پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی
حصہ اوّل
07 جنوری 2022
قرآن مجید میں امانت اور
خیانت دونوں کا ذکر کیا گیا ہے
-----------
ارشادِ الٰہی ہے:
’’بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں
فرماتا۔‘‘(الانفال :۵۸) ’’
یقیناً اللہ کسی ایسے شخص
کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔‘‘ (النساء:۱۰۷)’خیانت‘، جیسا کہ معروف
ہے، ’امانت‘ کی ضد ہے۔’ خیانت‘ کی برائی کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے قرآن کا یہ
اعلان کافی ہے کہ اللہ رب العزت، ’خیانت‘ میں ملوث ہونے والوں کو پسند نہیں
فرماتا۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرمائے اس کے انجامِ بد کے بارے میں کیا
شبہ ہو سکتا ہے؟ اس کے موجب ِ وبال و مہلک ہونے کے سلسلے میں قرآن کی یہ مزید و
ضاحت لائقِ توجہ ہے کہ اللہ کو ہرخیانت کار ناپسند ہے، اسلئے کہ وہ سخت گنہ گار
اور ناشکرا ہو تا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا دوسری آیت اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ ؍سے
ظاہر ہے۔
خیانت کی اقسام
امانت کی طرح خیانت کی
بھی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ قرآن کریم میں جہاں امانت کی
ادائیگی کا تاکیدی حکم ہے (النساء: ۵۸)، وہاں لفظ’امانات‘ ( جمع) استعمال ہوا ہے اور جن
آیات میں امانت کی ادائیگی اہلِ ایمان کے ایک امتیازی وصف کے طور پر بیان ہوئی ہے
ان میں بھی ’امانات‘ ہی مذکور ہے (المؤمنون:۸؛ المعارج: ۳۲)۔ اور جہاں امانت میں
خیانت کی ممانعت وارد ہوئی ہے (الانفال: ۲۷) وہاں بھی جمع ہی مستعمل ہے۔ اس سے یہ پہلو
سامنے آتا ہے کہ امانت کی مختلف صورتیں ہیں، اسی طرح اس کی ضد، یعنی خیانت کی بھی
مختلف قسمیں ہیں اور یہ تمام کی تمام ممنوع ہیں۔ ان میں دو سب سے بڑی یا بد ترین
قسم کی خیانت، اللہ و رسولؐ اور ا للہ کے بندوں کے ساتھ خیانت ہے۔ ان کے علاوہ
خیانت کی اور جتنی شکلیں ہیں وہ سب کسی نہ کسی طور پر ان میں سے کسی ایک سے تعلق
رکھتی ہیں۔ ارشادِربّانی ہیں:’’ اے اہلِ ایمان! اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو
اور نہ اپنی [آپس کی ] امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کا ارتکاب کرو۔‘‘ (الانفال:۲۷) اردو
تفاسیر میں اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کا مفہوم جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا
خلاصہ ہے : اللہ کے حکموں کو توڑنا ،کتابِ الٰہی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا اور
روز مرہ زندگی میں سنتِ رسولؐ پر عمل سے انحراف کرنا ۔ بعض مفسرین کے یہاں اس کی
ایک تعبیر یہ بھی ملتی ہے کہ ظاہر میں تو حکمِ الٰہی پر پابند رہا جائے،لیکن
پوشیدہ طور پر یا تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کی جائے اسی کا نام خیانت ہے۔ (تفہیم
القرآن، ج۶،ص۳۳۔۳۴؛ معارف القرآن، ج۸، ص۵۰۶؛ تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴) ان سب تشریحات کا ما حصل
یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت سے مراد ہے: ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ
کرنا، اللہ کے حکموں کو توڑنا،روز مرّہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِالٰہی کی
ہدایات ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہ کر نا اور اللہ اور رسولؐ اور
مسلمانوں کے دشمنوں کو خفیہ طور پر مدد بہم پہنچانا یا مسلمانوں کے اجتماعی مفاد
کے خلاف کام کرنا۔جہاں تک آیت میں مذکور آپس میں امانتوں میں خیانت کا تعلق ہے،
اس میں وہ تمام معاملات آتے ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یا اللہ کے بندوں کے حقوق
سے ہے ۔ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں غفلت و کوتاہی خیانت ہے۔ اسی طرح
کوئی کام یا ذمہ داری کسی کے سپرد ہو اسے نہ انجام دینا یا ا س میں لاپرواہی برتنا
خیانت ہے۔اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدمِ ادائیگی سے خیانت کی جو مختلف شکلیں ظہور
میں آتی ہیں ان کی ایک جامع تعبیر علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے اِن الفاظ میں
ملتی ہے: ’’ایک کا جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمانداری نہ
برتنا خیانت اور بددیانتی ہے۔اگر ایک کی چیز دوسرے کے پاس امانت ہو اور وہ اس میں
بے جا تصرف کرتا یامانگنے پرواپس نہ کرتا ہو یہ کھلی ہوئی خیانت ہے ،یا کسی کی
کوئی چھپی ہوئی بات کسی دوسرے کو معلوم ہو یا کسی نے دوسرے پر بھروسا کر کے کوئی
اپنابھید اس کو بتایا ہو تو اس کا کسی اور پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔ اسی طرح جو
کام کسی کے سپرد ہو اس کو وہ دیانت داری کے ساتھ انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہی
کہلائے گا،علیٰ ہٰذا، عام مسلمانوں،ائمّۂ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملّی مصالح
کے خلاف قدم اٹھانا بھی ملت سے بد دیانتی ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نبھانا بھی خیانت
ہے۔ شوہر و بیوی ایک دوسرے کی وفاداری نہ کریں تو یہ بھی خیانت ہے، د ل میں کچھ
رکھنا اور زبان سے کچھ کہنا اور عمل سے کچھ اور ثابت کرنا بھی خیانت ہے۔اسلام کی
اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں۔‘‘ (سیرۃ النبیؐ، ج۶، ص۳۹۶)
مذکورہ آیت کی نسبت سے یہ
بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ممانعت مقدم ہے۔ اس
سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت اللہ کے بندوں کے ساتھ
خیانت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص
اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے، وہ اللہ سے کئے گئے عہد کا پاس و لحاظ رکھے گااور
اس کی عنایت کردہ نعمتوں کو امانت سمجھ کر ان کی قدر کرے گا اور خالق حقیقی کا شکر
بجا لائے گا۔ وہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی امانت داری و دیانت داری کا معاملہ کرے
گا، ان کے ساتھ بے وفائی یا غداری کا معاملہ کرکے انہیں تکلیف نہیں پہنچائے گا۔
واقعہ یہ کہ جس کسی کے قلب میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور اس کے احکام کی
قدر و قیمت جاگزیں ہوگی وہ اس کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں کرسکتا جو
ان کے لئے تکلیف دہ ثابت ہو۔ ا س سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خیانت و بد دیانتی بہر
صورت لوگوں کے لئے زحمت،مضرت اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔
خیانت کیسے جنم پاتی ہے؟
اسے سمجھنے کے لئے یہ
پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسی
بُری خصلت ہے جس کا تعلق انسان کے اندرون سے ہے۔ در اصل نیت کا فتور، بُرا ارادہ
یا ناپاک جذبہ ہوتا ہے جو انسان کو خیانت کے ارتکاب پر ابھارتا ہے۔ اس میں فریب
دہی و بددیانتی مضمر ہوتی ہے اور نفاق و کذب بیانی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ نفاق اور
جھوٹ لازم و ملزوم ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں واضح کیا گیا ہے (المنافقون:۱-۲) حدیث
میں منافق کی تین علامات میںپہلی علامت جھوٹ بولنے کو قرار دیا گیا ہے: (صحیح
بخاری،کتاب الایمان،باب علامات المنافق، حدیث:۳۳)۔ یہاں یہ واضح رہے کہ
نفاق دل میں چھپی ہوئی بیماریوں میں سے ہے۔قرآن کی متعدد آیات میں ’ المنافقون
‘کے ذکر کے فوراً بعد یہ مذکور ہے : ’’اور وہ جن کے دلوں [اندرون] میں مرض ہے۔ ‘‘
(الانفال :۴۹،
الاحزاب: ۱۲،۶۰) خیانت،
جو نفاق کی ایک واضح علامت ہے، اس کے باطنی خرابی یااندرونی بیماری ہونے میں کیا
شبہ ہو سکتا ہے۔
در اصل یہ برائی جسم کے
مختلف حصوں (دل ، آنکھ اور ہاتھ، پیر وغیرہ کی حرکت ،حتیٰ کہ چشم و ابرو کے اشارے
)سے سر زد ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ ارشادِ ربّانی
ہے: ’’وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں
چھپی ہوئی چیزوں (رازوں / باتوں) تک کو بھی جانتا ہے۔‘‘ (المومن:۱۹) دل کی خیانت کی ایک صورت
یہ بھی ہے کہ راز کی بات کسی کو بتا دی جائے یا کسی کا راز دوسر ے کے سامنے افشاء
کردیا جائے۔ اس تحریر کے شروع میں مذکورہ آیت کے شان ِ نزول میں جو واقعہ ( حضرت
ابو لبابہ ابن عبدالمنذرؓ کا بنو قریظہ کے لوگوں سے گفتگو میں جسم کے ایک حصہ کی
طرف اشارہ کرکے اہلِ اسلام کے راز کو افشاء کردینا) بیان کیا جاتا ہے اسے دل کی
خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک آیت میں ان دو خواتین (یا زوجاتِ حضرت
نوحؑ و حضرت لوطؑ) کی مثال بدترین عورتوں کے طور پر دی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے
شوہروں( جو نبی تھے) کے ساتھ خیانت کی۔ارشادِالٰہی ہے:
’’ اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ و لوطؑ کی بیویوں کوبطور مثال
پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں،مگر انھوں نے اپنے شوہروں
سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دونوں سے کہا
گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہوجائو داخل ہونے والوں کے ساتھ۔‘‘ (التحریم:۱۰)
یہ ان خواتین کی سراسر ہٹ
دھرمی ا ور انتہائی محرومی تھی کہ انبیائے کرامؑ کی زوجیت میں ہونے کے باوجود
انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی۔ اس خیانت کی نسبت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دل
کی خیانت تھی ، اس لئے کہ وہ اپنے شوہروں (جو
نبی تھے) پر ایمان نہیں لائیں۔ انھوں نے دین کے معاملے میں ان کی مخالفت کی
اور ان کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کا ساتھ دیتی رہیں۔ مزید یہ کہ خفیہ طور پر انھیں مدد بہم پہنچاتی
رہیں اور وہ اس طور پر کہ اپنے شوہروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی رازدارانہ
باتیں مخالفین کو بتاتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے شوہر نبیوں کے ساتھ کھلی ہوئی
بے وفائی کا ثبوت دیا۔
آیت میں ان کے اس طرزِ
عمل کو خیانت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن قرار دیا گیا ہے ، اس لئے کہ یہ
خیانت کی ایک بد ترین شکل تھی۔ ( تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴ ،حاشیہ ۶، معارف القرآن،مکتبہ
مصطفائیہ ،دیو بند،۸؍۵۰۶ ) حقیقت
یہ ہے کہ خیانت، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، اس کا تعلق انسان کے اندرون یا اس کے
نفس سے ہوتا ہے۔خیانت کو چھپی ہوئی برائی یا اندرونی بیماری اسی وجہ سے کہا جاتا
ہے کہ ا س میں سب سے بڑا دخل نیت کی خرابی کا ہوتا ہے۔ در اصل یہ ناپاک ارادے (کسی
کو نقصان پہنچانا،کسی کے مخالف یا دشمن کی خفیہ مدد کرنا، کسی کو ذہنی اذیت دینا،
بد دیانتی کرکے مال کی ہوس پوری کرنا، اپنے فائدے کے لئے کسی کے راز کو افشاء کر
نا) ہوتے ہیں جو خیانت جیسی سنگین برائی کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں ۔ (جاری)
7 جنوری، 2022، بشکریہ:
انقلاب،نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism