طالبان نے افغانستان کے
ہندوؤں اور سکھوں سے ملک واپس آنے کی اپیل کی تھی۔
اہم نکات:
1. ان کا دعویٰ ہے کہ
سیکورٹی کے مسائل حل ہو چکے ہیں اور اب افغانستان اقلیتوں کے لیے محفوظ ہے۔
2. پاکستان میں پناہ
لینے والے افغان مسلمان واپس نہیں آنا چاہتے۔
3. ترکی نے نا رضامند
افغان مہاجرین کو کابل واپس بھیج دیا ہے۔
---
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
28 جولائی 2022
سکھ رہنماؤں نے کابل میں
گردوارہ پر دہشت گردانہ حملے کو روکنے پر طالبان کا شکریہ ادا کیا۔
-----
افغان طالبان نے دعویٰ کیا
ہے کہ سکیورٹی کے مسائل حل ہو چکے ہیں اور ملک اب مستحکم اور ہندوؤں اور سکھوں کے
لیے محفوظ ہے۔ اس لیے انھوں نے سکھ اور ہندو برادری سے افغانستان واپس آنے کی اپیل
کی ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے کہ طالبان نے ملک کی اقلیتی برادریوں کو ان کے تحفظ کا یقین
دلایا ہے۔ اس سال 18 جون کو طالبان کے سیکیورٹی گارڈوں نے کابل میں ایک گرودوارہ
پر داعش کے حملے کو ناکام بنایا تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا افغان
مسلمان افغانستان میں محفوظ ہیں اور کیا پاکستان اور ترکی میں مقیم افغان مہاجرین
افغانستان واپس آنا چاہیں گے؟
اس کا جواب ہے، نہیں۔ ایک
خبر کے مطابق پاکستان میں مقیم 15 لاکھ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس نہیں جانا
چاہتے۔ پاکستان میں 12 لاکھ نامزد افغان مہاجرین موجود ہیں جو امریکی دور حکومت
میں پاکستان کو ہجرت کر گئے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کے قیام
کے بعد افغان شہریوں کا پاکستان کو ہجرت کرنا بند نہیں ہوا۔ گزشتہ سال اگست میں
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تقریباً 250,000 مزید افغان باشندے پاکستان کو
ہجرت کر چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے
باوجود افغان عوام کا کوئی بھلا نہیں ہوا۔
پاکستان کے علاوہ ایران
میں اس وقت 7 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ترکی میں تقریباً 5 لاکھ افغان
مہاجرین مقیم ہیں اور ترکی کی حکومت ان کی مرضی کے بغیر انہیں ملک سے نکال رہی ہے۔
جنوری 2022 میں، ترکی نے 28,000 افغان مہاجرین کو ملک سے باہر کیا جن کے پاس درست
دستاویزات نہیں تھیں اور ترکی انہیں اپنی سیکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ مئی
2022 میں ترکی نے مزید 1025 افغان مہاجرین کو کابل روانہ کر دیا تھا۔ جون 2022 میں
136 افغان شہری ترکی میں پناہ لینا چاہتے تھے لیکن انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ ان سب
سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں حالات ابھی مستحکم نہیں ہیں اور اب بھی
زیادہ سے زیادہ افغان شہری افغانستان چھوڑ کر پاکستان، ترکی اور ایران میں پناہ لے
رہے ہیں۔
اس لیے طالبان کا یہ دعویٰ
کہ افغانستان میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے، صرف عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کی ایک کوشش ہے۔
ظاہر ہے کہ سکھ اور ہندو
اقلیت سے یہ اپیل 26 جولائی کو ازبکستان میں ہونے والی افغانستان پر ایک کانفرنس
کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی جس میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ، لڑکیوں کی
تعلیم اور خواتین کی آزادی سمیت بہت سے معاملات زیر غور تھے۔ کانفرنس میں چین،
روس، امریکا، برطانیہ، جاپان اور دیگر ایشیائی ممالک نے شرکت کی۔ یہی وجہ تھی کہ
طالبان نے چند روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کے اسکول عارضی طور پر بند کیے
گئے ہیں اور جیسے ہی یونیفارم اور نصاب کا مسئلہ حل ہو جائے گا اسکول دوبارہ کھول
دیے جائیں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ طالبان نے
خواتین اور میڈیا کے تئیں اپنے رویے میں کوئی معقول تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔ حال
ہی میں طالبان نے خواتین ملازمین کے لیے یہ حکم جاری کیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے
مرد افراد کو اپنا متبادل مقرر کریں کیونکہ ہم خواتین کو سرکاری دفاتر میں کام
کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔ خواتین صحافیوں کو پہلے ہی برطرف کیا جا چکا ہے
اور اب ان میں سے کچھ تو مجبوری میں اپنے گذر بسر کے لیے سڑکوں کے کنارے کھانے
پینے کی دکانیں کھول کر بیٹھے ہیں۔ خواتین کے لیے ایک محرم، مرد محافظ اور مکمل
پردے کا حکم خواتین کی آزادی اور حقوق پر ایک اور ضرب ہے۔ لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے
آگے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور بہت سی کالج جانے والی لڑکیاں اب گھروں میں مایوس
ہو کر بیٹھی ہیں۔
افغانستان کی معاشی حالت
بھی بدترین ہے اور لاکھوں بچے غذائی قلت کے دہانے پر ہیں۔ طالبان کی ہٹ دھرمی کی
وجہ سے افغانستان کے اربوں ڈالر امریکی اور یورپی بینکوں میں پڑے ہیں۔ وہ سرکاری
ملازمین کی تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کر سکتے۔ امریکی اور یورپی بینکوں میں پڑے 7
ارب ڈالر پر امریکہ طالبان مذاکرات بھی ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ طالبان نے اس کے
حصول کے لیے متعین کچھ شرائط سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ امریکا کا اصرار ہے کہ طالبان
کو افغان سینٹرل بینک میں کچھ سیاسی تقرریوں میں تبدیل کرنا چاہیے کیونکہ امریکا
نے بینک کے ایک اہلکار پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن طالبان اسے ہٹانے کو
تیار نہیں ہے۔
لہٰذا، معاشی اہمیت کے
مسائل کو حل کرنے کے بجائے طالبان حکومت ابھی مذہبی اور خواتین کے مسائل میں ہی
مصروف عمل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے افغان لڑکیوں کو اسکولوں، کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ کچھ مہلت حاصل
کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نقاب، داڑھی، ڈریس کوڈ،
میڈیا اور تفریح پر پابندیوں کے بارے میں اپنی سخت پالیسیوں کی وجہ سے، افغان
مہاجرین افغانستان واپس نہیں آنا چاہتے کیونکہ ان کا وہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔
ملک میں نہ روزگار ہے، نہ شخصی آزادی اور نہ ہی کوئی تحفظ کی گارنٹی۔ غیر ذمہ دار
اسلحہ بردار طالبان کی سڑکوں پر گھومتے ہیں اور جسے بھی مقرر کردہ ڈریس کوڈ یا
شرعی قوانین کی معمولی سی خلاف ورزی کرتے دیکھتے ہیں اسے گولی مار دیتے ہیں۔ گزشتہ
برس کابل میں نقاب نہ پہننے پر ایک لڑکی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ داعش
کی طرح یہ طرز حکمرانی اور انصاف کرنے کا یہ طریقہ ما قبل اسلام قبائلی کلچر کی
یاد دلاتا ہے۔
لہٰذا طالبان جس کٹر نظریے
کی پیروی کرتے ہیں وہ ملک کی سیاسی اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔
میڈیا، خواتین اور بچے اس سختی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ طالبان مخمصے کا
شکار ہیں کیونکہ اب وہ حکومت میں ہیں اور انہیں بہت سے عالمی جمہوری قدروں کا
احترام بھی کرنا ہے اور وہ سب سے الگ تھلگ رہ کر کام نہیں کر سکتے۔ وہ عالمی
برادری کے سامنے جوابدہ ہیں اور جلد یا بدیر انہیں بطور ایک ملک کے تعمیر اور ترقی
کے لیے عالمی دھارے میں شامل ہونا پڑے گا۔
English
Article: Taliban Claim That Afghanistan Is Now Safe For
Hindus, Sikhs And Christians, But Is It Even Safe For Muslims?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism