سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
17 مئی،2022
چند دنوں قبل ایک ٹی وی چینل
نے یونیفارم سیول کوڈ پر ایک مباحثے کا انعقاد کیا۔اس سے سیاست دانوں کو الگ رکھا گیا
تھا اور صرف ماہرین قانون, سماجی کارکنان اور حقوق نسواں کے شعبے میں کام کرنے والی
شخصیات کو شامل کیا گیا تھا۔ جسٹس دیپک گپتا, مشہور وکیل کولن گونزالویز، ماہر سماجیات آلوک پرسنا، بھارتیہ مہیلا آندولن
کی روح رواں ذکیہ سومن , ایڈوکیٹ آریاما سندرم ,اورصحافی اور حقوق انسانی کارکن فائز
انور نے اس مباحثے میں حصہ لیا.
یونیفارم سیول کوڈ پر بحث
نئی نہیں ہے۔ اسے جب دستور کے ڈائریکٹیو پرنسپل میں شامل کیا گیا تھا تب سے اس پر پرزور
بحث چل رہی ہے۔ ہندوستانی دستور کے معماروں نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا
جہاں قانون کی نظر میں سب برابر ہوں اور اسی لئے یونیفارم سیول کوڈ کے تصور کو ڈائریکٹیو
پرنسپل میں شامل کیا گیا تھا تاکہ مستقبل میں اسے قابل عمل بنانے کی کوشش کی جائے۔
مگر ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی معاشرے میں یونیفارم سیول کوڈ جیسا قانونی
نظام نافذ کرنا ایک مشکل امر ثابت ہوا۔
ہندوستان میں مختلف مذاہب
کے پیروکار رہتے ہیں اور ہر مذہب کا زندگی گذارنے, شادی, طلاق, وراثت, پیدائش وموت,
گارجین شپ اور جرم وسزا کے متعلق اپنا الگ قانون ہے۔ پھر ہندوستان کے ایک بڑے حصے میں
قبائلیوں کی اپنی ثقافت اور رسم ورواج اور قوانین ہیں۔ رہن سہن اور غذا اور پہناوے
میں بھی فرق ھے۔ جو غذا ایک مذہب کے پیروکاروں کے لئے حلال ھے وہ دوسرے مذہب کے پیروکاروں
کے لئے حرام ھے۔ جو لباس ایک مذہب کے پیروکاروں کے لئے لازمی مذہبی جز و ھے وہ دوسرے
مذہب کے پیروکاروں کے لئے لازمی نہیں ھے۔ ایک فرقہ بالکل برہنہ رہنے کو اپنا مذیبی
حق سمجھتا ھے تو ایک فرقہ پورے جسم کو ڈھانپنے کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ھے۔ایسے
معاشرے میں کوئی ایسا قانون سب کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ ایسا قانون مختلف
مذہبی قوانین سے متصادم ہوگااور ملک میں انتشار پھیلے گا۔ یہی وجہ تھی کہ گذشتہ ستر
برسوں میں کانگریسی اور غیر کانگریسی حکومتوں نے یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ پر غور
نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنا بھیڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینے کے مترادف ہوتا۔
انہی سب پہلوؤں پر غور کرنے
کے لئے ٹی وی چینل نے اس بحث کا انعقلاد کیا تھا۔
اس بحث کے شرکاء نے یونیفارم
سیول کوڈ پر متضاد موقف کا اظہار کیا۔ کسی نے کہا کہ ایسا قانون لاگو ہونا چاہیے جبکہ
کسی نے کہا کہ ہندوستان میں سیول کوڈ ممکن ہی نہیں ھے۔
جسٹس دیپک گپتا کا موقف یہ
تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ ملک کے لئے اچھا ہوگا مگر عملی طور پر اس کے لئے ملک ابھی
