نصیر احمد، نیو ایج اسلام
15 جنوری 2018
محمد (ﷺ) آخری رسول تھے۔ وہ ایک امی نبی تھے جو امی قوم میں مبعوث کئے گئے تھے۔ لفظ امی سے مراد وہ قوم ہے جس کے پاس کوئی صحیفہ نہ ہو یا جس میں اس سے پہلے کوئی رسول مبعوث نہ کیا گیا ہو، لہذا اس کے پاس نہ کوئی کتاب ہو اور نہ ہی کوئی رہنمائی ہو۔
(62:2) وہی ہے جس نے ناخوانده لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے؛ -
(36:6) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے تھے، سو (اسی وجہ سے) یہ غافل ہیں۔
(37:156) یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے؟ ( 157) تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ۔
مندرجہ بالا آیات سے اور اس حقیقت سے کہ قرآن کا کہنا ہے کہ نبیوں کو مختلف قوموں کے اندر مبعوث کیا گیا ہے(6:42)، اور اس حقیقت سے کہ ہر دوسری تہذیب سے وابستہ لوگوں کے پاس ان کا مذہب اور صحیفہ موجود ہے-یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کے تمام لوگ "اہل کتاب" ہیں۔ مذہب اسلام کی عالمگیریت اور دیگر تمام لوگوں کی اس میں شمولیت درج ذیل آیات سے واضح ہے:
(2:112) نہیںسنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ بےشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔
(5:69) مسلمان، یہودی، ستاره پرست اور نصرانی کوئی ہو، جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ﻻئے اور نیک عمل کرے وه محض بےخوف رہے گا اور بالکل بے غم ہوجائے گا۔
لہٰذا، مومنین (وفادار) اور کافرین (بے ایمان) یہ دونوں ایسی اصطلاحیں ہیں جن کا انطباق دین کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف طرز عمل کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ، اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے اپنی عالمگیریت اور جامعیت کو کھو دیگا۔ درحقیقت ہم یہ پاتے ہیں کہ قرآن لوگوں کا فیصلہ ان کے طرز عمل کی بنیاد پر کرتا ہے۔ قرآن نے نبی ﷺ کے خلاف ایک غیر منصفانہ جنگ میں شامل ہونے والے مشرکین کو کافر کہا ہے ، لیکن جب انہیں مشرکین کو فتح کر لیا گیا اور جب وہ حالت جنگ میں نہیں تھے تو بعد والی آیت میں 9:5 انہیں محض مشرکین کہا گیا ہے کافرین نہیں۔ لہذا، صرف آپ کا عمل ہی اس تناظر میں آپ کی حیثیت کو متعین کرتا ہے۔
ایک انتہا پر مؤمنین ہیں ، جن کا ایمان غیر متزلزل ہے اور جو کبھی غلطی نہیں کر سکتے اس لئے کہ ہمیشہ انہیں خدا کا خیال ہوتا ہے، اور دوسری انتہا پر کافرین یا "جو لوگ ایمان نہیں لانے والے ہیں"، مثلاً فرعون، قارون ، ہامان، ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ ہیں، جو بد کردار ہیں، ہمیشہ حق، سچائی اور نیکی کے خلاف ہیں۔ اور ان دونوں کے درمیان باقی تمام لوگ ہیں کہ جن کا فیصلہ ان کے اعمال کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے، ان کے ایمان یا مذہبی شناخت کی بنیاد پر نہیں۔ ہمیں قرآن سے بھی بالکل یہی درس حاصل ہوتا ہے۔
(49:14) دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ﻻئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ﻻئے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہوگئے) حاﻻنکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
ایمان صرف یہ نہیں ہے کہ کہہ دیا جائے کہ "میں ایمان لاتا ہوں" ، بلکہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان خدا کا خیال رکھتا ہے، جو انسان کو گناہوں میں ملوث ہونے سے روکنے میں مدد کرتا ہے، یا نیکی کرنے پر آمادہ کرتا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کی ذات پر اس کے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو ہمیشہ اپنے اعمال میں خدا کا خیال رکھتے ہیں، تاکہ اللہ پر انہیں مکمل اعتماد حاصل ہو سکے۔ ملاحظہ ہو 8:23۔ ایک مسلم خاندان میں پیدا ہونے، اور صرف کلمہ پڑھ لینے، یاکسی بھی مذہب میں شامل ہو جانے سے ایمان حاصل نہیں ہوتا ہے، لیکن ایسا طرز عمل اختیار کرنے سے ایما ن حاصل ہوتا ہے جو انسان کو خدا سے قریب کر دے۔
جیسا کہ یہ عام طور پر لوگوں سے متعلق ہے، لہذا ہم صرف ان کے اعمال کے لحاظ سے بات کر سکتے ہیں - خواہ ان کا عمل مومن کی طرح ہے ، خواہ ان کا عمل ایک کافر کی طرح ہے، یا وہ عمل خدا کو خوش کرنے والا ہے یا خدا کو ناخوش کرنے والا ہے۔ لہٰذا، لوگوں کو کیوں جھٹکا لگا جب میں نے یہ کہا کہ ہندوستانی فوج نے بنگلہ دیش کے مظلوم لوگوں کو آزاد کرانے میں ایک مؤمن کا کردار ادا کیا تھا ؟ ظلم و ستم کرنے والی پاکستان کی فوج تھی، جو بے یار و مددگار شہریوں کی ابروریزی اور ان کا قتل کر رہی تھی اور بےشک ان کا عمل کافروں والا تھا۔ لوگوں کو اس بات پر اس لیے حیرانگی ہے کیونکہ ہندوستانی فوج کو ایک ہندو فوج مانا جاتا ہے، اور پاکستان کی فوج کو ایک مسلم فوج سمجھا جاتا ہے، اور ہماری متعصب فقہ میں ، ایک کافر کا مطلب غیر مسلم ہے اور مومن کا مطلب ہمیشہ ایک مسلم ہے۔ ہماری متعصب فقہ کے مطابق ایک مسلم کبھی کافر نہیں ہو سکتا ہے ، اگرچہ قرآن ان مسلمانوں کے لئے جو سود کا استعمال کرتے ہیں، جو زکوٰۃ نہیں دیتے ہیں یا جو منافق ہیں ان کے لئے کافر کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اور اگر صرف کوئی شخص اللہ پر ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کی بنیاد پر جنت میں داخل کیا جائے گا، تو ایسے شخص کو اس کی مذہبی شناخت سے قطع نظر مومن کیوں نہیں کہا جا سکتا ہے؟
اب ہم سورہ 95 کے آغاز میں وارد ہونے والی قسموں پر غور کرتے ہیں:
(1) قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی،
(2) اور طور سِینِین کی،
(3)اور اس امن والے شہر کی-
(4) یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا،
(5) پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا
(6) لیکن جو لوگ ایمان ﻻئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔
(7) پس تجھے اب روز جزا کے جھٹلانے پر کون سی چیز آماده کرتی ہے
(8) کیا اللہ تعالیٰ (سب) حاکموں کا حاکم نہیں ہے
شہر مقدس سے آسانی کے ساتھ مکہ مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ابراہیم کے زمانے سے ایک حرمت کی جگہ ہے اور اسلام سے منسلک ہے؛ سینا پہاڑ کا تعلق موسی یا یہویت کے ساتھ ہے۔ انجیر اور زیتون کے بارے میں کیا رائے ہے؟ کیا یہ دونوں کوئی پھل ہیں جن اللہ سفارش کررہا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو، اس سے الگ الگ دو غیر متعلق استعاروں کا اختلاط لازم آتا! لہذا زیتون اور انجیر سے لازمی طور پر دو دوسرے مذاہب مراد ہیں۔ زیتون کا پہاڑ یسوع یا عیسائیت کے ساتھ منسلک ہے، اور انجیر سے وہ انجیر کا درخت مراد ہے جس کے نیچے بیٹھ کر گوتم بدھ نے معرفت حاصل کی تھی یا اس سے مراد بدھ مت ہے۔ خدا ان چار مذہبوں کی قسم کیوں کھا رہا ہے اگر یہ اس تک پہنچنے والے مختلف راستے نہیں ہیں؟
5:48 "...............تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راه مقرر کردی ہے۔ اگر منظور مولیٰ ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو، تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وه تمہیں ہر وه چیز بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہتے ہو۔
ان تمام چاروں مذاہب کے درمیان کون سی بات مشترک ہے؟ ان چاروں مذاہب کے پاس ایک واضح ضابطہ اخلاق یا اخلاقی اصولوں پر مبنی ایک قانون ہے۔ ان کے درمیان غیر مشترک کیا ہے؟ بدھ مت خدا پر ایمان کے بارے میں نسبتا مادیت پسند ہے لیکن اس کے اخلاقی ضوابط سخت ہیں۔ میں پھر اس بات کو دہراتا ہوں کہ ایمان صرف یہ کہہ دینے سے حاصل نہیں ہو جاتا ہے کہ میں مانتا ہوں بلکہ یہ میانہ روی اختیار کرنے سے ہوتا ہے جو کہ زندگی بسر کرنے کا ایک اخلاقی راستہ ہے ، اور جس کی وضاحت مندرجہ ذیل آیات سے ہوتی ہے:
(90:10) ہم نے دکھا دیئے اس کو دونوں راستے
(11) سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا۔
(12) اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟
(13) کسی گردن (غلام لونڈی) کو آزاد کرنا؛
(14) یا بھوک والے دن کھانا کھلانا
(15) کسی رشتہ دار یتیم کو،
(16) یا خاکسار مسکین کو۔
(17) پھر ان لوگوں میں سے ہو جاتا جو ایمان ﻻتے اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں
(18) یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے (خوش بختی والے)
مذکورہ بالا آیات میں کس بات پر زور دیا گیا ہے؟ اچھے اعمال پر۔ جو کوئی مذکورہ بالا اعمال انجام دیتا ہے اسے خدا پر مکمل اعتماد حاصل ہوگا اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے انہیں ایسا ایمان حاصل نہیں ہو گا۔ اور مندرجہ بالا تمام اعمال پر مذکورہ چاروں مذاہب میں زور دیا گیا ہے۔
اللہ تعالی ہم انسانوں سے واضح طور پر صرف یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے دین یا قوانین یا مذہب کی پیروي کریں جو ایک اخلاقی طرز زندگی ہے۔ اس طرح کے عمل کے ذریعے ہی کوئی ایمان حاصل کر سکتا ہے، نہ کہ صرف یہ کہہ کر کہ "مجھے یقین ہے"۔
ذرا تصور کریں کہ کیا ہوگا اگر تمام مسلمان اسی کی پیروی کریں جو میرا کہنا ہے۔ اس صورت میں وہ تمام لوگ خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے جد و جہد کی راہ پر ہوتے اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے۔ سورہ 103 العصر میں اللہ ہم سے اسی بات کا مطالبہ کرتا ہے:
(103:1) زمانے کی قسم، (2) بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے، (3) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
اگر ایسا ہوتا تو وہ دوسروں کے اچھے کاموں کو نیک شخص کے مذہب سے قطع نظر مؤمنانہ اعمال تسلیم کرتے اورانہیں احترام کی نظر سے دیکھتے۔ اس سے دوسرے لوگ اسلام اور اس کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ابھی ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم خود کو مؤمن کہتے ہیں اگرچہ ہم اس زمین پر بدترین لوگوں میں شامل ہو چکے ہیں اور دوسروں کو کافر بھی کہتے ہیں اگرچہ وہ بہت سے معاملے میں ہم سے بہتر ہیں۔ لہٰذا، کون ایسا مومن بننا چاہتا ہے؟ کیا ہم اسلام کے بدترین دشمن نہیں بن گئے ہیں اور کیا ہم نے مذہب کا چہرہ مسخ نہیں کر دیا ہے ، درآنحالیکہ ہم اپنے فاسد نقطہ نظر سے واقف بھی نہیں ہیں؟
متعلقہ مضمون:
The Broader Notion of Din Al-Islam Is Inclusive Of All Monotheistic Faiths
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/naseer-ahmed,-new-age-islam/the-momineen-and-the-kafirin/d/113939
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism