پروفیسر اختر الواسع
2 جنوری،2022
جب کہ ہم اپنی آزادی کے
حصول کے 75 ویں سال میں داخل ہوچکے ہیں اور اس کا امرِت مہوستو کے نام سے جشن
منارہے ہیں ،ہمیں ان علمائے دین ، مفتیان شرع متین او ران مسلمان اہل علم و دانش
کو ضرور یاد رکھنا چاہئے ، جنہوں نے اپنے خون سے ہماری تحریک آزادی کے افسانے کو
سرخی عطا کی۔ وہ سلسلہ جو شاہ عبدالعزیز صاحب کے فتوے اور حضرت سیداحمد شہید کی
تحریک سے شروع ہوا تھا 1857 ء تک پہنچتے
پہنچتے اس نے جرأت وہمت ، غیرت و حمیت اور عزم و حوصلے کی وہ تاریخ مرتب کی جس کے
نقوش آج بھی دہلی ، میرٹھ ، شاملی او رلکھنؤ سمیت نہ جانے کن کن شہروں ، قصبوں
تک پائے جاتے ہیں؟ یہ بھی سچائی ہے چاہے کتنی ہی افسوسناک اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو
کہ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی میںہمارے حصے میں ناکامی آئی اور اس کی پاداش میں
سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں کو انگریزوں نے انتقام کی آگ میں جھونک دیا ۔ جگہ جگہ
لوگوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا گیا ۔ کتنے جاگیرداروں کی جاگیریں
،زمینداروں کی زمینیں ضبط کرلیں لیکن اس سب کے باوجود ہمارے علماء مایوس نہیں ہوئے
اور انقلاب کی ناکامی کی کوکھ سے جس سوچ کا جنم ہوا وہ یہ تھی کہ ہم ملک کے غلامی
سے نہیں بچا پائے، ہم مغل خاندان کی سطوت و شوکت کو زوال پذیر ہونے سے بھی نہیں
روک پائے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ کم از کم ہم اپنے دین کا دفاع کریں۔ اپنی نئی
پیڑھیوں کو عیسائی مذہب کے بڑھتے ہوئے آسیب سے محفوظ رکھیں اور اسی لئے 30 مئی
1866 ء کو دیوبند کے قصبے میں چھتے والی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے دو وسعئی
محمود سا منے آئی جس کامقصد ایک دارالعلوم کا آغاز تھا جس کے پہلے استاذ ملا
محمود تھے او رپہلا طالب علم محمود حسن۔ یہی محمود حسن آگے چل کر شیخ الہند
کہلائے ۔ ریشمی رومال تحریک کے بانی او رہماری جد و جہد آزادی کے کارواں سالاروں
میں ایک ممتاز نام ۔ دیوبند سے تقریباً 36 کلومیٹر کے فاصلے پر سہارنپور میں صرف
چھ مہینے بعد 1866 ، میں ہی ایک نئے ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس کو ہم اور آپ
جامعہ مظاہر علوم کے نام سے جانتے ہیں۔ جس نے سب سے پہلے حضرت مولانا احمد علی
محدث سہارنپوری او ر بعد ازاں مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور ان کے بعد شیخ
الحدیث مولانا محمدذکریا صاحب کی رہنمائی میں علوم ربانی اور اسوہ رسول کریم صلیہ
الصلوٰۃ والسلام کی ضیا پاشیوں نے ایسا نور پھیلایا کہ 150 سال سے زیادہ عرصے میں
دنیا جہان میں آج وہاں سے اسناد فضیلت لے کر اسلام کی آفاقی تعلیمات کو پھیلانے
والے فاضلین حقوق اللہ اور حقوق العباد تبلیغ و ترویج اور اشاعت میں لگے ہوئے ہیں۔
مظاہر علوم کی مہتمم
بالشان تاریخ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے جڑے ہوئے تمام
اکابرین کی سرپرستی اسے ہمیشہ سے حاصل رہی ہے اور شیخ الحدیث مولانا محمدذکریاؒ جس
خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اس کے اکثر صاحبان علم و فضل او ررشد و ہدایت کا تعلق
کاندھلے ہی سے رہا ہے ۔ جماعت تبلیغ جس کاشہرہ اس نفسا نفسی کے زمانے میں اپنی بے
نفسی، ایثار، پیشگی، مسلمانوں کو سچا مسلمان بنانے اور خدا سے ان کے رشتوں کو
مضبوط کرنے میں صرف ہوتی ہے اس کے بانی اور بعد میں ان کے جانشین اسی ادارے کے فیض
یا فتگان میں سے رہے ہیں۔ ان میں آج کل ایک بڑا نام اپنی علمی فتوحات ، دینی تبحر
اور اخلاق کریمانہ کے لئے جامعہ مظاہر علوم کے امین عام مولانا سید محمد شاہد
سہارنپوری کا ہے جو کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریاؒ کے نواسے ہیں۔
ابھی کووڈ ۔19 کی قہر
سامانی سے کچھ پہلے مولانا شاہد صاحب کی ایک نہیں چار جلدوں میں تحریک آزادی ہند
اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے عنوان سے کتابیں سامنے آئیں ،ان کی رسم رونمائی
بھی ایک بڑے جلسے میں مظاہر علوم کی عمارت میں ہوئی جس میں مولانا سید ارشد مدنی
دامت برکاتہم سمیت دیگر علماء اور دانشور شامل ہوئے اور سب نے اس بات کا اعتراف
کیا کہ تحریک آزادی ہند جو کچھ مولانا سید محمد شاہد صاحب نے ان چار جلدوں میں
جمع کردیا ہے اس سے ابھی تک ہم سب بھی پوری طر ح واقف نہیں تھے۔ ان چار جلدوں میں
تقریباً 122 حضرات کے حالات اور آزادی ہند ے حصول کے لئے ان کی جد وجہد کا تذکرہ
مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری کے قلم سے ہمیں پڑھنے کو ملتا ہی ہے ساتھ میں
انہوں نے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے خاندان کی قربانیوں اور دیگر علماء کے مجاہدانہ
عزائم پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ انہوں
صرف 1857 اور اس کے آس پاس کی انگریزوں کی سازشوں ہمارے علماء کی ان کے
خلاف کوششوں کا ہی تذکرہ نہیں کیاہے بلکہ اس علمی و تحقیقی کتاب میں ہنٹر ، میلکم
لوئیس ، دیور ینڈ کینیڈی ،حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے پادری فنڈر سے مناظر ے
،عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشنریوں کی کوششوں ،پھر دارالعلوم دیوبند او رجامعہ
مظاہر علوم کا قیام دونوں اداروں کے بیچ میں ارتباط ، تعاون اورایک دوسرے کی تائید
میں اکابرین کی حصے داری ہمارے علماء کے انگریزوں کے خلاف فتاویٰ سب کا تذکرہ کیا
گیاہے جس سے کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں ، اداروں کی تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ
وطن دوستی، انسان دوستی اور حصول آزادی کے لئے پیدا کی گئی تحریکیت کابخوبی
اندازہ ہوتا ہے۔
آزادی سے قبل برصغیر کے
مسلمان ایک نئی سیاسی کشاکش اور نظریاتی تصادم کا شکار ہوئے او ریہ وہ قت تھا جب
ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے تحریک کو جلا بخشی گئی اور اس میں مظاہر
علوم کو بھی بلا وجہ گھسیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن مظاہر علوم نے بحیثیت ایک دینی تعلیمی
ادارے کے اپنے آپ کو اس کشاکش سے دور ہی رکھا اور جب اس کے حوالے سے جمعیۃ علماء
ہند اور ا س کے دن اکابرین کے خلاف جن کے تقوے ، علم، پاکیزگی اور اخلاص میں کوئی
شبہ نہیں تھا، مظاہر علوم کا نام لے کر انہیں مطعون کرنے کی کوشش کی گئی تو اس
ادارے کے ذمہ داروں نے بڑی جرأت اور پامردی سے اس طرح کی ہر کوشش کی تردید کی اور
اسے ناکام بنا دیا اور ایسا کرنے میں جامعہ مظاہر علوم کو اس لئے بھی کوئی دیر نہ
لگی کہ اس نے اپنے لئے جو چھ اصول طے کئے تھے ان میں دوسرا اصول سیاست سے اجتناب
تھا او ریہاں ایک بات کی وضاحت اور ضروری ہے کہ 1896 میں سرسید کے قریبی ساتھی اور
ان کے بعد ان کے جانشین نواب محسن الملک مظاہر علوم کے ذمہ داروں کی دعوت پر ادارے
میں تشریف لائے اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد
مہاجر مدنیؒ ، مولانا حافظ محمد احمدؒ، مہتمم دارالعلوم دیوبند اور مولانا حکیم
سید محمد اسحاق سہارنپوری ؒ کی موجودگی میں جو سپاس نامہ پیش کیا گیا اس میں پرُ
زور لفظوں میں اس خیال کی تردید بھی کی گئی کہ ارباب مدرسہ اسلامیہ انگریزی تعلیم
کو برا سمجھتے ہیں۔
مولانا سید محمد شاہد
سہارنپوری نے جامعہ مظاہر علوم کے امین عام کی ذمہ داریوں کے ساتھ جو علمی و
تحقیقی کام کئے ہیں وہ سب بھی بلا شبہ قابل قدر ہیں لیکن چار جلدوں میں ان کی یہ
علمی اور تحقیقی کاوش ’ تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور‘ اس
اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں انہوں نے بغیر کسی عصبیت کے
انتہائی علمی دیانت کے ساتھ خانوادہ شاہ ولی اللہ کی کوششوں اور اس کے بعد سے 1947
ء تک جو دارالعلوم دیوبند او رمظاہر علوم سے وابستہ بزرگوں کا رول رہا ہے اس کو
بلا کام وکاسب بیان کردیا ہے اور ان تمام لوگوں کے مجاہدانہ عزائم او رکارناموں سے
ہمیں واقف کرایاہے کہ اگر چار جلدوں میں یہ کتاب ہمارے سامنے نہ ہوتی توہم ان میں
سے زیادہ تر کے ناموں سے بھی واقف نہ ہوتے۔ آخر میں یہ بھی کہتے چلیں تو غلط نہ
ہوگا کہ جو کام یونیورسٹیوں کو کرنا چاہئے تھا وہ مدرسے کے ایک بوریہ نشین نے ممکن
کر دکھایا۔ خدا مولانا شاہد صاحب کو اس کے لئے جزائے خیر عطا فرمائے۔
2 جنوری،2022 ، بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism