رام ناتھ کوونڈ (صدر جمہوریہ ہند)
20مارچ،2020
کووڈ۔19 یعنی ’نوول کورونا وائرس‘ کی وبا نے پوری دنیا میں غیر معمولی صورتحال پیداکردی ہے۔ متعدی بیماری اور وبا کا پھیلنا بنی نوع انسانی کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پھر بھی اتنے بڑے پیمانے پر اس قسم کے وائرس کی وبا ہم سب کی زندگی میں ایک نیا واقعہ ہے۔ میری ہمدردی اس وائرس کے انفیکشن کا سامنا کررہے سبھی لوگوں اور پوری دنیا میں اس کے شکار ہوئے لوگوں کے خاندانوں کے ساتھ ہے۔ میری ہمدردی ان ڈاکٹروں، نرسوں، نیم طبی عملہ، صحت اہلکاروں اور ان سبھی دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہے جو اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر بنی نوع انسانی کی خدمت کررہے ہیں۔
ہمارے سامنے آئے شدید بحران کی اس گھڑی میں ہم وطنوں نے جس سمجھداری اور پختگی کا ثبوت دیا ہے، اس کی میں تعریف کرتا ہوں۔ ان کے تعاون سے، تمام اداروں کے لئے باہمی تعاون کے ساتھ مل جل کر کام کرناممکن ہو پار ہا ہے۔ہمارے صحت خدمات کے اداروں نے اس غیر معمولی اور مسلسل بڑھتے چیلنج سے نمٹنے میں بہت مستعدی برتی ہے اور اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے۔ ہماری قیادت اور انتظامیہ نے امتحان کی اس گھڑی میں اپنی صلاحیت ثابت کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم متحدہوکر اس بحران کا سامنا کرسکیں گے۔میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے شروع میں ہی اس وبا کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کئے اور گزشتہ ہفتے سارک کے ہمارے پڑوسی ممالک کو ساتھ لے کر اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی مشترکہ کوشش شروع کی۔ اس وبا نے ہمیں دوسروں کے ساتھ قابل احترام فاصلے کو برقرار رکھنے کے لئے مجبور کردیا ہے۔اپنی صوابدید پر یا ڈاکٹر وں کی جانب سے لازمی کیا گیا قرنطینہ، ہمیں اب تک کے سفر اور ہمارے مستقبل کی راہ پر غور و فکر کرنے کے لئے ایک مثالی موقع ثابت ہوسکتا ہے۔ آج کے اس مشکل دور سے گزرتے ہوئے ہمیں اس چیلنج کو ایک موقع میں تبدیل کرنا چاہئے او ریہ غور کرنا چاہئے کہ اس بحران کے ذریعے فطرت ہمیں کیا پیغام دیناچاہتی ہے۔ فطرت سے ہمیں کئی قسم کے اشارے مل رہے ہیں، لیکن میں صرف چند پہلوؤں پر مختصر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس بحران کا سب سے واضح او رپہلا سبق ہے صاف صفائی۔احتیاط برتنا ہے کورونا وائرس کے اس نئے مسئلہ سے نمٹنے کا واحد طریقہ ہے اور اس کے لئے ڈاکٹر یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ سماجی دوری کے علاوہ سبھی لوگ صاف، صفائی پر توجہ دیں۔ صاف صفائی برقرار رکھنا،اچھے شہری کے بنیاد ی خصوصیات میں شامل ہے۔ ان خصوصیات کو کم اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ خود مہاتما گاندھی نے ان خصوصیات کواوّلین ترجیح دینے کے لئے ہم سب کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ صاف صفائی اور سو چھتاجنوبی افریقہ اور ہندوستان میں ان کی تاریخی مہمات کااہم جزور ہا ہے۔1896 ء میں گاندھی جی ہندوستان کے دور ے پر آئے ہوئے تھے۔ اسی وقت بمبئی میں طاعون پھیل گیا۔طاعون کی روک تھام کے لئے انہوں نے حکومت کو اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ ان کی پیشکش کو قبول کرلیا گیا۔ چونکہ وہ راجکوٹ میں تھے اس لئے انہوں نے وہیں اپنی خدامات شروع کردی۔کیا آپ جانناچاہتے ہیں کہ ایک رضاکار کے طور پر انہوں کیا کام کیا؟ انہوں نے بیت الخلا’ء کی صورتحال دیکھی اورلوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ حفظان صحت پر خصوصی توجہ دیں۔ ہمیں اپنے روز مرہ کی زندگی میں گاندھی جی کی تعلیمات کواپنانے کی ضرورت ہے، اوران کے 150/ ویں یوم پیدائش کے اس سال میں ہم سب لوگ نجی او ر عوامی صاف صفائی کے مقصد کے تئیں نئے جوش کے ساتھ خود کو وقف کرسکتے ہیں۔
ہم سب کے لئے اگلا سبق یہ ہے کہ ہمیں فطرت کا احترام کرنا چاہئے۔ انسان ہی واحد ایسی نوع ہے جس نے دیگر سبھی نوع پر حق جما لیا ہے۔ مکمل زمین کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے او ریہاں تک کہ اس کے قدم چاند تک پہنچ گئے ہیں، لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ اتنی طاقتور بنی نوع انسانی اس وقت ایک چھوٹی مخلوق یعنی کو رونا وائرس کے سامنے لاچار ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آخرکار ہم سب انسان محض جاندار ہیں، اور اپنی زندگی کے لئے دیگر جانداروں پر انحصار کرتے ہیں۔ فطرت کو کنٹرول کرنے او راپنے فائدہ کے لئے سبھی قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کی تیاریاں، وائرس کے ایک ہی حملے سے تہس، نہس ہوسکتی ہیں اور وائرس بھی ایسا جو خوردبین کے بغیر نظر نہیں آتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے باپ دادا فطرت کو ماں کادرجہ دیتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ فطرت کا احترام کرنے کی تعلیم دی،لیکن تاریخ کے کسی موڑ پر ہم ان کے دکھائے راستے سے ہٹ گئے او رہم نے اپنی روایتی صوابدید کو ترک کردیا۔ اب وبائیں او رمعمول کے موسمی واقعات عام ہوتے جارہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم تھوڑا ساٹھہرکر یہ غور کریں کہ ہم راستے سے کہاں بھٹک گئے،او ریہ بھی کہ ہم صحیح راستے پر کس طرح واپس آسکتے ہیں؟
عالمی برادری کے لئے مساوات کاسبق اتنا واضح نہیں رہا ہے،لیکن فطرت یہ پیغام دیتی رہی ہے کہ اس کے سامنے ہم سب برابر ہیں۔ ذات،عقیدہ،علاقے یا دیگر کسی انسانی ساختہ امتیاز کو وائرس نہیں مانتا۔ طرح طرح کاامتیاز پیدا کرنے او راپنے پرائے کے جھگڑے میں دنیا مصروف رہتی ہے، پھر اچانک ایک دن کوئی سنجیدہ جان لیوا خطرہ ہمارے سامنے آکھڑاہوتا ہے۔ تب ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ انسان کے طور پر ہماری ایک ہی شناخت ہے۔ ہم سب ہر حال میں صرف اور صرف انسان ہیں۔ عام حالات میں، ہم لوگ باہمی انحصار کی زندگی کی قیمت کو بھی اکثر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ اپنی تقاریر او ربیانات میں، اکثرمیں ’واسودھیوکٹمبکم“ کے خیال کا ذکر کرتا ہوں۔ اس کامطلب ہے کہ سبھی دنیا ایک ہی خاندان ہے۔ یہ بیان آج کے تناظر میں جس قدر قابل قدر ہے اتنا پہلے کبھی نہیں رہا۔ آج ہمارے سامنے یہ واضح ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔ ہم سب وہیں تک محفوظ ہیں جہاں تک ہم دوسروں کی حفاظت کا دھیان رکھتے ہیں۔ ہمیں صرف انسانوں کی ہی نہیں بلکہ درخت، پودوں اور جانوروں او رپرندوں کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ غیر معمولی بحران پیدا ہونے پرزیادہ ترلوگ خود غرض ہوجاتے ہیں،لیکن موجودہ بحران ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے برابر ہی دوسروں کی بھی فکر کرنی چاہئے۔
یہ وبا کافی متعدی ہے اس لئے لوگوں کو جمع کرکے رضا کا رانہ خدمات دینے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی ہے۔ پھر بھی وائرس کی روک تھام اورخاتمے کے کام میں لوگ کئی طریقوں ص سے مدد کر سکتے ہیں۔ بیداری میں اضافہ اور گھبراہٹ سے بچانے میں ہر شہری اپنا تعاون دے سکتا ہے۔ جو اہل ہیں وہ اپنے وسائل سانجھا کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے پڑوسیوں کے ساتھ جن کے پاس کم سہولیات ہیں۔
فطرت ہمیں یہ یاد دلانا چاہتی ہے کہ ہم مکمل عاجزی کے ساتھ، مساوات اورباہمی انحصار کی بنیاد ی زندگی کے اقدار کوقبول کریں۔ یہ سبق ہم نے بہت بھاری قیمت چکا کر حاصل کی ہے، لیکن ماحولیاتی بحران جیسے عالمی چیلنجوں کا سامنا کرنے اور بہتر مشترکہ مستقبل کی تعمیر میں یہ سبق ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوگا۔ میں آپ کو سب کے ساتھ اس اجتماعی عزم کو دوہرا تا ہوں کہ ہم سب موجودہ بحران سے جلد باہر آئیں گے اور ایک قوم کے طور پر بے مثال طاقت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
20مارچ،2020 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/understand-message-nature-president-ramnath/d/121349
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism