New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 03:55 PM

Urdu Section ( 12 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Ulema Didn’t Forbid Modern Education in Madrasa علمائے کرام نے مدرسہ میں عصری تعلیم کو نہیں روکا

 ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام

 09 ستمبر 2022

 بہت سے قارئین شاید اس پر یقین نہ کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیوبند میں دارالعلوم کے بانی مولانا قاسم نانوتوی انگریزی اور جدید علوم کی تعلیم کے حامی تھے۔ یہ بات اجنبی معلوم ہو سکتی ہے کہ دیوبند کے ایک سب سے معزز عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی اور دیوبندی علماء کے سرپرست شاہ عبدالعزیز  نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مسلمان انگریزی سیکھیں اور جدید تعلیم حاصل کریں. تقریباً 150 سال قبل موجودہ مدرسہ کا نظام شروع کرنے والے زیادہ تر علمائے کرام بھی انہیں خیالات کے حامل تھے۔

Students receiving vocational training at Darul Uloom, Deoband seminary

----

 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیوں، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ علمائے کرام جدید انگریزی تعلیم کے مخالف کیوں ہیں؟ دارالعلوم کے محمد اللہ خلیلی قاسمی نے اپنی کتاب Madrasa Education: Its Strength and Weakness میں اس کا جواب دیا ہے۔ وہ لکھتا ہے،

 "ایک بہت مشہور محاورہ ہے 'بری خبر تیزی سے پھیلتی ہے۔ یہ محاورہ اس پروپیگنڈے پر صادق اتا ہے کہ علمائے کرام نے انگریزی اور جدید علوم حاصل کرنے سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ گوبلز کا کہنا ہے 'جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ کہ وہ سچ لگنے لگے، کچھ لوگوں نے اس افواہ کو پھیلا دیا اور اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ بہت سے لوگ اب بھی مانتے ہیں اور عوام میں بیان کرتے ہیں کہ علمائے کرام نے مسلمانوں کو انگریزی اور جدید علوم سے دور رہنے کو کہا ہے….انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے علماء نے کبھی بھی لوگوں کو انگریزی سیکھنے سے منع نہیں کیا۔

 اگر چہ مدارس کے موجودہ نظام تعلیم کی بنیاد ابتدائی اسلام میں ہی رکھ دی گئی تھی جس کی تبلیغ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی لیکن اس کی موجودہ شکل ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی سلطنت کے عروج کی دین ہے۔ مدرسہ کا نظام جیسا کہ ہم آج سمجھتے ہیں کہ علمائے کرام نے 1857 کی پہلی ملک کی جنگ آزادی میں ہندوستانی انقلابیوں کی شکست کے بعد قائم ہوا تھا۔ مولانا قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی اور دیگر جنہوں نے 1857 میں مغربی اتر پردیش میں انگریزوں سے جنگ کی تھی انہوں نے ہی دیوبند میں دارالعوام کی بنیاد رکھی تھی۔

آنے والے سالوں میں اسی طرز پر دیوبند سے ملحق ہزاروں مدارس قائم ہوئے۔ مقصد یہ تھا کہ تعلیم یافتہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ اس تعلیمی آلودگی سے پاک ہو جسے تھامس میکالے نے سلطنت کے لیے وفادار نوکروں کو پیدا کرنے کے لیے مرتب کیا تھا۔ دارالعلوم کے ایک ابتدائی طالب علم اور وہاں کے ایک نامور استاد، اور مجاہد آزادی مولانا محمود حسن نے کہا، ''کیا مولانا (قاسم نانوتوی) نے یہ مدرسہ صرف سیکھنے اور سکھانے کے لیے بنایا تھا؟ میری آنکھوں کے سامنے مدرسہ قائم ہوا۔ جیسا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ ادارہ 1857 کی شکست کے بعد قائم کیا گیا تھا تاکہ کچھ لوگوں کو 1857 کے نقصان کی بھرپائی کے لیے تیار کیا جا سکے۔

 اس کا مقصد اس مذہب اور ثقافت کی تعلیم فراہم کرنا تھا جسے جدیدیت کے آڑ میں ان عیسائی مشنریوں سے خطرہ لاحق تھا جسے ہندوستان میں برطانوی حکومت فروغ دے رہی تھی۔

 کیا دارالعلوم میں صرف اسلامی علوم ہی پڑھائے جاتے تھے اور جدید تعلیم پر پابندی لگائی گئی تھی؟ جواب کے لیے آئیے ایک انگریز افسر کی گواہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ 1875 میں، دارالعلوم کے قیام کے ایک دہائی کے اندر، یونائیٹڈ پرونس (آج کے اتر پردیش) کے لیفٹیننٹ گورنر نے ایک انگریز اہلکار جان پامر کو مدرسہ کا معائنہ کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ پالمر نے بعد میں لکھا کہ لیفٹیننٹ گورنر نے انہیں حکم دیا تھا کہ، "یہاں کے مسلمانوں نے، دیوبند میں، حکومت کے خلاف ایک مدرسہ شروع کیا ہے۔ وہاں جا کر خفیہ طور پر یہ معلوم کیا جائے کہ وہاں کیا پڑھایا جاتا ہے اور مسلمانوں کی منشاء کیا ہے۔

 پلمر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مدرسے میں طلباء کو فارسی، عربی اور اردو ادب پڑھایا جا رہا ہے۔ ایک کلاس روم میں اس نے طالب علموں کو مثلثیات کے 'مشکل قضایا' پڑھتے ہوئے دیکھا جب کہ دوسری کلاس میں اس نے ایک استاد مولانا سید احمد دہلوی کو اقلیدس اس قدر مہارت کے ساتھ پڑھاتے ہوئے دیکھا "گویا کہ اقلیدس کی روح ان کے جسم میں داخل ہو گئی ہو"۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نوجوان طلباء ٹوڈھنٹر کی الجبرا کتابوں سے مساوات کو حل کر رہے تھے۔ ایک اور جگہ انہوں نے نابینا طلباء کو فزکس کے مسائل حل کرتے ہوئے دیکھا جبکہ حدیث اور قرآن بھی پڑھایا جا رہا تھا۔

 درحقیقت، درس نظامی، جسے 18ویں صدی میں لکھنؤ کے ملا نظام الدین کے تیار کردہ ایک معیاری نصاب تھا اس میں ریاضی اور فلکیات کے ساتھ مدارس کے طلباء کے لیے انجینئرنگ کی ایک کتاب بھی داخل تھی۔ دارالعلوم نے 1878 میں طبی علوم کو ایک مضمون کے طور پر متعارف کرایا۔

 اس کی سالانہ رپورٹ میں لکھا گیا ہے، "ہم نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے، اب طب کی ہدایات شروع کر دی ہیں۔ مستقبل میں طلباء کو کلینکل طریقہ، سرجری کے فن اور فارماکولوجی میں تربیت دینے کے انتظامات کیے جائیں گے۔

دو دہائیوں کے بعد ایک اور انقلابی اقدام میں، انتظامیہ نے لوگوں سے کہا کہ وہ "ان طلباء کے لیے وظیفہ متعین کرنے کے لیے ایک فنڈ کے لیے عطیہ کریں جو دارالعلوم میں اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد، انگریزی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں"۔ لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ اسکیم نہیں چل سکی۔

 علمائے کرام نے مدرسہ میں دینیات کے علاوہ دیگر مضامین کو داخل کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کی فکر صرف یہ تھی کہ دوسرے پیشہ ور افراد کی طرح خصوصی اسلامی ماہرین تیار کیے جائیں۔ یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو دیوبند کے سب سے معزز علماء میں سے ایک مولانا محمود حسن نے قائم کیا تھا جس کا مقصد جدید علوم اور انگریزی تعلیم کی تعلیم دینا تھا۔ ایک اور معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے کہا تھا کہ انگریزی اور ہندی دونوں کی تعلیم دی جانی چاہیے کیونکہ زبانیں "اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت" ہیں۔

 محمد اللہ خلیلی کے مطابق مولانا نانوتوی نے حج کے دوران "انگریزی سیکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا"۔

 1940 کی دہائی کے دوران، علمائے کرام نے محسوس کیا کہ وقت بدل گیا ہے اور مدارس میں تمام طلباء کو بطور استاذ ملازمت نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا مدرسہ میں ہنر مندی اور پیشہ ورانہ تربیتی کورس متعارف کرائے گئے۔ ابتدائی طور پر بک بائنڈنگ، بُنائی، سلائی اور چمڑے کے کام متعارف کروائے گئے جو اب کمپیوٹر کورسز تک پھیل چکے ہیں۔

 تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ مدارس وقت کے ساتھ نہیں چل رہے ہیں لیکن دوسری طرف ہم جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ علمائے کرام کو خود کا جائزہ لینا چاہیے کہ جس نظام نے ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکٹس، ادیب وغیرہ پیدا کیے وہ اب ایسا کیوں نہیں کر پا رہا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر مدرسے کا طالب علم جدید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے راستے ہموار ہونے چاہیے۔ مذہبی ماہرین کی ضرورت ہے لیکن ہر شہر میں ہزاروں اسلامی ماہرین اور علماء کو ملازمت نہیں دی جا سکتی، اس لیے مدارس کے طلباء کو دیگر پیشوں کے لیے بھی تربیت دینا ہوگی۔

 علمائے کرام کی موجودہ نسل کو نانوتوی کے منصوبے پر غور کرنا چاہیے جن کا ماننا تھا کہ مدرسہ کی تعلیم طلباء کے لیے جدید علوم کو بھی سمجھنا آسان بنا دے گی۔ انہوں نے 1872 میں کہا تھا، "یہاں کے سابق طلباء، بشرطیکہ وہ نصاب مکمل کر لیں، اپنی صلاحیتوں کی طاقت سے بقیہ قدیم اور جدید علوم آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ماخذUlema Didn’t Forbid Modern Education in Madrasa

English Article: Ulema Didn’t Forbid Modern Education in Madrasa

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ulema-forbid-modern-madrasa/d/127928

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..