے اس کا مطالبہ کریں
،اور ساتھ ہی ساتھ یہودیوں سے مجرمانہ تعلقات،یہودی اڈوں کے قیام، اور علماء پر
ظلم وزیادتی کے مسلسل واقعات، اور فحاشی اور عیاشی کے مراکز کے قیام کے بارے میں
کھل کر ان سے مطالبہ کریں کہ ان سب قطعی محرمات کا خاتمہ کیاجائے۔ اس مطالبہ پر
پرجوش علماء اور فتووں سے فضاؤں کو مشتعل کرنے والے آگ بگولہ مولوی صاحبان پر جو
سکتہ طاری ہوتا ہے، وہ دیدنی ہوتا ہے۔نبی اکرم
ﷺ جن ظالموں سے براء ت کا اظہار فرمارہے ہیں،اور امت کو ان سے براء ت کی
دعوت دے رہے،ان سے دوستی ،رشوت خوری، ان
کے حرام مال سے دین کے مظاہرے کرنے والے مولوی کیسے کیسے حملے اتحاد کی دعوت دینے
والے پر کررہے ہیں،اور اس کوشش میں لگے ہیں کہ ہندوستان کو بھی پاکستان بنادیں،
جہاں دسیوں علماء کی ٹارگٹ کلنگ ہوچکی ہے، مسجدوں میں گھس کرمسلمان،مسلمانوں
کومارتے ہیں، شیعہ سنی جھگڑوں سے پاکستان کے خاتمہ کا انتظار کررہے ہیں۔
میں اپنی طرف سے صاف
اعلان کرتا ہوں کہ ہم ہندو، بدھسٹ،جینی،سکھ وغیرہ تمام مذاہب کے لوگ انسانی بنیادوں
پر بھائی بھائی ہیں، ہمیں آپس میں امن وسلامتی کے ساتھ رہنا چاہئے،اور ٹھنڈے
ماحول میں،اور خوشگوار فضامیں آپس میں بات کرنا چاہئے،اور اللہ کی عطاکردوہ امانت
ان تک پہنچانا چاہئے جو ہمارے پاس ہے۔ہمارے نزدیک شیعہ سنی جھگڑے ختم کرنا
چاہئے،شام وعراق اس کی ہولناکیوں سے نشان عبرت بن گئے ہیں، ہمیں آپس میں
بیٹھ کر قرآن اور سیرت رسول اکرم ﷺ کی روشنی میں ٹھندی اور علمی گفتگو کرنی
چاہئے۔
بریلوی امت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ ہیں،وہ اپنے کو خاص
طور پر اہل سنت والجماعت کہتے ہیں، اور دیوبندیوں کو وھابی قرار دیتے ہیں،ہمارا
مطالبہ ہے کہ دونوں اسلام کو بنیاد بناکر قرآن پاک اور سیرت رسول اکرم ﷺ کی روشنی
میں آپس میں اتحاد واتفاق کے پہلو تلاش کریں اور افراق وانتشار کے دروازے بند کردیں۔مقلد
اور غیر مقلد کا تو درحقیقت کوئی جھگڑا ہی نہیں،غیر مقلد حضور اکرم ﷺ کی حدیث کا
حوالہ دیتے ہیں،اس پر مقلد عالم کو چڑھنا نہیں چاہئے، بلکہ احادیث کا جامع مطالعہ
کرکے محض علمی بنیاد پر اور ٹھنڈے انداز سے مسئلہ کو حل کرلینا چاہئے، اور حل نہ
ہو تو ائمہ فقہاء کے آپس کے ہزاروں علمی اختلافات کے خانہ میں اس کو ڈال دینا
چاہئے۔میرا کام ان سب حلقوں اور تمام جماعتوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے اور علماء سے
خاص طور پر میرا مطالبہ ہے کہ عقائد کے باب میں صرف قرآن کو بنیاد بنائیں اور
مسائل میں احادیث پر غور کریں،قرآن پاک پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ احادیث کی
صحت،ضعف اور موضوع ومنکر ہونے میں ایک ہی حلقہ کے درمیان بھی اختلافات ہیں،جن سے
اہل علم واقف ہیں۔اس لئے سیرت کے قطعی واقعات کو قرآن پاک کے ساتھ بنیاد بنایا
جائے،اور زمینی وتاریخی حقائق کو قبول کیاجائے،اور ظالم ومظلوم کی بنیاد پر موقف
طے کیاجائے،اس سلسلہ میں U.N.O کے عالمی چارٹر سے
بھی مددلی جائے، اور اپنے ملک کے دستور سے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔
ہندوستان ،پاکستان ،بنگلہ
دیش،ایران اور ترکی کے اچھے،تعمیری اور خوشگوار تعلقات امت کے لئے بہتر ہیں،ہمیں
اس کے لئے کوشش کرنا چاہئے، اور ہرقسم کی دہشت گردی، سرکاری ہو یا افراد وگروہوں کی،
کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا چاہئے۔میرا کام ہندو مسلم برادرانہ تعلقات کی
کوشش،اور شیعہ سنی،بریلوی دیوبندی،مقلد، غیر مقلد،اور دیگر جماعتوں اور حلقوں کے
درمیان اسلامی بنیادوں پر اتفاق کی جدوجہد کرنا ہے۔لہذا الزامی طور پر اس سے پہلے
جو میں نے کہا یا لکھا اسے منسوخ اور کالعدم سمجھاجائے۔
16 ستمبر ، 2020،
بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/unity-unity-unity-/d/122862
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism