عادل فاروق، نیو ایج اسلام
10 دسمبر 2021
اتحاد، فکری اختلافات کے باوجود
محبت، امن، ہمدردی، بھائی چارے اور خیر سگالی کے ساتھ رہنے کا نام ہے۔
اہم نکات:
تمام اسلامی اداروں کو خود
کو صرف مسلمان کہنا چاہیے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
مقصد فکری اختلافات کو ختم
کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو باہمی احترام کے ساتھ جینا سکھانا ہونا چاہیے۔
کسی بھی نظریے کو آخری سچائی
نہیں کہا جا سکتا۔
-----
مسلمانوں کے زوال کی سب سے
بڑی وجہ اتحاد امت کا فقدان ہے۔ یہ بات سب کو پہلے سے معلوم ہے لیکن اتحاد کے فقدان
کی وجوہات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ لہٰذا اس کا حل بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ زیادہ تر
لوگوں کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ اتحاد سب کو ایک ہی رائے، ایک ہی نظریے اور ایک
ہی عقائد پر متحد کرنے کا نام ہے۔ یہ انسانی طور پر ناممکن ہے اور اسے اتحاد بالکل
نہیں کہا جا سکتا۔ اتحاد فکری اختلافات کے باوجود محبت، امن، ہمدردی، بھائی چارے اور
خیر سگالی کے ساتھ رہنے کا نام ہے۔ مقصد فکری اختلافات کو ختم کرنا نہیں بلکہ لوگوں
کو یہ سکھانا ہے کہ فکری اختلافات کے باوجود باہمی احترام کے ساتھ کیسے جینا چاہیے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنا اختلاف کیوں ہے؟ مذہبی مسلمانوں کی کئی قسمیں ہیں۔
ہر طبقہ خود کو صحیح اور دوسروں
کو غلط سمجھتا ہے۔ اس طرح ہر طبقہ اسلام کی صرف اپنی ہی تشریحات کی تبلیغ کرتا ہے،
تعلیم دیتا ہے، توثیق کرتا ہے اور اسے ہی فروغ دیتا ہے۔ اس طرح ہر طبقے کے پیروکار
اور طلباء فطری طور پر اپنی جماعت کے لیے برتری کا احساس پیدا کر لیتے ہیں اور دوسروں
کو شعوری یا لاشعوری طور پر حقیر سمجھتے ہیں چاہے وہ کھلے عام اس کا اظہار کریں یا
نہ کریں۔ یہ نفسیات بذات خود اتحاد کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن ہے اور افسوس کی بات
ہے کہ انتشار سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ میں نے جس مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔ اس کا حل کیا
ہے؟
پوری دنیا کے مسلم ممالک میں
تمام اسلامی اداروں کا صرف اور صرف مندرجہ ذیل طریق کار ہونا چاہیے:-
گورننس/قیادت/انتظام/انتظامیہ
اور خاص طور پر فیکلٹی ممبران کا کسی بھی طبقے سے کوئی وابستگی یا لگاؤ نہ ہو۔ انہیں
صد فیصد غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ وہ خود کو صرف مسلمان کہیں اور کچھ نہیں۔ کسی بھی
ایسے شخص کے لیے داخلے کا دروازہ یکساں طور پر کھلا ہونا چاہیے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ
کرتا ہو چاہے آپ اسے مسکمان مانیں یا نہ مانیں۔ ایک ہی درسگاہ میں تمام طلباء کے سامنے
استاذ کو تمام فرقے کے نقطہ نظر کو پڑھانا چاہیے خواہ وہ سنی (اور اس کے ذیلی فرقے)
ہوں یا شیعہ (اور اس کے ذیلی فرقے) ہوں، سب کو یکساں طور پر فکری ایمانداری، دلائل
اور تفصیلات کے ساتھ بغیر تعصب، تنگ نظری، امتیازی سلوک، اور حقائق کو مسخ کیے بغیر
پڑھانا چاہیے۔ طلباء کو استاد کسی ایک رائے کو تسلیم کرنے پر مجبور نہ کریں۔ اب یہ
مکمل طور پر طلباء کے اوپر ہوگا کہ وہ جس بھی نقطہ نظر کو بہتر سمجھیں اسے ہی تسلیم
کریں۔ وہ بغیر کسی خوف و خطر کے جو بھی بننا چاہتے ہیں بن سکتے ہیں۔ قادیانیوں کا نقطہ
نظر بھی پوری طرح شامل نصاب ہونا چاہیے لیکن اس کی غلطیوں ثابت کرنا اور اس کی خامیوں
کو اجاگر بھی کرنا چاہیے تاکہ فارغ التحصیل بعد میں قادیانیوں میں دعوۃ کا کام کر سکیں۔
قادیانیوں کو تبدیل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان سے بات کی جائے اور انہیں شائستگی
سے سمجھایا جائے کہ ان کی رائے غلط ہے کیونکہ اچھے لوگ ہر ایک طبقے میں ہوتے ہیں ان
کا فیصلہ صرف اللہ ہی کر سکتا ہے۔ ہم کسی کا فیصلہ بالکل نہیں کر سکتے۔ بس انہیں کافر
کہنا کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ آپ کو انہیں یہ ثابت کر کے دکھانا ہوگا کہ یہ کفر کیوں
ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ ان کے لٹریچر کو پوری تفصیل کے ساتھ جانتے ہوں۔ اسی طرح
شیعہ فرقہ کے اندر صرف ایک ہی ذیلی فرقہ ہے: کفر، اور طلباء کو صرف اسے غلط ثابت کرنے
کے لیے اس کا صحیح مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس انوکھے خیال کے پیچھے یہ
فلسفہ ہے کہ ہر طبقے کے مسلمانوں کو یہ بات واضح طور پر جان لینی چاہیے کہ دوسرے طبقے
بھی حق کی تلاش میں مخلص اور دیانت دار ہیں۔ وہ بالکل بھی برے یا گمراہ لوگ نہیں ہیں۔
وہ بالکل بھی بے وقوف نہیں ہیں اور جو کچھ بھی مانتے ہیں اس پر یقین کرنے کی ان کی
اپنی ٹھوس وجوہات ہیں۔
کسی بھی طبقے کو صرف خود کو
اہل حق کہنے کا کوئی حق نہیں۔ کسی بھی طبقے کو ایک حتمی حقانیت کا علمبردار نہیں کہا
جا سکتا۔ مکمل حقیقت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ قیامت کے دن صرف وہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ
کون صحیح ہے اور کون غلط۔ ہمارا کام لوگوں کا فیصلہ کرنا نہیں ہے بلکہ انہیں شک کا
فائدہ دینا ہے کہ وہ بھی صحیح ہو سکتے ہیں۔ جس چیز کے ہم قائل ہو جائیں تو ہم یہ توقع
نہیں کر سکتے کہ باقی تمام لوگ بھی اس کے قائل ہو جائیں۔ ہم صرف اتنا ہی دعویٰ کر سکتے
ہیں کہ ہم نے سچ تک پہنچنے کی پوری کوشش کی اور ہمارے فرقے اس عمل میں دوسروں سے زیادہ
ہماری توجہ حاصل کی لیکن دیگر فرقے بھی درست ہو سکتے ہیں۔ اس کا انجام صرف اللہ ہی
جانتا ہے۔ یہی وہ نفسیات ہے جو سوچ و فکر کے تمام تر اختلافات کے باوجود باہمی احترام
اور اعتماد پیدا کرتی ہے جو کہ بالکل فطری ہے اور اس وقت کی ضرورت بھی۔
---
English Article: Reasons for the Lack of Unity and Ways to Unite
Muslim Ummah
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism