ودود
ساجد
18 جون،2023
22ویں
لاکمیشن آف انڈیا نے ’غداری کے قانون‘ کو مزید سخت بنانے کی جو آتش گیر سفارش کی
ہے وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی دیرینہ خواہش اور مشاہدات کے عین
برعکس ہے۔ یہاں تک کہ یہ سفارش خود مرکزی حکومت کے اس عزم کے بھی خلاف ہے جس
کاوعدہ اس نے عدالت عظمی میں کیا ہے۔سپریم کورٹ میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124Aکے
خلاف متعددرٹ پٹیشن زیر سماعت ہیں۔ حکومت نے جو حلف نامہ عدالت میں داخل کرر کھا
ہے اس میں کہا گیا ہے کہ’’ وزیر اعظم اس خیال کے ہیں کہ ہمیں
ایک ملک کی حیثیت سے انگریزی استعمارکے ذریعہ لادے گئے
اس بوجھ کواتارنے‘بشمول ان فرسودہ قوانین اورعمل کوختم کرنےکیلئے‘جن کی افادیت اب
ختم ہوگئی ہے‘ اور زیادہ محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ لیکن لا کمیشن چاہتا ہے
کہ غداری کے قانون کو نہ صرف باقی رکھا جائے بلکہ اسے مزید سخت کرکے اس کے ذیل میں
دی جانے والی تین سال کی سزا کوبڑھاکر سات سال کردیا جائے۔اس ضمن کےدوسرے نکات کے
علاوہ یہ جاننابھی ضروری ہے کہ آخر حکومت اور عدالت کی رائے کے خلاف لا کمیشن
جارحیت سے بھرپوراتنی منفی اور غیرانسانی رائے کیوںرکھتا ہے۔
2021میں
دوسرے عرضی گزارو ں کے علاوہ میسورمیں مقیم فوج کے ایک
80سالہ (ریٹائرڈ) میجرجنرل سدھیر وومباٹکیرے نے بھی سپریم کورٹ میں ایک رٹ
دائرکرکے آئی پی سی کی دفعہ 124Aکوختم
کرنے کی استدعا کی تھی۔انہوں نے اس قانون کے انتہائی جابرانہ استعمال کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون بجائے خود غیر آئینی ہے اور انگریزوں کے زمانے کا
وضع شدہ ہے‘ لہٰذا اب اسے ختم کیا جانا چاہئے۔یہ ایک حیرت انگیز اور خوشگوارواقعہ
ہے کہ سپریم کورٹ نے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ124Aکے
استعمال اور اس کے نفاذ پر اگلی سماعت تک پابندی عاید کردی تھی۔عدالت نے حکومت
کواس امر کی اجازت بھی دیدی تھی کہ وہ دفعہ124A اور اس کی ذیلی شقوں پر نظر ثانی کرے۔سپریم کورٹ نے نہ صرف حکومت
سے کہا کہ وہ فی الحال اس دفعہ کے تحت مقدمات درج کرنے سے احتراز کرے بلکہ اس دفعہ
کے تحت درج مقدمات میں ماخوذ اور جیل میں مقید افراد سے بھی کہا کہ وہ ضمانت کے
حصول کیلئے عدالتوں کا رخ کرسکتے ہیں۔’فرسٹ پوسٹ‘ نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ سےاتنی
بڑی راحت کا حصول ممکن نہ تھا اگراس سلسلہ میں متعدد رٹ پٹیشن دائر نہ کی جاتیں۔
ان تمام عرضی گزاروں کی قیادت میجر جنرل سدھیر وومباٹکیرے نے کی اوراس محاذ پر
انہوں نے ناقابل فراموش کردارادا کیا۔
میجر جنرل سدھیر
وومباٹکیرے ایک متحرک قسم کے سماجی رضاکار ہیں۔ انہوں نے ماحولیات اور حقوق انسانی
سے متعلق مختلف اشوز ٖپرتحریکیں بھی چلائی ہیں۔انہوں نے میسورکے آثار قدیمہ کے
تحفظ کیلئے بھی مہم چلائی ہے۔عمر کے 80سال پار کرنے کے باوجودوہ آج بھی سائیکل پر
گھوم کر لوگوں کو مختلف سماجی
اشوزسے متعلق بیدار کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک کارنامہ ایسا بھی ہے کہ جس کے
سبب وہ مختلف عناصراور خاص طورپرشرپسندوںکی آنکھوں کا کانٹا بھی بن گئے ہیں۔انہوں
نے ہی سب سے پہلے ہری دوار میں منعقد دھرم سنسدمیں کی جانے والی زہرافشانی کے خلاف
سپریم کورٹ میں پٹیشن دائرکرکے خصوصی تحقیقاتی ٹیم(ایس آئی ٹی) کی تشکیل کا
مطالبہ کیا تھا۔دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف جو زہر افشانی کی گئی تھی ماضی
قریب میں اس کی چند ہی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ دھرم سنسد جیسے ہی واقعات تھے جن کے
سبب سپریم کورٹ نے جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی میں پورے ملک کی پولیس کو حکم
دیاکہ وہ نفرت انگیز تقریروں اور پروگراموں کے
خلاف کسی شکایت کے درج ہونے کا انتظار کئے بغیر کارروائی کرے۔یہ حکم اب ایک قانون
کی حیثیت رکھتا ہے۔
مئی 2022میں عرضی گزاروں
کے وکیل کپل سبل نے دعوی کیا تھا کہ غداری کے قانون کے تحت پورے ملک میں 800مقدمات
درج ہیں جن کے تحت13ہزار افراد جیلوںمیں بند ہیں۔واضح رہے کہ اس قانون کے تحت ماخوذ
افراد کو ضمانت حاصل کرنے کا حق نہیں تھا کیونکہ اس دفعہ کے تحت سرزد ہونے والا
جرم ناقابل ضمانت تھا۔لیکن سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد اس دفعہ کے تحت ضمانت
کا حصول ایک ضابطہ بن گیاہے۔سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے بعد قانونی حلقوں میں
کچھ شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے تھے کہ آیاہدایت کے
الفاظ کے پیش نظر حکومت‘پولیس‘ٹرائل کورٹس اور ہائی کورٹس اس ہدایت پر عمل بھی
کرسکیں گی؟۔حمزہ لکڑوالا اور نوجوت پونیاکی ایک تحقیق کے مطابق سپریم کورٹ کی اس
ہدایت کے دو ماہ بعدکا جائزہ بتاتا ہے کہ متعدد معاملات میں مقامی عدالتوں اور
مختلف ہائی کورٹس نے ماخوذ افراد کو ضمانتیں بھی دیں اور ان کے خلاف دفعہ124Aکے
تحت جاری سماعتوں کو روک بھی
دیا۔ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ متعدد معاملات میں پولیس نے دفعہ124A کے علاوہ دوسری دفعات اور خاص طورپرجارحیت سے بھرپورقانون یواے پی
اے کے تحت بھی لوگوں کو ماخوذ کررکھا
ہے۔ظاہر ہے کہ انہیں غداری کےقانون کی دفعات میں ضمانت ملنے کے باوجود دوسرے سخت
قوانین اور دفعات کے سبب جیلوں میں ہی رہنا پڑرہا ہے۔
یہ بات تو حیرت انگیزتھی
ہی کہ مجاہدین آزادی کے خلاف انگریزوں کے بنائے ہوئے اس قانون کو آزاد ہندوستان
کی قانون ساز اسمبلی نے برقرار رہنے دیا‘ یہ بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے کہ
1962میں سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی آئینی بنچ نےاس قانون کو جائز قرار دے
دیا۔یہ فیصلہ ’کیدار ناتھ ساہنی بنام بہار سرکار‘کے طورپرمشہور ہے۔میجرجنرل
سدھیراور دوسرے فریقوں نے تازہ معاملہ میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وقت گزرنے کے
ساتھ اس قانون کے استعمال اور نفاذ کے بعدکچھ نئی صورتحال قائم ہوئی ہے اورسپریم
کورٹ تازہ حقائق کی بنیاد پر اس قانون پر از سرنو سماعت کرسکتی ہے۔مرکزی حکومت نے
یہ کہتے ہوئے سہ رکنی بنچ کے ذریعہ ان عرضیوں کی سماعت پر اعتراض کیاکہ سپریم کورٹ
کی پانچ رکنی آئینی بنچ اس پر فیصلہ سناچکی ہے۔عین اس وقت جب چیف جسٹس رمنا‘جسٹس
سوریہ کانت اورجسٹس ہیما کوہلی کی بنچ یہ فیصلہ کرنے ہی والی تھی کہ ان عرضیوں پر وہ خود سماعت کرے یا بڑی بنچ کو
منتقل کردے مرکزی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرکے کہہ دیا کہ چونکہ انگریزوں کے
زمانے کے قوانین کو ہم تبدیل یا ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں اس لئے غداری کے قانون
پر بھی نظر ثانی اور از سرنوغورکرنے کو تیار ہیں۔تاہم حکومت نے واضح طورپر یہ نہیں
بتایا کہ نظر ثانی کی مدت کے دوران وہ اس قانون کے استعمال اور نفاذسے باز رہے گی
یا نہیں۔لیکن سپریم کورٹ نےیہ کہتے ہوئے اس قانون کے استعمال پراگلی سماعت تک
کیلئے پابندی عاید کردی کہ خو د حکومت بھی عدالت کی اس بادی النظررائےکی تائیدکر
رہی ہے کہ یہ قانون فرسودہ ہوچکا ہے۔
لاکمیشن کے چیرمین جسٹس
ریتو راج اوستھی نے بجا طورپرسمجھا ہوگاکہ ان کے موقف سے حکومت خوش ہوگی۔لیکن
حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل
کرکے اپنی خوشی کوپہلے ہی رہن رکھ دیا ہے۔ جسٹس اوستھی نے ابھی ہار نہیں مانی
ہے۔اب انہوں نے یونیفارم سول کوڈ پرمشورے طلب کرکے حکومت کو خوش ہونے کا ایک اور
موقع دیدیا ہے۔حالانکہ ان سے پہلے 21ویں لاکمیشن نے وضاحت کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ
’اس مرحلہ پر یونیفارم سول کوڈ نہ ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب ہے‘۔21ویں لا کمیشن کے
چیرمین جسٹس بی ایس چوہان تھے جن کی مدت 31اگست 2018کو ختم ہوگئی تھی۔22ویں لا
کمیشن کے چیرمین کا عہدہ جسٹس اوستھی نے 9نومبر2022کو سنبھالا تھا۔وہ 2جولائی
2022کو کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تھے۔یہ جسٹس اوستھی
ہی تھے جن کی قیادت والی سہ رکنی بنچ نے 15مارچ 2022کوکرناٹک میں حکومت کے ذریعہ
مسلم طالبات کے حجاب اوڑھنے پر پابندی کے فیصلہ کو درست قراردیا تھا۔اب مذکورہ دو
اشوز پران کے موقف سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔انہوں نے وہی کیا جو ان سے متوقع
اور مطلوب تھا۔ ہر چند کہ لاکمیشن کوئی آئینی ادارہ نہیں ہے اور حکومت اس کی
سفارشات کو ماننے کی پابند نہیں ہے تاہم ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ غداری کے
قانون کو عملی طورپر معطل کرچکی ہے‘لاکمیشن احیاپسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے
استعماریت کے ظلم کی تائید کررہا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر
ایڈوکیٹ کلیسورم راج نے لکھا ہے کہ غداری قانون کے سلسلہ میں
لاکمیشن کی مذکورہ رپورٹ نہ تو تحقیقی ہے اور نہ ہی
متوازن ہے۔ یہ ایک جانبدارانہ رپورٹ ہے اور اس کا ہندوستان میں حقوق انسانی کے
تصورپر تباہ کن اثر پڑسکتا ہے۔ایسے وقت میں
جب سپریم کورٹ اس امر پرسنجیدگی سے غورکررہا ہے کہ
’کیدارناتھ ساہنی‘کافیصلہ نظر ثانی کا متقاضی ہے‘لاکمیشن کو اور زیادہ محتاط‘ حساس
اور باخبر رہنا چاہئے۔اگر لاکمیشن کی سفارش کو تسلیم کرلیا گیا تو غداری کے قانون
میں اور زیادہ سفاکیت
آجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت میں اپنے واضح حلف نامہ کے باوجود مرکزی حکومت
ایسا کرسکتی ہے؟بظاہرمشکل معلوم ہوتا ہے لیکن یقین کے ساتھ کچھ کہنا بھی مشکل ہے۔
لا کمیشن سے بجا طورپریہ امیدکی جاتی ہے کہ وہ حقوق انسانی کے تعلق سے حساس رویہ
اختیار کرے گالیکن اس نے غداری کے قانون کے سلسلہ میں حقوق انسانی ‘آزادی اظہاراور
شخصی آزادی سے متعلق ان عالمی معاہدوں تک کا خیال نہیں
رکھا جن پرہندوستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔لا کمیشن کو ایک طرف جہاں غداری قانون کے
متن اور اس کے الفاظ پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے وہیں اس نے یہ نتیجہ بھی
اخذکرلیاہے کہ ہندوستان کی داخلی سلامتی کو لاحق خطرہ حقیقی ہے جبکہ غداری قانون
کے ناجائز استعمال کی بات محض الزام ہے۔
لاکمیشن کو غداری کے
قانون کے استعمال کا الزام فرضی لگ رہا ہے۔کیا واقعی جسٹس اوستھی کو علم نہیں ہے
کہ درجنوں واقعات میں ماخوذافراد آخر کارباعزت بری ہوچکے ہیں۔ایک واقعہ تو بہت
تازہ ہے۔14جون 2023 کو کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس ہیمنت چند نگودرکی بنچ نے بیدر کے
مشہور شاہین اسکول کی انتظامیہ سے وابستہ چار افراد کے خلاف غداری کی ایف آئی آر
کو کالعدم کردیا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ سی اے اے کے خلاف ایک ڈرامہ پیش کرنے پر
اسکول کی ہیڈ مسٹریس اورمکالمہ ادا کرنے والی بچی کی والدہ کو پولیس نے متعدد
دفعات سمیت غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔یہی نہیں پولیس نے’جوینائل ایکٹ‘
کی خلاف ورزی کرتے ہوئےکم سن بچوں تک کووردی میں
ملبوس ہوکر پوچھ تاچھ کرکے دہشت زدہ کیا تھا۔کتنے ہی
دنوں تک شرپسند چینل اسکول کو بدنام کرتے رہے۔اسکول انتظامیہ اتنے عرصہ تک ہیبت
میں رہی۔اب ہائی کورٹ نے نہ صرف غداری کی دفعات کو بلکہ دوسری تمام دفعات کو بھی
کالعدم کردیااور اسکول انتظامیہ کے چار افرادکےخلاف جاری مجرمانہ مقدمہ کو ختم
کردیا۔
حسب دستور زیر نظر موضوع
کے بہت سے نکات اور پہلو ابھی باقی ہیں لیکن وہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے جو میں
عرصہ سے کرتا آرہا ہوں۔کیا اب بھی ہمارے اداروں‘ انجمنوں‘جماعتوں اور تنظیموں کو
ایک ایسے مشترکہ لیگل ریسرچ سیل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جو اس طرح کے اشوز پر
نظر رکھے؟اگر ایسا کوئی شعبہ ہوتا تو وہ مکمل اعدادوشمار کے ساتھ جسٹس اوستھی کو
جاکردکھاتا اور کہتا کہ آپ کہتے ہیں کہ غداری قانون کے ناجائز استعمال کی بات محض
الزام ہے‘جبکہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ غداری کے محض فرضی الزامات لگاکر سینکڑوں بے قصور زندگیاں تباہ وبرباد کردی گئی
ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ ہماری جماعتوں کو جسٹس اوستھی کی سفارش کا بھی کچھ علم ہے
یا نہیں لیکن یہ ضرورہے کہ
’ناقابل قبول‘ اور ’ناقابل برداشت‘ جیسے بیانات جاری کرنے میں ہم پیچھے نہیں ہیں۔
18 جون،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism