رام پنیانی
برائے نیو ایج اسلام
8 ستمبر 2023
ہم ہندوستانیوں کو یہ دیکھنا چاہئے
کہ ذات پات کا نظام کتنے زمانے سے ہمارے درمیان موجود ہے، نہ کہ غیر منصفانہ نظام پر
تنقید کرنے والے الفاظ کو۔
ہندو مت کا کوئی پیغمبر نہیں ہے،
نہ اس کی کوئی اپنی کتاب ہے اور نہ ہی ہندو لفظ مقدس صحیفوں میں کہیں موجود ہے۔ اس
سے مختلف مفکرین اور مصلحین کو ہندو مذہب کے مختلف معانی بیان کرنے کی سہولت ملتی ہے،
یہاں تک کہ اسے مذہب نہیں بلکہ ایک "طریقہِ زندگی" قرار دیتے ہیں۔ لہذا ہندومت،
یہ مختلف افکار و نظریات کا مرکب ہے جسے وسیع طور پر برہمن (ویدک، منوسمرتی جس کی بنیاد
ذات اور صنفی درجہ بندی پر ہے) اور شرمانی (ناتھ، تنتر، بھکتی، شیوا، سدھانت) روایات
کا مرکب کہا جا سکتا ہے۔
سناتن کا لفظ "ابدی مذاہب"
کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لفظ دھرم کا انگریزی میں ترجمہ کرنا بھی آسان نہیں۔ یہ
وسیع طور پر بہت سی ایسی چیزوں سے عبارت ہے جنہیں بنیادی طور پر مذہبی فریضہ سے تعبیر
کیا جا سکتا ہے۔ اس سے روحانیت، مقدس قوانین، سماجی، اخلاقی اور روحانی ہم آہنگی بھی
مراد لی جا سکتی ہے۔ Why I am a Hindu نامی اپنی کتاب میں، ششی تھرور بتاتے ہیں کہ دھرم
کی تعریف "جس کے مطابق ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں" کے طور پر بھی کی جا سکتی
ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ، سناتن
دھرم کا لفظ ہندو مت کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے، خاص طور پر برہمن واد کے لیے،
جو ذات پات اور صنفی درجہ بندی کا حامی ہے۔ بی آر امبیڈکر کی اس بات کا کہ "ہندوازم
برہمن واد کا نام ہے" یہی مطلب ہے۔ ہندوازم ہندوتوا یا ہندو پن کی بنیاد ہے، جس
کا ظہور ہندو قوم پرست سیاست کی شکل میں ہوا ہے۔ یہ بھی منوسمرتی کا حامی ہے اور ذات
پات کی روایتی درجہ بندی کو برقرار رکھتا ہے۔ ایک طرح سے سناتن دھرم آج ذات پات کی
درجہ بندی کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہمیں
ادھیانیدھی کے ’’سناتن دھرم کو مٹانے‘‘ کے مطالبے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تمل ناڈو
کے یوتھ ویلفئیر اینڈ اسپورٹس ڈیولپمنٹ منسٹر اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم
کے رہنما ایم کے اسٹالن کے بیٹے، پیریار راماسامی نائکر کی روایت کے حامل ہیں، جو عزت
نفس کی تحریک کے علمبردار ہیں، جو مساوات اور ذات پات اور پدرانہ نظام کے خاتمے کا
مطالبہ کرتی ہے۔ وہ معاشرے میں رائج برہمن واد کے سخت نقاد تھے۔ ان سے پہلے، امبیڈکر
نے اپنے ساتھی باپو صاحب سہسترابدھے کے ہاتھوں اپنی نگرانی میں مانوسمرتی کو نذر آتش
کروایا تھا۔ امبیڈکر کے مطابق، یہ کتاب ذات پات پر مبنی عدم مساوات کا ذخیرہ ہے۔ امبیڈکر،
جو سماج پر برہمن واد کے تسلط سے پریشان تھے- جسے اب سناتن اقدار کہا جاتا ہے- انہوں
نے ییولا میں اعلان کیا، "میں ایک ہندو پیدا ہوا تھا جو کہ میرے بس سے باہر کی
بات تھی، لیکن میں ہندو نہیں مروں گا۔‘‘
ادھیانیدھی نے اب یہ کہ دیا ہے
کہ سناتن دھرم ایک ایسا نظریہ ہے جو لوگوں کو ذات پات اور مذہب کے نام پر تقسیم کرتا
ہے…” وہ اسی بات کو دہرا رہے ہیں جو پیریار اور امبیڈکر اپنے اپنے انداز میں کہ چکے
ہیں۔ ان کے ذریعے لفظ سناتن دھرم کے استعمال پر، بی جے پی کے ترجمان امیت مالویہ نے
ٹویٹ کیا، "ادھیاندھی اسٹالن نے سناتن دھرم کو ملیریا اور ڈینگو سے جوڑا ہے… مختصر
یہ کہ وہ سناتن دھرم کی پیروی کرنے والی بھارت کی 80 فیصد آبادی کی نسل کشی کا مطالبہ
کر رہے ہیں۔"
مالویہ نہ صرف ادھیاندھی اسٹالن
کی باتوں کو توڑ مروڑ رہے ہیں بلکہ وہ اس بات کی تصدیق بھی کر رہے ہیں کہ ہندو مت ہی
آج کا سناتن دھرم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ادھیاندھی کا مطالبہ
ذات پات کو مٹانے کے لیے ہے نہ کہ لوگوں کو ختم کرنے کے لیے- اور یہی وہ جذبہ ہے جس
کے تحت ان کے تبصرے کو بالعموم دیکھا جا رہا ہے۔ جب امبیڈکر ذات پات کے خاتمے کا مطالبہ
کرتے ہیں تو وہ نسل کشی کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اس لیے امبیڈکر کے ارادے اور ادھیانیدھی
کی خواہشات ایک ہی ہیں۔ بی جے پی کے رہنما ان کے بیان کو جان بوجھ کر توڑتے مروڑتے
ہیں، کیونکہ ڈی ایم کے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا کا حصہ ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے عوامی جلسوں
میں کہا ہے کہ کانگریس پارٹی نے ہندوستانی ثقافت کی توہین کی ہے اور ادھیاندھی کے الفاظ
"نفرت انگیزی" کے مترادف ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عدم مساوات کے نظام کے خاتمے
کی بات کرنا نفرت انگیزی نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ کہا گیا ہے وہ امبیڈکر اور پیریار کے
کہنے کے مطابق ہے - بنیادی نکتہ یہ ہے کہ برہمنی ہندو ازم خود کو سناتن دھرم کے طور
پر پیش کر رہا ہے۔
جب گاندھی نے ملک کو متحد کرنے
کے لیے جدوجہد کی اور چھوا چھوت کے خلاف کام کیا تو انہوں نے اپنی شناخت سناتن دھرم
اور ہندو مت سے کروائی۔ 1932 کے بعد چند سالوں تک، گاندھی کا نصب العین چھوا چھوت کے
خلاف کام کرنا، اور دلتوں کے مندروں میں داخلے کے حقوق کے حصول کے لیے لڑنا رہا۔ بدھ
مت جیسی ہندوستان کی متنوع مذہبی روایات نے بھی خود کو سناتنی یا ابدی کے طور پر متعارف
کروایا۔ آج، آر ایس ایس کا نصب العین ہندومت کے لیے لفظ سناتن کو فروغ دینا ہے تاکہ
برہمنیت اور قوم پرستی کا ایک معجون مرکب تیار کیا جا سکے۔ اس لیے ادھیانیدھی نے ذات
پات کے نظام کی خامیوں کو اجاگر کرنے کے لیے برائیوں ایک مضبوط علامتی لفظ کا استعمال
کیا ہے۔ اب نفرت انگیزی کا الزام ان اقدار کے خاتمے پر لاگو نہیں کیا جائے گا جو ذات
پات کے درجہ بندی کی حمایت کرتی ہیں۔
بی جے پی کے قائدین اور ترجمان
اودھیاندھی کے بیانات کو بغیر کسی ٹھوس دلیل کے کانگریس پارٹی اور انڈیا اتحاد پر حملہ
کرنے کے لیے بطور حربہ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ کانگریس پارٹی
نے کبھی بھی ہندوستانی ثقافت کا احترام نہیں کیا، محض سیاسی فائدے کے لیے ایک الزام
محض ہے۔ کانگریس پارٹی اس تحریک کا حصہ تھی جس نے ثقافتی اختلافات کے احترام کو برقرار
رکھتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کو ایک ہندوستانی شناخت کے تحت متحد کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ
اس نے معاشرے میں اصلاحات کو بھی فروغ دیا ہے۔
اب امت شاہ یہ کہ رہے ہیں
کہ اپوزیشن کسی بھی قیمت پر اقتدار چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آپ سناتن دھرم اور اس
ملک کی ثقافت اور تاریخ کی بے عزتی کر رہے ہیں"۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی قومی
تحریک نے ہندوستانی ثقافت کے بہترین پہلوؤں کو مضبوط کیا ہے جیسا کہ پہلے وزیر اعظم
جواہر لعل نہرو نے The Discovery of India میں لکھا تھا، "وہ [انڈیا] کسی قدیم کتاب کی
مانند تھی جس پر سوچ اور خیالات کی پرتیں جمی تھیں، اور پرت چاہے جیسی بھی ہو اب تک
وہ کسی کتاب کو مکمل طور پر چھپا یا مٹا نہیں سکی ہے۔
مسئلہ انڈیا اتحاد کھڑی والی جماعتوں
کا نہیں ہے۔ مسئلہ بی جے پی اور کمپنی کا ہے، جن کی نظر میں ثقافت صرف ماضی کا برہمن
واد اور اس کے لواحقات ہیں۔
درحقیقت ذات پات کا نظام بہت طویل
عرصے سے قائم ہے۔ امبیڈکر، پیریار اور یہاں تک کہ گاندھی کی جدوجہد بہت اچھی شروعات
تھی لیکن آدھے راستے میں ہی ان کی رفتار رک گئی اور جو کچھ ان سے حاصل ہوا تھا وہ بھی
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ضائع ہو گیا۔ الفاظ اور اصطلاحات پر جھگڑا کرنے کی بجائے
اب ذات پات کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔
واقعی، لفظ سناتن نے ایک طویل سفر
طے کیا ہے۔ اس کی ابتداء بدھ مت، جین مت سے ہوئی اور آخر کار اس نے منوسمرتی میں اپنی
جگہ بنا لی، اور اب دور حاضر میں یہی برہمن واد ہندو مت کی علامت بنتا ہوا نظر آ رہا
ہے۔ اسے سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے، ہمیں ہندوستان کے آئین کے مطابق ایک ایسے معاشرے
کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں مساوات کا راج ہو۔ اس کے علاوہ، یہ بالکل صاف ہے کہ
ادھیاندھی کے اس تبصرے کا تعلق انڈیا اتحاد سے نہیں ہیں — لیکن کیا بی جے پی اسے انتخابی
مسئلہ بنا سکتی ہے یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ بی جے پی نے کرناٹک
میں بجرنگ بلی کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی، اور اسے انتخابات میں منہ کی کھانی
پڑی۔
------
رام پنیانی انسانی حقوق کے کارکن
ہیں۔ یہ ان کی ذاتی رائیں ہیں۔
ماخذ: Udhayanidhi’s
‘Eradicate Sanatan Dharma’ Call is What Periyar, Ambedkar Sought
-----------------
English
Article: Udhayanidhi’s ‘Eradicate Sanatan Dharma’ Call is What
Periyar, Ambedkar Sought
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism