رفیق احمد رئیس سلفی
ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک افراد امت کی طلاق کے معاملے میں تربیت نہیں کر پائے اور انہیں یہ بتانے میں ناکام ہیں کہ اسلام میں طلاق دینے کاطریقہ کیا ہے۔ اپنے دین سے ناواقف مسلمان غصے میں آکر خلاف اسلام کام کر بیٹھتا ہے او رہم خدائی فو جدار بن کر اسے سزا دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ خطا اور نسیان تو وہ ذات بھی معاف کرتی ہے جس نے یہ سارا بزم عالم سجایا ہے اور جس نے انسان کو وجود بخشا ہے لیکن فقہائے کرام کے یہاں خطا و نسیان کی معافی کا کوئی خانہ نہیں ہے۔ حالات و زمانہ کی رعایت سے فتویٰ دینے کا دعویٰ کرنے والے فقہائے کرام اس مسئلے میں کیوں اس کی رعایت نہیں کرتے ۔ عربوں میں عورت کی شادی بہت آسانی سے ہوتی ہے، مطلقہ او ربیوہ عورت کے لیے آج بھی اتنے پیغامات ہوتے ہیں کہ اسے ان کے درمیان بہتر سے بہتر رشتے کے انتخاب کی سہولت موجود ہوتی ہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں کنواری بچیوں کی شادی آسانی سے نہیں ہوتی مطلقہ او ربیوہ عورت توبہت دور کی بات ہے ۔ ممکن ہے ایک عرب شوہر کو بیوی سے محروم ہوکر سزا مل جاتی ہو لیکن ہمارے ملک میں طلاق کی سزا صرف عورت کو ملتی ہے ۔ یہاں بھی تاویلات ہوں گی کہ جن حضرات کی معاشرے پر گہری نظر ہے اور وہ بلاوجہ کسی فقہی تعصب میں گرفتار نہیں ہیں، وہ اس سچائی کا اعتراف کریں گے۔ ذیل سطور میں قرآن کی روشنی میں اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے او راحادیث نبویہ سے استشہاد کر کے قرآن کے مفہوم کو متعین کیا گیا ہے۔
(1)بعض ناگریز حالات میں اسلام نے طلاق دینے کو جائز قرار دیا ہے اور اس طرح اس نے ازدواجی زندگی کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کیا ہے۔ اسلام کا یہ قانون زوجین کے لیے رحمت او رباعث سکون و اطمینان ہے۔ اسے جو حضرات زحمت قرار دیتے ہیں انہیں انسانی احتیاجات او راس کی نفسیات کا وسیع اور گہرا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ زوجین کی عفت و پاک دامنی او رایک دوسرے کے تئیں اعتماد از دواجی زندگی کو پر کیف ہی نہیں اسے عظیم بھی بناتی ہے۔ فرایڈ کے نظریہ جنس سے جو حضرات متاثر ہیں، انہیں یہ بات شاید کبھی سمجھ میں نہ آئے ۔ اسلام ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ وہ اپنی دنیا میں مگن رہیں ، دارالامتحان میں انہیں اس کی کھلی آزادی حاصل ہے لیکن اپنے نظریے پر اصرار اور دوسروں پر زبردستی اسے تھوپنے کی کوشش اس آزادی کے خلاف ہے جس کی یہ حضرات خود وکالت کرتے ہیں ۔ لکم دینکم ولی دین ، آخری وحی کا وہ اعلان ہے جو اس دنیا میں سب کو اپنے نظریے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دیتا ہے۔
(2) طلاق دینے کی ضرورت آن پڑے تو اس کا طریقہ اسلام یہ بتاتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق نہ دے ، حالت طہر میں طلاق دے او راس طہر میں جس میں اس نے اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ حالت حیض میں عورت بسا اوقات ذہنی تناؤ کا شکار ہوتی ہے ، وہ اس تناؤ کی حالت میں اپنے شوہر کی کسی بات کا ایسا جواب دے سکتی ہے جو اسے ناراض کردے اور مجامعت کی صورت میں امکان اس بات ہے کہ اسے حمل قرار پا جائے جس کا اسے بھی بعد میں افسوس ہو۔ حالت طہر میں بھی ایک طلاق دے اور بیوی کواپنے گھر سے باہر نہ نکالے۔ ازدواجی زندگی کی مسرتیں جن کو میسر آچکی ہیں، ان کے لیے دوسرے سے زیادہ دنوں تک جدا رہنا مشکل ہے۔ بیوی سامنے ہوگی تو اسے بھی اس جدائی کا افسوس ہوگا اور شوہر بھی اس رشتے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے سے گھبرائے گا، اسے بیوی پر ترس بھی آئے گا او روہ اپنے کیے پر نادم بھی ہوگا ۔ وقتی طور پر جن جذبات سے مغلوب ہوکر شوہر نے بیوی کو طلاق دی تھی، ان کا نشہ اترتے ہی وہ اپنے رویے پر نظرثانی کرے گا۔ یہی وہ تمام حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ نے شوہروں کو حکم دیا ہے کہ ایک طلاق کے بعدوہ بیوی کواپنے گھر سے نہ نکالے اور بیوی کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی غصے میں آکر شوہر کا گھر نہ چھوڑے۔ ہمارے علمائے کرام اس حکم کی حکمت اور افادیت بتانے سے بھی ابھی تک عاجز ہیں، کم ہی جوڑے ایسے ہوں گے جو اس قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوں۔ علمائے کرام کویہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہماری کتب فقہ میں اگر چہ اس قرآنی حکم کو قانون کا درجہ نہیں دیا گیا ہے لیکن زمانے کی ضرورت او ربے عمل او ربدعمل شوہروں کے ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے اگر اسے قانون کا درجہ مل جائے تو اس میں حرج کیا ہے۔ اللہ نے اس طریقۂ کار کو نفلی کام یا مستحب سمجھ کر تو بیان نہیں کیا ہے کہ ہمیں اس پر عمل کرنے اورنہ کرنے کا آزادی حاصل ہے۔
(3)اگر کسی مسلمان نے اپنی بیوی کو قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف حالت حیض میں یا جس طہر میں اس نے بیوی سے جماع کیا ہے، اس میں طلاق دے دی یا ایک طلاق دینے کے بجائے تین طلاق ایک ساتھ دے دی تو اب کیا ہوگا؟ یہی وہ نقطہ ہے جہاں فقہائے کرام کا او رمسالک اربعہ کا اختلاف ہوا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ شوہر نے جب طلاق دے دی تو اب وہ واقع ہوگی چاہے جس طرح دی ہو۔ مسالک اربعہ کے اس نقطۂ نظر کے خلاف سب سے پہلے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم الجوزیہ نے آواز بلند کی اور شرعی نصوص سے یہ ثابت کیا کہ تین طلاق ایک ساتھ کبھی بھی نافذ نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر طلاق دینے ولا اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے تین طلاق دی تو وہ صرف ایک تسلیم کی جائے گی کیونکہ قرآن یکے بعد دیگرے طلاق دینے کا حکم دیتا ہے ۔ طلاق کے ساتھ صرف تین کا عدد استعمال کرنے سے تین طلاق نہیں ہوسکتی ۔ شریعت میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں جیسے سجدے میں ایک نمازی کو حکم ہے کہ تین بار سبحان ربی الاعلی کہے۔ اس حکم کی تعمیل تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی الگ الگ کہنے سے ہوگی ۔ اگر کوئی نمازی یہ کہے کہ تین بار سبحان ربی الاعلی تواسے صرف ایک شمار کیا جائے گا۔اسی طرح نماز کے بعد تسبیحات میں اگر کوئی شخص کہے کہ تینتیس بار سبحان اللہ ، تینتیس بار الحمد اللہ اور چونتیس بار اللہ اکبر تو یہ تسبیحات صرف ایک بار شمار ہوں گی۔ تعداد پوری کرنے کے لیے اسے ان تسبیحات کو مذکورہ تعداد کے مطابق دہرانا ہوگا۔
اسی طرح شوہر کا بیوی سے یہ کہنا کہ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، اس سے صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوگی کیونکہ جب پہلا جملہ اس نے استعمال کیا تو بیوی مطلقہ ہوگئی ۔ اب وہ اس کی بیوی ہی نہیں رہی ، بیوی اس وقت بنے گی جب وہ رجوع کرے گا۔لہٰذا بعدکے دونوں جملے لغو قرار پائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے نے حالت حیض میں اپنی بیو ی کو طلاق دے دی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: کیا میری موجودگی میں کتاب الہٰی سے کھلواڑ کیا جائے گا۔ آپ نے رجوع کرنے کا حکم دیا اور پھر طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتایا ۔ حدیث رکانہ میں بھی آتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کی اجازت دی۔ صحیح مسلم میں سید نا ابن عباس کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر کے عہد میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسالوں میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ بعد میں سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے تعزیری قانون بنا کر عورتوں کو راحت پہنچائی اور وہ اس لیے کہ ایک شوہر طلاق دے کر دو مہینے اٹھائیس دن بیوی کو تنگ کرتا ہے اور پھر ایک دن پہلے رجوع کر لیتا ۔ قانون کا غلط استعمال روکنے کی یہ ایک وقتی تدبیر تھی جسے بعض فقہائے کرام نے اسلام کے دائمی قانون کی حیثیت دے دی۔ اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکمل ہوچکا ہے۔ کوئی اجتہاد اور اجماع اسی وقت تک قابل عمل ہوگا جب اس کی معنویت موجودہوگی، معنویت ختم ہوجائے تو دوسرے دور کے علمائے اسلام کے لیے جدید اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں اس وقت جومسئلہ زیر بحث ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ عدالت اورعوام کے سامنے اس مسئلے کو جس انداز میں اٹھا رہا ہے ، وہ ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کوئی مظلوم عورت جب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے، اسی وقت کیوں ہمیں اسلام کے اصول اور ضابطے یاد آتے ہیں ۔ ایک مسلمان شوہر جس وقت اپنی بیوی پر ظلم کررہا ہوتا ہے ، اس کے بھائی اسے جائیداد سے محروم کررہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے معصوم بچوں کو گود میں اٹھائے در در کی ٹھوکریں کھار ہی ہوتی ہے، اس وقت بیداری کی مہم کیو ں نہیں چلائی جاتی ۔ جس حلالہ کو بعض فقہی مکاتب فکر نے کار ثواب لکھ کر فقہی جواز عطا کیا ہے اور جس حلالہ کے لیے بڑے بڑے ’’ زباد اور اتقیاء ‘‘ اپنی خدمات پیش فرماتے ہیں، اگر یہ اسلام کا قانون ہے تو ایسے اسلام سے دنیا کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ۔ ہمارا اسلام اتنا کمزور نہیں ہے کہ کوئی اس میں مداخلت کرسکے یا کسی کی مداخلت سے اس پر آنچ آجائے او راس کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں ۔ بہتر ہوگا کہ اسلامی قوانین کے ماہر علمائے کرام ، مسلمان وکلاء ، عدلیہ کے ذمہ دار جج صاحبان او رحکومت کے نمائندے بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں ۔ ایک ایسا قانون بن جائے جس میں عورتوں کو تحفظ حاصل ہو اور قرآن اور سنت کی روح سے وہ متصادم نہ ہو۔ رہے فقہی مکاتب فکر کے وہ جزئی مسائل جو حالات او رزمانہ کی پیداوار ہیں اور جو یقیناًقرآن اور سنت کی روح سے متصادم ہیں، انہیں چھوڑ دیا جائے، ان پر اصرار کرنے سے ممکن ہے آپ کے فقہی مکتبہ فکر کی واہ واہ ہوجائے لیکن اسلام دنیا میں رسوا ہوجائے گا اورمسلمان عورت کی مظلومیت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا او رنہ اس کے دکھوں کا مداوا ہوسکے گا۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/this-confusion-issue-divorce-/d/111126
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism