New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 02:42 AM

Urdu Section ( 5 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What Will Ultimately Happen To This Game Of Hatred? سوال یہ ہے کہ نفرت کے اس کھیل کا انجام کیا ہوگا؟

جمال رضوی

3 ستمبر،2023

اس وقت ملک ایک ایسے نازک دور سے گزر رہا ہے جو ملک کی اس شناخت کیلئے خطرہ بنتا جا رہا ہے جس شناخت کی بنا پر اس ملک کو عالمی سطح پر عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھاگیا۔ یہ عالمی شناخت اگر چہ اب بھی بنام جمہوریت ملک کو ایک امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے لیکن اس امتیاز کا وہ روشن حوالہ جسے قومی اتحاد اور سماجی ہم آہنگی کہا جاتا ہے ،وہ حوالہ اب دن بہ دن دھندلاتا جا رہا ہے۔فرقہ وارانہ منافرت کی سم آلود ہواؤں نے ملک کی فضا کو اس حد تک مکدر بنا دیا ہے کہ اب محبت اور اخوت کا رویہ سماج سے عنقا ہوتا جا رہا ہے۔شدت پسند ہندوتوا پر مبنی افکار نے ایک دہائی قبل ملک کے مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کا بیج بویا تھا اب وہ رفتہ رفتہ ایک ایسے پودے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جو اپنے گرد و اطراف میں دوسری نسل کے پودوں کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتا۔اس حقیقت کو اب تسلیم کر لینا چاہئے کہ دادری کے اخلاق احمد سے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا، اب وہ پوری طرح ملک کو اپنے حصارمیں لے چکا ہے۔ یہ سلسلہ بہ ظاہر ہجومی تشدد کی وارداتوں پر مبنی بھلے ہی نہ ہو لیکن جس طرح کی مذہبی منافرت نے ملک کے طول و ارض کو اپنے دائرے میں لیا ہے اس کا نقطہ ٔ آغازملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف کئے گئے وہ پر تشدد اقدامات ہی رہے ہیں جن میں کئی بے گناہوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ۔ اس ضمن میں مزید افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ جب وطن عزیز کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی تجربہ گاہ میں تبدیل کیا جارہا تھا تو نام نہاد مسلمان قیادت کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی نہیں تھی جو مسلمانوں کو اس کا ہدف بننے سے محفوظ رکھ سکے۔ آج جبکہ حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اسکولوں اور بازاروں میں نفر ت کا یہ کھیل اپنا رنگ دکھا رہا ہے،تب بھی نام نہاد مسلم قیادت مجبور محض نظر آ رہی ہے۔

ترپتا تیاگی جس نے شعبۂ تدریس کا وقارمجروح کردیا ہے

-----------

 یہ مسلمانوں کی بد نصیبی ہے کہ آزادی کے بعد انھیں جو قیادت ملی اس کو قوم کے اجتماعی مسائل و معاملات سے زیادہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کی سبیل کرنا زیادہ عزیز رہا ہے۔آج بھی نام نہاد مسلمان قیادت بیشتر اسی راہ پر چلتی نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں جو حالات درپیش ہیں ان سے مقابلہ اس قوم کو اپنی فہم و دانش اور موثر و نتیجہ خیز حکمت عملی کے ذریعہ کرنا ہوگا لیکن اس مرحلے پر بھی وہ اجتماعی شعور ناپید ہے جو پوری قوم کو سماجی سطح پر اس طور سے متحد رکھ سکے کہ دوسری قوم کے افراد مسلمانوں کے داخلی انتشار کا فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔آج شدت پسند ہندوتوا کے حامیوں کے حوصلے اس حد تک بلند ہو چکے ہیں کہ انھیں کم عمر بچوں پر تشدد کرتے وقت لطف آتا ہو تو یہ بہت کچھ مسلمانوں کو اس ناعاقبت اندیشی کا بھی نتیجہ ہے جو وقتی اور عارضی مفاد کے عوض اپنے مستقبل کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔

 یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ مسلمان اس وقت کئی سطحوں پر ایک ایسے حبس میں مبتلا ہیں کہ اگر یہ کیفیت تادیر باقی رہی تو ان کا دم گھٹنے پر حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔یہ کیفیت فرقہ واریت پر مبنی اس سیاست کی پیداکردہ ہے جس نے اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے سماج کو تعصبا ت کے اتنے خانوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ اب ان خانوں کے حصار سے نکل کر ایک مرکز پر متحد ہونا اگر چہ ناممکن نہیں تو اس حد تک مشکل ضرور ہو گیا ہے کہ اس کیلئے ایک طویل مدت اور ایک منظم لائحہ عمل درکار ہے۔

 گزشتہ دنوں مظفر نگر کے ایک اسکول میں جو انتہائی افسوس ناک معاملہ رونما ہوا وہ کوئی ایسی چھوٹی یا وقتی واردات نہیں ہے کہ جو بہ آسانی بھلا دی جائے۔ اب اس معاملے کو سیاسی اور انتظامی سطح پر مینج کیا جا رہا ہے اور اس وقت ملک کی سیاسی فضا جس نوعیت کی ہے اس میں ایسا ہونا ہی تھا۔ یہ معاملہ اپنے انجام تک پہنچنے میں کن مراحل سے گزرتا ہے وہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ خسارہ اسی کو اٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی سے خوفزدہ ماحول میں زندگی بسر کرنے کو مجبور ہے۔ مظفر نگر کا یہ معاملہ جب سے سامنے آیا ہے تب سے یہ بحث چل پڑی ہے کہ اب اسکول میں چھوٹے بچوں کو بھی نفرت کا پاٹھ پڑھایا جا رہا ہے۔ اس بحث میں اس زاویے پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ مظفر نگر کا یہ معاملہ چونکہ سامنے آگیا اسلئے یہ کہا جا نے لگا کہ اسکول کو بھی فرقہ ورانہ منافرت کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے لیکن یہ معاملہ اب کا یا محض سال دو سال کی ان منافرت آمیز کارکردگیوں کا شاخسانہ نہیں ہے جو شدت پسند عناصر کے ذریعہ مسلسل جاری ہیں بلکہ اس کیلئے زمین اسی وقت سے ہموار کرنے کا عمل شروع ہو گیا تھا جب ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا تھا اور سیکولر اقدار کو لایعنی قرار دینے والے سیاستداں اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔

 اب حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اسکول، کالج ، یونیورسٹی یا ان جیسے دیگر عوامی اداروں میں سیکولر افکار کی تشہیر و ترویج کے بجائے فرقہ ورانہ رویے کو فروغ دینے کی کوشش اعلیٰ سطح سے ہو رہی ہے۔ یہ ادارے اگر چہ آج بھی اپنے نام کے ساتھ سیکولر شناخت کا ٹیگ لگاتے ہیں لیکن ان اداروں میں ایک صف میں بیٹھنے والوں کے درمیان فرقہ ورانہ منافرت پر مبنی رویے کا مشاہدہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ چھوٹی عمر کے بچوں میں بھی تعصب اور نفرت زدہ افکار پروان چڑھ رہے ہیں ۔ اسکولوں میں چھوٹے بچوں کے ذریعہ ایک دوسرے کی ذات اور مذہب کے متعلق باتیں کرنا اور اپنے ہم عقیدہ ساتھیوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے بچوں کا مذاق اڑانا ، تضحیک کرنا اور بعض اوقات ان سے لڑائی جھگڑا کرنا معمول کی بات ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات سے اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بہ ظاہر متفکر تو نظر آتے ہیں لیکن حالات کو تبدیل کرنے کی کوئی تدبیر کرتے نظر نہیں آتے۔ انتظامیہ اور اساتذہ ایسے معاملات پر جو سرد رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اس سے ان بچوں کو رفتہ رفتہ اس راہ پر آگے بڑھتے جانے کا حوصلہ مل رہا ہے جو راہ سماجی سالمیت کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب اسکول اور کالج میں تدریسی اور غیر تدریسی امور کو انجام دینے والے طبقہ میں ایسے افراد کی تعدادبڑھتی جا رہی ہے جو نہ صرف فرقہ واریت کے حامی ہیں بلکہ طلبہ کے درمیان اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں ۔ ایسے میں بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں پروان چڑھنے والی یہ نسل جب سماج میں فعال ہوگی تو یہ سماج کو کس نظر سے دیکھے گی ؟

 اسکول ، کالج، یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کو نفرت اور تشدد کی تجربہ گاہ میں تبدیل کر دینے پر آمادہ فرقہ پرست عناصر وطن عزیز کی خوشحالی اور ترقی کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں ۔اس ماحول میں پروان چڑھنے والی نسل تعصب اور نفرت سے مملو اذہان اور رویہ سے ملک کو جو نقصان پہنچائے گی اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ یہ نسل جب سن بلوغ کو پہنچے گی اس وقت حالات کہیں زیادہ خراب ہو سکتے ہیں ۔ اس ممکنہ خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ اسکول ، کالج اور دیگر عوامی اداروں میں مذہب و نسل کے حوالے سے باتیں نہ کی جائیں ۔ اس راہ پر چلنے میں یقیناً بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ جن عناصر نے ملک میں فرقہ ورانہ منافرت کی فضا تشکیل دی ہے وہ قطعی یہ نہیں چاہیں گے کہ عوام اس فضا سے باہر نکل سکیں ۔ ایسی صورت میں عوام کو اپنی بیداری اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔

 فرقہ پرست سیاست دانوں اور نام نہاد مذہبی رہنماؤں کی ملی بھگت سے نفرت کا جو کھیل جاری ہے وہ وسیع پیمانے پر ملک کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سماجی اور معاشی سطح پر مسلمانوں کے خلاف شدت پسندوں کے ذریعہ جو محاذ آرائی کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ اور خوف کی اس نفسیات کو گہرے تک پیوست کر دے گی جو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے پیچیدہ مسائل کے پیدا ہونے کا سبب ہوگی۔ دراصل فرقہ پرست عناصر کا منشا بھی یہی ہے ۔اس کیفیت میں مبتلا ہونے سے مسلمانوں کا نقصان تو ہوگا لیکن اس نقصان کا اثر بہرحال ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی پر بھی ہوگا۔ اس ملک کی خوشحالی اور ترقی کا کوئی بھی منصوبہ مسلمانوں کو درکنار کرکامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ مسلمان اس ملک کی سماجی، معاشی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم جزو ہیں اور چند فرقہ پرستوں کے ذریعہ اس جزو کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش مسلسل ہو رہی ہے۔موجودہ حالات میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عوام کے درمیان مذہبی منافرت پھیلانے والے یہ عناصر ملک و معاشرہ کے خیر خواہ نہیں ہیں ۔ان کی کارستانیاں ملک کو اس مقام تک لے جا سکتی ہیں جہاں ترقی اور خوشحالی کی راہیں معدوم ہوتی نظر آتی ہیں ۔ ملک میں محبت اور اخوت کے ماحول کو باقی رکھنے میں عوام کی کشادہ قلبی اور وسیع النظری بنیادی رول ادا کریں گے اور اگر اس مرحلے پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا گیا تو نفرت کے اس کھیل کا جو ممکنہ انجام ہوگا ، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

3 ستمبر،2023،بشکریہ : انقلاب،نئی دہلی

----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ultimately-happen-game-hatred/d/130604

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..