شیعوں کے سیاسی عروج کو روکنے
کے لیے علماء اور ریاست کا اتحاد وجود میں آیا
اہم نکات؛
1. سیکولر حکمرانوں نے سیاسی مخالفت کو روکنے کے لیے علماء اور ریاست
کے اتحاد کا استعمال کیا
2. غزالی کا تکفیری نظریہ مسلم معاشرے میں مذہبی انحطاط کا باعث بنا
3. مفکرین اور فلسفیوں کو پھانسی دینے سے اسلامی ممالک میں فکری خلا
پیدا ہو گیا
----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
22 فروری 2022
ایک حالیہ تحقیق سے پوری دنیا
اور بالخصوص امریکہ اور بھارت میں جمہوری اقدار کے بڑھتے ہوئے انحطاط کا پتہ چلا ہے۔
یہ تنزلی انتخابی عمل میں متعصبانہ دباؤ، فوجداری نظام عدل، صحافیوں اور حکومت کے ناقدین
کو ہراساں کیے جانے اور بڑھتے ہوئے معاشی تفاوت جیسے متعدد سیاسی، مذہبی اور سماجی
عوامل کے نتیجے میں آئی ہے۔
تاہم یہ جمہوری تعطل صرف غیر
مسلم معاشروں میں ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ درحقیقت مسلم
دنیا میں اس کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اسلامی دنیا میں جمہوریت کو دبانے کا یہ رجحان
11ویں صدی میں بغداد کے اندر قائم ہونے والے علماء اور ریاست کے اتحاد کے تناظر میں
دیکھا جا سکتا ہے جسے بعد کے ادوار میں تقویت ملی۔ درحقیقت یہ گٹھ جوڑ مذہبی اور سیکولر
دونوں حکومتوں کے حکمرانوں کے لیے مفید ثابت ہوا۔ مسٹر فیض الرحمن نے سان ڈیاگو اسٹیٹ
یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر مسٹر ٹی کورو کی کتاب "( Islam,
Authoritarianism and Underdevelopment: A Global and Historical Comparison) کا حوالہ پیش کیا ہے
تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ الغزالی کے انتہا پسند اور تکفیری نظریہ نے مسلم اکثریتی
ممالک میں جمہوری اقدار کے انحطاط میں کس طرح کردار ادا کیا ہے۔ سلجوقی سلطنت نے درحقیقت
تکفیری نظریہ کو راستہ دیا اور انتہا پسند اسلامی نظریہ ساز الغزالی کو بغداد کے مدرسہ
نظامیہ میں استاد مقرر کر دیا۔غزالی نے خدا اور مذہب کے بارے میں لبرل اور غیر روایتی
نظریات رکھنے والے مفکرین اور فلسفیوں کو مرتد قرار دیا۔ اور ان کے نظریات کو توہین
قرار دیا اور ان کی رائے تھی کہ انہیں سزائے موت دی جانی چاہیے۔
بعد میں شیعہ اور سنی دونوں
حکمرانوں نے علمائے کرام کی سرپرستی کی جس سے علمائے کرام کا یہ تسلط بڑھتا گیا تاکہ
آزاد سوچ رکھنے والے دانشوروں پر زیادہ کنٹرول حاصل کیا جائے تاکہ وہ لوگوں کو ان کے
خلاف متاثر نہ کر سکیں۔ اس لیے سنی عثمانیوں، شیعہ صفویوں اور سنی مغلوں نے ریاست اور
علما کے اتحاد کا ایک اپنا الگ طریقہ قائم کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سیکولر
ممالک نے بھی اس اتحاد کو اپنی حکمرانی کے لیے سازگار پایا۔ اس لیے ترکی اور پاکستان
جیسے سیکولر ممالک نے بھی تنقید کو دبانے کے لیے اسلام اور علما کو استعمال کیا۔ پاکستان
کے آمر ضیاء الحق اور جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم عمران خان دونوں نے اس اتحاد کو
اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ جمہوریت کے زوال کی صورت
میں سامنے آیا۔
مسلم ممالک کی پسماندگی کی
ایک اور وجہ ان کا نئی ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی سے بیزاری ہے۔ جب پرنٹنگ پریس ایجاد
ہوا تو مغربی ممالک نے اس ٹیکنالوجی کو علم و حکمت پھیلانے کے لیے استعمال کیا لیکن
خلافت عثمانیہ نے پرنٹنگ پریس کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ اس سے اسلامی معاشرہ ان سائنسی
علوم کے فروغ سے محروم ہو گیا جو ان کے سائنسدانوں نے حاصل کیا تھا۔
بحیثیت مجموعی اسلامی ممالک
میں علما اور ریاست کا گٹھ جوڑ مسلمانوں کی سیاسی اور سائنسی پسماندگی اور اسلامی حکومتوں
کی غیر جمہوری پالیسیوں کی بنیاد ہے۔
-----
مسلم آمریت کو فروغ دینے والا
گٹھ جوڑ
اے. فیض الرحمن
21 فروری 2022
پوری دنیا میں جمہوریت تیزی
کے ساتھ زوال پذیر ہے۔ یہ کچھ بااثر غیر سرکاری تحقیقی اداروں مثلاًفریڈم ہاؤس، وی
ڈیم، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس، اور کیٹو انسٹی ٹیوٹ
کی 2021 میں شائع ہونے والی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے۔ نتیجۃً، امریکہ اور ہندوستان
سمیت بڑی جمہوریتوں نے انتخابی عمل پر متعصبانہ دباؤ، فوجداری نظام انصاف میں تعصب،
امتیازی پالیسیوں، مسلمانوں کے خلاف تشدد، صحافیوں اور حکومت کے دیگر ناقدین کو ہراساں
کرنے، دولت، اقتصادی مواقع اور سیاسی اثر و رسوخ میں بڑھتے ہوئے تفاوت اور دیگر وجوہات
کی بنا پر خود کو زوال پذیر پایا۔
علماء اور ریاست کا اتحاد
اگر زیادہ تر غیر مسلم ممالک
کے لیے اس قسم کی جمہوری کساد بازاری ایک حالیہ واقعہ ہے تو مسلم ممالک ایک طویل عرصے
سے اس کی زد میں ہیں۔ درحقیقت بعد از نبوت خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتخاب
تنازعات میں گھرا ہوا تھا۔ بخاری کی ایک صحیح (مستند) حدیث کے مطابق، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ میں انصار کی جماعت چاہتی تھی کہ خلافت کی سربراہی
دو مشترکہ امیروں(رہنماؤں) کے ہاتھ میں ہو، جن میں سے ایک انصار اور دوسرا مکہ کے قبیلے
قریش سے ہو۔ لیکن ابوبکر جو کہ ایک قریش تھے انہوں نے مبینہ طور پر یہ کہہ کر انکار
کر دیا، "نہیں، ہم حکمران ہوں گے اور آپ وزیر ہوں گے، کیونکہ وہ [قریش] عربوں
میں سب سے بہترین خاندان اور بہترین نسل کے ہیں۔" وہ چاہتے تھے کہ انصار قریش
کے حضرت عمر یا ابو عبیدہ بن الجراح کو منتخب کریں۔ لیکن عمر کے انکار کے نتیجے میں
ابوبکر کو بالآخر خلیفہ اول منتخب کر لیا گیا۔
اس پورے واقعہ کے بارے میں
جو چیز ناقابل یقین ہے وہ ہے ابوبکر کی مبینہ قبائلی بے ضابطگی۔ پیغمبر اسلام نے اپنے
مشہور الوداعی خطبہ میں انسانی مساوات کی تعلیم دی تھے اور واضح طور پر یہ کہا تھا
کہ میں اسلام سے پہلے کی ہر برائی جس میں نسل پرستی، نسلی برتری اور ہر قسم کی موروثی
فضیلت شامل ہے، ختم کرتا ہوں اپنے قدموں تلے روند تا ہوں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی ہونے کے ناطے آپ ﷺکی کسی تعلیم کے خلاف
نہیں گئے اس کا ثبوت اس حقیقت سے ملتا ہے کہ آپ کی خلافت پر کسی بھی قسم کے تعصب یا
تنگ نظری کا دھبہ نہیں لگا۔ لہٰذا، صرف ایک امکان یہ بچ جاتا ہے کہ ایسی احادیث کو
بعد کے حکمرانوں اور قابل مسلم علماء نے اپنے باہمی تعاون سے گھڑ لیا گیا ہوتاکہ وہ
باتیں ڈالی جا سکیں جو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے صحابہ نے نہیں کہے تھے،
تاکہ خاندانی خلافت کا جواز پیش کیا جا سکے۔
سان ڈیاگو سٹیٹ یونیورسٹی
میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر احمد ٹی کورو اس خلافت اور علماء کے گٹھ جوڑ کو
"علما اور ریاست کا اتحاد" کہتے ہیں۔ اپنی مشہور کتاب (Islam,
Authoritarianism, and Underdevelopment: A Global and Historical Comparison) میں وہ وضاحت کرتے ہیں
کہ کس طرح یہ حیلہ باز مجلس 11ویں صدی کے بغداد میں شروع ہوئی اور 20ویں صدی کی مسلم
دنیا میں آمریت اور پسماندگی کی میراث چھوڑ کر صدیوں تک جاری رہی۔
یہ اتحاد شمالی افریقہ، مصر،
شام اور عراق میں ابھرتی ہوئی شیعہ ریاستوں کے خلاف ایک نظریاتی فصیل پیدا کرنے کی
امید میں سنیوں کو متحد کرنے کے لیے کچھ سنی خلفاء کی بے تابی کا نتیجہ تھا۔ اس کے
نتیجے میں ایک "سنی عقیدہ" کا قیام عمل میں آیا جس نے شیعوں، عقلیت پسند
علماء اور فلسفیوں کو مرتد قرار دیا جن کے لئے سزائے موت مقرر تھی۔
پروفیسر کورو کا ماننا ہے
کہ چونکہ یہ ناپاک گٹھ جوڑ ابتدائی اسلامی تاریخ میں موجود نہیں تھا، لہٰذا مسلم ممالک
کے عصری سیاسی اور سماجی و اقتصادی مسائل کو سادہ طور پر اسلام یا مغربی استعماریت
سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
وہ ادارے جنہوں نے علماء اور
ریاست کے اتحاد کو فروغ دیا وہ نظامیہ مدارس تھے جن کی بنیاد نظام الملک (متوفی
1092 عیسوی) نے رکھی تھی جو سلجوق سلطنت کے وزیر تھے جنہوں نے 1072 میں سلطان الپ ارسلان
کے قتل کے بعد دو دہائیوں تک اس کے حقیقی حکمران کے طور پر خدمات انجام دیں۔ یہ نظام
الملک ہی تھے جنہوں نے 1091ء میں جامع العلوم الغزالی (متوفی 1111 عیسوی) کو بغداد
کے نظامیہ مدرسہ میں بطور استاد مقرر کرنے کا عبرتناک فیصلہ کیا۔
پروفیسر کورو لکھتے ہیں، اور
یہ غزالی ہی تھے جنہوں نے خود ساختہ مسلمانوں کو بھی مرتد قرار دینے کے نظریہ کو جواز
فراہم کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے آزادانہ سوچ اور خدا اور آخرت کے بارے میں غیر روایتی
نظریات رکھنے والے فلسفیوں کو کافر قرار دیا جن کی جان و مال لینے کا حق اسلامی ریاست
کو تھا۔ مختصراً، غزالی کی بااثر تعلیمات نے، جو مذہب اور ریاست کو ایک دوسرے پر منحصر
سمجھتے تھے، ماورائے قرآن قانون کو تقریباً ناقابل اعتراض بنا دیا اور بالآخر ایسے
قوانین کے لیے راہ ہموار کی جس نے توہین مذہب اور ارتداد جیسے سنگین جرائم کو جنم دیا۔
یہ ممکن نہ ہوتا اگر پہلے
بورژوازی اور علماء کے اتحاد کو علماء اور ریاست کے اتحاد نے تباہ نہ کیا ہوتا۔ کیونکہ
11ویں صدی میں مؤخر الذکر کے ڈرامائی طور پر ابھرنے سے پہلے تاجر طبقہ ہی علمائے کرام
اور فلسفیوں کی مالی امداد کرتا تھا جس سے ان کی آزادی کو یقینی بنی رہتی تھی۔ لیکن
معیشت کو اور خاص طور پر زرعی محصولات کو فوجی کنٹرول میں لانے کی سلجوقی پالیسی نے
تاجروں کی معاشی صلاحیت اور سماجی پوزیشن کو کمزور کر دیا اور علمائے کرام کو امداد
کے لیے ریاست پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا جس کی بھاری قیمت ادا کی گئی۔
سلجوق ماڈل نہ صرف برقرار
رہا بلکہ آس پاس کی دیگر سنی ریاستوں میں بھی پھیل گیا۔ پروفیسر کورو بتاتے ہیں کہ
صلیبی اور منگول حملوں نے توسیع کو تیز کیا کیونکہ مسلم اقوام نے ان حملوں سے فوجی
اور مذہبی حکام میں پناہ مانگی۔
بعد میں، 16ویں صدی کے آس
پاس، تین طاقتور مسلم ریاستوں - سنی عثمانی، شیعہ صفوی، اور سنی مغل سلطنت - نے بلقان
سے لے کر بنگال تک پھیلے ہوئے علاقوں میں ایک الگ قسم کا علما اور ریاست کا اتحاد قائم
کیا جس کے نتیجے میں جن علاقوں پر وہ حکومت کرتے تھے ان میں سماجی و علمی پسماندگی
پیدا ہوئی۔ اس کے برعکس، اس دور میں پرنٹنگ پریس کے انقلاب نے مغرب کو تاریک دور سے
نکال کر روشن خیالی کے دور میں داخل کر دیا تھا۔
مختلف الفاظ میں کیا جائے
تو مسلم دنیا فکری جمود کی حالت میں تھی، اس سے قبل کہ مغربی نوآبادیات اسے معاشی طور
پر کمزور کرتی، اس حقیقت کا ثبوت پرنٹنگ پریس کے خلاف 16ویں صدی کے عثمانی فتوے ہیں۔
مسلم ریاستوں کی سیکولر کاری
حیرت کی بات یہ ہے کہ
1900 کی دہائی کے اوائل میں قائم ہونے والی کچھ مسلم ریاستوں (مثلاً ترکی) کی سیکولر
کاری نے بھی انہیں آمریت سے آزاد نہیں کیا۔ پروفیسر کورو اس کی تین وجوہات بتاتے ہیں۔
اول، 20ویں صدی کے زیادہ تر سیکولر رہنما سابق فوجی افسران تھے اور وہ دانشوروں اور
بورژوازی کی اہمیت تسلیم نہیں کر سکتے تھے۔ دوم، ان کے آمرانہ جدید نظریات نے انہیں
دانشوروں اور بورژوا طبقوں کو محدود کرکے معیشت پر ریاستی کنٹرول مسلط کرنے پر مجبور
کیا۔ سوم، سیکولر حکمرانوں نے اسلام کا استعمال اپنی حکومتوں کو قانونی حیثیت دینے
کے لیے مروجہ علمائے کرام کے تعاون سے کیا جس کی قیمت آزاد اسلامی علماء نے چکائی۔
اس کے علاوہ، سیکولر مسلم ریاستوں نے پالیسیوں کی ناکامیوں کے نتیجے میں عوامی زندگی
کا اسلامائزیشن کیا اور علمائے کرام کے زیر اثر لوگوں کے اندر دانشور مخالف رویہ پیدا
کیا۔ ہندوستان میں حجاب کا جاری تنازعہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا غیر مسلم جمہوری ریاستوں
میں بھی ہو سکتا ہے۔
لہٰذا، اس اصولی حکومت پسندی
کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے جو آج زیادہ تر مسلم ممالک اور خاص طور پر ترکی اور پاکستان
میں رائج ہے؟ پروفیسر کورو کا مشورہ ہے کہ: اسلام اور ریاست کے درمیان تعلقات کو اس
انداز میں از سر نو مرتب کیا جانا چاہیے کہ فکری اور اقتصادی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ
ملے۔
علمائے کرام اور ارباب اقتدار
کو دھیان دینا چاہیے۔
-----
اے. فیض الرحمن اسلامک فورم
فار دی پروموشن آف ماڈریٹ تھاؤٹ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔
English
Article: Ulema-State Alliance In Muslim Countries Has Led To
The Current Democratic Recess
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism