سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن مجید میں ’’ما ملکت ایمانکم ‘‘ کا فقرہ کئی موقعوں پر استعمال کیاگیاہے اور مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’داہنے ہاتھ کا مال ‘‘ کیاہے اور اس سے لونڈی مراد لیاہے ۔ ذیل میں وہ آیتیں اور ان کا اردو ترجمہ پیش ہے :
’’والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم‘‘ (انساء: 24)
یہ آیت اس ذیل میں ہے کہ کن عورتوں سے نکاح ممنوع ہے ۔ ان میں وہ عورتیں بھی ہیں جو شادی شدہ ہیں مگر وہ شادی شدہ عورتیں جو قید میں آچکی ہیں یعنی جنگی قیدی ہیں ان سے نکاح جائز ہے اگرچہ انکے خاوند زندہ ہیں ۔ لہذا، یہاں، ما ملکت ایمانکم سے مراد داہنے ہاتھ کا مال یا جنگی قیدی عورتیں لی گئی ہیں ۔
ایک اور آیت ہے جہاں ماملکت ایمانکم کا ترجمہ لونڈی کیاگیاہے :
’’والذین ھم للز کوۃ فعلون ۔ والذین ھم لفروجھم حفظون ۔ الاّعلی ازواجھم اور ماملکت ایمانھم غیر ملومین ۔ (المو منون : ۶)
’’اور جو زکوۃ دیا کرتے ہیں اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال یاباندیوں پر سو، ان پر کوئی الزام نہیں ۔ ‘‘
اس آیت میں ماملکت ایمانکم کا ترجمہ’’ اپنے ہاتھ کے مال یا باندیوں‘‘کیاگیاہے جبکہ اس کا ترجمہ صرف ’’اپنے ہاتھ کے مال ‘‘ ہوتاہے ۔ ’’باندیوں ‘‘ کا لفظ مترجم نے اپنی مرضی سے اضافہ کردیاہے اور قاری کو یہ تاثر دیا ہے کہ اس لفظ کا لفظی ترجمہ ’’باندیوں ‘‘ یا ’’لونڈیوں ‘‘ ہے ۔دراصل ’’ماملکت ایمانکم ‘‘ ایک gender neutral فقرہ ہے جس کا معنی ’’ہاتھ کا مال ‘‘ یا ’’داہنے ہاتھ کا مال ‘‘ ہے اور اس سے مراد ماتحت عورتیں اور مرد ہیں ۔ وہ عورتیں یا مرد غلام یا لونڈیاں بھی ہوسکتی ہیں اور ماتحت یا نوکر بھی۔ اس دعوے کی حمایت میں کچھ آیتیں قرآن سے پیش کی جاتی ہیں ۔
سورۃ النور میں عورتوں کے لئے غیر محرم کی فہرست دی گئی ہے یعنی عورتیں کن مردوں سے پردہ کریں اور کن مردوں سے پردہ ضروری نہیں ۔
’’اور اخوانھن اور بنی اخوانھن او بنی اخوانھن اور نساء ھن اور ماملکت ایمانھن ‘‘
ترجمہ ’’ اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی ہی قسم کی عورتوں اور ہاتھ کے مالوں سے ‘‘
یہاں ماملکت ایمانہن سے مراد مرد غلام ‘‘لیاگیاہے کیونکہ عورت کا پردہ مرد سے ہی ہوتاہے ۔یہاں لونڈی مراد نہیں ہے ۔
قرآن میں مرد غلام اور عورت ماتحت کے لئے عبد اور امہ استعمال کیاگیاہے ۔ جہاں پرمرد اور عورت دونوں ماتحت مراد لئے گئے ہیں وہاں اس نے ماملکت ایمانکم ‘‘ کا فقرہ استعمال کیاہے اور یہ قاری کی فہم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ تناظر کے لحاظ سے معنی مراد لے ۔
لیکن جہاں پر تخصیص ہے وہاں قرآن واضح طور پر لونڈی یا غلام کا لفظ استعمال کرتاہے ۔ مثال کے طور پر:
و انکحو الایمی ٰمنکم والصالحین من عبادکم وامائکم ‘‘ (النور :32)
’’اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیاکرو۔اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں ۔‘‘ (النور :32)
’’ولا تکرھو ا فتیتکم ‘‘ (النور : ۳۳)
’’اور اپنی لونڈیوں پر جبر نہ کرو (بدکاری کے لئے )‘‘ (النور :۳۳)
یہاں فتیتکم سے مراد انکی جوان لونڈیاں مراد ہیں ۔
یہاں لونڈیوں کے لئے فتیٰت استعمال کیاگیاہے ۔
سورہ النسا ء میں بھی جوان لڑکی کے لئے فتیٰت کا لفظ استعمال کیاگیاہے :
اسی سورۃ میں ایک اور مقام پر ’’ماملکت ایمانکم ‘‘ کا ذکر آیاہے
’’و من لم یستطع منکم طولاً ان ینکح المحصنت المومنت فمن ماملکت ایمانکم من فتیکم المومنت ط (النساء: 25)
’’اور جو کوئی نہ رکھے تم میں مقدور اس کا کہ نکاح میں لائے بیبیاں مسلمان تو نکاح کرلے ان سے جو تمہارے ہاتھ کا مال ہیں جو تمہارے آپس کی لونڈیاں مسلمان۔‘‘
یہاں ماملکت ایمانکم کے ساتھ فتیتکم کا لفظ استعمال کیاگیاہے ’’ماتحت افراد میں سے مومن لونڈیاں ‘‘ مراد لینے کے لئے کیونکہ ’’ماملکت ایمانکم سے تمام ماتحت افراد مراد ہوتے ہیں ۔
ولاتنکحوالمشرکت حتی یومن ج ولامتہ مومنتہ خیرمن مشرکتہ ولو اعجبتکم ولا تنکحوا المشرکین حتی یومنوا ج ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم اولٰئک یدعون الی النار ۔(البقرہ : 221)
’’اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لاویں اور لونڈی مومن بہتر ہے مشرک عورت سے اگر تم کو پسند ہو اور مشرک مرد سے نکاح مت کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لاویں اور مومن غلام بہتر ہے مشرک سے اگر تم کو پسند ہو۔‘‘
سورہ النور آیت ۳۳ میں’’ ماملکت ایمانکم ‘‘ کا استعمال ’’اپنے غلاموں یا جنگی قیدیوں‘‘ کے لئے کیاگیاہے جو مرد اور عورت دونوں ہوسکتے ہیں ۔
والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیہم خیراً ۔
’’اور جو تم سے تھریری پروانہ چاہیں (آزادی کا ) ان کو پروانہ دے دو اگر تمہیں اس میں خیر معلوم ہو۔ ‘‘
یہاں ماملکت ایمانکم سے مراد جنگی قیدی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں ۔ صرف غلام نہیں ۔
وسیع تر مفہوم
یہاں تک تو ماملکت ایمانکم سے ’’ماتحت افراد یا غلام یا لونڈی ‘‘ مراد لئے گئے ہیں مگر ایک آیت میں اس فقرے کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیاگیاہے ۔ سورہ النحل میں ما ملکت ایمانکم سے مراد صرف لونڈی یا غلام نہیں بلکہ تمام رعایا یا اپنے آس پاس کے تما م مفلس اور نادار افراد مراد لئے گئے ہیں جس پر ہمارے مترجمین کی نگاہ نہیں گئی ۔ وہ آیت ہے :
’’واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق ج فما الذین فضلوا برادّی رزقھم علی ماملکت ایمانہہم فھم فیہ سواء ج افبنعمتہ اللہ یجحدون ۔ ‘‘(النحل : 71)
’’اور اللہ نے بڑائی دی تم میں ایک کو ایک پر روزی میں سو جن کو بڑائی دی وہ نہیں پہنچا دیتے اپنی روزی ان کو جن کے مالک ان کے ہاتھ ہیں کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں ۔‘‘
یہاں ماملکت ایمانہم سے مراد صرف غلام یا لونڈی نہیں بلکہ وہ تمام مفلس اور حاجت مند ہیں جو کسی دولت مند فرد کے ماتحت آتے ہیں ۔ دولت مند افراد پر فرض ہے کہ وہ اپنے زکوۃ کی رقم اپنے آس پاس کے حاجت مندوں ، اپنے مفلس رشتہ داروں اور ماتحتوں کو دیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے مالی نظام کا پورا خاکہ ہے جس کے تحت دولت مند افراد کے نقطہ نظر سے اسلامی معاشرے کا ہرفرد جو حاجت مند اور معاشی طور پر کمزور ہے وہ ماملکت ایمانکم کے زمرے میں آتاہے ۔ اس میں فقیر بھی ہیں ، یتیم بھی ہیں ، مسکین بھی ہیں اور رشتے کے حاجت مند افراد بھی ہیں ۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے کوشاں رہتاہے جہاں امیر اور غریب کا فرق بہت زیادہ نہ رہ جائے ۔ اس طرح ماملکت ایمانکم کا مفہوم اس آیت میں وسیع تر ہوجاتاہے ۔ اس طرح قرآن کا مطالعہ کرتے وقت اس فقرے کا مفہوم وسیع معنوں میں لینا چاہئے اور اس سے مراد صرف لونڈی نہیں لینا چاہئے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism