ارشد عالم، نیو ایج اسلام
21 مارچ 2022
ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اسلامو
فوبیا کی ہیئت اور شکل و صورت کی وضاحت کرے
اہم نکات:
1. اقوام متحدہ نے 15 مارچ
کو اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی دن قرار دیا ہے۔
2. تمام مسلم ممالک نے مذکورہ
قرارداد کی حمایت کی ہے؛ سب سے بڑا محرک پاکستان ہے۔
3. اس حقیقت سے انکار نہیں
کیا جا سکتا کہ اسلامو فوبیا روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا میں زوروں پر ہے۔
4. لیکن اسلامو فوبیا قدامت
پرست لوگوں کا ایک ہتھیار بھی بن سکتا ہے تاکہ ایک نظریاتی نظام کے طور پر اسلام کی
منصفانہ تنقید کا بھی سد باب کیا جا سکے۔
----
اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو
اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عالمی دن کے طور پر منانے کے لیے جو قرارداد
منظور کی ہے اس پر خود مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس
قرارداد کا مرکزی محرک خود ریاست پاکستان ہی اس کی شروعات کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ
ہے۔ عمران خان نے اپنی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ کی ابتدائی اسلامی ریاست کی
طرز پر ایک نیا پاکستان قائم کریں گے۔ تعلیمی اور معاشی ترقی کے میدان میں اپنی قوم
کو دکھانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے، لہذا خود کو مسلم دنیا کا مسیحا بنا کر پر
پیش کرنا آسان ہے۔ ان کی حکومت کو مذہبی اقلیتوں اور حتیٰ کہ احمدیوں اور شیعوں جیسی
چھوٹی مسلم اقلیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ بار
ہا انتہاپسند سنی جماعتوں اور تحریکوں کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہیں جو ملک کے معاملات
میں زیادہ سے زیادہ عمل دخل چاہتے ہیں۔ ایسی جماعتوں اور تحریکوں نے کامیابی کے ساتھ
حکومت پاکستان کو کئی مواقع پر یرغمال بھی بنایا ہے اور تعلیمی نظام میں ایسی تبدیلیوں
کا مطالبہ کیا ہے جن کے پاکستانی نسلوں پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ پرویز
ہودبھائے نے لکھا ہے، پاکستان میں ایسے لوگوں کو نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کی نگرانی
کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جو تعلیم نظام سے یا تو باکل ناواقف ہیں یا اس کا کم علم
رکھتے ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ لبرل تعلیمی نظام کا خاتمہ ہو گا
جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ لہٰذا، جہاں اقوام متحدہ کی قرارداد کو حتمی شکل دینے پر دنیا
عمران خان کی تعریف کر رہی ہے، وہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انہوں نے اسلام
کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، جس میں خود ان کا اپنا پروموشن بھی شامل
ہے۔
تقریباً تمام مسلم ملکوں نے
اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے ایسا اپنی داخلی سیاست کی مجبوری اور اسلامو فوبیا
پر پابندی کے حق میں پائے جانے والے زبردست جذبات کے تحت کیا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ
یہ اصطلاح اتنی شائع ہو چکی ہے کہ حکومتیں اختلاف رائے اور آزادی اظہار کو روکنے کے
لیے اس کا استعمال کر سکتی ہیں۔ اسلام پر تقریباً ہر تنقید کو اسلامو فوبیا کہا جا
سکتا ہے اور اس میں شریعت پر تنقید حتیٰ کہ خود ریاست یا حکومت کی تنقید بھی شامل ہو
سکتی ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک غیر جمہوری ہیں اور سماجی اور سیاسی آزادی کے لحاظ سے
بہت پیچھے ہیں۔کسی بھی عرب ملک میں سیاسی نمائندگی بڑھانے کی مہم کو حکومت اسلامیہ
کی بنیاد کو کمزور کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اور تو اور خود جمہوریت کے تصور کو
غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مہم چلانے والوں پر بھی الزام لگایا جا سکتا ہے اور
انہیں اسلامی نظام کا ’فوبک‘قرار دیکر ان پر اسلاموفوبک ہونے کا مقدمہ چلایا جا سکتا
ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد سے لیس ہو کر ایسی حکومتیں ایک نئے قانونی جواز کے ساتھ
سیاسی اختلاف رائے پر حملہ آور ہو سکیں گی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ
اسلامو فوبیا جیسی کسی بھی چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ مرض صدیوں سے اور شاید
اسلام کے عروج کے بعد سے ہی موجود رہا ہے جسے ابتدائی دور کے عیسائیوں نے جھوٹا مذہب
کہا تھا۔ کچھ اناجیلی جماعتیں اب بھی ایسا ہی سوچتی ہیں اور اسلام کو وہ مقام دینے
سے انکار کرتی ہیں جو وہ دوسری مذاہب کو دیتی ہیں۔ مزید برآں، حالیہ برسوں میں، خاص
طور پر 11/9 کے بعد سے، اسلامو فوبیا کی انڈسٹری میں اضافہ ہوا ہے۔ نظریاتی تنظیموں
کی مالی امداد یافتہ ایسے سیاست دانوں، پالیسی سازوں اور کارکنوں کی ایک وسیع جماعت
موجود ہے جو اسلام کی اصل اور دنیا کی ایک بڑی آبادی کو بامعنی بنانے کی اس کی اہمیت
کو جھوٹا قرار دینے کے واضح ارادے کے ساتھ اسلام کا مذاق اڑانے کو اپنا محبوب مشغلہ
بنا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں کئی ایسے سوشل میڈیا ہینڈل اور چینلز بنائے
گئے ہیں جن کا کام چوبسوں کھنٹے اسلام اور اس کی تعلیمات کو بدنام کرنا ہے۔ مرکزی دھارے
کے نیوز چینل ان کی اس مذموم کوششوں میں مدد کر رہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے متعلق
جھوٹی خبریں پھیلانے میں پلک جھپکنے کی بھی دیر نہیں کرتے۔
اس کے باوجود ہمیں یہ نہیں
بھولنا چاہیے کہ اسلام پر بطور ایک نظریاتی نظام اور راسخ العقیدگی کے طور پر منصفانہ
تنقید کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیا بھر میں مسلمانوں کا اسلام چھوڑنے اور خود
کو سابق مسلمان کہنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہوں
نے اسلام اس لیے چھوڑ دیا کیوں کہ انہیں دین کے بارے میں اپنے سوالات کے جوابات نہیں
ملے۔ کچھ لوگوں نے دین اس لیے چھوڑ دیا کیونکہ ان کے مطابق مذہب میں سائنسی تصدیق،
صنفی مساوات، متبادل جنسی رجحانات اور حتیٰ کہ انسانی حقوق کے بارے میں ان کے خدشات
کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو
سوال کرنا چاہتی ہے لیکن کر نہیں سکتی کیونکہ انہیں اپنی جان کا خوف ہے۔ مسلم اکثریتی
خطوں میں ارتداد اور توہین مذہب ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سعودی عرب میں رائف بدوی جیسے
شہریوں پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا اور کئی سالوں تک ان سے ان کی آزادی چھین
لی گئی کیونکہ انہوں نے حکمران خاندان سے کچھ ناگوار سوالات پوچھ لیے تھے۔ عرب ممالک
میں بعض ناقدین پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ وہ عدالتوں سے رہائی تو حاصل کر
سکتے ہیں لیکن لوگوں کے ذہنوں میں وہ ہمیشہ ایک ملزم رہتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی
زندگیاں ہمیشہ کے لیے خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض عرب دانشور ایسے ہیں جنہوں
نے صرف اسلامی فقہ کو جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا ہمیں ان کے تمام
خدشات کو اسلامو فوبک قرار دے کر ان سے پلہ جھاڑ لینا چاہیے؟
اقوام متحدہ نے اسلام پر تنقید
کے نام پر تعصب کو مسترد کر کے ایک اچھا کام کیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اس
بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ اسلامو فوبیا کی نوعیت اور ہیئت کیا ہوگی اور اسے اسلام
پر منصفانہ تنقید سے جدا نہیں کیا ہے۔ اسلامو فوبیا کی حدود تعین نہ کرنا خاص طور پر
پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے جو مذہب اسلام کو علمائے کرام کی پرتشدد
تشریحات سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
English
Article: Why UN’s Islamophobia Resolution Troubles Moderate
Muslims
Malayalam
Article: Why UN’s Islamophobia Resolution Troubles Moderate
Muslims എന്തുകൊണ്ടാണ്
യുഎന്നിന്റെ ഇസ്ലാമോഫോബിയ പ്രമേയം മിതവാദികളായ മുസ്ലീങ്ങളെ ബുദ്ധിമുട്ടിക്കുന്നത്
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism