نصیر
احمد، نیو ایج اسلام
حصہ
دو
16
فروری 2019
ہم
نے پہلے حصے میں ارادہ، انصاف اور رحمت جیسی صفات الٰہیہ پر گفتگو کی۔ یہ مضمون کا
دوسرا حصہ ہے
اللہ
کا کلام
قرآن
اللہ کا کلام ہے جو خود اللہ نے نازل کیا ہے۔ اللہ پاک خود قرآن کریم میں فرماتا
ہے۔
(10:37)
اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللہ کے اتارے ہاں وہ
اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک
نہیں ہے پروردگار عالم کی طرف سے ہے۔
قرآن
مجید میں اللہ کی نازل کردہ کتاب کی تمام خصوصیات موجود ہیں لہٰذا یہ مخلوق ہے۔
غیر مخلوق صرف اللہ کی ذات ہے اور باقی تمام شئی اس کی مخلوق ہیں۔ مخلوق اور غیر
مخلوق کا یہ مباحثہ تب شروع ہوا جب معتزلہ نے یہ دلیل دی کہ قرآن اپنے تاریخی سیاق
و سباق کے اعتبار سے مخلوق ہے اور وقت کے ساتھ بدلا بھی جانا چاہئے۔ اس کا جواب یہ
دیا گیا کہ یہ غیر مخلوق ہے لہٰذا یہ ناقابل تبدیل و تحریف ہے۔ صحیح جواب یہ ہے کہ
– ہاں، یہ ایک مخلوق ہے اور ناقابل تبدیل و تحریف بھی ہے، جیسا کہ میں نے اپنے
مضمون میں اسے ثابت کیا ہے۔
یہ
کہنا کہ قرآن یا اللہ کے دین میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کی جا سکتی ہے کفر ہے
کیونکہ "مکمل اور کامل دین" کو تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کے
برخلاف قول قرآن مجید کی آیت 5:3 سے متصادم ہے۔ اگر آپ کا قول قرآن سے متصادم ہے
تو یہ کفر کی واضح مثال ہے۔
یہ
کہنا کہ قرآن مخلوق ہے صحیح ہے اور یہ قول کہ قرآن غیر مخلوق ہے آیت 10:37 اور
دیگر متعدد آیات سے متصادم ہے لہذا یہ کفر کی واضح مثال ہے۔ ائمہ نے اپنی قلت
وسائل کی وجہ سے ایسی باتیں کہی ہیں جو قرآن کے منافی ہیں جس کا شاید وہ معنی نہیں
ہے۔ سب سے بڑا فتنہ ایک ایسی رائے کو قبول کر لینا ہے جو قرآن سے واضح طور پر
متصادم ہو خواہ اس کا قول کسی بھی امام نے کیا ہو۔ قرآن کے قول کو مسترد کرنے کے
بجائے کسی امام کے قول کو مسترد کرنا بہتر ہے۔ قرآن ناقابل تبدیل و تحریف اور
مخلوق دونوں ہے۔
چونکہ
اللہ کی منشاء یہ ہے کہ ہم یہ مانیں کہ صرف اسی کی ذات غیر مخلوق ہے اور باقی سب
اللہ نے پیدا کیا ہے سب کچھ اللہ کی مخلوق ہے۔ صرف اللہ کو ہی لامحدود اختیارات
حاصل ہیں اور اللہ نے اپنے انہیں لامحدود اختیارات سے غیر متزلزل قوانین کے ساتھ
ایک محدود کائنات کی تخلیق کی ہے۔ تخلیق کا عمل اللہ کے کلام کے ذریعہ انجام پاتا
ہے، لہٰذا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے تو یا ہم اس بات کو
مانیں کہ اللہ کے لامحدود اختیارات ہیں یا یہ مانیں کہ اللہ کو کوئی اختیار ہی نہیں
ہے۔ یہ کہنا کہ اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے دراصل یہ کہنا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہے
جیسا ہونا چاہئے اور کچھ بھی مختلف نہیں ہوسکتا تھا۔ بہ الفاظ دیگر موجودہ کائنا
سے مختلف ایک کائنات ناقابل تصور ہے۔ اگر سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ہونا چاہئے تھا
تو پھر اس میں اللہ کا کیا عمل دخل ہے؟ یہاں تک کہ اس بنیاد پر اللہ کے وجود کی
بھی کوئی منطقی ضرورت نہیں اور ملحد حق بجانب ثابت ہوتے ہیں۔
اس
کا صحیح جواب یہ ہے کہ اللہ جو کہ اخلاقیات کا مظہر اور لامحدود اختیارات کا مالک
ہے، اس نے کائنات کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تخلیق کا عمل تنہا
بھی نہیں بلکہ ایک مستقل عمل ہے۔ لہذا اللہ کا کلام قدیم اور جدید دونوں ہی ہے۔
اگر کلام اللہ صرف قدیم ہی مانا جائے تو پھر اللہ کی ضرورت صرف ماضی میں ہی تھی
اور اب اس کا کام ختم ہوچکا ہے۔ لہذا یہ کہہ کر اللہ کو گونگا بنانے کی کوشش نہ کی
جائے کہ اس کا کلام صرف غیر مخلوق اور قدیم ہے۔
اللہ
العلیم، القدیر اور المقتدر ہے۔
اللہ
وہ سب کچھ جانتا ہے جو وہ جاننے کا ارادہ کرتا ہے۔ اس کی صفت القدیر کا بھی صرف
یہی مطلب ہے کہ وہ ان باتوں کا فیصلہ کرتا ہے کہ جس پر اسے کنٹرول حاصل ہو۔ اللہ
نے جن معاملات میں انسانوں کو اختیار دینے کا فیصلہ کیا ہے ان میں اللہ کا فیصلہ
یہ ہے کہ وہ انسانوں پر اپنا کنٹرول نہیں رکھے گا بلکہ بنی نوع انسان کو ان کے
اختیارات استعمال کرنے کی آزادی ہوگی۔ لہذا یقیناً اللہ کو اس بات کا علم نہیں ہو
سکتا کہ ہم اپنے اختیار کی آزادی کا استعمال کس طرح کریں گے۔ تو کیا ہماری پیدائش
کے وقت اللہ جانتا ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟ یقینا اللہ کو اس کا
علم نہیں ہو گا کیوں کہ اس نے ہمارے حتمی انجام کو پہلے سے ہی طے کرنے کا فیصلہ
نہیں کیا ہے بلکہ ہمیں اپنا راستہ منتخب کرنے کی آزادی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ
یقینی طور پر صرف انہیں باتوں کو جان سکتا ہے جسے اس نے مقدر کر دیا ہے اور جو کچھ
اس نے مقدر کر دیا ہے اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اختیار کا مطلب فیصلہ کی آزادی
ہے۔ اللہ نے جن چیزوں کو ہمارے لئے مقدر نہیں کیا ہے بلکہ ہمیں اختیار دینے کا فیصلہ
کیا ہے ان معاملات میں اللہ نے علم نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہم
جس شخص کو اچھی طرح جانتے ہیں اس کے عادات و اطور کے بارے میں پیشن گوئی کرسکتے
ہیں چونکہ اللہ ہمیں اور بھی بہتر طریقے سے جانتا ہے لہذا وہ یقینا کہیں زیادہ
درست طور پر ہمارے بارے میں پیشن گوئی کرسکتا ہے لیکن یہ صد فی صد کبھی بھی درست
نہیں ہو سکتا۔ اگر ہمارے ان معاملات میں اس کی پیشن گوئی صد فی صد درست ہو جائے تو
ہمیں حقیقی طور پر اختیار نہیں ہوگا اور خدا کا ان معاملات میں ہمارا فیصلہ کرنا
ناممکن اور غیر اخلاقی ہے جو ہمارے اختیار میں ہی نہیں ہیں۔ اپنی زندگی کے ایک خاص
مرحلے میں اگر ہم کسی ایسے مقام پر پہنچ جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو تب اللہ
کو یہ علم ہوگا کہ ہمارا انجام جنت ہے یا جہنم لیکن پھر بھی جن معاملات میں اللہ
نے ہمیں آزادی عطا کی ہے اللہ کو یہ علم نہیں ہوگا قدم بہ قدم ہمارا راستہ کیا ہے۔
جس
طرح ہم لوگوں میں رخنہ اندازی کر سکتے ہیں اگر ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں اور
انہیں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور بھی کر سکتے ہیں تو یہ کام خدا اور
بھی بہتر طریقے سے کرسکتا ہے۔ اگرچہ انسان کو ایک محدود معاملات میں خودمختاری دی
گئی ہے جن میں اسے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے ان میں بھی
اللہ ہمارے تعلق سے لامحدود علم کے ذریعے اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگوں میں
رخنہ اندازی کر کے اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے۔
(3:54)
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب
سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔
حقیقت
یہ ہے کہ اللہ ہمیشہ اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا ہے اس سے قطع نظر کہ لوگ اس کے
مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں یا اس کے خلاف ہیں۔ اللہ کا مقصد اور اس کی منشاء کبھی
شکست نہیں کھا سکتی۔ لہٰذا، انسان اپنے عمل کے نتیجے میں نیکی یا بدی میں سے جو
بھی حاصل کرتا ہے اس کی اسے جزا یا سز ا دی جاتی اور اس سے اللہ کی منشاء پر کوئی
فرق نہیں پڑتا ہے۔ لہذا، بدی کے بجائے نیکی کرنا بہتر ہے کیوں کہ جو بھی ہو ہمارے
عمل سے ان نتائج میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جو اللہ کے منصوبے میں ہے۔
ہر
چیز الہی منصوبہ کا حصہ نہیں ہے اور ہماری کوششوں سے ایسے دوسرے معاملات میں فرق
پڑتا ہے جو الہی منصوبوں میں خلل انداز نہیں ہوتے ہیں۔ اللہ کے مقرر کردہ قوانین
کے مطابق انسان کو وہی حاصل ہوتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور اللہ اس وقت تک
مداخلت نہیں کرتا جب تک کہ ہم اس کی مدد کے لئے اس سے دعا نہ کریں۔ اپنی خود
مختاری کا لطف اٹھاتے ہوئے حادثات کی شکل میں اچھی اور بری دونوں چیزیں اتفاقیہ
طور پر واقع ہو سکتی ہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اتفاقیہ واقعات سے
بھی ہونے والے نقصانات سے محفوظ رکھے اور دعائیں اپنا اثر دکھاتی ہیں۔
ہم
دنیا میں پائے جانے والے مصائب اور ناانصافیوں کے لئے غلط طریقے سے اللہ کو مورد
الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ یہ ہماری کارستانی ہے اللہ کا کام نہیں۔ سائنس اور
ٹکنالوجی میں جو عظیم پیشرفت ہوئی ہے وہ بھی ہمارے ہی کارنامے ہیں۔ سوال خود
مختاری اور آزادی کا ہے۔ آزادی اور خودمختاری جتنی بڑی ہوگی اچھائی اور برائی
دونوں کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے اور آزادی و خودمختاری جتنی کم ہوگی اچھائی
اور برائی دونوں کے امکانات اتنے ہی کم ہوں گے۔ اللہ نے انسان کو خود اسی کے
مطالبات کے مطابق ایک مخصوص حد تک خودمختاری اور آزادی عطا کی ہے اور اگر ہم اس
خودمختاری اور آزادی کا استعمال نیکی سے زیادہ برائی کے لئے کرتے ہیں تو اس کا
الزام بھی ہمارے اوپر ہے نہ کہ اللہ پر۔
اختیار
و آزادی کے بجائے تقدیر پر یقین رکھنے والے مسلمان واضح وجوہات کی بناء زیادہ
کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کی ذمہ داری قبول
نہیں کرتے اور ہر چیز کو اللہ پر ڈال دیتے ہیں گوکہ انہیں عمل کی آزادی ہی نہیں
ہے۔ اللہ کی اس صفت کی غلط فہمی مسلمانوں کو جبریہ بنا دیتی ہے جو یہ مانتے ہیں کہ
ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب کچھ اللہ نے پیدائش کے وقت ہی اس کے لئے مقدر
کر دیا تھا۔ یہ غلط ہے انسان کو جدوجہد کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور ہماری
کوششیں نتیجہ خیز ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ دین کا مقصد ہمیں یہ جاننا ہے کہ کس طرح ہم
اللہ کی منشاء کے خلاف جانے سے بچیں اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ وہ
کوششیں سعادت مند ہیں جو اللہ کی منشاء کے منافی نہیں ہیں بلکہ اس کے مطابق ہیں یا
کم از کم اس کے حق میں غیر جانبدار ہیں۔
------
Related Article:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism