نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
29 اگست 2022
اگست کے مہینے میں
افغانستان اور صومالیہ میں دہشت گردانہ واقعات ہوئے۔ ان واقعات میں ساٹھ سے زیادہ
معصوم افراد ہلاک ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ افغانستان میں داعش نے پچھلے چند
مہینوں سے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ اسی ماہ اس نے ایک
مدرسے پر حملہ کرکے ایک طالبان نواز عالم دین کو ہلاک کردیا اور ایک ہفتے کے بعد
ایک مسجد میں نماز کے دوران خود کش حملہ رکے 40 سے زائد افراد کو ہلاک کردیا۔
مہلوکین میں ایک سات سال کا بچہ بھی تھا جو نماز پڑھنے گیا ہوا تھا۔
اس حملے کے بعد ہی
صومالیہ کے موگادیشو میں القاعدہ سے منسلک دہشد گرد تنظیم الشباب نے ایک ایسے ہوٹل
پر حملہ کیا جہاں حکومت کے اعلی افسران قیام کرتے ہیں۔ اس حملے میں بیس سے زیادہ
افراد ہلاک ہوئے۔ سبھی دہشت گرد پولیس کی کارروائی میں میں ہلاک ہو گئے۔
افغانستان میں امریکہ نے
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے اور اس بنا پر
امریکہ کا یہ دعوی ہے کہ القاعدہ اب بھی افغانستان میں سرگرم ہے اور طالبان پر
القاعدہ کو پناہ دینے اور قطر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ قطر میں امریکہ اور طالبان
کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کی ایک شق یہ تھی کہ طالبان افغانستان کی زمین کو
کسی دہشت گرد تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیگا۔ اس بنا پر امریکہ نے
امریکی اور یوروپی بینکوں میں افغانستان کے جو ساڑھے تین ارب ڈالر منجمد کرکھے ہیں
وہ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔
داعش کا مقصد افغانستان
میں کیا ہے شاید اسے خود نہیں معلوم۔ اس نے 2014 میں عراق اور سیریا کے ایک بڑے
علاقے پر قبضہ کرلیا تھا اور وہاں اپنی حکومت قائم کی تھی۔ اس حکومت کو اس نے
خلافت قرار دیا تھا۔ اس کا نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی تھا جس کا آج کہیں اتا
پتا نہیں ہے۔ پانچ سال کے خون خرابہ کے بعد موصل سے اس کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد
داعش نے دہشت گردانہ سرگرمیوں کی راہ پکڑلی اور القاعدہ کی طرح مختلف ممالک میں
دہشت گردانہ حملے انجام دینے لگا۔ اسنے عراق, سیریا افغانستان اور فلپائن میں دہشت
گردانہ سرگرمیاں انجام دیں اور مسلم ملکوں کو نقصان پہنچایا۔ سیریا, عراق کا ایک
بڑا خطہ اس خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور اس علاقے کی معیشت تباہ ہو گئی۔ اس سے
قبل القاعدہ کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے افغانستان یمن اور عراق کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچا۔ مغربی طاقتوں کو القاعدہ اور داعش کے خلاف کارراوئی کے نام پر
مسلم ممالک کو تباہ کرنے کا بہانہ مل گئا۔ اب افریقہ اور ایشیا میں داعش اور
القاعدہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلم ۔ممالک میں پھر سے بے مقصد اور
بلاجواز تشدد اور خون خرابہ کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔
مسلم۔ممالک کے ساتھ المیہ
یہ ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف اسلامی دنیا میں اتفاق رائے نہیں تیار ہو سکاہے۔داعش
نے جب 2014 میں اپنی نام نہاد خلافت قائم کی تھی تو ہندوستان سمیت دنیا کے مسلم
ممالک میں ایک طبقے نے اسے اسلامی خلافت کی واپسی سے تعبیر کیا تھا مگر اب وہی
داعش جب افغانستان میں مسجد اور مدرسے پر حملہ کرکے نمازیوں اور طلبہ کو ہلاک
کررہے ہیں تو ان کی زبان سے مذمت کا ایک لفظ نہیں نکلا ہے۔ ہندوستان کے اردو کے وہ
صحافی اور کالم نگار جنہوں نے داعش کی تعریف میں اخبارات کے صفحات سیاہ کئے تھے آج
ان کالموں کو نکال کر پڑھیں اور اپنی صحافتی بصیرت پر ماتم کریں اور مسلمانوں سے
معافی مانگیں۔ یا پھر اب بھی کھل کر سامنے آئیں اور مسلمانوں سے کہیں کہ داعش
افغانستان میں جو کررہا ہے وہ درست ہے اور مرنے والے کافر ہیں۔
مسلمانوں کا المیہ یہ ہے
کہ وہ دین کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کے سامنے دین کے نام پر تشدد کے
اتنے جواز پیش کر دئےگئے ہیں کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کی دہشت گردی کی کھل کر مذمت
نہیں کر سکتے ۔ڈاکٹر ذاکر نائک نے خود کش دھماکوں کی حمایت میں بیان دے دیا تھا
اور ان سے لاکھوں مسلمان متا ثر ہیں لہذا، مسلمانوں کا ایک طبقہ یہ یقین رکھتا ہے
کہ خاص حالات میں خود کش حملے جائز ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں سمجتی ہیں کہ وہ خاص
حالات میں لڑ رہی ہیں اس لئے ذاکر نائک کا فتوی ان پر فٹ بیٹھتا ہے۔ کچھ علما نے
سر تن سے جدا کا نعرہ ضع کیا اور مسلمان اس نعرے کو لے اڑے۔ پاکستان میں مسلمانوں
ہی کو اس نعرے کو دین کی تفسیر سمجھ کر مسلمان قتل کررہے ہیں۔ القاعدہ نے مسلمانوں
کی امریکہ دشمنی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا اور امریکہ کو افغانستان کو
تباہ کرنے کا بہانہ دیا۔ جہاں جہاں القاعدہ گیا وہیں وہیں امریکہ کی قیادت میں
ناٹو گیا اور اس ملک کو القاعدہ سے لڑنے کے نام پر تباہ کردیا۔
بد قسمتی یہ ہے کہ اب بھی
مسلمانوں کو القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی اصلیت کا ادراک نہیں ہوا ہے۔ دنیا
کے ہر خطے میں چھوٹی موٹی دہشت گرد تنظیمیں کیوں سرگرم ہیں اس پر نہ انہوں نے غور
وفکر کیا اور نہ ان کو ختم کرنے کے لئے کوئی اجتماعی قدم اٹھایا۔ میڈیا میں بھی ان
تنظیموں کی دین مخالف سرگرمیوں پر تفصیلی مضامین نہیں آتے۔ جس جوش سے اردو کے
صحافی حضرات داعش کی تعریف میں رطب اللسان تھے اسی جوش کے ساتھ ان کی اسلام۔مخالف
سرگرمیوں پر ان کے مضامین نہیں آتے۔ پاکستان میں دہشد گرد تنظیمیں بے شمار ہیں مگر
وہاں کے اخبارات میں کبھی ان کا ذکر تک نہیں آتا جیسے کہ وہاں کبھی کوئی دہشت
گردانہ واقعہ ہوتا ہی نہ ہو۔ مسلم قوم دہشت گردی کے معاملے میں خود انکار کا رویہ
اپنائے ہوئے ہے۔
مسلم ممالک نے بھی داعش
اور دیگر تنظیموں کو بڑھاوا دیا ہے۔ پاکستان اپنے یہاں حزب المجاہدین اور لشکر
طیبہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ وہ ایغور مسلمانوں کے خلاف چین
کے ظالمانہ اقدامات کی حمایت کرتا ہے اور بدلے میں چین امریکہ اور ہندوستان کے
ذریعہ پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف لائی گئی قراردادوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ترکی نے
داعش کو پناہ دے دکھی ہے اور اسے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استمال کرتا ہے۔ اسنے
آزربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والی جنگ میں داعش کے کرائے کے ٹٹوؤں کو
بھیجا اور اس طرح مسلم دنیا میں ان کی مسلمان دوست شبیہ بنانے میں مدد کی۔جبکہ یہ
گروپ مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ حال ہی میں داعش کا ایک خود کش دہشت گرد
روس میں پکڑا گیا۔ اس کا ہندوستان میں خود کش دھماکہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس کی
تربیت ترکی میں ہوئی تھی۔ اس انکشاف کے فوراً بعد ترکی نے دنیا کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کے لئے کچھ داعش کے دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا ناٹک کیا۔
داعش کے دہشت گرد فرانس
اور دیگر یوروپی ممالک میں بھی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ان کی وجہ سے وہاں کی
حکومتوں نے مسلمانوں کے خلاف بہت ساری پابندیاں لگا دی ہیں ۔ان کی مسجدوں اور دیگر
اداروں پر تالا لگا دیا ہے۔
اس سب کے باوجود مسلمانوں
میں ان دہشت گردتنظیموں کے تعلق سے بیداری کا فقدان ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایک بڑا
نام نہاد دانشور طبقہ ان کے نظریات کو کسی نہ کسی بنیاد پر صحیح ٹھہراتا ہے۔ ان کی
اس ناعاقبت اندیشی سے مسلمان نوجواں ان تنظیموں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی
زندگی تباہ کر لیتے ہیں۔ مسلم دانشوروں, مذہبی تنظیموں اور مسلم ممالک کی بے حسی
اور ان کی مصلحت پسندانہ پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ
مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔ جب تک مسلم مفسرین اور علما انتہا پسندی اور تشدد
کے خلاف ایک نیا بیانیہ جاری نہیں کرینگے تب تک مسلم دنیا میں دین کے نام پر تشدد
اور خونریزی ہوتی رہے گی۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism