New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 04:16 PM

Urdu Section ( 2 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tehreek-e- Taliban Pakistan's Heightened Activities in Pakistan Pose Security Threat to The Entire Region تحریک طالبان کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں پورے خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں

 طالبان کی فتح پر پاکستان کا خوش ہونا غلط ثابت ہوا۔

 اہم نکات:

1.      ٹی ٹی پی نے 3 ماہ میں 141 حملے کیے ہیں۔

2.      95 فیصد حملے خیبرپختونخوا میں ہوئے جہاں عمران خان کی پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔

3.      ٹی ٹی پی نے جنگ بندی معاہدے کو توڑ دیا ہے۔

4.      افغان طالبان نے امن معاہدے میں ثالثی کی تھی۔

 ------

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 29 دسمبر 2022

 گزشتہ اگست میں جب طالبان دوسری بار افغانستان میں برسراقتدار آئے تو پاکستان کی خوشی قابل دید تھی۔ وہ صرف پاکستان ہی تھا جس نے طالبان کی واپسی کا جشن منایا تھا۔ یہاں تک کہ افغان عوام بھی ان سے خوف زدہ تھے اور لاکھوں افغان ملک سے باہر نکلنے کے لیے ہوائی جہازوں میں سوار ہو گئے۔

 اس سے قبل پاکستان امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ مذاکرات میں شرکت کے لیے پاکستان کی جیلوں میں بند چند سرکردہ طالبان رہنماؤں کو رہا بھی کر چکا ہے۔

 طالبان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد، پاکستان کی خوشی جو کہ قابل دید تھی دھویں میں مل گئی کیونکہ یہ غلط تصورات پر مبنی تھی۔ پاکستان نے سوچا تھا کہ طالبان بھارت کے خلاف اور ٹی ٹی پی کے خلاف میرے اتحادی ہوں گے اور جب افغانستان میں طالبان اقتدار میں آ جائیں گے تو ٹی ٹی پی اپنی اہمیت اور طاقت دونوں کو کھو دے گی۔ لیکن یہ غلط ثابت ہوا۔ اس کے برعکس افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ طالبان نے افغانستان کی ٹی ٹی پی کے 4000 جنگجوؤں کو رہا کیا اور پھر گزشتہ سال نومبر میں عمران خان اور ٹی ٹی پی کی سربراہی میں پاکستانی حکومت کے درمیان امن معاہدے کی ثالثی کی۔ جنگ بندی ایک ماہ کے لیے نافذ العمل ہوئی جس میں باہمی رضامندی سے مزید توسیع کی جانی تھی۔ اس معاہدے کے مطابق ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملنے کے بہانے پاکستان واپس آگئے۔ لیکن وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہتھیار لے کر واپس لوٹ گئے۔

دوسری اہم بات یہ کہ امریکی فوج نے افغانستان سے نکلتے وقت اپنے ہتھیار، ٹینک اور اسلحہ خانوں کو وہیں چھوڑ دیا تھا۔ ان کے ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ ٹی ٹی پی نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اس سے انہیں بڑی تقویت ملی ہے۔ امریکہ نے موصل میں داعش کو مضبوط کرنے کے لیے یہی حربہ اپنایا تھا۔ عراقی فورسز اپنے ٹینک اور ہتھیار موصل میں چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو گئی تھیں۔ ایک مضبوط ٹی ٹی پی پاکستان اور افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی کو فائدہ پہنچائے گی۔

 ٹی ٹی پی کا مطالبہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور سوات کی قبائلی پٹی میں شرعی قانون نافذ کیا جائے۔ جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے قبائلی علاقوں میں اڈے قائم کر لیے ہیں اور وہ خیبر پختونخواہ اور پاکستان کے دیگر قصبوں اور شہروں میں دہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں انہوں نے 1000 حملے کیے جن میں سے 95 فیصد حملے خیبر پختونخوا میں انجام دیے گئے ہیں۔ صرف گزشتہ 3 ماہ میں ہی 141 حملے ہوئے ہیں۔ اس سے ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔

 21 دسمبر کو ٹی ٹی پی نے بنوں میں ایک جے سی او اور کچھ فوجی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ فوج نے آپریشن شروع کر کے اپنے فوجیوں کو ان کے چنگل سے رہا کرا لیا ہے۔ 25 عسکریت پسند مارے گئے جب کہ ان میں سے سات نے ہتھیار ڈال دیے۔

 23 دسمبر کو ٹی ٹی پی نے اسلام آباد میں متعدد حملے کیے جن میں ایک خودکش بمبار اور اس کی خاتون شریک کار مارے گئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے حملوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ حملے صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہیں رہیں گے۔ اب تک اسلام آباد کو نسبتاً محفوظ سمجھا جاتا تھا اور یہاں آخری دہشت گردانہ حملہ 2014 میں انجام دیا گیا تھا۔

 پاکستانی حکومت کو بدیر یہ احساس ہوا کہ ٹی ٹی پی نے جنگ بندی پر رضامندی صرف دوبارہ منظم ہونے کے لیے کی تھی۔

 ایک صحافی نے لکھا کہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں مہلک حملے کرنے کے لیے خودکش بمباروں کو بھرتی کرنے کی مہم شروع کی ہے۔

 انہوں نے 2014 میں ایک آرمی اسکول میں دہشت گردانہ حملہ کیا تھا جس میں بچوں سمیت تقریباً 150 افراد مارے گئے تھے۔

پاکستان کی یہ در دشا اس لیے ہوئی کیونکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے اس کا نقطہ نظر ٹھیک نہیں ہے۔ عمران خان نے انتہا پسند تنظیموں سے سمجھوتہ کیا۔ ان کی حکومت نے ایک اور شدت پسند تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ بات چیت کی تھی اور اسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا تھا۔ کچھ عرصے سے، پاکستانی حکومت اور پاکستان کے سیاسی تجزیہ کار اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ٹی ٹی پی بھارتی را اور اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتوں کی پیداوار ہے۔ اب انہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کا نظریاتی بھائی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں 'خلافت' کے قیام کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ افغانستان میں افغان طالبان کی کامیابی سے ٹی ٹی پی کے حوصلے بلند ہیں اور اس نے پاکستان کی جمہوری حکومت کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ پاکستان کی حکومت کے خلاف اس لڑائی میں چھوٹی چھوٹی قبائلی تنظیمیں اور بلوچ قوم پرست تنظیمیں بھی ٹی ٹی پی کا ساتھ دے رہی ہیں۔

 یہ اپنے سیکیورٹی مسائل کے حل کے لیے افغان طالبان پر پاکستان کے اعتماد کا نتیجہ ہے۔ کامران یوسف ایکسپریس ٹریبیون کے اپنے ایک کالم میں پاکستان کی مخمصے کے بارے میں لکھتے ہیں:

 "پاکستان کو یقین تھا کہ افغان طالبان ہمارے سیکورٹی خدشات کا خیال رکھیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کو قبول کیا تھا۔ اس اقدام کا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ بندی ہوئی اور ممکنہ امن معاہدے کی امیدیں بڑھیں۔ اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر، پاکستانی حکام نے ٹی ٹی پی کے متعدد ارکان کو اپنے خاندان والوں سے ملاقات کے بہانے اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی۔ امید یہ تھی کہ وہ جنگجو غیر مسلح واپس آئیں گے۔ تاہم، ثبوت اس بات کے ملے ہیں کہ وہ ہتھیاروں کے ساتھ واپس آئے۔"

 صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ پاکستان کو ایک اور داخلی بحران میں ڈال دے گا، اور اس کی وجہ پاکستانی حکومتوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیاں ہیں جنہوں نے کچھ مہلت حاصل کرنے کے لیے شدت پسند تنظیموں سے سمجھوتہ کیا اور اس مسئلہ جو اگلی حکومت پر چھوڑ دیا۔ فوج کی طرف سے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی حملہ پاکستانی طالبان کے آرمی اسکول پر حملے کی طرح ردعمل کا باعث بنے گا۔

 پاکستان کی سیکیورٹی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے بی بی سی کو بجا طور پر بتایا کہ حکومت پاکستان کی دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی ناقص ہے۔ پاکستانی کالم نگار عمیر جمال بھی پاکستان کی اس تباہی کا ذمہ دار پاکستان کی سیاسی قیادت کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ ڈپلومیٹ میں لکھتے ہیں:

 "صورتحال سے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں پاکستان کی افغان سرحد کے ساتھ بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اسلام آباد اب صرف یہی کر سکتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے طالبان پر انحصار کرے۔ اگر پاکستان کچھ کرنا چاہتا ہے تو یہی بہترین وقت ہے کہ پاکستان طالبان کو ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو اپنے حوالے کرنے اور افغانستان میں ان کی پناہ گاہیں بند کرنے پر مجبور کرے۔"

-------------

English Article: Tehreek-e- Taliban Pakistan's Heightened Activities in Pakistan Pose Security Threat to The Entire Region

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/tehreek-taliban-pakistan-security-threat/d/128776

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..