نیو ایج اسلام اسٹاف
رائیٹر
10جنوری،2024
گزشتہ 6 جنوری کو پاکستان
کے اسلام آباد کے نواح میں واقع غوری ٹاؤن میں دو نامعلوم افراد نے ایک عالم دین
مسعودالرحمن عثمانی کو ٹارگٹ کلنگ کر کے ہلاک کردیا۔ وہ ایک مذہبی تنظیم سنی علماء
کونسل کے ڈپٹی سکریٹری جنرل تھے
گزشتہ سال عمران خان کی
ایک ریلی کے دوران بھی ہجوم نے ایک عالم دین کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا تھا۔ عالم
دین عمران خان کے حامی تھے اور انہوں نے ریلی میں عمران خان کی حمایت میں تقریر کی
تھی لیکن تقریر میں ان کے کسی جملے پر لوگوں نے اہانت کا الزام لگایا اور اسے بھیڑ
نے پیٹ کر ہلاک کردیا۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان میں
جھیلم علاقےکے ایک امام مسجد کو بھی اہانت کے الزام میں نا معلوم افراد نے گولی
مار کر ہلاک کردیا تھا۔ ان کے خلاف اہانت کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا لیکن عدالت
نے انہیں بے قصور قرار دے کر بری کردیا تھا۔ پھر بھی کسی مسلکی تنظیم کے افراد نے
انہیں قتل کر دیا۔
پاکستان میں علماء دین کے
خلاف بھی اکثر اہانت کے الزام لگتے ہیں ۔ ابھی چند ماہ قبل پاکستان کے ایک بزرگ
عالم دین نے ایک دوسرے عالم دین انجینئر محمد علی مرزا پر اہانت کا الزام لگایا
اور ان کے قتل پر پانچ لاکھ روپئے کے انعام کااعلان کیا تھا۔
یہ تو ہے پاکستان میں
علماء کے خلاف مسلکی منافرت اور تشدد کی صورت حال۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں علماء
کو ہی اہانت کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے وہاں عام مسلمانوں کا حال ظاہر ہے ان سے
بھی برا ہوگا۔ پاکستان میں اکثر کسی عام مسلمان پر اہانت کا الزام لگا کرہجومی
تشدد میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ کچھ ایسے لوگوں کو بھی ہجوم نے اہانت کے الزام میں
ہلاک کردیا جو پاگل تھے یا ذہنی طور پر غیرصحت مند تھے۔
اوپر تین ایسے افراد کے
قتل کے واقعات پیش کئے گئے ہیں جو عام مسلمان نہیں تھے بلکہ عالم دین تھے۔ وہ قرآن
، حدیث اور فقہ کا علم رکھتے تھے۔ پھر کیا وہ اہانت کے مرتکب ہوسکتے تھے۔ کیا کوئی
عالم دین اہانت کا مرتکب ہوسکتا ہے؟ اگر ایک عالم دین بھی اہانت کا مرتکب ہوسکتا
ہے تو پھر ایک عام مسلمان تو کبھی بھی اہانت کا مرتکب ہو سکتا ہے اور ہجومی تشدد
کے نتیجے میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ یا مسلمانوں نے اسلام کی ایسی تفسیر پیش کردی ہے کہ
ہر مسلمان پر ہروقت اہانت کے الزام کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔اس کے کسی بھی جملے کو
اہانت قرار دے کر اسے یجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔
ان واقعات سے یہ ظاہر
ہوتا ہے کہ مسلکی منافرت اور مسلکی تشدد کا شکار اب خود علماء ہی بننے لگے ہیں اور
یہ علماء عام مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں۔عمران خان کی ریلی میں تقریر کرنے
والے عالم دین اور ان کو تشدد کا نشانہ بنانے والے لوگ ایک ہی سیاسی پارٹی کے
ماننے والے لوگ تھے لیکن صرف مسلکی نظریات کی بنیاد پر اس عالم دین کو قتل کردیا
گیا۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ علماء دین کو اس صورت حال پر
سنجیدگی سے غوروفکر کرنی چاہئے اور علماء کے خلاف اس مسلکی اور نظریاتی تشدد کے
سدباب کا حل ڈھونڈنا چاہئے۔ علماء نے اہانت کا جو تصور مسلمانوں میں پھیلایا ہے اس
کی زد میں اب وہ خود آنے لگے ہیں۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر
کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان
تھوڑی ہے
محمد علی مرزا کے خلاف
اہانت کا الزام لگانے والے خود ایک بزرگ عالم دین تھے۔ ان کے قتل کے فتوی کے بعد
ان پر کسی نوجوان نے جان لیوا حملہ کیا۔ اس سے قبل بھی ان پر دو تین نوجوانوں نے
قاتلانہ حملہ کیا تھا لیکن وہ ہر بار بچ گئے۔ اگر قتل کا ملزم اپنے ارادے میں
کامیاب ہو گیا ہوتا تو ایک اور عالم دین کا قتل ہوتا ۔علی مرزا کے خلاف قتل کا
فتوی صادر کرنے اور ان کے قتل پر پانچ لاکھ روپئے کے انعام کا اعلان کرنے والے
عالم دین کے خلاف اگر محمد علی مرزا نے بھی اہانت کا الزام لگاکر ان کے خلاف بھی
قتل کا فتوی صادر کردیا ہوتا تو ہو سکتا ہے کہ ان کے نظریات کے پیروکارکسی نوجوان
نےاس عالم دین کو بھی قتل کردیا ہوتا۔چونکہ وہ مسلکی تشددمیں یقین نہیں رکھتے اس
لئے وہ کسی عالم کے خلاف کفر کا فتوی صادر نہیں کرتے اور صرف دلائل کی مدد سے ہی
اپنے نظریات پیش کرتے ہیں۔ دوسرے علماء بھی اپنے مسلکی اورنظریاتی اختلافات کو
علمی دلائل تک ہی محدود رکھیں اور کسی عالم یا عام مسلمان کے قتل کا فتوی صادر
کرنے سے پرہیز کریں تو مسلمانوں میں مذہبی یا مسلکی بنیاد پرمنافرت اور تشدد کو
روکا جاسکتا ہے۔
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism