انجینئر محمد عادل
20 دسمبر 2020
علی سردار جعفری کا شمار
ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے ان کی شخصیت ہمہ
جہت پہلووں کی حامل تھی ۔وہ بہ یک وقت ایک اچھے شاعر اور نقاد کی حیثیت سے ادب میں
پہچانے گئے۔ بقول وحید اختر’’سردار جعفری نے ایک عمر میں کئی عمریں ہی نہیں گزاریں،بلکہ ہر عمر میں مختلف
سطحوں پر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن اسی
کے ساتھ ادب کے اچھے ناقد بھی ہیں۔بے مثال مقرر بھی ہیں۔کلاسکی ادب کے شارح
بھی،سیاسی رہنما بھی اور ادبی نظریہ ساز بھی۔‘‘(علی سردار جعفری شخص شاعر اور ادیب
مرتب عبدالستاردلوی۲۰۰۲ء
انھوں نے تمام عمر ترقی پسند تحریک کا دامن تھامے رکھا اور اُس کی ترویج و تبلیغ میں اپنی تخلیقات کو زورِ تخیل سے آراستہ کرکے عوام و خواص کے سامنے پیش کرتے رہے۔
علی سردار جعفری
------
وہ بنیادی طور پر نظم
کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہیںجن کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اور مربوط
ہیں اور ایک جذباتی رو اُن میں پائی جاتی ہے ساتھ ہی ان میں ایک ایسا صوتی آہنگ
ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔چونکہ وہ ایک درد مند دل کے مالک تھے اور سماج و کائنات
میں اصلاحی کارفرمائیوں کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ یعنی قوم و ملت کی خوش حالی و
ترقی ان کاخواب تھا اس لئے انھوں نے اپنی پوری شاعری کو امن و سلامتی کا پیغامبر
بنا کراہلِ ادب کے روبرو پیش کیا۔ان کے یہاں یقین بلندیوں پر فائیز نظر آتا ہے وہ
بداعتقادی کے شکار نہیں ہوتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا جو بھی خیال یا نصب العین تھا وہ
مستحکم طور سے آگے بڑھتا رہا ۔ وہ سادہ گو اور سلیس شاعری کے دلدادہ رہے ۔
اس بات سے کوئی بھی
نقاد یا اہلِ ادب ہرگزانکار نہیں کر سکتا کہ سرسید کی تحریک کے بعد ترقی پسند
تحریک نے سب سے زیادہ اپنے اثرات ڈالے اور ادب پر اپنا نمایاں اور منفرد اندازِ
اثر ثبت کیا۔ ترقی پسند تحریک کے سلسلے میں اگرچہ سب سے پہلا نام سجاد ظہیرؔ کا
آتا ہے لیکن علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں کی حیثیت کے طور پر
جانے جاتے ہیں ۔
’’تحریک، تنظیم اور تخلیق کا باہمی رشتہ ہے۔تحریک کسی بھی تاریخی
عہد میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کی غیر اورغیر شعوری تمنائوں اور آرزئوں کا اظہار
ہوتی ہے یہ وقت کے تقاضوں سے پیدا ہونے والے اجتماعی احساس کا نام ہے اور یہ
اجتماعی احساس تنظیم اور تخلیق کا مطالبہ کرتا ہے۔تنظیم تحریک کی کامیابی کے لئے
آسانیاں فراہم کرتی ہے اور تخلیق تحریک کا حاصل ہے۔‘‘
ان کے خیال کی روشنی میں
ان کی ترقی پسند تحریک سے متعلق جزبہ سب
پر آشکار ہو جاتا ہے۔اسی طرح ان کی نظموںمیں بھی انقلاب کی ترجمانی صاف نظر آتی
ہے اور وہ اس کے ذریعے ترقی پسندوں کی دل کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مثال
کے طور پر وہ اپنی نظم’’ جوانی‘‘ میں کہتے ہیں:
مراجی لگ نہیں سکتاہے
شاہوں کی شبستاں میں
بنایا ہے نشیمن میں نے
زخموں کے گلستاں میں
مرے ہونٹوں پہ نغمے
کانپتے ہیں دل کے تاروں کے
میں ہولی کھیلتا ہوں خون
سے سرمایہ داروں کے
ان کے مشاہدے میں ان کے قُرب و جوار کی
دنیاصاف نظر آتی ہے جو عوام کا درد،کرب اور رنج و الم سمیٹ کر شاعری کا قالب
اختیار کر لیتا ہے۔
’’اگر سردار جعفری کے
کلام کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کی شاعری میں جو سب سے نمایاں
خصوصیت نظر آتی ہے وہ امیجری یاپیکر تراشی کا استعمال ہے۔‘‘
نظم ’’نیند‘‘ کا
مطالعہ کرنے سے بھی ان کی پیکر تراشی کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں‘ جس میں وہ
جیل کی چاردیواری ،سلاکھوں اور رات کی ایک بے مثال کیفیت پیش کرتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔
ان کی شاعری میں
محرکات،جذبات،تجربات کے ساتھ ساتھ تمثیل اور ڈرامائی عناصر کی بھی جھلک دیکھنے کو
ملتی ہے مثلاً ان کی نظم’’ نوالا‘‘ اس بات کی ترجمان ہے۔
وہ آزادی کے بعد تقسیمِ
ہند کے کرب سے بھی دوچار نظر آتے ہیں۔
ہند و پاک کے مسائل اور ان کے حالات کی بھی منظر ان کی شاعری میں بخوبی
نمودار ہوتی ہے۔وہ بین الاقوامی اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وہ ہندوستان اور پاکستان
کہ رشتوں کو بھی ہموار کرنا چاہتے تھے اس کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہمارے دل میں رفاقت بھی
اور پیار بھی ہے
تمہارے واسطے یہ روح بے
قرار بھی ہے
وہ ملک میں امن و شانتی
کی فضابھی قائم کرنا چا ہتے تھے مثلاً اپنی ایک نظم وہ اس طرح عوام کو مخاطب کرتے
ہیں:
متحد ہو کراُٹھو جس طرح
دریا میں ابال
متحد ہو کر بڑھو جیسے
صحرا میں غزال
متحد ہو کراُڑو جس طرح
شاعر کا خیال
متحد ہو کر چلو
مانندِبادِ برشگال
پھر بہار آجائے شاخِ
آرزو پھلنے لگے
کھیتیاں شاداب ہوجائیں
ہوا چلنے لگے
اس کے ساتھ ساتھ انھوں
نے اپنے کلام کو حسین تشبیہات اور استعارات میں سجا سنوار کر پیش کیا ہے۔مثال کے
طور ان کے یہ اشعار:
شوق کی حد مگر چاند تک
تونہیں
ہے ابھی رفعتِ آسماں اور
بھی
ہے ثریا کے پیچھے ثریا
رواں
کہکشاں سے پرے کہکشاں اور
بھی ہیں
یہ اشعار ان کے
مشاہدات،تجربات کے غماز ہیںاور ان کے کلام کی گہرائی اور گیرائی اور ان کی فکر کی
پرواز کے ترجمان ہیں ۔علی سردار جعفری جہاں اپنے کلام میں نئی نئی تراکیب کا
استعمال کرتے وہی وہ اردو کی کلاسکی شاعری کے استعاروں کو اپنے منفرد انداز
میںبیان کرتے ہیں مثال کے طور پر انھوں نے’بت‘’کعبہ‘’شیخ و برہمن‘ کے استعمال کو
اپنی شاعری میں بڑے منفرد انداز میں پیش کیا ہے:
کعبۂ دل میں بیٹھے ہیں
اب بھی صدیوں کے فرسودہ بت
رنگ و نسل و شیخ برہمن
مذہب وملت ملک و وطن
لے کر پھر قندیلِ محبت
اترو دل کے اندھیرے میں
روح کی تاریکی کو روشن کر
تی نہیں
سورج کی کرن
ان کی شاعری وہ شاعری
ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی جب تک اردو ادب چاہنے والے زندہ رہیں گے تب
تک ان کو علی سردار جعفری یاد آتے رہیں گے ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جو
ان کو ادب کی دینا میں تا حیات زندۂ جاویدرکھے گی۔
20 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-poetic-features-ali-sardar/d/123860
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab World
News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism