New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 05:30 PM

Urdu Section ( 5 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Towards Understanding Religion مذہب کی تفہیم

 ڈاکٹر جاوید اختر، نیو ایج اسلام

 17 اگست 2023

مضمون "مذہب کی تفہیم" مذہب کے تصور اور اس کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہے۔ یہاں پانچ اہم نکات کا خلاصہ کیا گیا ہے:

فطری تجسس اور مذہب کی تلاش

مضمون کا آغاز مذہب سے انسانیت کے تاریخی تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ مضمون میں اس ابدی تجسس کو اجاگر کیا گیا ہے جس کا انسانوں نے پوری تاریخ میں ایک نامعلوم ہستی کے اسرار کو سمجھنے کے لیے مظاہرہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف مذاہب اور معمولات وجود میں آئے۔

ذاتی اور اجتماعی روحانی سفر

یہ بیانیہ روحانی سفر کی ذاتی اور اجتماعی نوعیت پر زور دیتا ہے۔ یہ مضمون ابراہیم کی کہانی کو ایک مثال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مذہب کو سچائی کی گہری ذاتی جستجو کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ اس میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ متعدد افراد اس ابدی حقیقت کو تلاش کرنے کے لیے ایک جیسا سفر کرتے ہیں۔

روحانی تجربہ اور ہدایت الہی

مضمون میں روحانی تجربات اور مذہب کے اندر ہدایت الہی کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کو مختلف ذرائع سے، زبانی اور غیر زبانی دونوں طریقوں سے ہدایت الہی ملتی ہے، جو انہیں ان کے حتمی مقصد کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔

ذاتی اور سماجی ذمہ داریوں کے درمیان تعلق

مضمون میں ذاتی مذہبی عقائد اور سماجی ذمہ داریوں کے درمیان تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دین، مذہب کے ذاتی اور اجتماعی جہتوں کے دوہرے پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے، انسان سے قلبی تقویٰ کو پروان چڑھانے اور معاشرے میں ہم آہنگی قائم کرنے دونوں کا تقاضا کرتا ہے۔

تنوع، بقائے باہمی، اور مذہب کی آزادی

مضمون میں مذہبی عقائد کے تنوع اور بقائے باہمی کی ضرورت پر توجہ دی گئی ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہمیں اپنے عقائد کو دوسروں پر مسلط نہیں کرنا چاہیے بلکہ اختلاف کا احترام کرنا چاہیے، یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی شرافت کی بنیاد صداقت پر ہے۔ اس سے مذہب کے معاملات میں ہماری مرضی اور انفرادی خود مختاری کا اصول واضح ہوتا ہے۔

مجموعی طور پر، مضمون میں مذہبی تجربات کی ذاتی نوعیت، خدا اور انسانوں دونوں کے تئیں ذمہ داری کے احساس کو اپنانے کی اہمیت، اور دوسروں پر اپنے مذہب کو مسلط کرنے سے گریز کرتے ہوئے اختلاف کا احترام کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پوری تاریخ انسانی ہمیشہ مذہب سے بھری رہی ہے۔ 'مذہب' کے بارے میں ہماری مسلسل تجسس، خواہ قدیم نمونوں کی دریافت کرنے کے ذریعے، بشریاتی دریافتوں کو تلاش کرنے کے ذریعے، جغرافیائی بصیرت کو وسعت دینے کے ذریعے، یا تاریخی سچائیوں کا پتہ لگانے کے ذریعے، واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ بطور فرد یا بطور ایک معاشرہ کے، ہم نے ہمیشہ ایک ایسی قوت کے اسرار و رموز کو جاننے کے لیے فطری طور پر ایک تجسس کو پروان چڑھایا ہے جو ہماری گرفت سے ماوراء ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس پُراسرار چیز سے پردہ اٹھانے کی یہ شدید تڑپ ہی وہ بنیاد ہے جس پر مذہب کا عظیم الشان ڈھانچہ تعمیر کیا ہوا ہے، جو ہمیں ایک نامعلوم کے قوت سے جوڑتا ہے۔

آج، یہ ہر جگہ ایک تسلیم شدہ سچائی ہے کہ گزرے دنوں میں، بڑے پیمانے پر انسانوں نے غلطی سے فطری مظاہر کو خدا مان لیا تھا، اور انہیں اپنی زندگی کا کارساز بنا لیا تھا۔ اس کے باوجود، اس گمراہی کے دور میں، چند دلیروں نے ان مظاہر کے پیچھے چھپے اسرار سے پردہ اٹھانے کی جستجو شروع کی۔ یہ جھکاؤ یقیناً صرف انسانی تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگوں نے اسے ان کے مقصد کے حتمی انجام کا محض ایک سنگ میل سمجھ کر، ان کی تلاش کو وقت سے پہلے ہی روک دیا۔ اس کے برعکس، ایک جماعت مستقل طور پر اپنے سفر پر آگے بڑھتے رہے، اور اپنی دریافتوں کو محض سطحی سمجھتے ہوئے اپنی تلاش کو جاری رکھا۔

انسانیت کا دکھ اس بات میں مضمر ہے کہ وہ محض اشارے پر ہی رک جاتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر تحقیق و تجسس نہیں کرتا۔ اس کے باوجود، جو لوگ ان اشارات و کنایات پر بس نہیں کرتے اور ثابت قدمی سے اپنے سفر پر گامزن رہتے ہیں، آخر کار اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ یہ اصول، قرآن کے صفحات میں جگہ جگہ موجود ہے، جو کہ اسلام کی ایک مقدس ترین کتاب ہے، ابراہیم کی زندگیوں میں اس کی عملی مثالیں ملتی ہیں، جو بائبلی اور اسلامی دونوں روایات میں ایک قابل احترام شخصیت ہیں۔ ایک مشرک معاشرے کے اندر جنم لینے اور پرورش پانے والے ابراہیم کی روح اس ابدی حقیقت کی جستجو میں ہمیشہ سرگرم عمل رہی۔ ایک رات، جب اس نے آسمان کو روشن کرنے والے ستاروں پر نگاہ ڈالی، تو آپ کے دل ہر ان کے الہ ہونے کا خیال گزرا۔

 تاہم، جیسے ہی چاند طلوع ہوا، جس سے ستاروں کی چمک ختم ہو گئی، تو آپ نے خود کو ان کی تعظیم کرنے سے قاصر پایا۔ عقیدت کا رخ چاند کی طرف کرتے ہوئے سر جھکا لیا۔ لیکن صبح کی آمد کے ساتھ، جیسے ہی سورج نے ستاروں اور چاند کو اپنی چمک میں جذب کر لیا، ابراہیم کا ایمان ایک بار پھر بدل گیا۔ پھر جیسے جیسے شام ڈھلنے لگی، سورج کے غروب ہونے نے اس کے نظریہ میں ایک اور تبدیلی کا اشارہ دیا۔ ان لامتناہی تبدیلیوں کے درمیان، ابراہیم اس تہلکہ خیز نتیجے ہر پہنچے کہ ان آسمانی اجسام میں سے کوئی بھی خالق نہیں ہو سکتا۔ بلکہ، آپ نے کہا کہ، حقیقی خُدا وہی ہے جو ستاروں، چاند اور سورج کے چکر کو ترتیب دے رہا ہے اور جس کا حکم اُن سب پر نافذ ہے۔

ابراہیم کے اس روحانی سفر کو شاید کچھ لوگوں نے ایک فرد کا ذاتی سفر سمجھا ہے، جس کا دائرہ صبح کے ستارے کی پہلی چمک سے لیکر شام کے وقت سورج کے غروب تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، کیا ہم اس سفر کو ایک اجتماعی انسانی سفر سے تعبیر نہیں کر سکتے، ایک ایسی داستان جو ان گنت برسوں پر محیط ہے، جس کی گنتی صرف اللہ کو معلوم ہے؟ میرے لیے، یہ صرف ابراہیم کی کہانی سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ یہ ابراہیم ہی کی طرح بے شمار انسانوں کا بھی سفر ہو سکتا ہے، جن میں سے ہر ایک، اس ابدی حقیقت کو مسلسل تلاش کرنے کے اپنی روح کی دعوت سے مجبور رہا ہو۔

یہ ذاتی "روحانی تجربہ"، جیسا کہ گاندھی جی نے کیا ہی خوب بیان کیا ہے، مذہب کی اصل روح ہے۔ اس ذاتی سفر کے ذریعے ہی انسان کو حتمی مقصد کا راستہ ملتا ہے۔ یہ روحانی سفر ہر فرد کے لیے ایک منفرد مہم ہے، جو انھیں مختلف درجات کی عقیدت کا حامل بنا دیتا ہے۔ اس کے باوجود یہ سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے کہ مذہب صرف ایک ذاتی معاملہ ہے۔ بلکہ، یہ ذاتی تجربات سے پیدا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ بہت سی روحوں میں پھیل جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک قوم کی شکل اختیار کر جاتے ہیں، جس میں گہرے، معمولی، یا یہاں تک کہ صفر روحانی تجربہ رکھنے والے افراد بھی آئے جاتے ہیں۔ یہ رجحان متنوع مذہبی جماعتوں کو جنم دیتا ہے جس کا ہم پوری دنیا میں مشاہدہ کرتے ہیں جو کہ یہ ایک فطری اور ناگزیر نتیجہ ہے۔

کیا انسان اللہ کی مدد کے بغیر اپنے طور پر مذہبی تجربہ حاصل کر سکتے ہیں؟ اگرچہ کچھ لوگ اس تصور کے حق میں بول سکتے ہیں، ان قابل ذکر انبیاء، بزرگوں اور سنتوں کی زندگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنہوں نے بظاہر اپنے روحانی مقاصد کو کسی خارجی امداد کے بغیر حاصل کیا، باریک بینی سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ سے ان کا تعلق بالآخر ایک اونچی ہستی کی مدد سے ہی قائم ہوا۔ اسلامی اصطلاحات کی یہ الہی مدد، تقریباً ہر مذہب میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ روحانی راستے پر سفر کرنے والوں کے لیے، یہ ایک نور ہدایت کا کام کرتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک مینار ان کے راستے کو روشن کرتا ہے۔

انسان مختلف ذرائع سے ہدایت الہی حاصل کرتا ہے۔ بعض اوقات، یہ انسانی زبان کے ذریعے بولے جانے والے پیغامات کی شکل میں حاصل ہوتا ہے۔ کبھی، یہ زبان و بیان سے بے نیاز ہو کر مظاہر فطرت کے حسن جمال سے حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ تاثرات ظاہری اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن ان کا مشترکہ مقصد انسانوں کو ان کے حتمی مقصد کی طرف رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ شکل و ہیئت سے قطع نظر، یہ جاننا ضروری ہے کہ ہدایت کی ان شکلوں کے لیے پہل اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اور یہ انسانوں پر منحصر ہے کہ وہ اس پکار کا جواب دے۔

لفاظ کے ذریعے پہنچائے گئے پیغامات نازل شدہ کتابوں میں پائے جاتے ہیں، اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان انہیں بطور نور ہدایت کے قبول کرے۔ دوسری طرف، ناگفتہ پیغامات اکثر مظاہر فطرت کی خوبصورتی میں ظاہر ہوتے ہیں - خوشگوار بارش، ہلکی ہوا، آسمانوں اور زمین کا پیچیدہ رقص، دن اور رات کی تال میل، اور یہاں تک کہ قدرتی آفات جیسے چیلنجوں کا سبق۔ یہ تمام عناصر بنیادی طور پر اس بات کی علامت ہیں کہ انسانی سفر میں نافذ اللہ کا حکم ہے۔ ان کا یک عظیم نصب العین اور بڑی اہمیت ہے، یونہی بغیر کسی مقصد کے موجود نہیں۔

تصور کریں کہ جس طرح سے سڑک کا نشان مسافر کو ان کی منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اسی طرح، قدرت کے عجائبات ہمارے لیے آسمانی ہدایت کا کام کرتے ہیں۔ وہ محض وقوع سے بامعنی علامتوں اور نشانیوں میں تبدیل ہوتے ہیں اور ہمیں سطح سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ وہ جوہر جو سطحیت سے پرے ہے، کچھ اور نہیں، بلکہ مذہب کی زبان میں، خود اللہ کی معرفت ہے – یا یو کہیں کہ اللہ کی مختلف صفات ہیں جیسے اس کی مہربانی، اس کی طاقت، اس کا حکم اور اس کا عدل وانصاف وغیرہ۔ ہماری عقل ہمیں ان نشانیوں کی تشریح اور تعبیر کے لیے عطا کی گئی ہے جو کہ خدا کے وجود کی برہان ہیں۔ جب ہم غور و فکر کی اپنی فطری طاقت کو استعمال کرتے ہیں تو کسی وسیلے کی ضرورت نہیں رہتی۔

اس راستے کو اکثر معترف الہی کا ایک فطری طریقہ سمجھا جاتا ہے، اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خدا تک پہنچنے کا سب سے زیادہ آسان راستہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، ہر فرد سے آزادانہ طور پر اس مرتبے تک پہنچنے کی توقع رکھنا حقیقت سے چشم پوشی ہے۔ ہم سب ابراہیم کی طرح نہیں ہو سکتے، جنہوں نے آخرکار بتدریج تفہیم کے عمل کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کر لی۔ ہم میں سے اکثر کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، کہ کوئی ہمیں سمت دکھائے اور راستہ روشن کرے۔ یہیں سے وحی الٰہی کے تصور کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت کو نظر انداز کرنے سے ہم ایک گھنے بیابان میں گم ہو کر رہ جائیں گے۔ وحی الہٰی خدا کے لیے انسانیت کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا ایک راستہ ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی موجودگی اور ارادوں کو ہمارے ساتھ بانٹ سکتا ہے۔

ایک اسلامی تعلیم کے مطابق، اس کی تشبیہ اس طرح دی گئی ہے کہ خدا نظروں سے پوشیدہ ایک خزانے کی طرف تھا۔ جب اس نے چاہا کہ خود کو ظاہر کرے تو اس نے انساوں کو پیدا کیا۔ ایک بار جب خُدا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی نعمتوں کے جواب میں ہم سے کیا توقع رکھتا ہے؟ اس کا جواب پورے دل سے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینے میں مضمر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری عبادات، اعمال، زندگی، اور یہاں تک کہ ہماری موت بھی خدا کے لیے ہے، جو کہ اعتراف اور بندگی کا ایک گہرا عمل ہے۔

اب ایک فطری سوال پیدا ہوتا ہے: جو لوگ پورے دل سے اس کی بندگی تسلیم کر لیتے ہیں انہیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب ہے طمانیت قلبی۔ اس کے باوجود ہمیں اس طمانیت کی نوعیت اور اس کے مقصد پر غور کرنا چاہیے۔ سطحی طور پر، اطمینان اور سکون ہمیں ہماری مادی خواہشات کو پورا کرنے میں نظر آتا ہے۔ اگر طمانیت قلبی کا معنی یہ ہے، تو میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب شاید ناقص سکون فراہم کرتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کے حوالے سے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس کے پیروکار، یہاں تک کہ اس کے ماننے والے مخلص دیندار بھی، مکمل طور پر انسانی خواہشات اور ضروریات سے بالاتر ہوں گے۔ انسان میں فطری طور پر بے صبری اور لالچ بھری ہوئی ہے، انسان زندگی میں عظیم اور عمدہ چیزوں کے لئے ہمشہ تڑپتا رہتا ہے۔

مذہب ہم سے دنیاوی آسودگی بھری زندگی کا وعدہ نہیں کرتا۔ درحقیقت، اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کو اکثر آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ قرآن بتاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ طمانیت قلبی کوئی بیرونی چیز نہیں ہے۔ بلکہ، یہ ہمارے اندر، ہمارے ذہنوں، دلوں اور روحوں کی گہرائیوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ ہمارے روحانی سفر سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم سچے اخلاص کے ساتھ اپنے تعلق جوڑیں تو اطمینان اور سکون کا ایک گہرا احساس لامحالہ پیدا ہوگا۔

اس دنیا میں ہمارا وجود، بلاشبہ فانی ہے۔ اسلام اس دنیاوی زندگی کو اس کے بعد آنے والی لازوال اور حقیقی زندگی کے لیے تربیت گاہ قرار دیتا ہے۔ اس دنیاوی زندگی کے اندر، انسانوں کو آخرت کی اپنی ابدی زندگی کو بہتر بنانے کا موقع دیا گیا ہے۔ آخرت میں ہمارے فیصلے کا انحصار ہمارے موجودہ اعمالِ زندگی پر ہے، کیونکہ ہم اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے ہیں۔ جب خدا کے حضور کھڑے ہونے کا وقت آئے گا تو کوئی ہماری طرف سے سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔ ہر ذی روح اپنے اعمال کے لیے خود جوابدہ ہو گا، اور اپنے اعمال کی ذمہ داری خود اپنے کندھے پر اٹھائے گا۔

اگر ہم اس معاملے پر غور کریں، اور مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا کرنا درست ہے، تو مذہب کا تصور، جس کا مقصد ایک وحدہ لاشریک کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے، ہو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ مذہب انتہائی انفرادی معاملہ ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ یہ اس وقت تک ذاتی رہتا ہے جب تک کہ ہم انفرادیت کو اس انتہا پر نہیں لے جاتے جہاں ہمارا ماننا ہے کہ ذاتی تضاد ایک قوم کا حصہ ہے۔ میری نظر میں، سماجی ہونے کا برعکس انفرادی ہونا ہے، ذاتی ہونا نہیں۔ ذاتی اور سماجی دونوں پہلوؤں کو بیک وقت قبول کرنا مکمل طور پر ممکن ہے۔ نتیجتاً، ایک شخص کی حتمی فلاح پورے دل سے اور غیر مشروط طور پر اپنے آپ کو اپنے دین کے لیے وقف کر دینے پر منحصر ہے، جو کہ ایک خالصتاً ذاتی کوشش ہے۔ تاہم، یہ انہیں اپنے سماجی فرائض کو پورا کرنے سے نہیں روکتا۔

واقعی خوبصورت جذبات کے ساتھ، مذہب ایک شخص کے اندر ہماری دنیا کی بہتری کا عزم مصمم پیدا کرتا ہے۔ قرآن کی تعلیمات کے مطابق، انسانوں نے خوشی سے ہماری دنیا کو نیک راستے کی طرف لے جانے کی بھاری بھرکم ذمہ داری قبول کی۔ اس 'ذمہ داری' کو اپنانا، دراصل، ہم پر رکھی گئی الہی امانت کو تسلیم کرنا ہے۔ قرآن تخلیق کے اس ایک لمحے کا ذکر کرتا ہے جب خدا نے یہ مقدس امانت تمام جانداروں کے سامنے پیش کی تھی۔ سب ہچکچانے لگے، صرف انسان ہی اس فرض کو نبھانے کے لیے آگے بڑھا۔ یہ عمل ہمیں دیکھ بھال کرنے والے چرواہوں سے تشبیہ دیتا ہے، جنہیں ہمارے ریوڑ کی بھلائی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

نتیجے کے طور پر، یہ ہمارا فطری فریضہ ہے کہ ہم دنیا کے معاملات میں مشغول رہیں اور اسے مشترکہ گھر کے طور پر قبول کریں۔ اس فریضہ کو نظر انداز کرنا نہ صرف ہمارے اپنے وجود کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ پوری دنیا پر ایک مہلک اثر ڈالتا ہے۔ ہم دوسروں کی غلطیوں پر انگلیاں اٹھا کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔ اس کے بجائے، ہمیں حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ جس طرح ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے، ہمیں اس دنیا کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال مبارکہ میں ہمیں اپنی مشترکہ سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک زبردست تشبیہ ملتی ہے۔ دو عرشیوں والے جہاز کا تصور کریں، جہاں بالائی عرشے پر پینے کا قیمتی پانی ہوتا ہے۔ نچلے عرشہ پر رہنے والوں کو پانی تک رسائی کے لیے بار بار چڑھنا پڑتا، جس سے اوپر والوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ اپنی تکلیف کو کم کرنے کے لیے، بالائی عرشہ پر رہنے والے متصل دروازے کو بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس سے نچلے عرشہ پر موجود کچھ لوگ اس کا حل نکالنے پر مجبور ہوتے ہیں اور دریا سے براہ راست پانی نکالنے کے لیے کشتی میں سوراخ کر دیتے ہیں۔ جو کہ واقعی تشویشناک ہے۔

اس صورت حال میں، اگر بالائی عرشہ پر موجود لوگ، اپنے آرام سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اور جو لوگ نچلے عرشہ پر ہیں وہ سوراخ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے، تو تباہی پھیل جاتی۔ جہاز پر سوار ہر شخص کو دریا میں بہہ جانے کا خطرہ ہے، حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ ایسے ہوں گے جن پر سوراخ یا دروازے کے حوالے سے براہ راست کوئی ذمہ داری نہیں بنتی ہوگی۔ لہٰذا اس مثال کا مقصد یہ سمجھانا ہے: کہ اگر ہم غلط کام ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ اس کا ارتکاب کون کرتا ہے، تو ہم اس سے اپنی نگاہیں نہیں پھیر سکتے۔ بلکہ ہمیں اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ دوسروں کی دیکھ بھال ایک ذاتی اہمیت رکھتی ہے، لیکن اس کے ثمرات کا دائرہ اس پر عمل کرنے والے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس کا اثر معاشرے میں پھیلتا ہے، جو کہ ایک اعلیٰ مقصد کے لیے حقیقی تسلیم و رضا کا مظہر پیش کرتا ہے۔ "ذاتی" کے بظریہ کی وضاحت کے لیے عربی لفظ "دین" پر غور کریں، جسے انگریزی لفظ "ریلیجن" سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ "دین" عربی میں دو الگ الگ معنی پر مشتمل ہے۔ ایک لحاظ سے، یہ "تقوی" سے عبارت ہے جسے انگریزی میں "پائیٹی" کہتے ہیں۔ اس معنیٰ میں، "دین" یا "ریلیجن" ایک بالکل ذاتی تجربی ہے، جو فرقہ وارانہ رشتوں سے یکسر جدا ہوتا ہے، اور لسانی طور پر اس کے جمع کا صیغہ بھی نہیں پایا جاتا۔ اور دوسرے معنی میں، یہ "ادیان" کی شکل میں صیغہ جمع کے ساتھ آتا ہے اور مخصوص مذہبی نظاموں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس طرح، مذہب کا تصور دونوں پہلوؤں پر محیط ہے: انفرادی تقویٰ اور دین پر عمل کرنے کا ایک منظم طریقہ۔ یہ پہلو باہمی طور پر جدا گانہ نہیں ہیں۔ بلکہ، وہ ایک دوسرے کے ساتھ پائے جاتے ہیں، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے انداز میں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

 لہٰذا، مذہب یا جسے ہم "دین" کہتے ہیں، اسے قبول کرنے کے لیے دو بنیادی شرائط ہیں۔ سب سے پہلے انسان کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا چاہیے۔ دوسرا، انہیں اپنے مذہبی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ ان دو پہلوؤں کو اپنا نے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کے اس پیغام کو سمجھیں اور مانیں: کہ اللہ ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ایک بار جب ہم اس احساس کو اپنے دل میں بیٹھا لیتے ہیں - کہ سب کچھ جاننے والا، سب کچھ دیکھنے والا خالق ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہم سے قریب ہے - تو ہم خود بخود نیکی اور تقویٰ کے راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں۔

 اسلام میں، اللہ کے بے شمار ناموں میں سے ایک نام "علام الغیوب" بھی بڑا منفرد اور ممتاز ہے، جس کا مطلب پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اس عقیدے کو اپنانے کا مطلب ہے خدا کی ذات کے تمام پہلوؤں کو اپنانا۔ ایک بار جب یہ مضبوط تعلق قائم ہو جاتا ہے تو فسق و فجور کا راستہ، خواہ وہ ذاتی ہو یا اجتماعی، خود بخود ہوا میں تحلیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

اس تناظر میں، خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں پیش آنے والا اسلام کے ابتدائی ایام کی ایک دلخراش کہانی بھی سنتے چلیے۔ روایت ہے کہ ایک رات، جب حضرت عمر ایک مدھم روشنی والی گلی سے گزر رہے تھے، تو اپ نے ایک دودھ کا کاروبار کرنے والی عورت کو اپنی بیٹی کو چپکے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ دودھ کو بازار میں لے جانے سے پہلے پانی کے چند قطروں سے دودھ کو پتلا کر دو۔ تاہم، نوجوان لڑکی نے اپنی والدہ کی درخواست کو سختی سے نکار دیا، اور اپنے اٹل یقین کے ساتھ اس بات پر قائم رہی کہ ملاوٹ کا یہ عمل اچھے اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ اس نے دلیل میں ایسے اعمال کے خلاف خلیفہ کی نصیحت کا حوالہ دیا۔ ماں نے، شاید اندھیرے میں ڈوبی ہوئی رات کو دیکھ کر، جواب میں کہا کہ خلیفہ کی نظر سے ہم اوجھل ہیں، لہٰذا ہمارے اس عمل پر کسی کا دھیان نہیں جا سکتا۔ لیکن پرعزم بیٹی نے، ایک غیر متزلزل یقین کے ساتھ، اپنی ماں کی دلیل کا مقابلہ کیا۔ اس نے اپنی ماں کو کہا کہ اگرچہ خلیفہ جسمانی طور پر یہاں موجود نہیں، لیکن خدا تو سب کچھ دیکھ سن رہا ہے، اور ہمارے ہر ارادے اور منصوبے سے واقف ہے۔

یہ سادہ لیکن بامعنی قصہ ایمان اور تقوی کا نچوڑ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی نظر کی حدود سے پرے، ایک علیم و خبیر ذات موجود ہے جو تمام پوشیدہ امور کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جس طرح لڑکی نے حکمت و دانائی کا مشاہدہ کیا اور خدا کی ہمہ گیر نگاہوں کو پہچانا، اسی طرح ہم بھی عقل کا استعمال کرتے ہوئے تنہائی میں بھی ایسے فیصلے کریں جن میں اللہ کی نظر کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو۔

دودھ میں ملاوٹ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس لڑکی نے جس پختہ یقین کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف ایک مضبوط ذاتی یقین کا اعلان تھا بلکہ اپنی سماجی ذمہ داری کے گہرے احساس کا اعلان بھی تھا۔ اس قسم کا عقیدے کی توقع ہر اس فرد سے کی جاتی ہے جو خود کو کسی بھی مذہب سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ یہ وہی افراد ہیں جو اپنے مذہب سے قطع نظر، معاشرے کے تانے بانے میں بندگی کا جذبہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک معاشرہ ان افراد کے مجموعے سے کہیں زیادہ ہے جو عبث اپنی زندگی ضائع کرتے ہیں۔ معاشرے کا ایک واضح مقصد اور ایک متعین نصب العین ہونا چاہیے۔ مذہب کی طرف سے پیش کیا گیا معاشرتی نقطہ نظر مومنین کی ایک ایسی متحد جماعت کی تصویر پیش کرتا ہے، جو قرآن کے اس فرمان کی چلتی پھرتی تصویر ہو: "تم بہترین امت ہو جو بنی نوع انسان کے لیے اٹھائی گئی ہو۔ تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں اور بے حیائی سے منع کرتے ہو۔" یہ، بلا شبہ، ایک مذہبی برادری کے بنیادی مشن کا بیان ہے۔

لیکن نیکی کا جذبہ پہلے اپنی خامیوں کو زیر غور لائے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے بیان میں ان کے لیے کوئی دم خم نہیں ہے جو اپنے مشن کو محض ایک پیشے کے طور پر لیتے ہیں اور اپنی روزانہ کی رپورٹ اپنے اعلیٰ افسران کو پیش کرنے کے بعد خود کو اپنی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ نقطہ نظر مطلوبہ نتائج کی فراہمی نہیں کر سکتا۔ مشن محض کام کا نہیں - بلکہ لگن کا نام ہے۔ ہر فرد کو دوسروں کی رہنمائی کرنے سے پہلے اپنی اصلاح کرنا اپنا فرض سمجھنا چاہیے، یہ معاشرے اور فرد دونوں کے لیے ایک لازمی شرط ہے کہ وہ حقیقی طور پر مذہبی جذبے کو اپنائے۔

ایک سچا مومن معاشرے کی ضروریات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا جب ان کی ضرورت شدید ہو جائے۔ اس کے بجائے، انہیں ایسے وقت میں آگے بڑھنا چاہیے اور خلوص نیت کے ساتھ بے لوث مدد کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ اخلاص، انسانی کوششوں کی بنیاد ہے، اور ہمارے اعمال کے ثمرات کا تعین کرنے میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمارے بہت سے نیک اعمال قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں رد بھی کیے جا سکتے ہیں، بنیادی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف ہماری آنا کی تسکین کے لیے کیے گئے تھے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دین اخلاص کا نام ہے۔"

جب لگن اور عمل کی بات آتی ہے، تو قرآن ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کرتا ہے، چاہے وہ اسے الہی تعلیمات مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر فرد جو مؤمن ہے، اس کے اوپر اللہ کے ساتھ اس کے تعلق اور انسانوں کے ساتھ اس کے تعامل دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اول الذکر کو "حقوق اللہ" کہا جاتا ہے - جس سے اللہ کے حقوق مراد ہیں، جب کہ مؤخر الذکر "حقوق العباد" کے نام سے جانا جاتا ہے - جس سے انسانوں کے حقوق مراد لیے جاتے ہیں۔ قرآن کا فرمان ہر مومن کے نام بڑا واضح ہے کہ ان لوگوں کے لیے معافی ممکن ہے جو حقوق اللہ کی ادائیگی میں ناکام ہیں، لیکن ان کے لیے معافی نہیں ہو سکتی جو حقوق العباد کو پامال کرتے ہیں۔

لہٰذا، یہ بالکل واضح ہے کہ ایک واحد، ہمہ گیر خدا پر مضبوط یقین، تمام انسانوں کے درمیان بھائی چارے کا احساس، اور یومِ جزا پر یقین جس دن سبھی کو اپنے اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا، یہ سب باتیں اجتماعی طور پر دین اور مذہب کا نچوڑ ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں بے شمار مذاہب پائے جاتے ہیں، اور ان کے پیروکار اکثر خود کو اختلافات میں گھرے ہوئے پاتے ہیں۔ یہ پریشان کن حالت ایک بجا سوال پیدا کرتی ہے: یہ جھگڑا کیوں اور کیسا، جب ہر مذہب امن اور اتحاد کا داعی ہے؟ میرے نقطہ نظر سے، اس کی بنیادی وجہ سے پردہ اٹھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بنیادی طور پر، یہ نزاع اس عقیدے سے پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ نے ایک واحد راستے پر پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ جبکہ وہ اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے انہیں یہ ذمہ داری عطا نہیں کی ہے۔ خدا نے ہر شخص کو خود مختاری عطا کی ہے، اور ہر فرد کو اپنی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

قرآن اس حقیقت کو بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ تنوعات ہماری دنیا کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ مرد و عورت کی شکل میں انسانیت کے منفرد افراد، باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے مختلف گروہوں اور قبیلوں میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اللہ کی نظر میں، حقیقی شرافت کا تعین انسان کی نیکی سے ہوتا ہے۔ ایمان والا شخص فطری طور پر نہ صرف اپنے لیے نیکی کا راستہ تلاش کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اسی کی خواہش کرتا ہے۔

تاہم، یہ مقدس نقطہ نظر کسی کو اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ حقیقی ایمان، جیسا کہ قرآن واضح کرتا ہے، ہمیشہ جبر سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ کی حکمت بالغہ یہ ہے کہ اگر حالات مجبور کریں، تو ہو سکتا ہے کہ کسی کو اپنا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ اگر دوسروں کو اپنے مذہب کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے، تو بہترین جواب یہ ہے کہ انہیں پرامن طریقے سے رہنے دیا جائے۔ قرآنی جذبے کے ساتھ، یہ کہنا مناسب ہے کہ، "تیرے لیے تیرا دین، اور میرے لیے میرا۔"

اس کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس اصول کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور پوری دنیا کو اپنے دین پر چلنے پر مجبور کرنے کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ الہی منصوبے کے خلاف ہے.

مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا باتوں نے اس تصور کو روشن کر دیا ہے جو میں پیش کر رہا ہوں – کہ مذہب ایک ایسے خالق کے لیے انسان کی مخلصانہ عقیدت و بندگی کا نام ہے جس نے جان بوجھ کر انسانیت کو مخصوص خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ لیکن وہ سب ایک ہی باپ کی اولادیں ہیں۔ اس بات کا مضبوط عقیدہ معاشرے کے ساتھ ایک مومن کے تعامل پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ایک واحد خدا پر ایما ان مصنوعی رکاوٹوں کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو دنیا نے خود مذہب کی آڑ میں کھڑی کی ہے۔

ایک نیک، صحت مند، اور مساوی برادری کو فروغ دینے کی جستجو میں، مذہب ہر فرد سے براہ راست بات کرتا ہے۔ یہ خود آگاہی کو فروغ دیتا ہے، ہر فرد کو اس کے سفر کے لیے اس کی ذاتی ذمہ داری کی یاد دلاتا ہے۔ کسی شخص کی نجات کسی خاص جماعت کے ساتھ اس کی وابستگی پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اس کا انحصار انسان کے ایمان اور عمل پر ہے۔ جب کوئی شخص اس نیک راستے پر خلوص نیت سے چلتا ہے تو مذہبی نظریات کا ثمر دکھائی دینے لگتا ہے۔

English Article: Towards Understanding Religion

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/understanding-religion/d/130827

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..