New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 01:51 PM

Urdu Section ( 4 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

From Tunisia to India, Muslim Women Demand Equal Inheritance Rights تیونس سے لے کر ہندوستان تک، مسلم خواتین کا وراثت میں مساوی حقوق کا مطالبہ

 کیرالہ کی ایک مسلم خاتون نے وراثت سے متعلق مسلم پرسنل لا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا

اہم نکات:

1.     بشریٰ علی نے عدالت سے کہا کہ شریعت لڑکی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے اور یہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔

2.     این آئی ایس اے نامی ایک این جی او ریاستی حکومت کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے جا رہی ہے۔

3.     کیرالہ کی ریاستی حکومت نے مسلم پرسنل لا کا دفاع کیا ہے۔

 -----

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 20 جنوری 2023

 پچھلے کچھ سالوں سے ہندوستان کی مسلم خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔ انہوں نے تین طلاق کے خلاف مہم چلائی اور اسے ختم کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ اب وہ وراثت کے مساوی حقوق چاہتے ہیں۔ قرآن نے واضح طور پر مردوں اور عورتوں کے وراثت کے حقوق کی وضاحت کی ہے لیکن خواتین کا کہنا ہے کہ وہ جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ قرآن ساتویں صدی کے ایک قبائلی معاشرے سے مخاطب تھا جس میں عورتوں کو جینے کا بھی حق نہیں تھا، وراثت کے حقوق تو بھول ہی جائیں۔ وراثت میں صرف بیٹوں اور بھائیوں کے حقوق تھے۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن نے سب سے پہلے انہیں وراثت کے حقوق دیے جو اس دور کے معیارات کے مطابق ایک انقلابی قدم تھا۔ وراثت کے حقوق کے بیان والی آیات درج ذیل ہیں:

  "ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کر دیئے ہیں اور جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہده کیا ہے انہیں ان کا حصہ دو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر حاضر ہے۔" (النساء: 33)

 "آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اود نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اود نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔" (النساء: 176)

 ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اود کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے، اگر اس (میت) کی اود ہو، اور اگر اود نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے، ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے وا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہچانے میں زیاده قریب ہے، یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرده ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں وا ہے۔ تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اود نہ ہو تو آدھوں آدھ تمہارا ہے اور اگر ان کی اود ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے۔ اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وه کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔ اور جو (ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لئے چوتھائی ہے، اگر تمہاری اود نہ ہو اور اگر تمہاری اود ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا، اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔ اور جن کی میراث لی جاتی ہے وه مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو۔ اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں، اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار۔" (النساء: 11-12)

 بشریٰ علی اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ قرآن نے صرف ایک مثال قائم کی ہے اور معاشرے کو آگے بڑھنے اور خواتین کو مساوی حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مردوں کو اپنی بیٹیوں کو زیادہ دینے سے منع نہیں کرتا۔ قرآن نے جو کم سے کم مقرر کیا ہے وہ بیٹیوں اور بہنوں کو دیا جانا چاہیے۔

 وہ تیونس کے وراثتی قوانین کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تیونس نے وراثت کے قوانین منظور کیے ہیں جن میں خواتین کو وراثت کے مساوی حقوق دیے گئے ہیں۔ لیکن کیرالہ حکومت مسلم علماء کی مخالفت نہیں کرنا چاہتی۔ لہٰذا کیرالہ کے علماء اور خواتین کی تنظیموں کے درمیان ایک نیا تصادم مسلم پرسنل لا بورڈ کو کٹہرے میں کھڑا کر دے گا۔

 -------

 Muslim Women Must Be Given Equal Inheritance Rights, Gender Just Progressive Reforms Are Need of the Hour

 مسلم خواتین کو وراثت کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں، صنفی بنیاد پر ترقی پسند اصلاحات وقت کی ضرورت

 فیروز مٹھی بور والا

 19 جنوری 2023

 "شریعت کے مطابق، لڑکیوں کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، یعنی جو حصہ عورت کو وراثت میں ملتا ہے وہ مرد اولاد کی وراثت کا نصف ہے۔ یہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 15 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک مرد کے مقابلے عورت کو مساوی حصہ نہ دینے کی حد تک لاگو شرعی قانون ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 13 کی وجہ سے باطل ہے۔

 مندرجہ بالا بیان ایک مسلم خاتون بشریٰ علی کی طرف سے کیرالہ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک انتہائی اہم عرضی کی کلیدی دلیل ہے۔ اس عرضی کو جسٹس وی جی ارون نے قبول کیا اور اس کے بدلے میں انہوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے پر اپنی رائے دیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ بشریٰ علی نے مسلم پرسنل لاء (شریعت) ایپلیکیشن ایکٹ 1937 اور مسلم پرسنل لاء (شریعت) ایپلی کیشن (کیرالہ ترمیمی ایکٹ) 1963 (1963 اسٹیٹ ایکٹ) کی دفعات کو اس بنیاد پر چیلنج کیا ہے کہ ان میں واضح طور پر وراثت کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔بشریٰ علی نے مزید کہا کہ مذکورہ بالا ایکٹ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 13 اور 15 کی بھی خلاف ورزی ہے۔

 صنفی انصاف کے مقصد کے لیے یہ بہت ہی دلچسپ وقت ہیں، خاص طور پر مسلم خواتین اور ترقی پسند مردوں کے بڑھتے ہوئے دعوے کے تناظر میں، جو دونوں آئین ہند کے ذریعہ انہیں دیے گئے حقوق کے تحت مساوی شہری کے طور پر انصاف کے خواہاں ہیں، اور ساتھ ہی قرآن کے ان پہلوؤں کے اعتبار سے بھی جن سے عدل و انصاف کے اصولوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

  میں پہلے ہی یہ بتاتا چلوں کہ اسلام پہلا مذہب تھا جس نے خواتین کو وراثت اور جائیداد کے حقوق کے حقدار تسلیم کرکے بااختیار بنایا تھا۔ یہ 1500 سال پہلے کی بات ہے، جب عورتیں محض متاع یا اس سے بھی بدتر کوئی شئی تھیں۔ اس طرح قرآنی آئیڈیل عدل و انصاف کا حامی تھا۔ اس دور میں خواتین کو وراثت کے حقوق دیئے گئے تھے، لیکن ان کے مرد ہم منصبوں سے صرف نصف، پھر بھی یہ خواتین کے لیے اور انسانی معاشرے کے لیے ایک بڑا قدم تھا۔ لیکن اب اس قرآنی اصول اور استدلال کو اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے اور اس طرح عورتوں کو ان کے مرد بہن بھائیوں کے برابر وراثت کے حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بنیادی طور پر ان مسلم خواتین اور مردوں کا مطالبہ ہے جو قوم مسلم کے اندر صنفی انصاف اور مساوات کے اصولوں پر مبنی اصلاحات کی جدوجہد کی قیادت کر رہے ہیں۔

بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کی بانی اور قومی کنوینر نورجہاں صفیہ نیاز جو مسلم خواتین کے مہم کی سربراہی کر رہی ہیں، کہتی ہیں - "ہم درحقیقت اسلامی وراثت سے متعلق قرآنی آیات کو اسلام کی طرف سے خواتین کو بطور انسان تسلیم کرنے کا آغاز مانتے ہیں، جو اپنی جائیداد کی ملکیت اور اس کا انتظام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں، اور ساتھ ساتھ انہیں ایک مساوی انسان کے طور پر وراثت حاصل کرنے کا بھی حق ہے۔ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو مساوی وراثت کے حقوق دینے کا راستہ اسلامی فقہ نے بھی دکھایا ہے، جس میں والدین بہن بھائیوں کو مساوی حصہ دینے کے لیے ہبہ کا سہارا لے سکتے ہیں۔ حصص کو برابر کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسے وصیت میں شامل کر لیا جائے، جہاں حصص کو 'ایک تہائی کی وصیت' کے ذریعے برابر کیا جا سکتا ہے۔ قرآن نے والدین کو اپنی بیٹیوں کو مقررہ حد سے زیادہ دینے سے کبھی منع نہیں کیا۔ درحقیقت قرآن اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بیٹی کو کم سے کم دیا جائے، یقیناً زیادہ دیا جا سکتا ہے۔"

 یہ بات کئی اعتبار سے درست ہے، کیونکہ راقم الحروف بھی ایسے بعض مسلم والدین کو جانتا ہے جنہوں نے اپنی جائیداد اور وراثت میں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو مساوی حصہ دیا ہے۔ بہر کیف یہ ذاتی فیصلے کا معاملہ ہے، جہاں ہمیں حقیقی معنوں میں قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے، اور خود مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کا معاملہ ہے۔

 یہاں تیونس مسلم/اسلامی معاشروں اور ممالک کے لیے امید کی کرن بن کر کھڑا ہے۔ تیونس نے خواتین اور مردوں دونوں کو وراثت کے مساوی حقوق فراہم کرنے کے لیے بے مثال اصلاحات کی ہیں۔ 'مساوی وراثت کے حصص بل' کو بالآخر دسمبر 2018 میں کابینہ نے منظوری دے دی تھی۔ صدر بیجی کیڈ ایسبی کی سیکولر حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کے مہم کی رہنمائی کر رہی ہے اور اس نے اس سمت میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ صدر نے کہا کہ "میں مساوات کی وراثت کی تجویز کو قانون بنانے کے لیے پیش کرتا ہوں"۔ "ریاست خواتین اور مردوں کے درمیان مکمل مساوات قائم کرنے اور تمام ذمہ داریوں کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کی پابند ہے،" ایسبی نے 2014 میں نیا آئین نافذ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ایسبی نے مزید کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تیونس ترقی پسند طریقے سے "مرد اور خواتین شہریوں کے درمیان مکمل، حقیقی مساوات" قائم کرنے میں کامیاب ہو گا۔ تیونس بھی واحد مسلم ملک ہے جو مسلم خواتین کو غیر مسلم مردوں سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے، مردوں کو اسلام قبول کیے بغیر۔ اس طرح اب تیونس کی خواتین تیونسی مردوں کے برابر ہیں جو غیر مسلم خواتین سے بغیر اسلام قبول کیے شادی کر سکتے ہیں۔

 اس بات پر پوری مسلم دنیا میں تنازعہ پیدا ہونا یقینی تھا، لیکن تیونس کی حکومت اس پر قائم ہے۔ درحقیقت اس نے الازہر یونیورسٹی میں تقابلی فقہ کے پروفیسر سعدالدین ہلالی کی حمایت حاصل کی ہے، جنہوں نے تیونس کی حکومت کی طرف سے کی جانے والی اصلاحات کی حمایت میں ایک فتویٰ جاری کیا، جو ایک مذہبی حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ الہلالی نے مزید کہا کہ وہ تیونس کی طرف سے مردوں اور عورتوں کو وراثت میں مساوی حقوق فراہم کیے جانے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں اور یہ "فقہی اعتبار سے درست ہے اور یہ خدا کے کلام سے متصادم نہیں ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "وراثت حقوق کا معاملہ ہے نہ کہ روزے اور نماز جیسے فرائض کا،" انہوں نے مزید کہا کہ حقوق کے معاملے میں، "لوگوں کو اپنا معاملہ کرنے کا حق ہے"۔ الہلالی نے مزید کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فقیہ کے مذہبی احکام اس کے علم اور عقل کی ترقی کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور یہ کہ "ہم اب سے 20 سال بعد بالآخر وہاں پہنچ ہی جائیں گے جہاں تیونس پہنچ چکا ہے"۔ ہلالی کی ترقی پسندانہ پوزیشن کو خود الازہر یونیورسٹی کی طرف سے مخالفت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے ان کے بیانات سے پلک جھاڑ لیا۔ اسلام پسند النہضہ پارٹی کی طرف سے بھی ان اصلاحات کی مخالفت سامنے آئی ہے۔ ڈپٹی لیڈر مونا ابراہیم نے کہا ہے کہ وراثت کے معاملات میں اصلاحات "مذہب اسلام کی بنیاد ہیں اور تیونس کے معاشرے کی شناخت ہیں"۔

  لہٰذا آسان اصلاحات اور حل موجود ہیں۔ لیکن کیا ہندوستانی مسلم/اسلامی قدامت پسند ان اصلاحات کی بات کر رہے ہیں یا ان حل اور اصلاحات کی تلاش کر رہا ہے، یا یہ ایک بار پھر سے جنگ کے راستے پر گامزن ہے؟ اور یہاں یہی اصل بات ہے۔

 اب ہم اپنی توجہ کیرالہ کی طرف کرتے ہیں جو ابھرتے ہوئے طوفان کی زد میں ہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ میں مسلم خواتین کے وراثت کے مساوی حقوق کے لیے مذکورہ بالا مقدمہ دائر کیے جانے کے بعد، سماجی و سیاسی حالات میں زبردست ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ قدامت پسند مسلم تنظیمیں ان اصلاحات کی مخالفت کر رہی ہیں کہ یہ وراثت کے قرآنی اصولوں کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لا اور اس کے آئینی تحفظات کی خلاف ورزی ہے۔ خران سنت سوسائٹی جیسی ترقی پسند مسلم تنظیمیں، جو اسلامی قوانین میں اصلاحات کے لیے مہم چلا رہی ہیں، ساتھ ہی وی پی زہرہ کی قیادت میں خواتین کی ایک ترقی پسند تنظیم NISA بھی میدان میں اتری ہے۔

 مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ کیرالہ کی بائیں محاذ کی حکومت نے وراثت کے معاملے پر جمود کو برقرار رکھتے ہوئے قدامت پسند مسلم موقف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ سی ایم پنارائی وجین کی قیادت والی بائیں بازو کی حکومت سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرنے والی ہے کہ مسلم پرسنل لا سے منسلک قانون کی تمام شاخیں بشمول قانون وراثت آئین ہند کی دفعات کے مطابق ہیں۔

 بائیں محاذ حکومت کی موقف میں ہندوستانی سیاست میں ایک اور ’شاہ بانو لمحہ‘ پیدا کرنے کی گنجائش ہے، جس کے نتیجے میں ہندو دائیں بازو کو آگے بڑھنے اور فرقہ وارانہ خطوط پر ہندوستانی معاشرے اور سیاست کو مزید تقسیم کرنے کا موقع ہاتھ لگے گا۔ ہندو دائیں بازو نے پہلے ہی قدامت پسند ہندو اور مسلم دائیں بازو کی منافقت اور بائیں بازو کے دوہرے معیار کی تنقید کرنا شروع کر دیا ہے۔

 دونوں ترقی پسند مسلم تنظیموں، یعنی خران سنت سوسائٹی اور نیسا نے لوگوں کے پاس جانے اور ایک بڑی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں دستخطی مہم بھی شامل ہوگی۔ درحقیقت نیسا کی لیڈر وی پی زہرا نے دھمکی بھرے انداز میں کہا ہے کہ اگر بائیں محاذ کی حکومت حلف نامہ واپس نہیں لیتی ہے تو وہ کیرالہ سکریٹریٹ کے باہر غیر معینہ بھوک ہڑتال شروع کر دیں گی۔

 یہ ہندوستانی مسلم کمیونٹی کے لیے ان پریشانیوں پر غور کرنے کا وقت ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ اس کے باوجود ترقی پسند صنفی اصلاحات میں کافی تاخیر ہو چکی ہے۔ چونکہ قدامت پسند علما اور دانشور ترقی پسند اصلاحات کی ذمہ داری نبھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، اس لیے عام مسلم خواتین عدالتوں میں گئی ہیں اور عدلیہ اور پارلیمنٹ سے انصاف اور مساوی قوانین کے لیے اپیلیں کی ہیں۔ اس وقت تعدد ازدواج کو چیلنج کرنے، مساوی وراثت کے حقوق کے مطالبے، حلالہ اور خواتین کے ختنہ کے خاتمے، مساجد میں نماز کے لیے خواتین کے داخلے، بچیوں کی شادیوں سے حفاظت ایکٹ-2006، کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے، اور ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لاء کے وہ دیگر معاملات بھی شامل ہیں جو عدالتوں میں لڑے جا رہے ہیں۔

 ماخذ: Muslim Women Must Be Given Equal Inheritance Rights, Gender Just Progressive Reforms Are Need of the Hour

---------

English Article: From Tunisia to India, Muslim Women Demand Equal Inheritance Rights

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/tunisia-india-muslim-inheritance-rights/d/129027

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..