New Age Islam
Thu May 15 2025, 07:14 PM

Urdu Section ( 16 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Turkey's Role in Israel-Palestine War اسرائیل فلسطین جنگ میں رجب طیب اردوگان کا کردار

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

16 فروری 2024

اسرائیل-فلسطین جنگ کے دوران عرب اور اسلامی ممالک کی بے بسی اوربے حسی تو افسوسناک ہے ہی ان میں سب سے زیادہ افسوس ناک کردار ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کا رہا ہے جن کا ملک 31 ممالک پر مشتمل ناٹو اتحاد کا ایک طاقتور رکن ہے۔ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں اور ناٹو کے ممبر ہونے کے ناطے امریکہ اور برطانیہ سے بھی ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ 1990ء میں جب امریکہ اور اس کے 42 اتحادیوں نے کویت کو آزاد کرانے کے بہانے عراق پر حملہ کیا تھا تو اس اتحاد میں ترکی بھی شامل تھا۔ پھر جب 2011ء میں امریکہ کی سربراہی میں ناٹو نے لیبیا میں جنگ بندی کرانے کے لئے لیبیا پر حملہ کیا تو اس وقت بھی ترکی اس اتحاد میں شامل تھا اور لیبیا کی تباہی میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ 2022ء میں جب سویڈن نے ناٹو کی رکنیت کے لئے درخواست دی تو ناٹو کے قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رجب طیب اردوگان نے سویڈن کی رکنیت کی مخالفت اس بنا پر کی کہ سویڈن نے اپنے یہاں قرآن سوزی کی اجازت دی ہے۔ نیز اس نے ترکی کے کچھ مبینہ دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ بہر حال ، ترکی کی یہ مخالفت دیرپا نہیں تھی اور جنوری 2024ء۔میں ترکی کے پارلیامنٹ نے سویڈن کی رکنیت کو منظوری دے دی۔

ترکی ناٹو کا ممبر ہونے اور امریکہ کا ایک اتحادی ہونے کے ناطے مسلم ممالک میں ناٹو کی فوجی کارروائی میں شامل ہوتا رہا ہے لیکن جب فسلطین پر اسرائیل نے فوجی کارروائی کی اور عام فلسطینیوں کا قتل عام کیا تو رجب طیب اردوگان اسرائیل کے خلاف ناٹو کا استعمال نہ کرسکے جبکہ وہ سیکیوریٹی کاونسل کی قرارداد کا جواز پیش کرکے اسرائیل کے خلاف ناٹو کو استعمال کرسکتے تھے اور اسے جنگ بندی پر مجبور کرسکتے تھے۔ناٹو کے قانون کے مطابق اگر کوئی ملک کسی بھی ناٹو ممبر ملک پر حملہ کرتا ہے تو ناٹو کے تمام ممبر ممالک اس ممبر ملک کا ساتھ دینے کے پابند ہوتے ہی ۔ اگر ترکی نے اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی کی ہوتی اور جواب میں اسرائیل نے ترکی پر فوجی حملہ کیا ہوتا تو اصولاً ناٹو ممالک بالخصوص امریکہ، برطانیہ ، فرانس جرمنی اٹلی اور یونان کو ترکی کی حمایت میں اسرائیل سے لڑنا پڑتا کیونکہ اسرائیل ناٹو کا ممبر نہیں ہے۔۔ اور اگر ناٹو ممالک ترکی کے ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو رجب طیب اردوگان ناٹو ممالک کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہوئے ناٹو کی رکنیت سے دستبردار ہو جاتے۔ ایسا کرکے وہ دنیا اور خصوصاً اسلامی دنیا میں سرخرو ہو جاتے اور عالم اسلام میں انکی وقعت اور بڑھ جاتی۔

اس کے برعکس اردوگان نے اس جنگ کے درمیان جو رویہ اپنایا وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ وہ بظاہر اسرائیل کے خلاف لفاظی کرتے رہے لیکن امریکہ کے اشارے پر درپردہ اسرائیل کی مدد کرتے رہے۔انہوں نے نومبر میں ترکی کے عوام کے احتجاج کے دباؤ میں آکر اسرائیل سے اپنے سفیر کو بلالیا مگر یہ بھی باور کرادیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات ختم نہیں کرینگے۔ ترکی کے پارلیامنٹ نے پارلیامنٹ کے حلقے میں واقع ریستورانوں اور دکانوں سے اسرائیلی پروڈکٹس پیپسی اور نیسلے کو ہٹانے کا علامتی فیصلہ لیا تاکہ عوامی غصے کو کچھ ٹھنڈا کیا جا,سکے۔وہ زبانی طور پر اسرائیل سے جنگ بندی کی درخواست کرتے رہے اور نتن یاہوکو کوستے رہے لیکن اسرائیل کے خلاف فوجی اقدام نہیں کرسکے۔ ۔ ترکی کی اسرائیل کے ساتھ بلین ارب ڈالر کی تجارت ہے۔ رجب طیب اردوگان نے اس جنگ کے دوران بھی اسرائیل سے تجارت جاری رکھی ہے اور اس طرح اسرائیل کے عوام کو راحت پہنچا رہے ہیں جب کہ اسرائیل غزہ کے عوام تک اشیائے خوردنی پہنچنے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں غزہ کے عوام فاقہ کشی کے شکار ہیں۔ یہ بھی خبر میڈیا میں آرہی ہے کہ اس جنگ کے دوران اردوگان کی حکومت نے اسرائیل کو برآمدات میں اضافہ کردیا ہے کیونکہ حوثیوں کے ذریعہ بحیرہء احمر میں اسرائیلی جہازوں پر حملوں کی وجہ سے اسرائیل کو اشیائے ضروری کی قلت کا سامنا ہے۔اسرائیل نے جنگ کے دوران صرف ٹماٹر پانچ ہزار ٹن بھیجے ہیں جو اسرائیل کی سبزیوں کی درامدات کا 50 فی صد ہے۔ ترکی کی حکومت نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو برآمدات میں اضافے کی خبر افواہ ہے۔اس کےبرعکس جنگ کے دوران اسرائیل کو برآمدات میں 45 فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ حکومت نے عذر لنگ بھی پیش کیا کہ ترکی اسرائیل کو جو اشیاء بھیجتا ہے وہ اسرائیل کے فلسطینی شہریوں اور ویسٹ بینک کے فلسطینیوں کو بھی پہنچتے ہیں۔ حقیقت چاہے جو بھی ہو اس بیان سے یہ توثابت ہوگیا کہ اردوگان کی حکومت اب بھی اسرائیل کوضروری سامان بھیج رہی ہے۔متحدہ عرب امارات ، اردن اور سعودی عرب بھی سڑک کے راستے اسرائیل کو سامان بھجوارہے ہیں۔

اسرائیل اب رفح پر بڑے پیمانے پر ہوائی حملے کرنے کی تیاری کررہا ہے ۔رفح میں غزہ کی آدھی آبادی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہے۔اگر اسرائیل نے رفح پر حملے کئے تو تاریخ کابدترین قتل عام ہوگا۔ نتن یاہو چاہتا ہے کہ رفح پر حملہ کرکے غزہ کے عوام کو مصر کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کے بعد غزہ خالی ہو جائے گا اور اسرائیل کا اس پر قبضہ ہو جائے گا۔غزہ کے عوام غزہ چھوڑ نے کو تیار نہیں ہیں۔دوسری طرف 10 فروری کومصر کے صدر السیسی نے دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے رفح پر حملہ کیا تو وہ 1979ء کا امن سمجھوتہ توڑ دیگا۔ انہوں نے رفح بارڈر پر اپنے ٹینک اور فوجی بھی تعینات کردئیے ہیں۔ لہذا، رفح پر اسرائیلی فوج کے آپریشن کی صورت میں مصر کے ساتھ اسرائیل کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ نتیجے میں اسرائیل کو حماس ، حزب اللہ اور حوثی کے ساتھ مصر سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ساتھ ہی غزہ کے عوام مصر اور اسرائیل کے اس تصادم میں بری طرح مارے جائینگے۔

اس صورت حال میں رجب طیب اردوگان پھر حرکت میں آئے اور 13 فروری کو قاہرہ میں مصری صدرالسیسی سے ملاقات کی۔ملاقات کا مقصد اردوگان نے یہ بتایا کہ وہ مصر کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں اور وہاں ایک فیلڈ ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔غزہ کی تعمیر نو کا بہانہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ غزہ میں ابھی جنگ کے رکنے کے امکانات معدوم ہیں۔ تعمیر نو کی بات جنگ بندی کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔۔دراصل اردوگان کے مصر دورے اور مصری صدر سے ملاقات کا اصل مقصد اسرائیل کے تئیں مصرکے جارحانہ رخ کو نرم کرنا اور السیسی کو رفح بارڈر سے اپنے ٹینکوں اور فوجیوں کو ہٹانے پر راضی کرنا ہے۔ اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ غزہ کے عوام کو رفح بارڈر سے کھدیڑ کر مصر کے صحرائے سینائی کی طرف لے جایا جا ئے اور اسی منصوبے کے تحت اس نے شمالی غزہ سے عوام کو کھدیڑ کر جنوبی غزہ جانے پر مجبور کیا اور اب جنوبی غزہ سے انہیں رفح پر حملہ کرکے مصر میں داخل ہونے پر مجبور کرناچاہتا ہے۔لیکن مصر نے بارڈر پر اپنی فوجیں تعینات کرکے اس کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔ ایسے میں اردوگان کا مصر کے صدر سے ملنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ السیسی کو اسرائیل کے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے سے روکنا چاہتے ہیں اور اس طرح فلسطینیوں کو غزہ سے اجاڑنے میں اسرائیل کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔

دوسال قبل جب آزربائیجان اور آرمیمیا میں جنگ ہوئی تھی تو ترکی نے مسلم۔ملک آذربائیجاننکا ساتھ دیا تھا کیونکہ آذربائیجان کے ساتھ ترکی کا گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہے۔ لیکن اسرائیل فلسطین جنگ میں آذربائیجان اسرائیل کا حامی ہے۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے بھی اردوگان ہیں۔

دس سال قبل جب رجب طیب اردوھان ترکی میں اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے خود کو عالم اسلام کے قائد کی طرح پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن اسرائیل فلسطین جنگ نے ان کے چہرے پر سے مکھوٹا اتار کر پھینک دیا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کا دفاع کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے اوریہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ناٹو میں صرف اپنے بچاؤ کے لئے شامل ہیں۔ ناٹو ملک یونان سے ترکی کا سرحدی تنازع ہے اور اس کی وجہ سے یونان سے ترکی کا ٹکراؤ رہتا ہے۔ اگر اردوگان ناٹو کے ممبر نہیں رہینگے تو یونان کے خلاف ترکی کو ناٹو کی حمایت نہیں ملے گی اور یونان کی حمایت کے بہانے امریکہ ترکی پر چڑھ دوڑے گا۔ وہ صرف امریکہ کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے ناٹو میں شامل ہیں۔ وہ امریکہ کے ہاتھوں عراق ، افغانستان اور لیبیا کا حشر دیکھ چکے ہیں۔ رجب طیب اردوگان نے نہ صرف فلسطینیوں کو بلکہ پورے عالم اسلام کو مایوس کیا ہے۔

----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/turkey-israel-palestine-war/d/131732

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..