غلام غوث
18مئی،2017
سچ ہے کہ آج سب سے آسان کام تقریریں کرنا او رمشورے دینا ہے اور سب سے مشکل کام خود کی تقریروں پر عمل کرنا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج ہم مسلمانوں میں ہر کوئی تقریر کررہا ہے، خطبے دے رہا ہے، دوسروں سے کہہ رہا ہے کہ میرے مشوروں پر چلو جن پر میں خود چل نہیں رہا ہوں اور دین و دنیا دونوں جگہ کامیاب ہوجاؤ۔ کیا یہ ممکن ہے ؟ ہمارے اکثریت بغیر جد وجہد کرے کامیاب ہوناچاہتی ہے۔ ملک کے ایک بہت بڑے دانشور نے کہا کہ ہم مسلمان ’’ انکار‘‘ میں زندگی گزار رہے ہیں (We are living in denial) اگر کسی نے ہماری کمزوریوں کا ذکر کیا تو فوراً ’’ ہم اس سے انکار کردیں گے اوراسے غلط ثابت کرنے کے لئے بھرپور زبانی کوشش کریں گے۔یہ اس لئے کہ ہمیں بچپن سے بتایا گیا ہے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں او ربے عیب ہیں۔ کسی کی یہ اوقات نہیں کہ وہ ہمیں نصیحت کرے۔ دوسری بات جو انہوں نے کہی وہ یہ کہ ہم مسلمانوں کے پاس ترجیحاتPriorities نہیں ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہمارا مسئلہ تعلیم و تربیت ہے،دوسری کہتا ہے کہ پرسنل لا ء کی حفاظت ، تیسرا کہتا ہے سیکوریٹی او رامن وامان ، چوتھا کہتا ہے معاشی ترقی، پانچواں کہتا ہے ریزرویشن او رچھٹا کہتا ہے سیاسی اقتدار او رہر کوئی کہتا ہے اتحاد۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اب تک یہ کیوں طے نہیں کیا کہ اجتمائی طور پر ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ جواب شاید یہ ہے کہ ہماری انا اور خود نمائی نے ہمیں کبھی مل کر بیٹھنے اور غور و خوص کرنے کاموقع ہی نہیں دیا۔ یہی رونا روتے روتے مولانا جمال الدین افغانی چلے گئے، حسین احمد مدنی چلے گئے علی برادرس او رسر محمد اقبال چلے گئے اور ابوالکلام آزاد چلے گئے ۔ نہ اہل علم کی اکثریت نے انکا ساتھ دیا اور نہ ہی اہل دانش نے۔ سب آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہے۔ سچ بتانا جیت کس کی ہوئی؟ مولانا اشرف علی تھانوی کی ، امام احمد رضا خان کی ، ابوالکلام آزاد کی۔ مفتی محمد شفعی صاحب او رمولانا مودودی کی، قاری طبیب صاحب اور شاہ اسمٰعیل سعید کی یا سید احمد شہید اور فضل الرحمان مراد آبادی کی۔ ترجیحات تو اس وقت بھی طے نہیں ہوئے اور آج بھی طے نہیں ہیں۔
ہم مسلمان ایک ایسی گھوڑا گاڑی میں سوار ہیں جس کا ہر گھوڑا ہر دوسرے گھوڑے کی مخالفت سمت میں دوڑنے لگا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم آج بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں ہم ایک سو سال پہلے کھڑے تھے۔ صحیح یا غلط میرا مشاہدہ تجربہ او رمطالعہ بتاتاہے کہ ہماری پہلی ترجیحی سیکوریٹی او رامن ہے ، دوسری تعلیم و تربیت ، تیسری معاشی ترقی، چوتھی سیاسی اقتدار، پانچویں اتحاد جو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ مسائل او رمدوں کی بنیاد پر ، چھٹا ریزورویشن اور ساتواں پرسنل لاء کی حفاظت۔ پرسنل لاء ہمارا اندرونی مسئلہ ہے جسے ہم اندر ہی اندر سلجھا سکتے ہیں ۔ پرسنل لاء چھوڑ کرباقی چھ مسلوں پر ہم ایک ساتھ کام کرسکتے ہیں یا ہمارے الگ الگ گروپ ایک ایک مسئلے پر کام کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم طے کرلیں کہ ہر ریاست میں کن لوگوں کو اورکن اداروں کو ان پر کام کرنا ہے۔ہمارا مالدار طبقہ ہر ایک گروپ کی الگ الگ مدد کرسکتا ہے ۔ جمعیت العماء ہند او رملّی کانسل سیکوریٹی او رامن ، الا مین ادارے تعلیم ،مالدار حضرات معاشی ترقی، مسلم متحدہ محاذ اور مجلس مشاورت سیاسی اقتدار ، FKMAریزرویشن او رمذہبی حضرات پرسنل لا پر کرناٹک میں کام کر سکتے ہیں ۔ ویژن کرنا ٹکا ان میں تال میل پیدا کرسکتا ہے۔ اگر ریاست میں دو دو مالدار ایک ایک ادارے کی ذمہ داری لے لیں تو کافی کام ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح کا عمل دوسری ریاستوں میں بھی دھرایا جاسکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر جب ٹھوس کام کرنے کی باری آتی ہے تب سب کھسک جاتے ہیں ۔ مشکل سے دو چار افراد ہی اپنا دو تین گھنٹے کا وقت دیتے ہیں جب کہ باقی سب ریٹائر ہونے کے باوجودگھریلوں مشغولیات کابہانا بنا کر غیر حاضر ہوجاتے ہیں ۔
یہ ہم مسلمانوں کا المیہ ہے۔ ہماری میٹینگیں او ربیٹھکیں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ ہر کوئی اپنی معلومات کا مرثیہ دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے پڑھنے لگ جاتا ہے او رکوئی عملی بات نہیں ہو تی۔ آج جو ادارے کام کررہے ہیں ان کے پاس نہ والنٹیرس ہیں اورنہ ہی روپئے ، جہاں تک سیکوریٹی اور امن کی بات ہے وہ اسی وقت ممکن ہے جب ’’ فرقہ وارنہ فسادات روک تھام بل‘‘دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش ہوگی او رکچھ ضروری ترمیمات کے ساتھ پاس ہوگی۔ صرف مذہبی حضرات کا مسلمانوں کے نمائندہ او ررہبر ہونے کا حکام کو اشارہ دینے کی کوشش کرنا قوم کے لئے نقصاندہ ہے۔ ایک سو سال سے مذہبی حضرات ہی مسلمانوں کی رہنمائی اور ترجمانی کرتے رہے۔ سیاستدان او رحکام بھی اسی غلط فہمی میں رہے کہ اگر مسلم مذہبی حضرات کو مطمئن کردیں گے تو تمام مسلمان ان کے طرفدار ہوجائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوئے او روہ فروئی او رغیر ضروری مسائل میں جذباتی طور پر الجھ کررہ گئے۔
ہر معاملہ میں ہم ایک رد عمل کرنے والی Reactive قوم بن کر رہ گئے۔ ایک تو Reactive قوم ہیں اور دوسری بات پر احتجاج کرنے والی قوم۔ ہر مسئلے کو لیکر احتجاج کرنا ، جلسے کرنا اور جلوس نکالنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ مسئلہ تو حل نہیں ہوتا مگر ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم نے شاندار احتجاج کردیا۔ طلاق ثلاثہ پر کڑوڑوں دستخط لیے ، بہت شور و غل ہوا مگر کیا ہم حکومت کو مداخلت کرنے سے روک سکے؟ دستخطی مہم پر بہت محنت ہوئی ، جلسے ہوئے ، تمام مساجد میں دستخطی مہم چلائی گئی مگرکسی نے کبھی بھی اس بات پر غور نہیں کیاکہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آج دستخطی فارم کمروں میں بند پڑے ہیں ۔ طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ میں بحث شروع ہوچکی ہے او رجب فیصلہ سنایا جائے گا تو ہندوستان کے ہر شہری کو اسے ماننا ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم کہہ دیتے کہ جو قانون 26مسلم ممالک میں رائج ہے ہم بھی اسی پر چلیں گے ۔ ایسا کرکے ہم قانون بحث رکوا سکتے تھے او راپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے شرمندگی سے بچ سکتے تھے ۔ عدالتی بحث سے غیر مسلموں کو یہ کہنے کاموقع مل گیا کہ کچھ مسلمان قرآن پڑھنے کے باوجود اسے سمجھ نہیں پائے۔ طلاق ثلاثہ کے بعد مسئلہ چھڑے گا دارالقضاؤں کی کار کردگی او ران کی قانونی حیثیت کا او رپھر انہیں غیر قانونی ٹھہرا کر عوام کو عدالتوں سے رجوع ہونے کو کہا جائے گا۔ پھر اٹھے گا مسئلہ کثرت ازدواج کا اور وراثت کا ۔ اگر ہم اب بھی اس پر غور و خوص نہیں کئے تو پھر سے عدالتیں اپنا فیصلہ سنائیں گی۔ اس جانب ویژن کرنا ٹکانے کچھ کوشش کی مگر چند لوگوں کی ضد اور انا نے اسے ناکام کردیا۔ آخر وہ کیا بات ہے جو ہم ہندوستانی مسلمانوں کو 26مسلم ممالک کے ساتھ چلنے سے روک رہی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیاوہ سب مسلم ممالک غلط ہیں او رہم ایک ہی صحیح ہیں؟ ان تمام مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ اہل علم او راہل دانش مل کر بیٹھے او رہر مسئلہ پر غور و خوص کرے، اپنی کمزوریوں کو جانے اور مانے ، مسلم مسائل میں ترجیحات طے کرے،رد عمل اور احتجاج عادت کو خیر باد کرے او رمسائل سیریس ہونے سے پہلے انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔ اب تک مذہبی حضرات کی لیڈر شپ ہم آزما چکے اب وقت آگیا ہے کہ ہم لیڈر شپ او ررہبری کا کام عصری علماء اور دانشور سنبھالے۔ اگر میں غلط ہوں تو ضرور معلوم کر دیجئے ۔
18مئی،2017 بشکریہ : روز نامہ پرتاپ ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism