ملک کے سیاسی منظر نامے
پر بی جے پی کے عروج کے بعد یکساں سول کوڈ کا نفاذ موضوع بحث بنا
اہم نکات:
1. گووا میں 1867
قبل سے ہی یکساں سول کوڈ نافذالعمل ہے
2. گووا کے
مسلمانوں نے کبھی یو سی سی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی
3. مسلمان اب یو سی
سی کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے
4. تین طلاق، حجاب،
شادی کی عمر کے قوانین نے مسلمانوں کو غیر فعال بنا دیا ہے
5. آل انڈیا مسلم
پرسنل لا بورڈ اب ایک غیر مؤثر ادارہ بن
چکا ہے
--
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
28 اپریل 2022
ہندوستان میں اتراکھنڈ کی
دھامی حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ ہم نے یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کرنے کے لیے
ایک پینل تشکیل دے دیا ہے، اتر پردیش کی حکومت نے بھی ریاست میں مشترکہ سول کوڈ
نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سے یونیفارم سیول کوڈ پر ایک نئی بحث چھڑ
گئی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر بحث ملک کے سیاسی منظر نامے پر بی جے پی کے عروج
کے بعد شروع ہوئی ہے حالانکہ یہ بی جے پی کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر آئین
ہند کی دفعہ 44 میں کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہندوستان کے ہر علاقے
میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں۔
چونکہ، بی جے پی نے یو سی
سی کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا
ہے، اس لیے اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان اس کے پس پشت محرکات سے خوفزدہ
ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے نام پر ہم پر ایک ایسا اکثریتی
قانون تھوپا جائے گا جو ایک آزاد مذہبی برادری کے طور پر ہمارے وجود کو خطرے میں
ڈال دے گا۔
یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ
سے وہ مشترکہ سول کوڈ کےتصور کی مخالفت
کرتے ہیں۔
لیکن ایک حقیقت جسے عام
ہندوستانیوں اور خاص طور پر مسلمانوں نے نظر انداز کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ گووا میں
1867 قبل سے ہی یکساں سول کوڈ نافذ ہے اور پرتگال سے آزادی کے بعد یہ یکساں سول
کوڈ گووا دمن و دیو ایڈمنسٹریشن ایکٹ 1962کی دفعہ 5(1) کے ذریعے عمل میں ہے۔
گووا میں یونیفارم سول
کوڈ کے تحت ہندو میرج ایکٹ 1955، ہندو سکسیشن
ایکٹ 1956 اور ہندوستانی سکسیشن ایکٹ 1925 یا شریعت (نفاذ) ایکٹ 1937 نافذ نہیں
ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گووا کا یکساں سول کوڈ عیسائی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اس کے
باوجود گووا کے مسلمانوں یا اے آئی ایم پی ایل بی جیسی مسلم تنظیموں نے اس پر کبھی
اعتراض بھی نہیں کیا، اس کی منسوخی کا مطالبہ تو چھوڑیں۔
مرکزی حکومت طویل عرصے سے
اپنے مسودے پر کام کر رہی ہے اور لاء کمیشن یو سی سی کے لیے ایک مسودہ تیار کر رہا
ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند اور انڈین
مسلم لیگ جیسی ہندوستانی مسلم تنظیموں نے یو سی سی کی مخالفت کی ہے۔ ان کی دلیل ہے
کہ ہندوستان تنوعات میں اتحاد کے نظریہ کو پسند کرتا ہے نہ کہ یکسانیت میں اتحاد
کو۔ ایک یکساں سول کوڈ ہندو قوانین پر مبنی ہوگا اور مسلمانوں پر نافذ کیا جائے گا
بالکل اسی طرح جیسے گوا کا یکساں سول کوڈ عیسائی قوانین پر مبنی ہے۔
تاہم، حالیہ برسوں میں یو
سی سی کے خلاف مسلمانوں کی مخالفت کم ہو ئی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے محض
رسمی پریس میں بیان دینے پر ہی اکتفاء کر لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر یو سی سی
پر اتراکھنڈ حکومت کے اعلان کے بعد مسلمانوں کا کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی نے بالترتیب 2016 اور 2018 سے کوئی تازہ بیان
جاری نہیں کیا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ نے ایک بیان جاری کرکے اس کی مخالفت کی
ہے۔ صرف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء ہی یو سی
سی کی جم کر مخالفت کر رہا ہے۔ اس لیے یو سی سی کے خلاف مسلمانوں کی مخالفت محض
رسمی ہے اور اس میں اب کوئی دم نہیں بچا۔جہاں تک اے آئی ایم پی ایل بی کی جانب سے
مخالفت کا تعلق ہے، بابری مسجد، تین طلاق اور حجاب کی جدوجہد میں شکست کے بعد اس
نے مسلمانوں میں اپنی ساکھ کھو دی ہے اور یہ ایک غیرمؤثر ادارہ بن گیا ہے۔ جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کے
درمیان یو سی سی کے نفاذ کو لے کر خوف یا تشویش کم ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
مسلمانوں کو اب اپنی زندگی بچانے
جیسے مسائل کا سامنا ہے اور شناخت کے
مسائل ان کے لیے اب ثانوی حیثیت کے بن چکے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی معاشی
مشکلات نے مسلمانوں کو شناخت کے مسائل کی بجائے اپنی بقاء پر زیادہ توجہ دینے پر
مجبور کیا ہے۔ بابری مسجد کی بازیابی کی جدوجہد نے انہیں ایک اور جھٹکا دیا ہے۔
تین طلاق اور حجاب کے فیصلے ان کے لیے یو سی سی کی طرف ایک اور قدم ہیں۔ اس لیے اب
وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ یو سی سی ان کی مذہبی شناخت کے لیے اب اور کیا کر سکتا ہے۔
لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ یو سی سی کی طرف ایک اور قدم تھا۔
ہندوستان میں اسلامو
فوبیا کی موجودہ لہر کی وجہ سے مسلمان اپنی روزی اور بقا کو لیکر زیادہ پریشان
ہیں۔ معاشی بائیکاٹ، موب لنچنگ اور مساجد پر حملوں کے نعروں نے ان کی مشکلات میں
اضافہ کر دیا ہے۔ کووڈ 19ایک اور وجہ ہو سکتی ہے جس نے ان کی خاموشی میں اہم کردار
ادا کیا ہے۔
یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے
مسلمانوں کو یو سی سی پر غیر فعال بنا دیا ہے اور وہ اسے کسی بڑے خطرے کے طور پر
نہیں دیکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ تین طلاق کے قانون نے ان کی زندگیوں میں زیادہ
کوئی فرق پیدا نہیں کیا۔ لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ صرف مسلمانوں کے لیے
نہیں بلکہ ہندوستان میں رہنے والی تمام برادریوں کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ہندوؤں میں
کم عمری کی شادی کا رواج زیادہ ہے۔ عبادت گاہوں میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے
قوانین کا اطلاق ہندوؤں پر بھی ہوگا اور لاؤڈ اسپیکر کے بغیر اذان دینے کا مطلب
اذان پر پابندی نہیں ہے۔ ہاں یہ ہے کہ
مسلمانوں کو لاؤڈ سپیکر کے بغیر اذان والے پرانے دنوں میں واپس جانا پڑے گا۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان اب
یو سی سی کی کوئی سخت مخالفت یا اس سے خوف ظاہر نہیں کرتے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ
ہندوستان کی دیگر اقلیتیں یا نسلی برادریاں مسلمانوں کی طرح یو سی سی پر اپنی
مخالفت کا اظہار نہیں کرتیں۔ مسلمان خوف کی ذہنیت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اے آئی
ایم پی ایل بی کا کہنا ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی اس پر
اعتراض ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو دوسری مذہبی اقلیتیں اس لڑائی میں کیوں شامل نہیں
ہوتیں۔ کس نے اے آئی ایم پی ایل بی کو تمام مذہبی اقلیتوں کا نمائندہ یا ترجمان
بنایا ہے؟
اب ہماچل پردیش بھی یو سی
سی کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے لیکن بہار میں جے ڈی یو نے اپنی اتحادی بی جے پی
کے بہار میں یو سی سی کو لاگو کرنے کے مطالبے کی سختی سے مخالفت کی ہے۔
دراصل، ہندوستان کے متنوع
مذہبی اور نسلی معاشرے میں یو سی سی کا نفاذ ایک بڑا چیلنج ہوگا اور ایک ایسا
مسودہ تیار کرنا حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا جو تمام برادریوں اور طبقوں کے لیے
قابل قبول ہو۔ نافذ ہونے پر اس سے بےشمار
مسائل سامنے آئیں گے۔ اس لیے مسلمانوں کا یہ خوف بے بنیاد ہے کہ اس کا اثر صرف ان
پر پڑے گا۔ آئین میں یو سی سی کے لیے سفارشات کے باوجود، ہندوستانی ثقافت کے تنوع
کی وجہ سے اسے اب تک نافذ نہیں کیا جا سکا۔ مسلمانوں کو شور مچانے کے بجائے انتظار
کرنا چاہیے۔
English
Article: Why The Uniform Civil Code Demand Does Not Cut Much
Ice With Muslims Any More?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism