New Age Islam
Thu May 15 2025, 06:02 PM

Urdu Section ( 21 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Teachers of Hate Spread Hatred Among Students نفرتی اساتذہ طلباء میں نفرت کی بیج بوتے ہیں

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 17 ستمبر 2023

 مظفر نگر سے نئی دہلی تک مسلم طلباء و طالبات اپنے خلاف نفرت انگیز جرائم کی شکایت کر رہے ہیں

 اہم نکات:

 1. ایک خاتون ٹیچر طلباء کو اپنے مسلم ہم جماعت کو تھپڑ مارنے پر مجبور کرتی ہے

 2. ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جس کی کوئی نذیر نہیں ملتی

 2. یہاں تک کہ چھوٹے بچوں پر بھی اس نفرتی نظریہ کو آزمایا جاتا ہے

 -----

 ہمارے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب اس پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اربابِ سلطنت میں کوئی بھی اس پر لگام لگانے کو لیکر سنجیدہ نہیں۔ چند ماہ قبل موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہندو گزشتہ ایک ہزار سال سے جنگ کی حالت میں ہیں۔ دوسری طرف، دلت رہنما ومن میشرم اکثر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ نچلی ذات کے لوگوں کو اونچی ذات والے پچھلے تین ہزار سالوں سے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ لہٰذا، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ اپنی سماجی اور مذہبی ساخت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے صدیوں سے تصادم کی حالت میں ہے۔

 قبل مسیح یا مہاتما بدھ سے پہلے کا معاشرہ قبائلی نظام والا، غیر تعلیم یافتہ اور غیر مہذب معاشرہ تھا۔ اس وقت انسانیت نے ترقی نہیں کی تھی۔ لہٰذا ممکن تھا کہ ان کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی مسائل پر عداوت و مخاصمت پائی جاتی۔ تشدد کا ہر طرف دور دورہ تھا اور طاقتور کا راج تھا۔ لوگ زور بازو سے اپنے تنازعات کا تصفیہ کرتے تھے۔

 لیکن جیسے جیسے انسانیت تعلیم یافتہ اور مہذب ہوتی گئی، انسانی معاشرے کو پرامن بقائے باہمی اور دوسروں کے احترام کی اہمیت کا احساس ہوتا گیا۔ بہت سے بڑے بڑے مصلح، صوفی سنت اور فلسفی آئے جنہوں نے ایک دوسرے کے احترام اور پرامن بقائے باہمی کی اہمیت سے لوگوں کو روشناس کیا۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ تمام انسان برابر ہیں اور انسانی خون کی حرمت کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ انہوں نے لوگوں کو صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات سے محبت کرنا سکھایا۔ ہندوستان کی سرزمین پر بھی کچھ ایسے عظیم فلسفی پیدا ہوئے جنہوں نے انسانوں سے محبت اور احترام انسانیت کی تبلیغ کی۔ گوتم بدھ ہندوستان کے سب سے بڑے سنتوں میں سے ایک تھے جنہوں نے محبت کا پیغام پوری دنیا میں پھیلایا اور لوگوں کو بتایا کہ اچھے کرم کا فائدہ جود انسان کی ذات کو ملتا ہے۔ لہٰذا جو اپنی بھلائی چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ مہاتما بدھ سے پہلے کا معاشرہ نفرت، امتیازی سلوک، تشدد اور چھوا چھوت کے نظام پر مبنی تھا جبکہ بدھ کے بعد کا معاشرہ محبت، مساوات، بھائی چارے جیسے عظیم انسانی قدروں کا حامل ہو چکا تھا۔

 تاہم، گوتم بدھ کا زمانہ ختم ہو جانے کے بعد سماجی نظام پھر سے اتھل پتھل کا شکار ہو گیا۔ پھر سے انسانی معاشرہ نفرت و عداوت سے بھر گیا۔ چھوا چھوت، امتیازی سلوک اور تشدد کا ہر طرف راج ایک بار پھر قائم ہو گیا۔ فرق یہ ہے کہ پہلے نفرت و عداوت کا نشانہ نچلی ذات کے لوگ بنائے جاتے تھے، اب اس کا نشانہ مسلمان بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن حالیہ مہینوں اور برسوں میں نفرت اور تشدد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دنیا کا کوئی ملک یا کوئی معاشرہ اس کی نظیر نہیں رکھتا۔ عالم مغرب یا چین میں پاگل لوگ اسکول میں بچوں کو گولی مار دیتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں کوئی استاد اپنی درسگاہ کے اندر طلباء سے اپنے ہی ہم جماعت کسی بچے کو تھپڑ مارنے کا حکم دیکر نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب نہیں کرتا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں دیکھا گیا ایک صحیح الحواس ہجوم نے دو لاچار لڑکیوں کو برہنہ کر سڑک پر گھمایا ہو۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ مجرموں کا بڑی ہی بے شرمی سے دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کا کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جہاں عصمت دری کرنے والوں کو صرف اس لیے استقبال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرے ملک کی عورت کی عصمت دری کی ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں لوگ دوسری برادری سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری کرنے والے کے حق میں جلوس نہیں نکالتے۔

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی شدت پسند تنظیم تربیت نہیں دے رہی ہے تو یہ ہماری چوک ہے۔ اس سے پہلے ایسی تنظیمیں مطبوعہ لٹریچر استعمال کرتی تھیں جو ہم خیال لوگوں میں چھپ چھپ کر تقسیم کیے جاتے تھے کیونکہ انہیں قانون کا خوف تھا اور وہ جانتے تھے کہ بہت زیادہ لوگ ان کے نظریے کی حمایت یا تائید نہیں کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے نفرتی نظریات کی تبلیغ کافی سست رفتار اور محدود تھی۔ اب، ان خفیہ طباعت شدہ لٹریچر کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ نے نفرتی نظریات کو ہر گھر کے کونے کونے تک پہنچا دیا ہے۔ مرکزی دھارے کا میڈیا اب ملک بھر میں ایک ہی مواد کو عام لوگوں میں دن رات اور بڑے شدومد کے ساتھ پھیلا رہا ہے۔ انہیں قانون کا خوف نہیں کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سمجھوتہ کیا جا چکا ہے۔ نیوز اینکروں کے ذریعے چلائے جانے والے 24 گھنٹے کے فرقہ وارانہ بیانیے نے سب کو ذہنی مریض بنا دیا ہے کیا بچے اور کیا نوجوان۔ وہ پاگل ہو چکے ہیں اور چلتے پھرتے ٹائم بم بن چکے ہیں۔ لوگوں کو نفسیاتی طور پر بیمار کرنے کا عمل اتنا خفیہ تھا کہ لوگوں کو احساس ہی نہیں ہوا کہ انہیں میٹھا زہر دیا جا رہا ہے۔ یہ بڑی عجیب اور بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹی وی چینلوں کے صرف دس بارہ اینکرز نے آٹھ سالوں میں وہ کام کر دکھایا ہے جو فرقہ پرست تنظیمیں 90 سالوں میں چھپ چھپا کر تقسیم کیے گئے فرقہ وارانہ لٹریچر کے ذریعے نہ کر سکیں۔ انہوں نے ہندوستان کے مشترکہ امن پسند لوگوں کو درندہ بنا دیا ہے۔

 -----

Hate In India Has Gone Beyond Control. Even Modi, RSS Can’t Stop It

 بھارت میں نفرت و عداوت قابو سے باہر، مودی، آر ایس ایس بھی اب اسے نہیں روک سکتے

 از، ویر سنگھوی

 31 اگست 2023

 آپ کا پہلا ردعمل کیا تھا جب آپ نے ایک اسکول ٹیچر کی ویڈیو دیکھی (یا اس کے بارے میں پڑھا) کہ وہ اپنے طالب علموں کو اپنی ہی جماعت کے ایک طالب علم کو مارنے کے لیے کہ رہی تھی۔ جب آپ نے وہ آڈیو سنی اور محسوس کیا کہ وہ دراصل فرقہ وارانہ واریت کی زبان استعمال کر رہی ہے اور بچوں سے نفرت انگیز جرم کرنے کو کہہ رہی ہے تو آپ کا ردعمل کیا تھا؟

 کیا یہ دیکھ کر آپ کو اس ریلوے پولیس کانسٹیبل کی یاد آئی جو ٹرین میں کھوج کھوج کر مسلمان مسافروں کو گولی مار رہا تھا اور مسلمانوں کے خلاف جذباتی انداز میں اپنی زبان سے زہر اگل رہا تھا؟

اور کیا آپ نے بروز بدھ کے اخبارات میں دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے چار طلباء کے بارے میں یہ خبر دیکھی کہ ان کے استاد نے ان پر فرقہ وارانہ تبصرے کیے ہیں۔ شکایت کے مطابق، استاد نے کہا: "تقسیم کے دوران آپ پاکستان نہیں گئے تھے۔ آپ ہندوستان میں رہے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں آپ کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

 میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام واقعات پر آپ کا پہلا ردعمل وہی تھا جو میرا تھا: صدمہ، غم، غصہ، عدم اعتمادی، اداسی اور اس بات کا خوف کہ ہمارا ملک کیا بنتا جا رہا ہے۔ اور یہ کہ کیا آپ اتنے ہی خوفزدہ تھے جتنا میں جب سوشل میڈیا پر گمراہ گروں کی ایک منظم فوج نے ان واقعات کی وضاحت کے لیے جھوٹ کا جال بچھا دیا۔ یعنی 'نفرت سے بھرے اس استاد نے کوئی فرقہ وارانہ بات نہیں کی تھی۔ ویڈیو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ کٹھ پتلیوں نے اسے شہید کا درجہ دیا۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ 'مسلمانوں کو قتل کرنے والا ریلوے پولیس افسر مسلم مخالف نہیں تھا'، اس کے سوشل میڈیا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف ’پریشان‘ تھا۔ کنٹرول رومز کو اس جھوٹ کو رد کرنا پڑا جب قاتل کے اپنے اعلی افسران نے اعتراف کیا کہ اس نے نفرت انگیز جرم کا ارتکاب کیا ہے، جس کے بعد اس پر الزام عائد کیا گیا۔

 لیکن جب میں نے اپنے غصے اور مایوسی سے پرے دیکھنا شروع کیا تو دو چیزوں نے مجھے پریشان کر کے رکھ دیا۔ یہاں، کسی خاص ترتیب کے بغیر، درج ذیل چند باتیں مجھے خوفزدہ کرتی ہیں۔

 نفرت، جو اب رکنے والی نہیں

 نفرت کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ اسے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ سیاست دان (تمام جماعتوں اور تمام مذاہب کے) یہ ماننے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ نفرت پانی کی طرح ہے۔ آپ اس میں سے جتنا چاہیں انڈیل سکتے ہیں۔ اور جب آپ چاہیں، نل کو بند کر کے اسے روک سکتے ہیں۔

 درحقیقت نفرت پانی کے برعکس ہے۔ یہ آگ کی طرح ہے۔

 ایک بار جب آپ شعلہ روشن کر دیتے ہیں، تو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر آگ پھیل جاتی ہے اور اسے روکنا یا اس کی حد بندیاں کرنا تقریباً ناممکن سا ہو جاتا ہے۔

 موجودہ سیاسی نظام کے مخالف جو لوگ ہیں ان میں یہ بات مقبول ہے کہ ہم اپنے اردگرد جو نفرت دیکھتے ہیں وہ اوپر سے آ رہی ہے اور کچھ محتاط سیاسی سازشوں کا نتیجہ ہے۔

 مجھے نہیں لگتا کہ یہ سچ ہے۔ مسلمان سے نفرت کرنے والا ہر شخص سنگھ کا حامی نہیں ہے جو ناگپور کے حکم پر ناچتے ہیں۔ آگ کی طرح نفرت بھی پھیلتی ہے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اگلا آتش فشاں کہاں پھوٹے گا، آگ کہاں پھیلے گی یا شعلے اب کسے نگلنے والے ہیں۔

اگرچہ وزیر اعظم اور ان کے اعلیٰ وزراء اس بات کو لیکر کافی محتاط ہیں کہ کوئی ایسی بات نہ ان کے منھ سے نکل جائے جو فرقہ وارانہ ہو، لیکن نفرت اب اس قدر پھیل چکی ہے کہ اب ان کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ باقی پریوار - آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور دیگر تمام نام نہاد لبرل - بہت پہلے ہی نفرت کی آگ پر قابو کھو چکے ہیں۔ کسی نے اسکول کے اساتذہ کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا حکم نہیں دیا۔ کسی نے ریلوے پولیس والے کو مسلمانوں کو مارنے کے لیے نہیں کہا۔

 آج کے ہندوستان میں ہم جس طرح کی نفرت دیکھتے ہیں وہ بالکل بے قابو ہے۔ اسے کسی ٹرگر اور چنگاری کی ضرورت نہیں۔ اور نفرت کا مقابلہ کرنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ ایک بار جب کام یا جرم سرزد ہو جاتا ہے تو سوشل میڈیا پر کرائے کے قاتلوں کی ایک فوج قاتلوں اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کے لیے پہنچ جاتی ہے۔

 یہ کسی نے نہیں کہا کہ اس سے پہلے ہندوستان میں نفرت و عداوت کا ماحول نہیں تھا۔ آزاد ہندوستان نفرت اور خونریزی سے بنا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے، زیادہ تر رہنماؤں (سیاسی جماعتوں کے) اور میڈیا نے زخموں پر مرہم رکھنے اور سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے سخت محنت کی۔

 پچھلی ڈیڑھ دہائی کے دوران یہ کوششیں ترک کر دی گئیں۔ زخم پھر سے تازہ ہو گئے ہیں اور خون ایک بار پھر رس رہا ہے۔ اس سے سب سے بڑے ذمہ دار سرکردہ رہنما ہیں، جنہوں نے جنونی، بنیاد پرستوں، گوڈسے سے محبت کرنے والوں اور باقیوں نفرت پھیلانے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

 سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن میڈیا اپنی پوری تاریخ میں آج سب سے زیادہ فرقہ واریت اور نفرت سے بھرا ہوا ہے۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے - بشمول سیاسی پارٹیوں کے - یہ ہمارے ملک میں فرقہ سب سے بڑا قعر عمیق ہے۔

 میں نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ ہمیں کہاں لے کر جائے گا لیکن ایک چیز کے بارے میں، مجھے یقین ہے: کہ اگر ملک کی تمام فرقہ وارانہ تنظیموں کے سربراہ اکٹھے ہو کر بھی لوگوں سے سماجی ہم آہنگی اور امن کی درخواست کریں، تب بھی اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا۔

 اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ آپ چند تقریروں یا عوامی بیانات سے جنگل کی آگ نہیں بجھنے والی۔

بچوں کے ذہن میں نفرت کا زہر جو کہ ہمارے ملک کا مستقبل ہیں

 نفرت کی اس وبا کے بارے میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کا بچوں پر کیا اثر پڑے گا۔ جیسا کہ اسکول کے مسلم بچوں پر زبانی (اور جسمانی) حملوں کی دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں، فرقہ وارانہ نفرت کا زہر ہمارے اسکولوں میں پھیل چکا ہے۔

 میں سوچتا ہوں کہ اس بے چارے مسلمان لڑکے کو دیکھ کر اب بھی آپ کے اندر ہمدردی کا احساس پیدا نہیں ہوتا جسے اس کے اسکول کے ساتھی اپنے اساتذہ کی نگرانی میں بار بار تھپڑ مارے تھے، تو آپ کا دل پتھر کا دل ہے۔ لیکن بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ پورے ہندوستان کے اسکولوں میں ان کے بچوں کے ساتھ ایسی ہی بدسلوکی کی جاتی ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے - اگرچہ یہ زیادتی اتنی بھیانک شکل میں نہی کی جاتی۔

 ظاہر ہے کہ یہ شرمناک، پریشان کن اور المناک ہے۔ لیکن ہمارے خدشات کو ہمدردی اور جذبات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اس سب کا مستقبل کے ہندوستان پر کیا اثر ہوگا؟

 کیا ہم طلباء کی ایک ایسی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں جو یہ مانتی ہے کہ واقعی مسلمان یہاں کے نہیں ہیں؟ کہ وہ پاکستان چلے جائیں؟ کیا ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ٹھیک ہے؟ کہ، ایک طرح سے، وہ واقعی اتنے ہندوستانی نہیں ہیں جتنے ہندو؟

 ہمیں اس کے اثرات کا اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پاکستان میں اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں جہاں نسلیں خود کسی ہندو کو دیکھے جانے بغیر پروان چڑھی ہیں، اور انہیں بتایا گیا ہے کہ ہندو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

 پاکستانیوں کے لیے یہ روا ہو سکتا ہے کہ وہ ہندوؤں کو دشمن سمجھیں۔ کیونکہ پاکستان میں نسبتاً کم ہندو ہیں جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے عقیدے نے پاکستان کو قرون وسطیٰ کی ایک ایسی قوم میں تبدیل کر دیا ہے جو مذہبی بنیاد پرستی میں طاقت دیکھتی ہے۔ شاید ایسا مستقبل ہم اپنے لیے نہیں چاہتے۔ ہم نے اس ہندوستان کا خواب نہیں دیکھا تھا۔

اور ہم نے اس کا مشاہدہ کشمیر میں بھی کیا ہے۔ بہت سارے نوجوان کشمیریوں کے ملک ہندوستان سے دشمنی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلی نسلوں کے برعکس ان کے ہندو دوست بہت کم رہے ہیں۔ 1989/90 کی نسل کشی کے بعد، جب پنڈت ہجرت کر گئے، وادی کی ہندو آبادی ڈرامائی طور پر کم ہو گئی۔ چونکہ نوجوان کشمیری ہندوؤں سے بمشکل ہی ملتے جلتے ہیں، اس لیے وہ ہندوؤں کی اسی شبیہ پر یقین رکھتے ہیں جو عسکریت پسند پیش کرتے ہیں۔

 جب آپ بچوں کی برین واشنگ کرتے ہیں تو آپ معاشرے کو زہر آلود کر دیتے ہیں۔ جو بچے نفرت کا شکار ہوتے ہیں وہ جذباتی طور پر پروان چڑھتے ہیں، اور امتیازی سلوک ان کے لیے خود کو معاشرے کا ایک مساوی فرد ماننا مشکل بنا دیتا ہے۔ اور ظالموں کے لیے ان لوگوں کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے جنہیں ان کو کبھی گالی دینا اور اذیت دینا سکھایا گیا تھا۔

 تو ہاں، ہم اس بات سے حیران اور خوفزدہ ہونے میں حق بجانب ہیں کہ ایک استاذ نے ایک اسکول کے لڑکے پر حملہ کرنے کا اہتمام کیا۔ لیکن اس طرح کے رویے سے پیدا ہونے والے خطرات کا دائرہ ہمارے غصے اور اضطراب سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ وہ ہمارے معاشرے کے قیمتی سرمایہ کو اپنا ہدف بنا رہے ہیں اور ہندوستان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

 ہم اس صدی میں ایک بڑی عالمی طاقت بننے کے لیے تیار ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفرت ہمیں اندر سے تباہ کر دے اور ہم اس ترقی کے راستے سے بھٹک جائیں جس کے لیے لاکھوں ہندوستانیوں نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں۔

 ------

 ماخذ: Hate In India Has Gone Beyond Control. Even Modi, RSS Can’t Stop It

--------------

English Article: Teachers of Hate Spread Hatred Among Students

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/teachers-hate-spread-hatred/d/130727

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..