غلام
غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
جہادی تنظیموں نے خودکشی کو اپنا سب سے خطرناک ہتھیار بنایا
ہے ۔اس ہتھیار کو انہوں نے اپنے جعل سازی کے عمل سے بنایا ہے ۔جہادی تنظیمیں خودکش حملہ کو جائز قرار دیتی ہیں مگر قرآن
کریم کی آیات اور نبی علیہ السلام کی احادیث
کے ان احکام کا جواب لانے میں ناکام ثابت ہو جاتی ہیں جن میں اسلام نے خود
کشی کو ہی مطلقا حرام قرار دیا ہے ، جیسا کہ اس موضوع پر راقم الحروف کا حسب ذیل
مضمون نیو ایج اسلام کے ویب سائٹ پر موجود ہے ۔
اس ناکامی کے بعد جہادی تنظیموں نے ‘‘سوسائڈ آپریشن
(عملیات انتہاریہ یعنی خود کش آپریشن)’’ جیسی اصطلاح کا استعمال ہی بند کر دیا اور اس کی جگہ اب وہ ‘‘مارٹیڈم آپریشن (عملیات
استشہاد)’’ ‘‘سیکسریفائڈ آپریشن (یعنی عملیات فدایہ ) یا ‘‘جہادی آپریشن یعنی (عملیات جہادیہ ) جیسی اصطلاحات کو ترجیح
دے رہی ہیں۔
چونکہ سوسائڈ آپریشن جیسی اصطلاح کے ذریعے جہادی
تنظیمیں نصوص قطعیہ (یعنی قرآن وسنت کی ایسی
مستند دلیلیں جن میں شک وشبہ کی
کوئی گنجائش نہیں) کا مقابلہ نہ کر سکی
اور اپنے آپریشن کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہی ، لہذا انہیں ایک مضبوط
دلیل کی ضرورت آن پڑی تاکہ انہیں دلیلوں
کو کھینچ تاننے ، توڑ مڑوڑنے کا موقع مل
سکے اور ساتھ ہی مسلمانوں کی اکثریت ، اور خود کش حملے کے حرام ہونے کا فتوی دینے
والے علما کا جواب دے سکیں ۔
جہادیوں کےاس موقع
کی تلاش ‘‘مارٹیڈم آپریشن (عملیات استشہادیہ )’’ جیسی اصطلاح پر ختم ہوئی
اور اس اصطلاح کے ذریعے اپنے آپریشن کو صحیح قرار دینے کے لیے انہوں نے قرآن
کریم سے یہ دلیل اخذ کیا کہ اللہ تعالی فی
سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا درجہ بلند کر دیتا ہے۔اس سلسلے میں حسب ذیل آیتیں
وہ پیش کرتے ہیں:
‘‘بے شک اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانوں اور ان کے
مالوں کو جنت کے بدلے میں خرید لیا وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، پس قتل کرتے
ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں۔اس پر اللہ کا سچا وعدہ ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں ، اور
اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا اور کون ہے ۔پس تم اپنی اس بیع کے ساتھ
خوش ہو جاو جو تم نے بیع کی ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے ’’ (۹:۱۱۱)
‘‘جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں مردہ نہ کہو
بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ’’ (۲:۱۵۴)
ان آیات کے علاوہ جہادی نظریات کے حاملین متعدد احادیث کا بھی حوالہ دیتےہیں جن میں شہیدوں کے بلند درجے اور فضیلت
کو بیان کیا گیا ہے ۔ایسا وہ کوئی عام حدیث کی کتاب سے نہیں بلکہ مشہور ومعروف اور
بہت ہی مستند مانی جانے والی حدیث کی کتابوں ، مثلا صحیحین یعنی صحیح بخاری اور
صحیح مسلم ، کے حوالے سے کرتے ہیں اور پھر
انہیں اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں قتال کر رہے ہیں اور شہید ہو رہے ہیں۔
لیکن ایسا شخص جو ظاہر وباطن کی کیفیات پر نظر رکھتا ہو ، خدا کی حقیقی معرفت اور پھر حقیقی امن وسکون کا متلاشی ہو ، اگر وہ جہادی تنظیموں کی نظریات اور اسلامی نظریات پر غور وفکر کرتا ہے تو اسے قرآن وسنت سے معلوم ہو جاتا ہے کہ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ ایک خاص سیاق یا حالت میں ہے یعنی ظلم کے خاتمے اور اپنے دین وجان کی حفاظت کی خاطر جان نثار کرنے والوں پر ایک ایسی حالت گزری تھی جس میں ان کے لیے جنگ لڑنا ناگزیر تھا ، تو وہ لڑے اور جو اس حق کی جنگ میں لڑ کر شہید ہوئے ان کے درجات کی بات ان آیتیوں اور احادیث میں ہیں۔ قرآن کی ان آیات اور احادیث میں موجودہ دور کے مرنے والے جہادی تنظیموں کے ممبران کی فضیلت نہیں بیان کی گئی ہے ، جن کے حملوں کا نشانہ تو عام غیر مسلح شہری بنتے ہیں اور جو فساد فی الارض کے مرتکب ہیں ۔ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسانی زندگی کی قدر و اہمیت پر ایک خاص آیت (۵:۳۲) نازل فرمایا جس میں وہ ایک انسان کے ناحق قتل کرنے سے منع فرماتا ہے خواہ قتل کسی بھی انسانی جان کا ہو ، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔ناحق قتل ، ظلم وناانصافی ، بلا امتیاز مذہب وملت مطلقا حرام چیزیں ہیں ۔قرآن کریم کی اس تعلیم سے ہی یہ خیال مل جاتا ہے کہ جہادی تنظیمیں تو اللہ کی مخلوق ، بشمول مسلم اور غیر مسلم ، کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے ہیں اور فساد فی الارض کے مرتکبین میں سے ہیں ، لہذا ان کے ایسے افعال قبیحہ کی بنیاد پر ان کی راہ کو اللہ کی راہ نہیں قرار دیا جا سکتا ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جہادی تنظیمیں اللہ کی راہ میں شہید نہیں ہو رہے ہیں بلکہ اللہ تعالی کے کلام (۵:۳۲) میں مذکور تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے پر اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ ناجائز عمل کا ارتکاب کرنے کی خاطر اپنی جانیں تک نچھاور کرنے پر کمر بستہ ہیں۔والعیاذ باللہ تعالی ۔
ہم سب اس بات بخوبی واقف ہیں کہ خود کش حملہ ہر حال میں حرام ہے ۔یہ مینسٹریم مسلمانوں یا مسلمانوں کی اکثریت کا عقیدہ ہے ۔راقم الحروف کا مذکورہ مضمون اس بات کی وضاحت پر متعدد دلیلیں رکھتا ہے ۔اس تحریر میں اپنے قارئین سے صرف اس خیال کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ کس طرح ایک چیز جو حرام ہے وہ صرف نام بدل لینے سے جائز ہو سکتی ہے ؟ ایک مخلوق کا ناحق قتل، جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے ، لیکن آخر کس طرح اس ناحق قتل کو محض اصطلاح کی تبدیلی سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے ؟ اللہ تعالی کے کلام ‘‘افلا تعقلون’’ یعنی ‘‘تو کیا تمہیں عقل نہیں’’ سے علم ومعرفت کے دروازے کھولنے والے حضرات اللہ کی توفیق سے بخوبی سمجھ لیتے ہیں کہ ناحق قتل ہر حال میں ناحق ہی ہے ، ناجائز ہی ہے ، صرف اصطلاح کی تبدیلی یا نام بدل لینے سے کوئی ناجائز چیز جائز نہیں ہو سکتی ۔ جن اسباب کی بنیاد پر جہادیوں کا ‘‘خود کش آپریشن’’ یا خود کش حملہ حرام ہے انہی اسباب کی بنیاد پر ان کا ‘‘مارٹیڈم آپریشن ’’ بھی حرام ثابت ہوگا ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جہادی تنظیمیں اپنے اس عمل قبیح کو ‘‘خود کش آپریشن’’ یا ‘‘مارٹیڈم آپریشن’’ کہیں ، ہم اسے کبھی جائز نہیں مان سکتے کیونکہ حرام ہونے کی جو علتیں اول الذکر کے تحت آتی ہیں وہ جہادیوں کے آخر الذکر عمل میں آتی ہیں۔اسی وجہ سے ان کا یہ عمل ، خواہ کسی بھی اصطلاح یا نام کے تحت ہو ، ناجائز ہی رہے گا۔
Related Article:
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-jihadists-suicide-attacks-martyrdom/d/123960
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism