New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 04:41 AM

Urdu Section ( 6 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Taliban Government Must Rethink Its Strategy And Permit Girls To Attend Schools And Colleges طالبان اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے اور لڑکیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں جانے کی اجازت فراہم کرے

غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

 27 دسمبر 2022

خواتین کو تعلیم سے محروم کرنا انہیں اس اسلامی اعزاز سے محروم کرنا ہے جو اسلام انہیں دیتا ہے

 اہم نکات:

1.      طالبان حکومت نے دراصل خواتین کے اسکولوں اور کالجوں میں جانے پر پابندی لگا کر ان کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔

2.      تعلیم کے بارے میں اسلام کا موقف واضح ہے۔ ہر مسلمان مرد اور عورت علم کا حصول فرض ہے حتی کہ اسے  چین تک کا سفر کرنا پڑے۔

3.      حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود عورتوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا۔

4.      علم اور تعلیم کے لحاظ سے ایک بہترین نمونہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔

 ------

Female students in front of the Kabul Education University

--------

 طالبان حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ افغانستان کی نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں میں خواتین پر فوری طور پر اگلے نوٹس کے آنے تک پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا طالبان اس وقت منافقت سے کام لے رہے تھے جب ان کے رہنماؤں نے خواتین اور لڑکیوں کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دینے اور لڑکیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں جانے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ طالبان نے اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے پر ایسا وعدہ کیا تھا لیکن اس وقت کس کو معلوم تھا کہ یہ ایک جھوٹا  وعدہ ہے؟

 اب جبکہ طالبان نے کھلے عام اپنے منافقانہ  رویے کا اظہار کر لیا ہے، ان کے اس اصلی چہرے نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ اسلام لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کرتا ہے؟  جواب صاف ہے: اسلام لڑکیوں کو علم  حاصل کرنے سے منع نہیں کرتا۔ تاہم، کچھ نام نہاد علماء، خاص طور پر جو طالبانی فکر کے ماننے والے ہیں، یہ نظریہ پھیلانا چاہتے ہیں کہ چونکہ اسلام لڑکیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں جانے سے منع کرتا ہے، اس لیے انہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ حال ہی میں افغانستان میں طالبان نے اس فکر کو عملی جامہ پہنایا ہے۔

 طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کے فیصلے کی بنیاد ماضی قریب کے مٹھی بھر علمائے کرام کی نصیحت ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو صرف سیکولر تعلیم سے روکا جانا چاہیے نہ کہ بنیادی مذہبی تعلیم سے۔ ان کے مقابلے میں، آج علماء کی اکثریت، خاص طور پر ہندوستان میں، مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے فرق سے قطع نظر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔ کالجوں اور اداروں میں پڑھنے والی طالبات کی تعداد پر ایک رپورٹ مرتب کرکے اس حقیقت کی تصدیق کی جاسکتی ہے جو کہ علماء کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں۔ اگرچہ میں آپ کو صحیح تعداد بتانے سے قاصر ہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ ہندوستانی علماء کی بہت سی بیٹیاں اور بہنیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہیں۔

 واضح رہے کہ ہندوستان کے اندر مسلم لڑکیوں پر کالج جانا نہ تو قانوناً واجب ہے اور نہ ہی ان پر اس کام کے لیے جبر کیا جاتا ہے۔ یہاں کا قانون انہیں یہ فیصلہ کرنے کی آزادی دیتا ہے کہ وہ علم  حاصل کریں یا نہ کریں۔ تاہم، ہندوستان یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہا ہے کہ ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو اسکولوں، کالجوں یا یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والی لڑکیوں کا پرتپاک استقبال کرتا ہے۔

 ہندوستانی علماء تعلیم کی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات ان کی زندگی کا معمول ہے کیونکہ مسلمان لڑکیوں کے لیے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اگر اسلام لڑکیوں کو اسکول جانے سے منع کرتا تو وہ اپنی بیٹیوں کو وہاں نہ بھیجتے۔ یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ان سے اس عمل کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ اسلام مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے درمیان فرق سے قطع نظر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کرتا۔

 دینی اور دنیاوی علوم کے درمیان فرق کا بنیادی مقصد جو کہ دنیا بھر کے علمائے کرام بیان کرتے ہیں یہ ہے کہ پہلی قسم کی تعلیم  ہر مسلمان مرد اور عورت کی دینی ضرورت ہے، جب کہ دوسری قسم کی تعلیم  صرف دنیاوی ضرورت ہے۔ ایک حدیث کے مطابق علم ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ حدیث میں واضح طور پر دینی اور عصری تعلیم کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے، لیکن بعض علماء حدیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ صرف دینی علم ہی فرض ہے، اور جدید علم اس فرضیت کے دائرے سے خارج ہے۔

 تعلیم کے بارے میں اسلام کا موقف واضح ہے۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ اور علم کے حصول کے لیے اگر ضرورت پڑے تو چین تک بھی جانا چاہیے۔ اسلام نے پردے کے بارے میں بھی اپنا موقف واضح رکھا ہے۔ مسلم ممالک میں لڑکیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں جانے کی اجازت ہے۔ لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت نے دیگر مسلم ممالک سے ایک مختلف حکمت عملی اپنائی ہے اور لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی تک لگا دی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اس پر پابندی نہیں لگاتا۔ اس طرح طالبان نے اسلام سے مختلف راستہ چنا ہے۔

 طالبان کی حکومت نے دراصل خواتین کے اسکولوں اور کالجوں میں جانے پر پابندی لگا کر ان کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ اسلام کی بنیاد کئی اہم ستونوں پر ہے اور علم ان میں سے ایک ہے۔ علم مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے۔ اسلام تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے جیسا کہ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پہلی وحی میں "پڑھنے" کا حکم دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں 500 سے زائد مقامات پر  علم کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا گیا ہے۔ درحقیقت علم اور معرفت فراہم کرنا نبوت کے بنیادی فرائض میں سے ایک تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

  ’’جس طرح ہم نے تم میں تمہی میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب وحکمت اور وه چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بےعلم تھے۔‘‘ (2:151)

 ’’وہی ہے جس نے ناخوانده لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (62:2)

 بنیادی طور پر دیکھا جائے تو اسلامی شریعت میں اس بات کی گنجائش ہے کہ جب کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس حکم میں عورت کی جنس کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، خواہ اس کے لیے صیغہ مذکر کا ہی کیوں نہ استعمال ہوا ہو۔ اگر اس بنیادی اصول کو رد کر دیا جائے تو اسلام کے بنیادی اصول، مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ، خواتین پر لاگو ہی نہیں ہوں گے۔ لہٰذا، اگر چہ خداتعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر احکام کو مذکر کے صیغے میں بیان کیا ہے، لیکن اس کے باوجود عورتوں پر لازم ہے کہ وہ ان ہدایات پر عمل کریں۔

 قرآن مجید اور احادیث سے واضح ہے کہ علم حاصل کرنا عورتوں کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح مردوں کے لیے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے مطالعے کے مطابق خواتین کی پرورش اور تربیت کے لیے ذاتی طور پر منفرد اقدامات فرمائے۔

 ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ بعض عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: "مرد (علم حاصل کرنے کے معاملے میں) ہم سے آگے نکل گئے ہیں، ایک مخصوص دن کا انتخاب کریں تاکہ ہم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ان کے لیے مخصوص کر دیا، اس دن آپ ان سے ملتے، نصیحتیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعلیم دیتے۔(صحیح بخاری)

 علم و تعلیم کے حوالے سے نمونہ عمل کی بہترین مثال ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی ہے۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ، شخصیت و سیرت، اعمال و معمولات اور افکار و نظریات کے حوالے سے معلومات کا ایک اہم ذریعہ تھیں۔ ان کی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غایت قربت کی وجہ سے صحابہ کرام ان کے پاس آتے اور ان سے مختلف مسائل میں رہنمائی طلب کرتے۔ تفسیر، علم حدیث، فقہ اور شریعت کے میدان میں آپ کی بڑی خدمات جلیلہ ہیں۔ اسلامی علوم وفنون میں آپ کا پایہ کافی بلند تھا، لیکن علم کے دیگر شعبوں میں آپ کی خدمات اہم ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ دیگر صلاحیتوں کے علاوہ انہیں ادب، شاعری، خطاب اور درس و تدریس اور کچھ حد تک طبی مہارتیں بھی حاصل تھیں۔ مسلمانوں کے درمیان ان کی علمی صلاحیتوں کا  بڑا گہرا اثر تھا۔ علم کے مختلف شعبوں میں ان کی بے پناہ خدمات کی وجہ سے وہ مسلم خواتین کے لیے ایک نمونہ عمل تھیں۔

 طالبان حکومت کو فوری طور پر اپنا راستہ تبدیل کرنے اور لڑکیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں جانے کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔ میرا ماننا ہے کہ خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیکھنے کا موقع نہ ملے کہ علم اور تعلیم میں کیسے کامیابی حاصل کی جائے۔

English Article: The Taliban Government Must Rethink Its Strategy And Permit Girls To Attend Schools And Colleges

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/taliban-strategy-girls-schools-colleges/d/128811

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..