تیار نہیں ھے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم یونیفارم سیول کوڈ کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن
میں ایک ایسا قانون ہوتا ھے جو تمام مذاہب کے بہترین قوانین اور سیکولر قوانین کا مجموعہ
ہو۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ فی الحال ملک میں تقسیم کرنے والی طاقتیں
کام کررہی ہیں اس لئے اس کے لئے یہ وقت مناسب نہیں ھے۔ابھی اس پر کافی بحث و تمحیص
کی ضرورت ھے۔کیونکہ بہت سے نکات ہیں جن پر ابھی بحث ہونا باقی ھے۔ مثال کے طور پر جب
آپ یونیفارم سیول کوڈ بنائیںگے تو پھر ریزرویشن صرف شیڈول کاسٹ کیلئے کیسے رکھیں گے۔اگر
ہم یونیفارم سیول کوڈ بنائیں گے توہندو جوائنٹ فیملی کو ٹیکس میں رعایت کیسے دیں گے۔اگر
ہم یونیفارم سیول کوڈ بنائیں گے توکیا قبائلی علاقوں کے قبائل کو انہیں وہ سب مراعات
دیں گے جو ابھی انہیں حاصل ہیں۔اس لئے ان کا موقف یہ تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ ہونا
چاہیے لیکن اس کے لئے سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ھے۔اگر اس وقت جلد بازی میں
یونیفارم سیول کوڈ لاگو کیا گیا تو بہت سارےہندو گروپ ہی مسئلہ کھڑا کریں گے ۔کیونکہ
ہندوستان میں بے شمار مذیبی اور ثقافتی گروپ ہیں اور ہر گروپ کو اپنی مذہبی اور ثقافتی
شناخت پیاری ھے جسے وہ ہر قیمت پر بچانا چاہتا ھے۔ہندوستان ایک تکثیری معاشرہ ھے اس
لئے جب آپ یونیفارم سیول کوڈ کا ڈرافٹ تیار کرنے بیٹھیں گے تو آپ کو بہت ساری باریکیوں
کو ذہن میں رکھنا پڑےگا۔یہی وجہ تھی کہ لاء کمیشن کے چیرمین جسٹس چوہان نے کہا تھا
کہ یونیفارم سیول کوڈ موجودہ حالات میں نہ تو مطلوب ھے اور نہ ہی قابل عمل ھے۔ دوسری
طرف ایڈوکیٹ آریاماسندرم کا خیال تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ نہ صرف مطلوب ھے بلکہ ضروری
بھی ھے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ ہندوستانی آئین کے معماروں نے یکسانیت کا خواب دیکھا تھا
اور یکسانیت ہی سیکولزم کی بنیاد ھے۔ سیکولزم صرف فرد کے مذہبی حقوق کے تحفظ کی بات
نہیں کرتا بلکہ یہ اس سے ایک قدم آگے جاتا ھے۔ جہاں تک سماج میں ربط ضبط کا,تعلق ھے
سیکولزم کسی بھی مذہب کے ساتھ امتیازنہیں برتتا اور اسی لئے میں سمجھتا ھوں کہ یونیفارم
سیول کوڈ ضروری ھے۔جب ہم یونیفارم سیول کوڈ کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف ان مذہبی قوانین
میں مداخلت دینے کی بات کررے ہیں جو مذیب کا بنیادی جزو ہیں ان قوانین میں نہیں جو
صرف رسم ورواج پر مبنی ہیں۔۔سیول کوڈ کی یکسانیت لازمی ھے۔دوسرا سوال کہ کیا یونیفارم
سیول کوڈ قابل عمل ھے تو میرا جواب یہ ھے کہ ہاں یہ قابل عمل ھے کیونکہ تاریخ میں کوئی
بھی تبدیلی ایسی نہیں ہوئی جس کی مزاحمت نہیں ہوئی۔
ایڈوکیٹ کولن گونزالویز کا
بھی موقف یہ تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ ہونا چاہیے مگر ان کا خیال یہ تھا کہ اگرچہ بی
جے پی یونیفارم سیول کوڈ لانے کی بات کرتی ھے حقیقت میں اسے یونیفارم سیول کوڈ لانے
کی ذرا بھی نیت نہیں ھے۔اس کی وجہ یہ ھے کہ جب یونیفارم سیول کوڈ کا مسئلہ نہرو کے
سامنے آیا تھا تو امبیڈکر سے ان کی زوردار بحث ہوئی تھی۔ امبیڈکر یونیفارم سیول کوڈ
چاہتے تھے مگر نہرو نے اسے چار کوڈ میں تقسیم کردیا۔ ہندو اڈوپشن ایکٹ, یندو میرج ایکٹ
, ہندو وراثت ایکٹ , ہندو جانشینی ایکٹ اور ہندو گارجین شپ ایکٹ۔ یہ سب ایکٹ اپنی جگہ
پر دستور کے آرٹیکل 14 سے ہم آہنگ تھے کیونکہ ان کے تحت صنفی امتیاز نہیں تھا۔
لیکن میرج لاء میں سارا کنفیوزن
ھے۔ لیکن گووا میں جو سیول کوڈ ھے وہ یونیفارم سیول کوڈ سے قریب ترھے۔ جس کے تحت ہم
ایک درست میرج ایکٹ لا سکتے ہیں۔ لیکن کیا بی جے پی اس طرح کا نظام لاگو کرنے کی ہمت
کرسکتی ھے۔ اسی طرح جانشینی کے معاملے میں انڈین سکسیشن ایکٹ1925 موجود ھے اس میں تھوڑی
سی تبدیلی کرکے ایک پرفیکٹ سیکولر سکسیسن ایکٹ حاصل کیا جاسکتا ھے۔ آخر میں زراعتی
حقوق 2005۔ ہندو سکسیشن امنڈمنٹ ایکٹ نے زراعتی زمین پر ہندو عورتوں کے حقوق کی خلاف
ورزی کو ختم کردیا۔ مگر مسلم عورتوں کی حق تلفی جاری ھے۔مسلم عورتوں کو زراعتی زمین
کے حق سے پوری طرح محروم رکھا گیا ھے۔ ایسا کیوں ھے۔ یعنی یونیفارم سیول کوڈ کا نصف
کام تو پہلے ہی ہو چکا ھے۔ بنیادی حقوق صد فی صد دئے گئے ہیں۔ تمام سکسیشن ایکٹ پوری
طرح لاگو ھیں۔ زراعتی زمین پر پچاس فی صد کام ہوا ھے۔ ہندوؤں کے لئے لاگو ھے مسلموں
کے لئے نہیں۔۔ تو مسئلہ یہ ھے کہ بی جے پی اس معاملے کو قانونی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ
سیاسی نقطہ نظر سے دیکھتی ہے مسلمانوں کے خلاف سیاسی پروپیگنڈہ کے لئے۔اگر وہ نیک نیتی
سے اسے لاگو کرنا چاہے تو ایک سیکنڈ میں کر سکتے ہیں۔
فائزالرحمان کا موقف یہ تھا
کہ یونیفارم سیول کوڈ دو چار پانچ سال میں تو کیا پچاس سالوں میں نافذ نہیں کیا جاسکتا
کیونکہ لاء کمیشن بھی 2018 میں اپنے 185 صفحات کی دستاویز میں کہہ چکا ھے کہ یونیفارم
سیول کوڈ نہ تو اس وقت مطلوب ھے اور نہ ہی قابل عمل ھے۔یہ 2018 میں قابل عمل نییں تھا
تو 2022 میں حالات کچھ بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ابھی جو فرقہ وارانہ تناؤ کا ماحول ھے اس
ماحول میں یونیفارم سیول کوڈ سے تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ھے۔
دوسری بات یہ کہ جیسا کہ جسٹس
گپتا نے کہا کہہ تمام مذایب کے بہترین قوانین کو لے لیا جائے اور یونیفارم سیول کوڈ
ترتیب دیا جائے ۔ مسلم نکاح نامہ جو ایک سادہ ساقبل نکاح معاہدہ نامہ ھے جس کو سیول
کوڈ میں شامل کیا جا سکتا ھے۔ لیکن دیگر مذایب کے لوگ اسے قبول نہیں کریں گے کیونکہ
یہ مسلمانوں کا قانون ھے۔انہوں نے کہا کہ ۔اسی طرح طلاق کے لئے کئی مرحلے ہیں جن کی
تفصیل میں نے اپنے مضامین میں دی۔تین طلاق کا قانون جو رائج ھے وہ اسلام کا حصہ نہیں
ھے۔ تو کئی ماہرین قانون نے کہا کہ طلاق کا یہ طریقہ اگر یونیفارم سیول کوڈ کا حصہ
بنتا ھے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ھے کہ یہ دیگر مذایب والوں کو
قبول نہیں ہوگا۔لہذا یہ ناممکن ھے کہ آپ مختلف مذاہب سے قوانین لیکر یونیفارم سیول
کوڈ بنائیں اور اسے سب قبول کر لیں۔مزید برآں یونیٹی کے لئے یونیفارمیٹی ضروری نہیں
ھےیونیٹی اور یونیفارمیٹی مختلف چیزیں ہیں۔ہمیں ہندوستان میں تکثیریت میں اکائی کی
جستجو کرنی چاہئے۔
حقوق نسواں کارکن ذکیہ سومن
جو ایک نشست میں تین طلاق کے خلاف تحریک چلاتی رہی ہیں انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات
اور صنفی انصاف سب سے اہم ھے اور نہرو اور امبیدکر مذہب کی طاقت جانتے تھے اس لئے وہ
سمجھتے تھے کہ عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے گا اس لئے آرٹیکل 44 کے ڈائریکٹیو
پرنسپل میں یونیفارم سیول کوڈ کو شامل کیا گیا۔دیگر تمام لاء کوڈیفائی کردئے گئے, ہندو
لاء کوڈی فائی کیا گیا, کرسچن لاء میں ترمیم کی گئی مگر مسلمانوں کا مسلم پرسنل لا
جو 1937 کے شریعہ اپلیکیشن ایکٹ کے تحت آتا ھے شادی کی عمرکی رضامندی, طلاق, تعدد ازواج,
بچوں کی کسٹڈی وغیرہ تمام معاملات میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی روا رکھتا ھے۔ حالانکہ
قرآن عورتوں کو یہ تمام حقوق دیتا ھے۔۔اس کے باوجود ذکیہ سومن کا موقف یہ تھا کہ یونیفارم
سیول کوڈ کا وقت ابھی نہیں آیا ھے۔ انہوں نے کہا کہ جب آزادی کے بعد قانون ساز کاؤنسل
میں یونیفارم سیول کوڈ پر بحث ہورہی تھی تو دائیں بازو کے ہندوؤں نے اس کی اس بنیاد
پر مخالفت کی تھی کہ یہ ان کی تہذیب و ثقافت پر حملہ ھے۔ اس لئے میں لاء کمیشن کے ساتھ
متفق ہوں کہ اس کا وقت ابھی نہیں آیا ھے۔
آلوک پرسنا بھی اس بات سے
متفق نہیں تھے کہ مختلف مذاہب کے بہترین قوانین کو جمع کرکے یونیفارم سیول کوڈ بنایا
جاسکتا ھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین یونیفارم سیول کوڈ کو لازمی نہیں بناتا ھے اسی
لئے اسے ڈائریکٹیو پرنسپل میں رکھا گیا ھے۔امبیڈکر نے بھی کہہ دیا تھا کہ سیول کوڈ
لازمی نہیں ھے۔ یہ اختیاری ہونا چاہئے۔یہاں موجود شرکاء ایک لازمی یونیفارم سیول کوڈ
پر اصرار کررھے ہیں جبکہ اس کی کوئی دستوری بنیاد نہیں ھے۔انہوں نے اس بات کی طرف توجہ
دلائی کہ جب یونیفارم سیول کوڈ کو ڈائریکٹیو پرنسپل میں شامل کیا گیا تھا اس وقت اسپیشل۔میرج
ایکٹ نہیں تھا اور ہندو لاء کو کوڈیفائی نہیں کیا گیا تھا۔ 1954 میں اسپیشل میرج ایکٹ
بنایا گیا تو دراصل یونیفارم سیول کوڈ کی طرف ایک قدم بڑھایا گیا۔ دوسری مثال , پانچویں
شیڈول کو لیجئے۔ جو قبائلی علاقوں پر لاگو ہوتا ھے۔ وہاں گورنر کو اختیار ھے کہ وہ
ہندو سکسیشن ایکٹ کو لاگو نہ ہونے دے۔ دوسرے ہندو قوانین بھی قبائلی علاقوں میں نافذ
نہیں ہوتے۔دوسری مثال , آرٹیکل 371 ناگالینڈ اور میزورم سے متعلق ہیں۔ ان کی رو سے
فیملی لاء پر پارلیامنٹ کے بنائے گئے قوانین لاگو نہیں ہوں گے ۔۔ایک اور مثال انہوں
نےشادی کے متعلق دی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں میں شادی ایک مقدس,آسمانی
رشتہ ھے جسے عام حالات میں توڑا نہیں جاسکتا جبکہ مسلمانوں میں شادی ایک معاہدہ ھے
جسے آپسی رضامندی سے توڑا جاسکتا ھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کل آپ ہندوؤں اور عیسائیوں
سے کہیں گے کہ وہ شادی کو مقدس آسمانی رشتہ نہ سمجھیں اور محض ایک زمینی معاہدہ سمجھیں
اور مسلمانوں سے کہیں گے کہ وہ شادی کو ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک مقدس آسمانی رشتہ
سمجھیں جسے کسی بھی حال میں توڑا نہیں جاسکتا۔اس لئے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ
یونیفارم سیول کوڈ کا تصور ہندوستانی معاشرے سے ہم آہنگ نہیں ھے۔
ڈین نے مزید کہا کہ یہاں موجود
تمام شرکاء گووا کہ یونیفارم سیول کوڈ کی مثال دے رہے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بات ذہن میں
رکھنی چاہئے کہ کوئی تجربہ اگر ایک لاکھ کی آبادی پر کامیاب ھے تو اس کا مطلب یہ نہیں
ھے کہ وہ تجربہ 140 کروڑ کی آبادی پر بھی کامیاب ہوگا۔
ان تمام ماہرین کی آراء سے
یہ بات
سامنے آئی کہ یونیفارم سیول کوڈ کی تیاری اور اس کا نفاذ ایک ٹیڑھی کھیر ھے۔ماہرین
کی رائے میں یونیفارم سیول کوڈ کا تصور مذہبی آزادی سے متصادم ھے اور اس پر اصرار سے
ہندوستانی معاشرے میں انتشار پھیلےگا۔ کچھ کے نزدیک یہ ہندوستان میں کبھی ممکن نہیں
ھے اور کچھ کے نزدیک یکسانیت کے لئے وہ ضروری تو ھے مگر موجودہ منظرنامے میں یہ مطلوب
اور قابل عمل نہیں ھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ 2018 میں خود حکومت ہند کے لاء کمیشن نے
کہا تھا کہ ابھی یونیفارم سیول کوڈ کا وقت نہیں آیا ھے۔ ظاہر ھے کہ صرف چار سال کے
عرصے میں ایسی بڑی سماجی اور ثقافتی تبدیلی ملک میں نہیں آئی ھے کہ اس پر اصرار کیا
جائے۔ جیسا کہ کولن گونزالیز نے کہا کہ ایک مخصوص سیاسی پارٹی اسے مسلمانوں کے خلاف
سیاسی پروپیگنڈا کے لئے استعمال کررہی ھے تاکہ وہ اہل وطن کو دکھا سکیں کہ مسلمان ہر
اچھی چیز کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ اس کی مخالفت ہندو گروپ ہی زیادہ کریں گے کیونکہ
ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف ہندو ثقافتی گروپوں کو قانونی مراعات حاصل ہیں جو یونیفارم
سیول کوڈ نافذ ہونے پر ان سے چھن جائیں گی۔اس وقت وہ بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے ۔یہی
مشکل ھے جس کی وجہ سے مرکزی حکومت ابھی تک یونیفارم سیول کوڈ کا ڈرافٹ نہیں لاپائی
ھے مگر بی جے پی ریاستیں اپنی اپنی ریاستوں میں اسے لاگو کرنے کا اعلان کررہی ہیں۔
اور اگر مختلف مذاہب کے قوانین کو ملا کر سیول کوڈ بنایا جائے گا تو وہ اکبر کے دین
الہی کی طرح ہوگا جس کا کوئی ماننے والا نہ ہوگا۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism