مولوی محمد باقر کا قائم کردہ
دہلی اردو اخبار جدید اردو صحافت کا سرخیل ثابت ہوا
اہم نکات:
1. مولوی باقر کو انگریزوں نے ان کے قومیت پسند خیالات و نظریات کی
وجہ سے قتل کر دیا
2. مولوی باقر غیر جانبدار رپورٹنگ کے لیے مشہور زمانہ تھے
3. اسپاٹ رپورٹنگ کی شروعات کرنے والے سب سے پہلے صحافی مولوی محمد
باقر ہی تھے
----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
29 مارچ 2022
[A
sketch of Maulvi Baqir’s execution. He and other scholars were tied to canons
and were publicly blown away]
-----
اگرچہ ہندوستان میں اردو صحافت
کا آغاز مارچ 1822 میں کلکتہ کے ہفتہ وار اردو اخبار جام جہاں نما سے ہوا، لیکن اردو
صحافت کو اپنی ایک الگ پہچان 1838 میں دہلی اردو اخبار کی اشاعت سے ملی۔ جام جہاں نما
ایک ثقافتی اور ادبی اردو میگزین تھی جس نے سیاست یا حالات حاضرہ پر کوئی زیادہ مواد
نہیں شائع کیا۔ اس کی مقبولیت بھی زیادہ نہیں تھی کیونکہ اس وقت تک فارسی ہی سرکاری
زبان تھی اور اردو پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔
1834 میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ ملنے کے بعد 1838 میں دہلی اردو
اخبار کا آغاز ہوا اور آہستہ آہستہ اردو عوام کے ساتھ ساتھ اشرافیہ طبقے کی بھی زبان
بنتی گئی۔
دہلی اردو اخبار جس کی بنیاد
مولوی محمد باقر نے رکھی تھی اور وہ اس کی ادارتی ذمہ داری بھی سنبھالتے تھے ، حقیقی
معنوں میں اردو کا پہلا اخبار تھا۔ اس میں سیاسی خبریں اور حالات حاضرہ پر تجزیاتی
رپورٹیں بھی شائع ہوئیں۔ جس دور میں دہلی اردو اخبار شائع ہوا کرتا تھا وہ ہندوستان
کی تاریخ کا ایک نازک ترین دور تھا۔ ایک طرف انگریزوں کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ
ہو رہا تھا جبکہ دوسری طرف مغلیہ سلطنت کی طاقت و حکومت زوال پذیر ہو رہی تھی۔
چنانچہ مولوی محمد باقر نے
ایسے دور میں اخبار شائع کیا جب انگریزوں کے خلاف لکھنا یا بولنا ایک بڑی مصیبت کو
دعوت دینا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ایک قومیت پسند اور سچے پکے مسلمان ہونے کے ناطے
انہوں نے سچ کہنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ انہوں نے برطانوی حکومت کی پالیسیوں اور مغل
دربار کے اندر ہونے والے واقعات دونوں پر رپورٹیں شائع کیں۔
دہلی اردو اخبار کے صفحات
پر اس دور کے سماجی اور سیاسی معاملات اور حالات کی معتبر اور مستند روداد ملتی ہے۔
ایک طرف اس اخبار میں برطانوی حکومت کے نافذ کردہ نئے ٹیکسوں پر تنقید ہوتی اور دوسری
طرف عوام کو ہونے والی تکالیف اور مغل دربار کے لیے پیدا ہونے والی نئی مشکلات کا بھی
اس میں ذکر ہوتا۔ اخبار میں شائع ہونے والی خبروں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نئے ٹیکسوں
سے پیدا ہونے والے مالی طور پر اضافی بوجھ کی وجہ سے مغل دربار کے اسٹافوں کی تنخواہیں
روک لی گئی تھیں۔
مولوی محمد باقر کی صحافتی
بصیرت نے دہلی اردو اخبار کو خبروں کا ایک معتبر ذریعہ بنا دیا اور حکومت اور اشرافیہ
نے اس اخبار کو کافی سے توجہ پڑھا۔
اس اخبار سے قارئین کو اس
دور کے تہذیبی اور ادبی ماحول کا بھی علم ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے دو عظیم
شاعر مرزا غالب اور ابراہیم ذوق اسی دور میں دہلی کے اندر مقیم تھے۔ ذوق اور غالب کے
درمیان ادبی مخاصمت اردو کے ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے۔ ذوق مولوی محمد باقر کے
قریبی دوست تھے اس لیے انہوں نے مولوی باقر سے اپنی قربت کا فائدہ اٹھایا۔ دہلی اردو
اخبار میں اکثر مبالغہ آرائی کے ساتھ ذوق کے بارے میں خبریں، غزلیں اور رپورٹیں شائع
ہوا کرتی تھیں۔ جبکہ غالب کو اکثر ناقص انداز میں پیش کیا گیا اور بعض اوقات ان کی
غزلوں میں خامیوں اور کوتاہیاں بھی نکالی گئیں۔ اسی اخبار میں غالب کی جوئے کے الزام
میں گرفتاری کی خبر شائع ہوئی تھی۔ ذوق کو اپنے حریف کے بارے میں اس رپورٹ پر ضرور
خوشی ہوئی ہوگی۔
مولوی محمد باقر 1790 میں
ایک ایرانی شیعہ کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد اکبر خود ایک
عالم دین تھے اور ایک شیعہ مدرسہ چلاتے تھے۔ مولوی محمد باقر بھی ایک پڑھے لکھے آزاد
خیال شخص تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم دہلی کالج سے حاصل کی تھی اور بعد میں اپنے کالج
ہی میں معلم بن گئے اور مذہبی مضامین کے ساتھ انگریزی بھی پڑھانے لگے۔
وہ فقہ شیعہ میں کافی مہارت
رکھتے تھے اور اس میدان میں ان کی ایک پہچان تھی لیکن اہل سنت و جماعت کے خلاف فرقہ
وارانہ تعصب نہیں رکھتے تھے۔ وہ تبرا کے خلاف تھے جس کی وجہ سے قدامت پسند شیعوں کے
ایک طبقے کی جانب سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ چنانچہ ایک شیعہ عالم جعفر
علی نے ان کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور پھر ان کے خلاف بائیکاٹ کا اعلان شائع کیا گیا۔
مولوی محمد باقر اور جعفر علی کے درمیان بعض دیگر مذہبی مسائل پر اختلافات اس قدر شدید
ہو گئے کہ دہلی کے اہل تشیع دو گروہوں میں بٹ گئے ۔ ایک گروہ کو باقریہ اور دوسرے کو
جعفریہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اپنے بیٹے محمد حسین آزاد
(جو بعد میں خود ایک اردو ادیب اور نقاد بنے) کو فرقہ وارانہ تعصب سے دور رکھنے کے
لیے انہوں نے بعد میں ایک سنی استاد کی تربیت میں دے دیا۔
جب مولوی محمد باقر نے اپنا
اردو اخبار شروع کیا اور اپنا پریس قائم کیا تو انہوں نے اپنے اخبار اور پریس کو فرقہ
وارانہ عقائد سے دور رکھا۔ درحقیقت انہوں نے شاہ عبدالقادر کا لکھا قرآن کا پہلا اردو
ترجمہ اپنے پریس سے شائع کیا حالانکہ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالقادر سنی تھے۔
انہوں نے اپنے پریس سے ہندو مذہب کی کتابیں بھی شائع کیں۔
1857ء کی بغاوت ہوئی تو مولوی محمد باقر کے اخبار نے انگریزوں کے خلاف
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ برطانوی افسروں کی لڑائی اور ہلاکتوں اور آزادی کے متوالوں کی
پیش قدمی کی خبریں بے خوف و خطر شائع ہونے لگیں۔ انگریزوں کے خلاف علمائے کرام کے جاری
کردہ جہاد کے فتوے بھی بڑھ چڑھ کر شائع کیے گئے۔ مغل بادشاہ اور دیگر قائدین کی تقاریر
اور پیغامات بھی مسلسل شائع ہوتے رہے۔ مولوی باقر نے اسپاٹ رپورٹنگ کی صنف بھی متعارف
کرائی۔ وہ گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے اور بغاوت کی خبریں لکھا کرتے تھے۔ دراصل مولوی
باقر کو ہندوستانیوں کی فتح کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف رپورٹنگ
کرتے ہوئے کبھی ان کا خوف اپنے دل میں آنے نہ دیا۔
لیکن اس بغاوت کا سر کچل دیا
گیا اور انگریز آزادی کے متوالوں کے ساتھ انتہائی بے رحمی سے پیش آئے۔ ہزاروں آزادی
کے متوالوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اخبارات کے دفاتر جلا دیے گئے اور ان کی تمام
کاپیاں بھی نذر آتش کر دی گئیں۔ علمائے کرام کو یا تو پھانسی دی گئی یا گولی مار کر
ہلاک کر دیا گیا۔ دہلی میں دہشت کا راج تھا۔ جن پر بغاوت میں شریک ہونے کا شبہ ہوتا
انہیں اٹھا کر پھانسی دے دی جاتی تھی۔ اس دور میں کالے خان نام کا ایک مخبر تھا جس
کی اطلاع پر بہت سے آزادی کے متوالوں کو یا تو پھانسی دی گئی یا گولی مار دی گئی۔ غالباً
سرائے کالے خان اسی کے نام سے منسوب ہے۔
انگریزوں نے مولوی محمد باقر
کو (دہلی کالج کے) پرنسپل ٹیلر کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا جو مولوی باقر کا
طالب علم تھا۔ بغاوت کے دوران جب ہندوستانی مجاہدین آزادی برطانوی افسروں کو مار رہے
تھے، پرنسپل ٹیلر نے مولوی باقر کے گھر میں پناہ لے رکھی تھی۔ لیکن جب اسے لگا کہ آزادی
پسند اسے وہاں بھی پکڑ لیں گے تو وہ بھیس بدل کر مولوی باقر کے گھر سے نکل گیا لیکن
آزادی پسندوں نے اسے پہچان لیا اور مار ڈالا۔ وہ 12 مئی 1857 کو مارا گیا۔ 16 ستمبر
1857 کو برطانوی حکومت نے مولوی باقر کو پرنسپل ٹیلر کے قتل کا ذمہ دار یا اس کا شریک
کار قرار دیا۔ انہیں فوراًگولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
وہ تو مر گئے لیکن اپنے پیچھے
قومیت پسندی اور حب الوطنی کی میراث چھوڑ گئے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو صحافت
کی ترقی میں ان کی خدمات آب زریں سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
English
Article: A Tribute to the First Martyr of Urdu Journalism
Maulvi Mohammad Baqar
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism