گریس مبشر،
نیو ایج اسلام
11 اکتوبر 2023
ابن تیمیہ کے 14ویں صدی عیسوی کے
ماردین فتوے نسل در نسل استعمال کیےجاتے رہے ہیں، 18ویں صدی میں ابن عبدالوہاب اور
20ویں صدی کے اواخر میں جدید بنیاد پرست جہادیوں نے اس کا سہارا لیا ہے، تاکہ جدید
دور کی بنیاد پرست جہادیت اور اسلام پسند دہشت گردی کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ البتہ
ان فتاویٰ کا مطالعہ سیاق و سباق کے ضمن میں کیا جانا چاہیے۔ اب اس دور جدید میں ابن
تیمیہ کے فتاوے اور اقوال کی کوئی اہمیت و افادیت نہیں رہی۔ جہادی بنیاد پرست اپنے
غیر انسانی جہاد کے نظریہ کی تبلیغ کےلیے اور بے گناہوں کو مارنے کے لیے قرون وسطیٰ
کے فتووں کا سہارا لے رہے ہیں۔ عام شہریوں کے اس طرح کے قتل کا اسلام میں کوئی جواز
نہیں ہو سکتا۔
اہم نکات:
1) جہادی بنیاد پرست اپنی مذموم سرگرمیوں کو جواز
فراہم کرنے کے لیے ابن تیمیہ کے فتوے استعمال کرتے ہیں، اور مسلمانوں میں ابن تیمیہ
کا جو ارفع و اعلی مقام ہے اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔
2) اج جو بنیاد پرست تشدد اور قتل و قتال کر رہے ہیں
اس کے پیچھے ایک فکری اور مذہبی محرک 14ویں صدی کے علماء رہے ہیں۔
3) اسلامی کے فقہ اصولوں کے مطابق، فتاویٰ کو سیاق
و سباق کے لحاظ سے دیکھا جانا چاہیے، لہٰذا، قرون وسطیٰ کے علماء کی دور حاضر میں افادیت
نہیں بچی۔
-----
ابن تیمیہ کے دو فتووں کو بنیاد
پرست عناصر اپنے جہادی نظریے کو تقویت دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ ابن تیمیہ
کا سہارا اپنی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لیتے ہیں کیونکہ اب تیمیہ بہت بڑے عالم دین
مانے جاتے ہیں۔ کئی بار ان کے فتوے کو بنیاد پرست گروہوں نے اپنے خطرناک نظریے کو پھیلانے
کے لیے غلط طریقے سے استعمال کیا ہے۔ یہ گروہ اپنے بے ہودہ جہادی نظریے کے مطابق فتووں
کی غلط تشریح کرتے ہیں۔
ان کے دو فتووں کا بنیاد پرست گروہوں
نے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے اور عالم مغرب کے خلاف حملے کا جواز پیش کرنے کے
لیے سب سے زیادہ غلط استعمال کیا ہے۔ یہ دونوں فتوے اس سیاق و سباق میں دیے گئے تھے
جب مسلمان منگولوں کے ظلم و ستم کی زد میں تھے۔
ان کے فتوے کو برصغیر پاک و ہند
اور باہر کے بنیاد پرست عناصر نے کئی بار استعمال کیے ہیں۔
1. 1981 میں مصر کے سابق صدر
انور سادات کا قاتل ابن تیمیہ کے فتوے سے متاثر تھا۔
2. اسامہ بن لادن نے 1996 میں
مسلمانوں کو امریکی شہریوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور اس کے بعد فتووں میں مسلمانوں
سے کہا گیا کہ وہ یورپ سے عالم اسلام کی طرف ہجرت کریں جہاں شریعت نافذ ہے۔
3. داعش کے ساتھ لڑنے کے لیے
کچھ مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر گیے۔
ابن تیمیہ کے جہاد کے فتوے
ان کے دو فتاویٰ سے ماخوذ اہم نظریات
ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
ماردین کے فتویٰ کی تاریخ ابھی
تک معلوم نہیں ہو سکی، البتہ اس وقت ماردین شہر پر الخانید منگولوں کی حکومت تھی، اور
اب وہ جنوبی مشرقی ترکی میں واقع ہے۔
اس فتویٰ میں چار سوالات کے جوابات
دیئے گئے ہیں، سوالات یہ ہیں: ”ماردین کی سرزمین کے بارے میں، کیا یہ دارالحرب ہے یا
دارالسلام؟ کیا مسلمانوں پر اسلامی ملک میں ہجرت کرنا واجب ہے یا نہیں؟ اگر ان پر ہجرت
واجب ہے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی تو اپنے جان و مال سے دشمنان اسلام کی مدد کرنا
کیا گناہ ہے؟ کیا وہ گناہ گار ہیں جو ان پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں اور انہیں گالی
دیتے ہیں یا وہ بے گناہ ہیں؟ (ابن تیمیہ، 2004، ص 28:240)
مختصر مگر پرزور انداز میں، ابن
تیمیہ نے مندرجہ بالا سوالات کے چار پیراگراف میں جواب دیے ہیں: "تمام تعریفیں
اللہ کے لیے ہیں۔ مسلمان کی جان و مال کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے (انہوں نے لفظ حرام
استعمال کیا) خواہ وہ ماردین میں ہوں یا کہیں اور۔ اسلام کے دشمنوں کی مدد کرنا حرام
ہے، خواہ مدد کرنے والے ماردین کے رہنے والے ہوں یا کہیں اور کے۔ جو لوگ وہاں رہتے
ہیں، اگر وہ شریعت کے مطابق عبادت نہیں کر سکتے تو ان پر ہجرت واجب ہے۔ بصورت دیگر
وہاں سے ہجرت کرنا مستحب ہے لیکن وہ ایسا کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
''ان پر مسلمانوں کے دشمنوں کی جان و مال سے مدد کرنا حرام ہے۔ انہیں
اس کے خلاف ہر ممکن طریقے سے مزاحمت کرنی چاہیے، مثلا غائب ہو کر، گریز کر کے یا خوشامد
کرنے کی کوشش کر کے۔ اگر ہجرت ہی واحد راستہ ہے تو انہیں یہی کرنا چاہیے۔"
"ان کی غیبت کرنا اور ان پر منافقت کا الزام لگانا حرام ہے، منافقوں پر بد زبانی
اور ان پر تہمت قرآن و سنت کی دلیلوں پر مبنی ہونا چاہیے، جس کا اطلاق بہت کم لوگوں
پر ہوتا ہے۔ خواہ وہ ماردن کے رہنے والے ہوں یا کہیں اور کے۔
"وہ علاقہ جنگ زدہ ہے
یا پرامن، یہ ایک پیچیدہ صورت حال (مرکبہ) ہے۔ وہ کوئی پرامن (دار السلام یا دار الاسلام)
نہیں ہے جہاں اسلامی قانون نافذ ہو اور جو مسلمان فوجیوں کی حفاظت میں ہو۔ اس علاقے
میں جنگ بھی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس کے باشندے کافر نہیں ہیں۔ البتہ وہ علاقہ تیسرے
زمرے میں آتا ہے۔ وہاں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ان حقوق کے مطابق سلوک کیا جانا
چاہیے جو ایک مسلمان کو حاصل ہیں، اور غیر مسلم بھی وہاں رہتے ہیں اور اسلامی قانون
کے دائرے سے باہر ہیں، ان کے ساتھ ان کے حقوق کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے۔ (ابن تیمیہ،
2004، صفحہ 28: 240-1)
اگر آپ اس فتوے کو مکمل طور پر
پڑھیں، تو معلوم ہو گا کہ یہ فتوی دراصل جہادیوں کی اس تشریح کو مسترد کرتا ہے، جو
اس کا استعمال قانون کی طاقت رکھنے والے مسلمانوں، اور مسلمانوں کے ساتھ پرامن طریقے
سے رہنے والے غیر مسلموں، دونوں سے لڑنے کا جواز نکالنے کے لیے کرتے ہیں۔ ابن تیمیہ
نے اپنے جواب میں واضح طور پر کہا ہے کہ اگر وہاں مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے
میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جاتی تو ہجرت کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ ماردین کی حیثیت
کسی جنگی علاقے یا اسلامی علاقے کی نہیں ہے، بلکہ وہ ان دونوں کا مجموعہ (مرکبہ) ہے۔
ابن تیمیہ آگے کہتے ہیں کہ امن کا وہ علاقہ ہے جہاں اسلامی قانون نافذ ہے کیونکہ فوج
مسلمانوں پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ جنگ کا علاقہ وہ ہے جہاں کفار کی آبادی رہتی ہے۔ جہادیوں
کی چالبازی یہ ہے کہ وہ اس فتوے کا فائدہ اٹھا کر اپنے دو دعووں کی حمایت تلاس کرتے
ہیں: پہلا یہ کہ مسلم ممالک جنگ زدہ (دار الحرب) ہیں کیونکہ ان کے پاس اسلامی طرز حکومت
نہیں ہے، اور دوسرا یہ کہ جنگ زدہ علاقوں سے دار السلام میں لوگوں کو ہجرت کرنا ضروری
ہے۔
کیونکہ ان سے پہلے اور ان کے زمانے
کے زیادہ تر علماء نے کسی بھی ملک کو صرف دو زمروں میں تقسیم کیا تھا- دار الحرب اور
دار السلام — ابن تیمیہ نے ایک اور قسم کا ملک اس میں شامل کیا، جس سے تشدد لازم نہیں
آتا۔ درحقیقت تیسرے قسم کا تصور پیش کرنے میں ان کا رویہ بہت معتدل تھا، یعنی وہ حالت
جسے انہوں نے "مرکبہ" کہا، جو نہ دارالحرب ہے اور نہ دارالسلام۔ اور اس کا
فائدہ یہ ہوا کہ جو مسلمان وہاں رہتے ہیں ان کے ساتھ ان حقوق کے مطابق سلوک کیا جائے
جو ایک مسلمان کے ہیں، اور غیر مسلم افراد جو وہاں رہتے ہیں لیکن اسلامی قانون کے تابع
نہیں ہیں ان کے ساتھ بھی ان کے حقوق کے مطابق سلوک کیا جائے۔ یہ صریحا ابن تیمیہ کی
طرف سے تناؤ کو کم کرنے اور اس تصور کو ختم کرنے کی کوشش ہے کہ ماردین کے مسلمانوں
کو یا تو دار الاسلام کا باشندہ مانا جائے یا دار الحرب کا۔
جہادیوں کی طرف سے ماردین کے فتوے
کی تشریح میں اگلی غلطی فرج اور عبداللہ عزام (متوفی 1989) نے کی، جنہوں نے دعویٰ کیا
کہ ایک اسلامی ادارہ دار السلام کے برابر ہے، جبکہ ایک جدید ادارہ - نہ کہ اسلامی حکومت
- دار الحرب کے برابر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر چہ آبادی کی اکثریت مسلمان ہو، لیکن
وہ علاقہ دار الحرب ہے جہاں اسلامی قانونی نظام نافذ نہ ہو، اور دار السلام وہ خطہ
ہے جہاں کی حکومت اسلامی قانون نافذ کرے۔ اس نقطہ نظر کے بعد، انور سادات کے دور میں
مصر کے خلاف جنگ اسی استدلال کو استعمال کرتے ہوئے جائز قرار دی گئی۔ ابن تیمیہ کا
دعویٰ ہے کہ کسی خطے میں مسلمانوں کی عدم موجودگی حقیقی طور پر اس بات کا تعین کرتی
ہے کہ آیا وہ دار الحرب ہے یا نہیں۔
ابن تیمیہ
کا ہجرت کا تصور
اسی طرح اگر آپ ابن تیمیہ کی دیگر
کتابوں کا مطالعہ جامع انداز میں کریں گے تو معلوم ہوگا کہ "ہجرۃ" کا ان
کا تصور صرف ایک علاقے کو چھوڑنا نہیں بلکہ گناہ سے بچنا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر
یہ لکھا کہ ہجرت کی دو قسمیں ہیں: گناہ اور منفی تعلقات سے بچنا اور بدکاروں کو سزا
سے بچانے کے لیے ان سے بچنا۔ ابن تیمیہ ان دونوں صورتوں میں ہجرت پر ایک بہترین فتویٰ
جاری کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہجرت صرف اس وقت کی جاتی ہے جب اس سے وابستہ نقصان فائدے
سے بڑھ جائے۔
سب سے پہلے، عہد حاضر کے تناظر
میں، ابن تیمیہ کی رائے کی بنیاد پر، ہجرت کے متعلق ان کی تحریر سے جو نچوڑ نکالا جا
سکتا ہے وہ حسب ذیل ہیں۔ انہوں نے قطعی طور پر یہ نہیں بتایا کہ آیا آج غیر مسلم ممالک
یعنی عالم مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کرنا چاہیے یا
نہیں جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو۔ دوسری طرف ایک مسلمان کو، وہ جن حالات میں رہ رہا
ہے ان کے فوائد اور نقصانات کا موازنہ کرنا ضروری ہے۔ دوسرا، ابن تیمیہ کا ہجرت کا
تصور سیاسی کے بجائے اخلاقی ہے؛ اس کا ذکر اسلامی قانون پر مبنی حکومت سے متعلق نہیں
ہے۔
ابن تیمیہ ایک متنازعہ فیہ مفکر
تھے جنہیں مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف تو انہیں اسلامی بنیاد پرستی
کا بانی مانا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ مسلم مصلحین کے لیے ایک مؤثر محرک بھی ثابت
ہوئے۔ چونکہ وہ ایک "جامع العلوم" شجصیت تھے، اس لیے حیرت کی بات نہیں ہے
کہ بہت سے اہل علم مختلف زاویوں سے ان پر بحث کرتے ہیں۔
ابن تیمیہ نے اللہ کے قانون
کو بدلنے میں مغلوں (تاتار) اور ان کے طرز عمل کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ: اللہ
کو خوش کرنا، اس کے کلمے کو بلند کرنا، اس کے دین کو قائم کرنا اور اس کے رسول کی اطاعت
کرنا ہی دشمن سے لڑنے کا حتمی مقصد ہے، ہر پہلو سے اور مکمل طریقے سے؛ اگر جنگ نہ کرنے
سے دین کو نقصان جنگ کرنے سے زیادہ ہو تو ان سے جنگ کرنا فرض ہے خواہ بعض لڑنے والوں
کی نیت خالص نہ ہو یعنی وہ قیادت (ذاتی فائدے) کی خاطر جنگ کر رہے ہوں اور اسلام کے
بعض احکام پر عمل نہ کر رہے ہوں۔ ایک کی قیمت پر دو بڑے خطرات ٹال دینا ایک اسلامی
اصول ہے جس پر عمل کرنا چاہیے۔ اہل سنت کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ نیک اور غیر دین دار
لوگوں کے ساتھ مل کر لڑتے اور حملہ کرتے تھے۔ اللہ اس دین کی نصرت و حمایت دیندار اور
غیر دین دار لوگوں کے ذریعے کر سکتا ہے جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا
ہے۔ اگر غیر دین دار فوجی جوانوں اور کمانڈروں کی مدد کے بغیر لڑنا ممکن نہ ہو تو دو
ہی امکانات بچتے ہیں: یا تو جنگ ٹل جائے گی اور دوسرے لوگ جو کہ اس دنیاوی زندگی اور
دین کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں، غالب ہو جائیں گے؛ یا غیر دین دار حکمرانوں کی مدد سے
جنگ لڑی جائے گی اور دو میں سے ایک سب سے بڑے خطرے کو دور کیا جائے گا اور اسلامی قوانین
کا نفاذ، اگرچہ جزوی طور پر ہی سہی، کیا جائے گا۔ مؤخر الذکر طریقہ ان حالات میں اور
اسی طرح کے بہت سے دوسرے حالات میں بھی درست ہے۔ درحقیقت خلفائے راشدین کے بعد ہونے
والی بہت سی لڑائیاں اور فتوحات اسی قسم کی تھیں۔ (مجموع الفتاوی، 26/506)۔
English
Article: Ibn-e- Taymiyyah's Jihad Fatwas Spawned Modern
Radical Jihadism
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism