New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 12:42 PM

Urdu Section ( 5 Jul 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

In Case of a Uniform Civil Code, How Should Muslims Respond? یکساں سول کوڈ کی صورت میں مسلمانوں کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 13 جون 2023

 مسلمانوں کو یکساں سول کوڈ کے مسودے کو غیر معقول انداز میں مسترد نہیں کرنا چاہیے

 اہم نکات:

 1. ایک ہندی روزنامے کی ایک حالیہ خبر یہ ہے کہ لاء کمیشن بہت جلد یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کا مسودہ پیش کر سکتا ہے۔

 2. علماء نے ہمیشہ یو سی سی کی مخالفت کی ہے، اور اسے اسلام مخالف قرار دیا ہے۔

 3.  لیکن یو سی سی کا نفاذ مسلم معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان قانونی مساوات کا باعث بنے گا، جس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔

 4. مسلم پرسنل لا میں شادی اور طلاق، جانشینی اور سرپرستی کے معاملے میں خواتین کو ماتحت کی حیثیت حاصل ہے۔

 5.    اس لیے، مسلمان یو سی سی کو مسترد کریں اس سے پہلے، ان کو یہی مشورہ ہے کہ وہ مسودے پر بحث کریں اور اس کے فوائد کو جاننے کی کوشش کریں۔

 -----

 11 جون کو شائع ہونے والے ہندی روزنامے میں ایک خبر کے مطابق، لاء کمیشن کے پاس ایک تفصیلی مسودہ ہے کہ ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کو کس طرح نافذ کیا جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن گزشتہ آٹھ ماہ سے اس پر کام کر رہا ہے اور ایک دو اجلاسوں کے بعد مسودہ وزارت قانون کو بھیجا جائے گا۔ خبر میں اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ اسے پارلیمنٹ میں کب بل کی شکل میں پیش کیا جائے گا لیکن کچھ میڈیا رپورٹیں بتاتی ہیں کہ یہ اس سال مانسون یا سرمائی اجلاس میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

 امید ہے کہ بل کی منظوری سے قبل اس مسودے کو ملک گیر عوامی بحث کے لیے پیش کیا جائے گا تاکہ تمام فورم کو اپنے اعتراضات اور تجاویز پیش کرنے کا موقع مل سکے۔ لیکن یہ حکومت جس خاموشی سے کام کرتی ہے، اس کے پیش نظر یہ تو بس ابھی ایک امید ہی ہے۔

 جب سے ملک نے آزادی حاصل کی ہے تب سے یہاں یو سی سی مسئلے پر بحث جاری ہے۔ آئین کے ہدایتی اصولوں میں درج ہے کہ ریاست یو سی سی نافذ کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے علاوہ، عدالت کے مختلف فیصلے ہیں جن میں اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت کا ذکر کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کا شاہ بانو فیصلہ بھی اس درخواست پر ختم ہوا کہ مقننہ کو یکساں سول کوڈ بنانے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔

 ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور یو سی سی کا خیال اس ملک کے تنوع اور تکثیریت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ بہر حال، شادی کے معاملات، شریک حیات کے انتخاب سے متعلق قوانین، جائیداد سے متعلق قوانین وغیرہ ہر علاقے میں مختلف ہوتے ہیں، اور بسااوقات یہ تفاوت ایک ہی مذہبی برادری میں بھی پایا جاتا ہے۔ کیا یو سی سی ہمارے ملک میں پائی جانے والی اس تکثیریت کو ختم کر دے گی؟ ملک کی غیر معمولی ثقافتی اور مذہبی تنوعات کے پیش نظر ایسا کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔

 لیکن یونیفارم سول کوڈ یہ کر سکتی ہے کہ پرسنل لاء کے اطلاق کی وجہ سے مذہبی برادریوں کے اندر موجود جو کچھ عدم مساوات موجود ہیں ان کو دور کر دے جو ہماری آئینی اخلاقیات سے براہ راست متصادم ہیں۔

 مسلمانوں کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت

علماء ہمیشہ سے ہی یونیفارم سول کوڈ کے خلاف رہے ہیں۔ ان کے اثر و رسوخ کی بناء پر، مسلمانوں کو یقین ہو چلا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ واضح طور پر اسلام مخالف ہے اور اس سے ان کی مذہبی شناخت ختم ہو جائے گی۔ علماء کی دلیل ہے کہ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 25 مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اس لیے ریاست کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو اس کے خلاف ہو۔ تاہم، وہ بھول جاتے ہیں کہ وہی آئین کہتا ہے کہ آرٹیکل 25 "امن عامہ، اخلاقیات، صحت اور دیگر دفعات کے تابع ہے"۔ اسی دفع میں ایک شق ایسی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "یہ دفع کسی موجودہ قانون کو متاثر نہیں کرے گا اور ریاست کو سماجی بہبود اور اصلاح سے متعلق کوئی قانون بنانے سے نہیں روکے گی"۔ لہٰذا یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ریاست واقعی کسی برادری کے ذاتی قوانین میں مداخلت کر سکتی ہے اگر وہ یہ سمجھے کہ یہ مسئلہ سماجی بہبود اور اصلاح کا ہے یا اگر اسے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ عوامی اخلاقیات سے متعلق ہے۔ وہی دفع جو تمام ہندوستانیوں کو مذہب کی آزادی کا حق دیتی ہے، وہی "ہندوؤں کے تمام طبقات اور فرقوں" کے لیے مندر کے دروازے بھی کھلتی ہے۔ اس طرح، مذہبی برادریاں اس دفع کے پیچھے نہیں چھپ سکتیں اور ایسے طریقوں کو جاری نہیں رکھ سکتیں جو امتیازی یا رجعت پسندانہ ہوں۔ کسی مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی کا مطلب امتیازی سلوک کی آزادی نہیں ہے۔ علماء کی یہ دلیل کہ پرسنل لاء کے معاملے میں ریاست مداخلت نہیں کر سکتی، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

 بہر کیف، یونیفارم سول کوڈ کے مسودے مختلف آئینی اصولوں کی روشنی میں تیار کیے جائیں گے لیکن جنس اور صنف کی بنیاد پر عدم امتیاز شاید اس مسودہ کا سب سے اہم پہلو ہوگا۔ یہ کہ مرد اور عورت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے، کہ دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، یہ وہ باتیں ہیں جنہیں کوئی بھی جدید معاشرہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ تاہم یہ مسلم پرسنل لاء ہی ہے جس نے ان اصولوں کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔

 چار اختلافی مسائل

 چار نکات ایسے ہوں گے جن پر علماء نے ہمیشہ یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی ہے اور وہ یقیناً اس بار بھی ایسا ہی کریں گے جب مسودہ عوام کے سامنے لایا جائے گا۔

 ان میں سے پہلا مسئلہ نکاح اور طلاق سے متعلق ہے۔ مسلم قانون میں، اگرچہ شادی کی تجویز مرد و عورت میں سے کوئی بھی پیش کر سکتا ہے، لیکن طلاق کا حق صرف مرد کو ہے۔ یعنی ایک مسلمان عورت جو کہ اپنی ازدواجی زندگی سے تنگ آ چکی ہو، اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر سے خلع کی درخواست کرے، جس سے وہ انکار بھی کر سکتا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر مذہبی قوانین فرسودہ ہیں، لیکن اور مذاہب اپنی اصلاح کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ لہٰذا، اس ملک میں ایک ہندو یا عیسائی عورت عدالت سے رجوع کر سکتی ہے اور اپنی شادی کو ختم کرنے کا مطالبہ کر سکتی ہے، لیکن ایک مسلمان عورت ایسا نہیں کر سکتی۔

 علماء اس بات سے بھی پریشان ہوں گے کہ یونیفارم سول کوڈ تین طلاق کے نظام کو بھی ختم کر سکتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ موجودہ حکومت نے صرف "فوری تین طلاق" کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا ہے جس کے ذریعے شوہر اپنی بیویوں کو ایک ہی نشست میں طلاق دے سکتے ہیں، اور کبھی کبھی فون کال یا ای میل پر فوری تین طلاق کے معاملات سامنے آتے رہے ہیں۔ شیعہ اور اہلحدیث جیسے کچھ مسلم فرقوں نے بہرحال اس عمل کو کبھی منظور نہیں کیا۔ لیکن سنی شوہروں کی اکثریت آج بھی اپنی بیویوں کو تین نشستوں میں طلاق دینے کے لیے آزاد ہے جو کہ اسلامی طریقہ ہے۔ امید ہے کہ یو سی سی طلاق کے اس طریقے کو غیر قانونی قرار دے گی اور تمام شوہروں کی طرح سنی مسلمان شوہر بھی عدالت سے اس طرح کا حکم نامہ طلب کرنے کے پابند ہوں گے۔ مزید برآں، دیگر مذہبی برادریوں کی طرح، مسلمان شوہروں پر بھی طلاق یافتہ بیوی کو کفالت فراہم کرنے کا ذمہ دار بنایا جائے گا۔

 مسلم خواتین کے لیے حلالہ ایک سب سے اہم مسئلہ ہے جو کہ ایک انتہائی غیر انسانی عمل ہے۔ اگر کوئی مسلمان مرد اپنی بیوی کو طلاق دیدے لیکن پھر اسے اپنے کیے پر پچھتاوا ہو اور دوبارہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو یہ اس کے لیے آسان نہیں ہے۔ سابقہ بیوی کو دوسرے مرد سے شادی کرنی ہوگی جو اسے طلاق دے دے گا تاکہ پہلا شوہر اس سے دوبارہ شادی کرے۔ یہ خواتین کے لیے ایک حقیقی آزمائش ضرور ہے لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جو پوری دنیا کے مسلم معاشروں میں موجود ہے۔ ایسے "ڈیلر" (ان میں سے بہت سے ملا) ہیں جو ایک رات کے لیے ایسی عورتوں سے شادی کرتے ہیں اور ان کی "خدمت" کے لیے پیسے مانگتے ہیں۔ خواتین (اور مردوں) کو ایسی آزمائش سے کیوں گزرنا چاہئے جبکہ یہ دو رضامند بالغ دوبارہ شادی کا معاہدہ کرکے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں؟ یونیفارم سول کوڈ کسی بھی برادری کے اس طرح کے طریقوں کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے (اور ہونا بھی یہی چاہئے) کیونکہ اس کا واحد مقصد خواتین کی بے عزتی کرنا ہے۔

 دوسرا مسئلہ جانشینی اور وراثت کا ہوگا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وراثت کے حوالے سے موجودہ اسلامی قانون اصولی طور پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ خاندانی جائیداد میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر حصہ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ باضمیر مسلمان والدین اپنی شادیاں اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت رجسٹر کروا رہے ہیں، تاکہ وہ اپنی جائیداد اپنے بچوں کو منصفانہ طور پر دے سکیں۔ تقریباً تمام مذہبی برادریوں نے اب اس مسئلے کو حل کر لیا ہے اور اب ان کے ہاں قانونی طور پر دونوں بیٹے اور بیٹیاں یکساں طور پر وارث ہو سکتے ہیں۔ لیکن جانشینی اور وراثت سے متعلق اسلامی قانون 1937 سے بدستور برقرار ہے۔ اگر ریاست مداخلت کرتی ہے اور یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے اس کی اصلاح کو یقینی بناتی ہے، تو یہ تمام مسلم خواتین کے لیے ایک بڑی جیت ہوگی، خاص طور پر ان کے لیے جو اس طرح کے فرسودہ پرسنل لاء میں تبدیلی کے لیے جدوجہد میں سب سے آگے ہیں۔

 تیسرا متنازعہ مسئلہ ولایت کا ہوگا۔ باپ کی موت کی صورت میں نابالغ مسلمان کی ولایت دادا کے پاس جاتی ہے، ماں کو نہیں۔ گویا اسلامی قانون یہ مانتا ہے کہ عورتیں کسی چیز کو سنبھالنے سے قاصر ہیں اور ان میں دنیاوی شعور کی کمی ہے، اسی لیے اسلامی قانون نے ایک ماں کو بھی اپنے بچوں کی طرف سے فیصلے کرنے سے محروم کر دیا ہے۔ یہ آج کے دور میں واضح طور پر مضحکہ خیز ہے جب کہ مسلمان بھی بنیادی طور پر جوہری خاندانی نظام ہی اپناتے ہیں۔ اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یونیفارم سول کوڈ، جس کے اندر اس سوال کو حل کرنے کی گنجائش ہے، مسلم ماؤں کے وقار کو بحال کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرے گا۔

چوتھا مسئلہ جس سے علماء کا طبقہ ناراض ہو سکتا ہے وہ گود لینے کا مسئلہ ہے۔ تمام مذہبی برادریاں قانونی طور پر بچے کو گود لے سکتی ہیں، اپنی جائیداد گود لیے ہوئے وارث کو دے سکتی ہیں، سوائے مسلمانوں کے۔ گود لینے کے خواہشمند مسلمان جوڑوں کے لیے یہ ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ شکر ہے کہ اب وہ جووینائل جسٹس ایکٹ 2015 کے تحت گود لے سکتے ہیں، لیکن ایسے بہت سے والدین کو اب بھی اس طرح کی قانونی شق کا علم نہیں ہے۔ مزید برآں، حالیہ برسوں میں ہائی کورٹوں نے ایسے مختلف فیصلے سنائے ہیں جن کی وجہ سے ممکنہ مسلم جوڑے وارث کو گود لینے میں ہچکچاتے ہیں۔ اگر دیگر تمام مذہبی برادریوں کو گود لینے کا حق حاصل ہو سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جوڑوں کو اس سے محروم رکھا جائے۔ علماء نے اکثر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال پیش کی ہے، جنہوں نے اپنی بہو یعنی گود لیے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی کی۔ لہذا، وہ حکم دیتے ہیں کہ "فطری" اور "گود لیے ہوئے" بیٹے یا بیٹی میں بنیادی فرق ہے۔ لیکن پھر کیا آج کے مسلمانوں پر ایسے نمونوں کا اطلاق ہونا چاہیے؟ مسلم معاشرے اور علماء کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے۔

 بہر کیف، زیادہ تر مذہبی برادریوں نے پہلے ہی اپنے ذاتی قوانین میں اصلاحات کی ہیں اور کم و بیش ان میں صنفی مساوات موجود بھی ہے۔ ہندو قانون، خاص طور پر نظام کے لحاظ سے شاید ہی اب ہندو ہے۔ اسی طرح، عیسائیت میں کبھی طلاق کا تصور تھا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک شادیاں جنت میں کی جاتی تھیں لیکن آج، وہ ایسا کرنے کے قابل ہیں۔ مذہب اسلام بھی اس اعتبار سے کوئی خاص نہیں ہے، دوسرے تمام مذاہب کی طرح اسے بھی وقت کے ساتھ بدلنا ہوگا۔ اس کے برعکس سوچ سراسر حماقت اور جہالت ہوگی۔

 اگر یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ تیار کیا جاتا ہے تو یہ ظاہر نہیں ہونا چاہئے کہ صرف مسلمان ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کا استعمال وہ لوگ کریں گے جو اسلام اور مسلمانوں کی رجعت پسند تصویر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے، علماء کے لہجے اور انداز کو دیکھتے ہوئے، جو بغیر فضول میں یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کرنے کی بات کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے والے بالآخر جیت جائیں گے۔

 لہذا، بہتر یہی ہوگا کہ مسلمان غیر معقول انداز میں یونیفارم سول کوڈ کے مسودے کو مسترد نہ کریں۔ بلکہ انہیں اس کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ قانون میں ہونے والی تبدیلیاں ان کے معاشرے کو کس حد تک فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔

 

 English Article: In Case of a Uniform Civil Code, How Should Muslims Respond?

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/uniform-civil-code-muslims-respond/d/130140

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..