New Age Islam
Tue Sep 17 2024, 05:07 PM

Urdu Section ( 5 May 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Uniform Civil Code: It Is an Unfolded Mystery یونیفارم سول کوڈ: ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

پروفیسر اخترالواسع

1 مئی،2022

ایک ایسے ملک میں جہاں دنیا کی تقریباً تمام مذہبی روایات یکجا ہوں، جس کو کثرت میں و حدت کے اپنے کردار پر ناز ہو، جہاں دستور کے شیڈول ۔B میں 22 زبانوں کو تسلیم کیا گیا ہو ، جہا ں کچھ میلوں کی دوری پر بانی اور پانی دونوں بدل جاتے ہوں، جہاں نہ جانے کتنے دریا الگ الگ سوتوں سے پھوٹتے ہوں، الگ الگ راستوں سے اپنا سفر طے کرتے ہوئے بحر عرب اور خلیج بنگال میں مل جاتے ہوں اور پھربحر عرب اورخلیج بنگال مل کر ایک عظیم بحر ہند کو وجود میں لاتے ہوں۔ جس طرح ان دریاؤں کے بغیر آپ عظیم بحر ہند کا کوئی تصور نہیں کرسکتے اسی طرح مختلف مذہبی اکائیوں کے بغیر ہندوستان کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن کچھ دنوں سے اس رنگارنگی کو ایک رنگی میں بدلنے کی بار بار آوازیں اٹھ رہی ہیں ، کوششیں ہورہی ہیں۔ اب ایک ایسی ہی آواز ایک بار پھر ہندوستان میں گونج رہی ہے او روہ ہے یکساں سول کوڈ کی مانگ اور جو لوگ برسوں سے یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے آئے ہیں وہ خود یہ نہیں بتا سکتے کہ یکساں سول کوڈ سے ان کی کیا مراد ہے؟ شکل و صورت کیا ہوگی؟ ہندو سول کوڈ یو یا دیگر مختلف مذہبی اکائیوں کے پرسنل لاء ، ان سب کی جڑیں مذہبی معتقدات میں پیوست ہیں۔ کیا آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ کوئی ہندو بیاہ ’ سناتن پرمپرا‘ کے مطابق سات پھیروں کے بغیر ہوسکتا ہے؟ کیا سکھ گرو گرنتھ صاحب کو ساکشی مانے بغیر ایک دوسرے کو رفیق حیات کے طور پر قبول کرسکتے ہیں؟ اسی طرح کیا کوئی عیسائی چرچ میں پادری کے ذریعے دلائے گئے حلف کے بغیر میاں بیوی ہوسکتے ہیں؟ اسی طر ح کیا کوئی مسلمان چاہے سنی یا شیعہ ،بغیر قاضی اور مجتہدین کے بغیر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں؟اگر نہیں تو پھر کامن سول کوڈ کی رٹ کیوں ہے؟

کیا یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہے کہ شادیوں کا باضابطہ رجسٹریشن ہو؟ جہاں تک ہمارے علم و اطلاع میں ہے مسلمان بھی نکاح کے رجسٹریشن کے خلاف نہیں۔ اکثرجگہوں پر مساجد میں نکاح کا ریکارڈ محفوظ رکھا جاتاہے۔ بعض صوبوں میں وقت بورڈ کے ذریعے پورے صوبے میں ہونے والے نکاحوں کا ریکارڈ محفوظ کیا جاتاہے اور اس کی زندہ مثال ریاست تلنگانہ میں دیکھی جاسکتی ہے جہا سینکڑوں برس سے نکاح کا ریکارڈ محفوظ ہے۔

ہندوستان کا دستور ملک کے ہر مذہبی فرقے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتاہے اور یہی اس ملک کے مذہبی تنوع کے لئے قابل عمل بھی ہے اور مفیدبھی ۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ عائلی قوانین کو ہر مذہب نے اپنے مذہب کاحصہ سمجھا ہے اور دستور آزادی کے تحت وہ اپنے عائلی قوانین کے تحفظ کا یقین رکھتے ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ اس دستوری آزادی سے محروم کرنے والا قدم ہوگا اور اسے دستور ہند اور مذہبی معتقدات کا ماننے والا کوئی بھی فرقہ قبول نہیں کرسکتے گا۔

یونیفارم سول کوڈ کی بات بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے ۔ ایک بار پھر اسے ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے اسے ایک بار پھر غور اور نفاذ کا موضوع بنایا جارہاہے لیکن ہمارا یہ خیال ہے کہ یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنا نہ اتنا آسان ہے اور نہ ہی اس کی حمایت میں نعرے بازی کرنے والوں کا یہ حقیقی مقصد ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کو چڑھانے کے لئے کہا اور اٹھایا جاتاہے۔

وہ لوگ جو ایک ملک اور ایک قانون کی بات کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک ملک میں عائلی قوانین ہی الگ الگ نہیں ہیں اور ان کا الگ ہونا قطعی غیر فطری بھی نہیں ہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں اپنے اپنے عائلی قوانین کو نجی زندگی میں ماننے اور نافذ کرنے کا چلن ہے لیکن ریونیو کے الگ الگ قانون صرف ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہر ہندوستانی کو ٹیکس میں یکساں سہولیات نہیں ملتیں لیکن اگر کوئی ہندو اپنے ٹیکس کا ریٹرن بھرتے وقت یہ حلف نامہ دیتاہے کہ وہ ایک جوائنٹ ہندو فیملی سسٹم کا حصہ ہے تو اس کو ٹیکس کی ادائیگی میں کافی رعایتیں دی جاتی ہیں جب کہ جو شخص ہندو ہوتے ہوئے بھی اس طرح کا حلف نامہ نہیں دیتا ہے وہ ان رعایتوں سے محروم رہتا ہے۔ او ریہ بھی دلچسپ بات ہے کہ کسی غیر ہندو کو چاہے وہ اس بات پر کتنا ہی اصرار کرے کہ وہ بھی ایک مشترکہ خاندان کا حصہ ہے اس کو بھی یہ مراعات نہیں دی جائے گی۔ اب وہ لوگ جو ایک ملک ایک قانون کی بات کرتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ وہ اس سلسلے میں خاموش کیوں ہیں؟

یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانوں کو قابل قبول نہیں ہوگابلکہ سچی بات یہ ہے کہ ملک کی ہندو اکثریت بھی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کے پاس معمولی نشریحاتی فرق کے ساتھ ایک عائلی قانون ہے جب کہ ہندوؤں کے یہاں عائلی قوانین اور نکاح و طلاق اورمیراث کے مسائل میں بے شمار فرق و اختلاف ہے۔ شمال اور جنوب کے اندر بھی اس مسئلے میں خاصہ اختلاف پایا جاتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سب ہندوؤں کو ایک رائے پر جمع کرلیا گیاہے اور وہ سب کسی ایک یونیفارم سول کوڈ پر متفق ہوگئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ کون سا کوڈ ہے یہ معلوم ہوناچاہئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی کوئی کوشش خود ہندوؤں کے مختلف طبقات کے اندر بے چینی پیدا کرے گی اور وہ اس کی مخالفت پر مجبور ہوں گے۔ یہ ان کے مذہبی مقتدرہ یا دھرم گرو کی حیثیت ،مرتبے اور اختیارات کے لئے ایک کھلی چنوتی ہوگی۔

جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، تو ان کا موقف بالکل صاف ہے۔ وہ اپنا مکمل مذہب رکھتے ہیں او ران کے عائلی قوانین کا اصل ماخذ قرآن و حدیث اور اجماع اور قیاس ہے او ریہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اجماع اور قیاس بھی وہی قابل قبول ہے جو قرآن و حدیث کے متخالف نہ ہوں او ریا ان سے متصادم نہ ہوں۔ ملک کے دستور کے تحت انہیں اپنے مذہب او رمذہبی قوانین پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیاہے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں جن کے اپنے مذہبی اور عائلی قوانین ہیں اور ہر مذہبی اکائی اپنے عائلی قوانین کو محبوب رکھتی ہے اور وہ کسی قیمت پر اپنے عائلی قوانین کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔ یونیفارم سول کوڈ اگر جبراً ان پر تھوپا جائے گا تو ان میں بے چینی پیدا ہوگی او ریہ بات کسی بھی ملک کی صحت مند انہ ترقی کے لئے مفید نہیں ہو سکتی ہے۔

اترا کھنڈ، اتر پردیش ، ہماچل پردیش، اور دیگر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں جس طرح کا من سول کوڈ لانے کی بات ہورہی ہے ، ہم وہاں کے حکمراں طبقے اور جماعت کے رہنماؤں سے یہ کہیں گے کہ وہ پہلے یونیفارم سول کوڈ کا کوئی ماڈل یا خاکہ ہندوستان جیسے مذہبی تکثیریت والے ملک کے لوگوں کے سامنے پیش کریں اور ایک جمہوری ملک میں اس پر حقیقت پسندی اور منصفانہ طریقے سے غور و خوض کرنے کا موقع دیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ محض کچھ لوگوں کی جذباتی تسکین اور اقلیتوں کو ڈرانے کے لئے کیا جارہا ہے ۔ ہمیں اور و ں کا تو پتا نہیں لیکن ایک عام ہندوستانی کے طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکمراں طبقہ یا جماعت ایسا کوئی کھیل واقعی کھیلتی ہے تو وہ ایک اندھی گلی میں داخل ہونے کے مترادف ہوگا جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا ہے۔

راقم الحروف کی مسلمانوں سے اس مرحلے پر ایک ضروری گزارش یہ ضرور کرے گا کہ اس مرحلے پر بلاوجہ چیخ پکار نہ کریں او ریونیفارم سول کوڈ کے نام نہاد حامیوں کو شکست دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم اس کا کوئی نوٹس ہی نہ لیں اور اگر خدانخواستہ ہمارے موجودہ حکمراں ایسی کوئی غلطی کرتے ہیں تو اس ملک کے غالب ترین اکثریت خود ان سے بخوبی طور پر سمجھ لے گی کیوں کہ ہمارے یہاں لوگ مذہبی اعتبار سے بے عمل ہوسکتے ہیں لیکن مذہب سے منحرف نہیں ہوسکتے۔

1 مئی،2022 ، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/uniform-civil-code-unfolded-mystery/d/126934

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..