New Age Islam
Sat Mar 15 2025, 08:58 AM

Urdu Section ( 15 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Law on Adultery in the Quran قرآن میں مذکور زنا کا قانون

نصیر احمد ، نیو ایج اسلام

24 فروری 2021

قرآن میں مذکور  زنا   کا  قانون ایک ایسا قانون ہے جس کے مطابق جرم ثابت ہو جانے پر  بطور  سزا سو کوڑے     لگانا ضروری ہوتاہے۔ اس  کو  کم زیادہ یا   معاف نہیں کیا جا  سکتا۔  دوسرے اور بھی قوانین   ہیں جن کا ذکر بڑی   تفصیل سے کیا گیا ہے ، لیکن اس طرح کے ہر قانون میں     سزا کو کم کرنے یا معاف تک کرنے کی اجازت  موجودہے۔  زنا کے قانون کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،   اس کے ثبوت کے لئے  واقعہ کےچار ثقہ   چشم دید گواہوں   کو لازم قرار دیا گیا ہے جو کہ تقریبا ناممکن ہے ،    الا یہ کہ  مرتکبین  اتنے بے شرم  اور ہٹ دھرم ہوں کہ کھلے میں بر سر عام   عینی شاہدین کے سامنے اس جرم کا ارتکاب کریں  ۔

الزّانِيَةُ وَالزّاني فَاجلِدوا كُلَّ واحِدٍ مِنهُما مِائَةَ جَلدَةٍ ، وَلا تَأخُذكُم بِهِما رَأفَةٌ في دينِ اللَّهِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ، وَليَشهَد عَذابَهُما طائِفَةٌ مِنَ المُؤمِنينَ۔ (سورہ النور آیت نمبر ۲)

ترجمہ: بدکار عورت اور بدکار مرد دونوں میں سے ہر ایک کو  سو سو کوڑے مارو، اور تمہیں ان دونوں پر ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی ایک  جماعت موجود ہو۔

جرم اور گناہ میں فرق یہ ہے کہ گناہ اللہ کے خلاف ہوتا ہے جبکہ جرم انسان یا سماج کے خلاف ۔ ہر جرم گناہ ہے لیکن ہر گناہ جرم نہیں ہے۔ گناہ کی سزا آخرت میں ملتی ہے جبکہ جرم کی سزا اسی دنیا میں، اگر توبہ نہیں کی گئی تو جرم کی سزا آخرت میں  بھی ملتی ہے۔  اللہ کے ساتھ شرک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے، لیکن جرم نہیں ہے۔ اگر زنا کی سزا اور اس سے متعلق تفصیلی آیات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام  میں زنا کو سب سے سنگین جرم مانا جاتا ہے،  قتل سے بھی سنگین کیونکہ  اگر مقتول کے گھر والے دیت قبول کریں تو دیت دے کرقتل کی سزا ٹالی جا سکتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ زنا کو اسلام میں کیوں اتنا سنگین مانا گیا ہے؟ اگر منطقی  طورپر بات کریں تو زنا کوتبھی  سنگین ترین جرم مانا جا سکتا ہے  جب اس سے متاثرین اور یا مرتکبین کا شدید نقصان ہو رہا ہو، اور یا اس پر عبراتناک سزا نہ ملنے پر سماج کو کسی بڑی خرابی کا خطرہ ہو۔ زنا ایک ایسی غلطی ہے جس کو دیت ، معاوضہ یا جرمانہ دے کر صحیح نہیں کیا جا سکتا ہے۔  دوسروں کی عبرت کے لئے زنا پرعبرت ناک سزا دینا ضروری  ہے۔ 

ایک ایسے دور میں جہاں رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کرنا نہ یہ کہ جائز ہےبلکہ رائج اورعام بھی ہے وہاں زنا سے متعلق سخت اسلامی قانون کا مطلب سب کی سمجھ    میں آجائے آسان نہیں ہے۔ اسلامی قانون ان  زیادہ تر لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ لا محدود جنسی آزادی رکھنا فطری بات ہے، اور لوگ اتنے سمجھدار عاقل بالغ ہوتے ہیں کہ اگر اس طرح کی آزادی سے کوئی مشکل پیش آئے تو اس سے نپٹ سکیں۔

اسلامی ممالک میں بھی زنا کے قانون کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے، غیر مسلموں پر نہیں ۔ اسلام غیر مسلموں پر اپنی جنسی اخلاقیات مسلط نہیں کرتا ہے۔ جنسی برتاو میں اعتدال کے لئے اسلام متنوع  اصول، رویے اورعقائد کو تسلیم کرتا ہے۔  آج بھی ایسے متعدد قبائلی معاشرے  موجود ہیں جہاں ایک عورت کئی مردوں کے ساتھ رہتی ہے۔ ان کے عقائد کے مطابق بچہ ایک مرد کے نطفہ سے پیدا نہیں ہوتا ہے، بلکہ جب عورت کے رحم میں بہت سارے نطفے جمع ہو جاتے ہیں تب بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے عورت بہت سارے مردوں کے ساتھ سیکس کرنے کی کوشش کرتی ہے، خاص طور جب وہ حاملہ ہو کیونکہ اس وقت اپنے جسم میں  اتنا نطفہ جمع کرنا چاہتی ہے جو  بچہ پیدا کرنے کے لئے کافی ہو۔ ایسے معاشرے میں، عورت کا مختلف مردوں کے ساتھ سونا اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح کے معاشرے میں لوگوں کے اس طرح کےبرتاو کیوجہ غلط عقائد  ہوتے ہیں، جنسی تنوع اور آزادی نہیں ۔ ایسے معاشرے پر اسلام کے جنسی اصول کا نفاذ بے معنی ہوگا ، قرآن میں مذکور زنا کا قانون بھی اس طرح کے معاشرے کو اپنے دائرہ کار سے باہر رکھتا ہے  جہاں زنا جرم نہیں ہے۔ چنانچہ زنا چوری جیسے دوسرے جرائم کی طرح نہیں ہے، کیونکہ چوری کو آفاقی طور پر قابل سزا اور نا قابل برداشت مانا جاتا ہے۔

تاہم ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیشتر تہذیبوں میںمونوگیمس تعلقات (پوری زندگی ایک پارٹنر کے ساتھ گزارنا)اور جوہری خاندان ہی رائج ہیں، مرد اورعورت  اپنے پارٹنر اور بچوں کے بارے میں کافی پوزیسیو ہوتے ہیں۔ایسے معاشرے میں جنسی تنوع  کی اشتہا ہی انسان کو اپنے پارٹنر کو دھوکہ دینے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر بھی، دنیا کے بیشتر حصوں میں دو بالغ لوگوں کے بیچ رضامندی سے آپسی جنسی تعلقات کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔

دنیا کی بیشتر آبادیوں میں زنا رائج اور عام ہے، اور اس کی مختلف شکلیں ہیں، جیسے صرف ایک بارکی ملاقات، ایک رات کی ملاقات، سماجی سیکس یا فائدہ مند دوست،غنیمت کال (بوٹی کال) تفریحی سیکس، سیکس کے لئے ملنا جو اب ڈیٹنگ میں بدل چکا ہے۔ تاہم اس طرح  کے معاشرے میں بھی جہاں انسان متعدد پارٹنر کے ساتھ رہتا ہے، وہاں بھی جب کوئی دو شخص بغیر شادی  کےساتھ رہتے ہیں تو دونوں کی ایک دوسرے سے یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا پارٹنر اس کے ساتھ ایماندار رہے۔ اگر ان دونوں میں سے  کوئی اس رشتہ کے باہر کسی طرح کا عام رومانی ملاقات بھی کرے تو معاملہ اتنا سنجیدہ ہو جاتا ہے کہ بریک اپ تک  کی نوبت آجاتی ہے، الا یہ کہ دونوں سوینگر ہوں اوررضامندی سے تفریحی سیکس کرنے کے لئے  تیار ہوں۔ لہذا ، رشتہ میں ایمانداری کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں بریک اپ اور پیار کے جرائم ہو رہے ہیں۔ بریک اپ ہمیشہ دونوں کے لئے صدمے کا باعث ہوتا ہے اور دونوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ جس معاشرہ میں زنا عام ہو وہ معاشرہ تناؤ کا شکار ہوتا ہے، اور لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور پارٹنرس کا آپسی اعتماد زیادہ دن تک نہیں ٹک پاتا اور جلد ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ وبائی پیمانے پر نفسیاتی بیماریوں کے لئے غذا فراہم کرتا ہے ۔ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ اب جنسی تعلقات محبت اور قربت کی خواہشوںکی انتہا نہیں رہے، بلکہ صرف ایک جسمانی عمل ہو کر رہ گئے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے کسبیوں اور ان کے گراہکوں کے بیچ ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ  یہ دونوں بالغ افراد اپنی مرضی سے سیکس کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی کسبی نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہوک اپ والی نسل ہے۔ ایسے سماج میں شدید ذہنی بیماریوں کا ہونا اور خودکشی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہونا متوقع ہے۔

قرآن میں مذکور زنا کا قانون آج کے دور میں بوسیدہ معلوم ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت تو اپنی جگہ  آج بھی مسلم ہے کہ ہر جاندار کو اپنے رشتوں میں محبت ، قربت ، استحکام اور وفاداری عزیز ہوتی ہیں۔ لیکن ایسی حالت میں جہاں بے وفائی عام ہو،جو کہ دور جدید کا طرہ امتیاز ہے، طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہو، گوناگوں دماغی  بیماریاں  پیدا ہو رہی ہوں، جس سے رشتوں میں بکھراو کی وجہ سے بچے اور جوان دونوں جوجھ رہے ہیں،  وہاں ہر معاشرے کو اسلامی اصولوں کی تمنا ہونی چاہئے۔ تاہم غیر مذہبی معاشرے کے لئے ایسے قوانین کی وسیع پیمانے پر حمایت تقریبا ناممکن ہے جن کے مطابق بالغوں کے ما بین رضامندی سے کئے گئے جنسی عمل پر سزا ملے۔ ہماری تمام اخلاقیات مذہب سے ماخوذ ہیں اور سماج میں اس بات پراتفاق بھی ہے کی چوری، قتل، عصمت دری وغیرہ جیسے عمل سے متعلق اخلاقی قوانین بنائے جائیں، لیکن رضامندی سے کئے گئے جنسی عمل سے متعلق کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔

لہذا اسلام کی نظر میں جو سب سے سنگین جرم ہے وہ غیر مذہبی معاشروں میں سرے سے جرم ہی نہیں ہے۔ مسلمان چاہیں تو اسلامی اصولوں کو قبول اور اس پر عمل کر کے  دائرہ اسلام میں رہ سکتے ہیں یا چاہیں تو اسلامی معاشرہ چھوڑ دیں اور کسی ایسے معاشرے میں شامل ہو جایئں جہاں ایسے اصولوں پر سختی نہ ہویا وہاں ان پر عمل  نہ کیا جاتا ہو۔ اس موضوع سے متعلق قرآن میں واضح طور پرمسلمانوں کو زنا کرنے والوں سے شادی کرنے پرانتباہ کیا گیا ہے۔

زنا کے قانون کا وسیع پس منظر

اسلام میں زنا کے قانون کا ایک وسیع تناظر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنسی اخلاقی اصول کے بغیر کوئی اخلاقی اصول ممکن ہی نہیں ہے۔ آدم اور حوا کو جنت سے صرف اس لئے بے دخل کردیا گیا، کیونکہ انہوں نے ایک ایسا کام کیا جس کی وجہ سے وہ اپنی شرم گاہوں سے آگاہ ہوگئے اور انہیں اسے چھپانے کی ضرورت پڑی۔

فَقُلْنَا يَآ اٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُـمَا مِنَ الْجَنَّـةِ فَتَشْقٰى۔ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْـهَا وَلَا تَعْرٰى۔  وَاَنَّكَ لَا تَظْمَاُ فِيْـهَا وَلَا تَضْحٰى ۔ فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَآ اٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْـدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰی۔فَاَكَلَا مِنْـهَا فَبَدَتْ لَـهُمَا سَوْاٰتُـهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْـهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّـةِ ۚ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٝ فَغَوٰى(سورہ طہ آیت نمبر۱۱۷ سے  ۱۲۱ تک)

ترجمہ: پھر ہم نے کہا اے آدم بے شک یہ( شیطان)  تمہارا اور  تمہاری  بیوی کا دشمن ہے سو تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے کہ پھر تم تکلیف میں پڑ جاؤ۔ بے شک تم اس میں بھوکے اور ننگے نہیں ہوگے۔اور بے شک تم اس میں نہ پیاسے ہوگے اور نہ تمہیں دھوپ لگے گی۔پھر شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا اور  کہا اے آدم کیا میں تجھے ہمیشگی کا درخت بتاؤں اور ایسی بادشاہی جس میں ضعف نہ آئے۔دونوں نے اس درخت سے کھایا تب ان پر ان کی برہنگی ظاہر ہوگئی اور اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی پھر بھٹک گیا۔

دوسری جگہ اسی کہانی کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

فَوَسْوَسَ لَهُمَا ٱلشَّيْطَـٰنُ لِيُبْدِىَ لَهُمَا مَا وُۥرِىَ عَنْهُمَا مِن سَوْءَٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَىٰكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ ٱلشَّجَرَةِ إِلَّآ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ ٱلْخَـٰلِدِينَ۔ وَقَاسَمَهُمَآ إِنِّى لَكُمَا لَمِنَ ٱلنَّـٰصِحِينَ۔ فدَلَّىٰهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا ٱلشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ ٱلْجَنَّةِ ۖ وَنَادَىٰهُمَا رَبُّهُمَآ أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا ٱلشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَآ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ۔ (سورہ الاعراف، آیت نمبر ۲۰ سے ۲۳ تک)

ترجمہ

پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ان (کی نظروں) سے پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کر دے اور کہنے لگا: (اے آدم و حوا!) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت (کا پھل کھانے) سے نہیں روکا مگر (صرف اس لئے کہ اسے کھانے سے) تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے،  یا تم دونوں ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے۔ اور ان دونوں سے قَسم کھا کر کہا کہ بیشک میں تمہارے خیرخواہوں میں سے ہوں۔ پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔ دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم  نہ فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

ہمارے جین مرتے نہیں ہیں، ہمارے بچوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیات کا مطلب شاید یہ ہوسکتا ہے کہ شیطان نے آدم اوران کی بیوی حوا کو جنسی عمل  کے لئے اکسایا ہو جس کی وجہ وہ اپنے جسم کی جنسی فطرت اور تقاضے سے واقف ہوگئے ہوں۔ (ہم  آدم کی اولاد ہیں، اس لئے ہمارا جین بھی وہی ہوگا)

جنسی حیا وشرم سے متعلق آیتیں

يَٰبَنِيٓ آدَمَ قَدۡ أَنزَلۡنَا عَلَيۡكُمۡ لِبَاسٗا يُوَٰرِي سَوۡءَٰتِكُمۡ وَرِيشٗا وَلِبَاسُ ٱلتَّقۡوَىٰ ذَٰلِكَ خَيۡرٞۚ ذَٰلِكَ مِنۡ آيَٰتِ ٱللَّهِ لَعَلَّهُمۡ يَذَّكَّرُونَ۔ یبَنِيٓ آدَمَ لَا يَفۡتِنَنَّكُمُ ٱلشَّيۡطَٰنُ كَمَآ أَخۡرَجَ أَبَوَيۡكُم مِّنَ ٱلۡجَنَّةِ يَنزِعُ عَنۡهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوۡءَٰتِهِمَآۚ إِنَّهُۥ يَرَىٰكُمۡ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنۡ حَيۡثُ لَا تَرَوۡنَهُمۡإِنَّا جَعَلۡنَا ٱلشَّيَٰطِينَ أَوۡلِيَآءَلِلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ۔ وَإِذَا فَعَلُواْ فَٰحِشَةٗ قَالُواْ وَجَدۡنَا عَلَيۡهَآ ءَابَآءَنَا وَٱللَّهُ أَمَرَنَا بِهَاۗ قُلۡ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَأۡمُرُ بِٱلۡفَحۡشَآءِ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ۔ قُلۡ أَمَرَ رَبِّي بِٱلۡقِسۡطِ وَأَقِيمُواْ وُجُوهَكُمۡ عِندَ كُلِّ مَسۡجِدٖ وَٱدۡعُوهُ مُخۡلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمۡ تَعُودُونَ۔ فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيۡهِمُ ٱلضَّلَٰلَة  إِنَّهُمُ ٱتَّخَذُواْٱلشَّيَٰطِينَ أَوۡلِيَآءَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَيَحۡسَبُونَ أَنَّهُم مُّهۡتَدُونَ۔ (سورہ الاعراف، آیت نمبر ۲۶ سے ۳۰ تک)

اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اورتقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔ اے اولادِ آدم! (کہیں) تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، ان سے ان کا لباس اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھا دے۔ بیشک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔ اور جب وہ بے حیائی کا کام کرتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی (طریقہ) پر پایا اور اللہ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ فرما دیجئے کہ اللہ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ (کی ذات) پر ایسی باتیں کرتے ہو جو تم خود (بھی) نہیں جانتے۔ فرما دیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور تم ہر سجدہ کے وقت و مقام پر اپنے رُخ (کعبہ کی طرف) سیدھے کر لیا کرو اور تمام تر فرمانبرداری اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کیا کرو۔ جس طرح اس نے تمہاری (خلق و حیات کی) ابتداء کی تم اسی طرح (اس کی طرف) پلٹو گے۔ ایک گروہ کو اس نے ہدایت فرمائی اور ایک گروہ پر گمراہی ثابت ہو گئی۔ بیشک انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا تھا اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔

جیسے لباس ہماری شرمگاہوں کو ڈھانکتا ہے اور ہمارے لئے زینت کا سامان بنتا ہے اسی طرح تقویٰ  بھی آخرت میں ہمارا لباس ہوگا جو ہماری شرم گاہوں کو ڈھانکے گا اورہماری زینت کا سامان  بنےگا۔ جو متقی نہیں ہوں گے وہ شرم سے ڈھانپے جائیں گے۔ تقویٰ کا مطلب ہے اللہ کے اوامر ونواہی پر احسن طریقہ سے عمل کرنا۔

میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں

أُحِلَّ لَكُمۡ لَيۡلَةَ ٱلصِّيَامِٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمۡهُنَّ لِبَاسٞ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسٞ لَّهُنَّ۔(سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۸۷)

ترجمہ: روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا، وه تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو۔

میاں بیوی کے مابین کوئی شرم نہیں ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے اور ہمارے لباس کے درمیان کوئی شرم نہیں ہوتی ۔ ہماری بیویاں ہمارا  لباس  ہوتی  ہیں جوہمیں غیر ازدواجی تعلقات سے پاک دامن رکھتی ہیں، جبکہ ازدواجی تعلقات  کے دائرے کے اندر ہمیں مکمل جنسی آزادی کی اجازت حاصل ہوتی ہے۔

اپنی نگاہوں کی حفاظت

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ذٰلِكَ اَزْكـٰى لَـهُـمْ، اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۔ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْـهَا ، وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ ، وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِىٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِىٓ اَخَوَاتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التَّابِعِيْنَ غَيْـرِ اُولِى الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّـذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرَاتِ النِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۚ وَتُوْبُـوٓا اِلَى اللّـٰهِ جَـمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُـوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(سورہ النور آیت نمبر۳۰ سے ۳۱)

ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہ جائے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے، اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ

برائی کا راستہ شرم و حیا سے ہو کر گزرتا ہے پہلے شیطان ہم سے ہماری شرم یا لباس چھینتا ہے پھر برائی کا آغاز ہوتا ہے۔ برائی سے بچنے کے لئے احساس شرم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ شرم و حیا سے عاری انسان آسانی سے ہر برائی اور نفس کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔ اسی لئے پاک دامنی سے ہی اخلاقیات کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر شرم اتر جائےتو پھر انسان جھوٹ بھی بولے گا ، دھوکہ بھی دے گا ، غبن بھیکرے گا ، چوری بھی کرے گا، ریپ بھی کرے گا  اور نفس کے  ہربہکاوے میں آجا ئے گا۔

زنا سب سے بڑی برائی ہے۔  زنا نہ صرف یہ کہ حرام ہے بلکہ اپنے صحیح شریک حیات اور پارٹنر کے ساتھ دھوکہ اور چوری بھی ہے۔ یہ  پاکیزہ اعتماد کے ساتھ  خیانت ہے۔ اپنے ناجائز رشتے کو چھپانے کے لئے انسان طرح طرح کے جھوٹ اور دھوکہ کا بھی  سہارا لیتا ہے۔  یہ خود غرضی اور نفس پرستی  بھی ہے۔ اس کے برے اثرات صرف زنا کرنے والے اور اس کے شریک حیات پر ہی نہیں پڑتے بلکہ بچے اور پورے خاندان والے  بھی متاثر ہوتے ہیں۔ راز فاش ہو جانے پر معاشرہ  خراب ہونے کا بھی  خطرہ رہتا ہے۔ اسی لئے اسلام مسلم معاشرے کو اس طرح کی برائی سے بچاتا ہے۔ قرآن میں مذکور اسلامی قوانین پر مبنی اسلامی اصول اخلاق مکمل دین ہے جو معاشرتی انصاف ، خوشی ، تسکین ، ذہنی اور جسمانی صحت کو بطور احسن یقینی بناتا ہے۔

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ(سورہ الزمر آیت نمبر ۱۸)

ترجمہ : جو لوگ بات کو غور سے سنتے ہیں، پھر اس کے بہتر پہلو کی اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت فرمائی ہے اور یہی لوگ عقل مند ہیں۔

 

نصیر احمد صاحب نیو ایج اسلام ڈاٹ  کام کے مستقل کالم نگار ہیں، آپ نےآ ئی آئی ٹی کانپور سے انجینئرنگ کی ہے۔ تقریبا تین دہائیوں تک سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کرنے کے بعد اب ایک آزاد آٹی صلاح کارکے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے سالوں تک بڑی گہرائی سے قرآن کا مطالعہ کیا ہے اور اس کی تفسیر میں بیش بہا بنیادی اضافے کئے ہیں۔

English Article: The Law on Adultery in the Quran

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-law-adultery-quran/d/124977

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..