مشتاق الحق احمد سکندر،
نیو ایج اسلام
5 جون 2023
مسلمان علماء، ماہرین
فقہاء، ادیب اور دانشور جب مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کے اسباب پر غور و فکر
کرتے ہیں تو تفرقہ اور فرقہ واریت کو اس کا سب سے بڑا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ بہت سے
اسلام پسند اس اختلاف کی وجہ قوم پرستی کی بنیاد پر مسلم قومی ریاستوں کی تشکیل کو
یورپی استعمار کی سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
اس دعوے میں کچھ سچائی ہو
سکتی ہے، اور ان کے مطابق مسلمانوں کو قوم پرستی کو درکنار کرنے اور مذہبی بنیادوں
پر ایک بار پھر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ تاہم، مذہبی بنیادوں پر اتحاد بہت مشکل ہے،
کیونکہ وہ اسلام کی بنیاد پر اتحاد کی شرائط کے بارے میں تنقیدی بحث میں پڑے بغیر
ایک طرف ہٹ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلام اپنے آغاز سے ہی
فرقہ واریت کی لپیٹ میں رہا ہے۔ جنگ صفین اور بعد میں کربلا مسلمانوں کو سیاسی
خطوط پر مستقل طور پر تقسیم کرنے کے لیے کافی تھے۔ بعد میں نئی مذہبی تعبیرات جو
مختلف فقہا کے ذریعہ پیش کی گئیں، اختلاف اور فرقہ واریت کا مستقل ذریعہ بن گئیں۔
یہ فرقہ وارانہ خطوط آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے جسم کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس معاملے کی ستم ظریفی یہ
ہے کہ یہ فرقے ایک دوسرے کو منحرف سمجھتے ہیں اور صرف اپنے آپ کو ہی حق کا علمبردار
سمجھتے ہیں۔ لہذا، جب ہر فرقہ خدا کا کردار ادا کرتا ہے، تو یہ ناراض خدا غلبہ
حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو نیچا دکھاتے ہیں، جا کا نتیجہ تشدد کی شکل میں ظاہر
ہوتا ہے۔ یہ اس قدر بدترین صورتحال ہے اور یہ فرقہ پرست علماء اس بات کو نذر انداز
کر رہے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کے اسلام سے روگردانی اور مرتد ہونے کے ذمہ دار کچھ
اور نہیں بلکہ یہی علماء خود ہیں۔
اسلام کے ایک نامور اسکالر
راشد شاز اپنی علمی اور عمومی تحریروں کے ذریعے فرقہ واریت کے خطرات اور اس کے
تدارک کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔ ان کی
علمی تحریریں فرقہ وارانہ اسلام کی پوری عمارت کو چیلنج کرتی ہیں جو آج تک اسلام
پر حاوی ہے۔ ایک سو سے بھی کم صفحات پر محیط اپنے چھوٹے سے کتابچے "مینی
فیسٹو آف یونائیٹڈ اسلام" میں انہوں نے فرقہ واریت اور مسلم اتحاد کے بارے
میں اہم اور ٹھوس سوالات اٹھائے ہیں۔ اس سے یقیناً نوجوانوں مایوس ہوئے ہیں،
’’نوجوان اس سوچ سے مایوس ہو چکے ہیں کہ قرآن کی کون سی تعلیم مسلمانوں کو چار یا
پانچ یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ابوحنیفہ ہوں یا شافعی یا مختلف
شیعہ و سنی فرقوں یا ذیلی فرقوں کے بانی، ان میں سے کسی کو بھی خدا نے اس کام کے
لیے مقرر نہیں کیا تھا، اور نہ ہی ان میں سے کسی کو بھی رسول اللہ کی صحبت نصیب
نہیں ہوئی۔ پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ باضابطہ ایک ایک مذہب کے بانی بنے بیٹھے
ہیں اور ان سے کوئی سوال بھی نہیں کیا جاتا؟ مسلمانوں کے مختلف فرقے ان پر عمل
کرنا ضروری کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہماری برادری اور مذہبی
زندگی اسلام کے ابتدائی دور میں اس وقت بہتر تھی جب مسلمان صرف ایک امت تھے؟ (ص-11)
مساجد کے منبروں پر فرقہ
پرست ملاؤں نے قبضہ کر رکھا ہے، اور ہم وہاں سے انہیں روزانہ فرقہ وارانہ باتیں
کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ مساجد جو کہ کسی بھی مسلم طبقے کا مرکز ہوتی ہیں، فرقہ
وارانہ گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہیں جہاں دوسرے فرقوں کی تکفیر ایک معمول بن گئی
ہے۔ یہاں تک کہ یہ فرقہ واریت اسلام کی مایوس کن حالت اور مساجد کے تئیں مسلمانوں
کی بے حسی کا باعث بھی بنی ہے۔ زیادہ تر لوگ جمعہ کے علاوہ مساجد میں نہیں آتے، وہ
بھی خاموشی سے کیوں کہ وہ اس بات میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ ملا کیا تبلیغ کر رہا
ہے۔ شاز نے یہ بات ٹھیک ہی لکھی ہے کہ، "مسجد جو کی ایک خدا کی عبادت کے لیے
مخصوص جگہ ہے، وہاں فرقہ وارانہ عقیدے کا علم بلند کیا جانے لگا ہے۔ انتہائی افسوس
کی بات ہے کہ یہ بتانے سے کوئی بچ نہیں سکتا کہ ایسی جگہیں اب توحید کے مراکز نہیں
رہیں، بلکہ شرک اور فرقہ پرستی جا گڑھ بن چکی ہیں، جو مسلم معاشرے کے اندر سے ہی
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والے وائرس کی طرح سرگرم عمل ہیں۔ چونکہ یہ
مراکز تقویٰ اور نیکی کے جھنڈے تلے زندہ رہتے ہیں، اس لیے ہم عام طور پر ان کے
خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، حالانکہ ہم اس تشویشناک صورتحال سے
پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔" (ص-17)
یہ فرقہ وارانہ مساجد سنی
بمقابلہ شیعہ اسلام کی تقویت کا باعث بنی ہیں۔ لہٰذا راشد شاز نے یہ وضاحت کی ہے
کہ کس طرح مختلف احادیث کی کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ سنیوں اور شیعوں کے پاس مختلف
قسم کی حدیث کی کتابیں ہیں، لہٰذا انہوں نے پیغمبرانہ وراثت کو بھی تقسیم کر لیا
ہے۔ یہ اسلام کی مستند تشریح کا فسانہ ہے۔ لہٰذا، حدیث کی کتابوں کے ان متنوع مآخذ
کی بنیاد پر، مسلمانوں کے عقائد اور فقہ میں بطورِ شیعوں اور سنیوں کے درمیان کافی
اختلاف پیدا ہو گیا۔ علماء جن کی حقیقت میں اسلام میں کوئی بنیاد نہیں، انہیں
اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد علماء نے اپنے مفادات کے لیے اسلام
کی فرقہ وارانہ تشریحات پیش کیں۔ اس سارے عمل میں قرآن کو فراموش کر دیا گیا اور
اس کی جگہ فقہ اور دینیات نے لے لی۔
اس کتاب میں راشد شاز ایک
بار پھر صوفیاء کے بارے میں ایک متنازعہ فیہ دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے دعوے کو اکثر
علماء نے نظرانداز کیا ہے، لیکن اسے یا تو رد یا قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر قبول
کر لیا جائے تو ہندوستان اور دیگر مقامات پر تصوف کے بارے میں ایک بہت بڑا بیانیہ
بدل جائے گا۔ اسے یہاں تفصیل کے ساتھ نقل کرنا ضروری ہے، "تصوف سب سے پہلے
مذہب کے سیاسی استحصال اور مادیت پرستی کے خلاف احتجاج کے طور پر ابھرا۔ بعد میں اس کا استحصال فاطمیوں نے ایک تحریک کے
طور پر کیا جو اس کے ذریعے اپنی سیاسی گرفت کو مستحکم کرنا چاہتے تھے اور اس لیے
انہوں نے تصوف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے اپنے سیاسی سانچے میں ڈھالا۔ اس خفیہ
تحریک کے وسیع اثر کو ذرا سمجھ لیجئے کہ فاطمی دور میں ہی ملتان جیسے دور افتادہ
علاقے میں اسماعیلی سلطنت وجود میں آئی۔
محمود غزنوی کے حملے تک، ملتان برصغیر پاک و ہند کی صوفی تحریک کے ایک
مصروف ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا رہا۔
اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کچھ شواہد موجود ہیں کہ معین الدین
چشتی، قطب الدین بختیار کاکی وغیرہ کے برانڈ کے بہت سے صوفی اکثر شمالی مغربی
ہندوستان میں اس چھوٹی سے اسماعیلی ریاست کا دورہ کیا کرتے تھے۔ تمام سرکردہ صوفی
شخصیات، مثلاً عثمان ہارونی، بہاؤالدین زکریا، نظام الدین اولیاء، علی ہجویری،
بابا فرید، اور شہباز قلندر وغیرہ حقیقث میں اسماعیلی داعی تھے۔ ان کا خفیہ مشن
فاطمی سیدوں کی اسلامی ریاست کو مضبوط اور وسعت دینا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
خفیہ خلافت کے قیام سے فاطمیوں نے بڑی حد تک اپنے سیاسی خسارے کی تلافی کی۔ (ص-51)
اس چھوٹے سے کتابچے میں کافی
بڑی بڑی باتیں ہیں، اسے تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ یقینی طور پر
اسلام کے سنی اور شیعہ فرقے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے فرقوں کو بھی نشانہ بناتا ہے
جنہوں نے مسلم اتحاد کو ایک عملی حقیقت نہیں بننے دیا ہے۔ یہ کتاب یقینی طور پر ایک آنکھیں کھول دینے
والی ہے، جس کے مندرجات پر بحث و تمحیص کرنے اور تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے
اور یہ ایسے متعدد مسائل پر نظر ثانی کی دعوت دیتی ہے جنہوں نے اپنے قیام سے لے کر
اب تک مسلمانوں کے اتحاد کو کمزور کیا ہے۔
English
Article: Unity among Muslims: Reality or Mirage
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism