لڑکیوں کے اسکول قلیل مدت
کے بعد بند کر دیے گئے ہیں
اہم نکات:
1. طالبان تعلیم نسواں کے
حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں ہیں
2. اس سے قبل ان کا کہنا
تھا کہ ہم لڑکیوں کو اسلامی حدود کے دائرے میں رہ کر اسکول جانے کی اجازت دیں گے
3. طالبان کی قیادت میں
تعلیم نسواں کے حوالے سے اختلاف ہے
-----
نیو ایج اسلام سٹاف رائٹر
30 مارچ 2022
----
Photo:
Tolo News
----
اگست 2021 میں جب طالبان دوبارہ
اقتدار میں آئے تو انہوں نے دنیا کے سامنے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم نسواں
کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر بدل گیا ہے۔ طالبانی قیادت نے کہا تھا کہ ہم خواتین اور
لڑکیوں کو معاشرے میں جو ان کا مقام ہے وہ عطا کریں گے اور لڑکیوں کو اسکول اور کالج
جانے کی اجازت دیں گے۔ بلکہ انہوں نے ایک قلیل مدت کے لیے اسکولوں کو کھولا بھی مگر
پھر بند کر دیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہم اسلامی شریعت کے دائرے میں لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دیں گے لیکن ایسا
لگتا ہے کہ ان کے علما اب تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے ہیں کہ ایک اسلامی نظام مملکت
میں تعلیم نسواں کا انتظام کیا ہونا چاہیے۔
تعلیم کے بارے میں اسلام کا
موقف واضح ہے۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو تعلیم حاصل کرنا فرض ہے۔ اور علم حاصل کرنے
کے لیے اگر چین تک کا بھی سفر کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ اسلام کا پردے کے بارے میں بھی
بڑا واضح موقف ہے۔ تمام اسلامی ممالک لڑکیوں کو روایتی نظام تعلیم کے ذریعے ہی علم
حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کے لیے پردے کی حد بھی متعین ہے لیکن کسی بھی اسلامی
ملک میں لڑکیوں کی تعلیم حکومت یا مسلم معاشرے کے لیے پالیسی کا مسئلہ نہیں بنتی ہے۔
اس سے قبل طالبان نے حکم دیا
تھا کہ درسگاہوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان پردے ہوں گے اور لڑکیوں سے کہا گیا
تھا کہ وہ پردہ کریں۔ ایسی درسگاہوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔
طالبان چاہتے ہیں کہ طالبات
کو گھروں سے لایا جائے اور الگ الگ بٹھایا جائے یا صرف لڑکیوں کے لیے الگ مخصوص درسگاہ
ہو۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ لڑکیوں کو صرف خواتین ہی پڑھائیں۔ پھر شاید نصاب بھی ان
کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہوگا کیونکہ وہ یہ پسند نہیں کریں گے کہ طلبہ کو "غیر اسلامی"
مضامین پڑھائے جائیں، خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔
یہ سب جانتے ہیں کہ مرکزی
دھارے کے قدامت پسند علمائے اسلام کا یہ موقف رہا ہے کہ سائنس اسلامی تعلیم میں شامل
نہیں ہے۔ 19ویں صدی میں دارالعلوم دیوبند کے نصاب کی ترتیب کے پیچھے بھی یہی نظریہ
کارفرما تھا۔ ان کی یہ فکر دو صدیوں بعد بھی نہیں بدلی اور آج بھی مدارس اپنے نصاب
میں سائنس کو شامل نہیں کرتے۔ چونکہ طالبان دیوبند مکتبہ فکر کی پیروی کرتے ہیں، اس
لیے ممکن ہے کہ وہ تمام اسکولوں کو مذہبی اداروں میں تبدیل کر دیں جہاں صرف اسلامی
علوم پڑھائے جائیں۔
طالبان کو اس کشمکش کا سامنا
ہے کیونکہ وہ کبھی بھی ایک سماجی اسلامی تنظیم نہیں رہے۔ انہوں نے خود کو ایک عسکریت
پسند تنظیم کے طور پر پیش کیا ہے اور وہ صرف لڑنا جانتے ہیں۔ کسی ملک پر حکومت کرنا
ایک الگ بات ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے پاس مملکت کے تمام شعبوں یعنی معیشت، صنفی انصاف،
تعلیم، انسانی حقوق وغیرہ کے بارے میں اپنے خیالات اور پالیسیاں ہوتی ہیں۔ طالبان کے
پاس اپنا پالیسی فریم ورک نہیں ہے کیونکہ ان کی قیادت بنیاد پرست اسلام پسندوں پر مشتمل
ہے، اور سائنسدانوں، ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعلیم اور لبرل جدید اسلامی مفکرین کااس
میں کوئی کردار نہیں ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ لڑکیوں کو
خواتین ہی پڑھائیں لیکن جس معاشرے میں خواتین کی تعلیم پر پابندی ہو وہاں خواتین اساتذہ
پیدا ہی نہیں ہو سکتیں۔ اور تعلیم یافتہ خواتین پردے کے بارے میں ان دقیانوسی قوانین
کو قبول ہی نہیں کریں گی جو طالبان نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان سے پہلے ہی کافی
پیشہ ور افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اب طالبان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں
کے اسکولوں کا بند ہونا صرف ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔ ابھی یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ ان
کا لباس کیا ہو گا۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ اسلام نے خواتین کے لباس کا خاکہ
بیان کر دیا ہے اس لیے اس معاملے میں اتنی تاخیر نہیں ہونی چاہیے کہ اسکول بند کرنے
کی ضرورت پڑ جائے۔ ظاہر ہے اس کی کچھ اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
اصل وجہ یہ ہے کہ طالبان الگ
تھلگ رہ کر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ انہیں خود کو بین الاقوامی معیارات کے سانچے میں
ڈھالنا ہوگا۔ گزشتہ سال اوسلو کانفرنس کے دوران مغربی ممالک نے مالی امداد کو خواتین
اور لڑکیوں کی تعلیم کی آزادی، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی سے جوڑا تھا۔ طالبان
کی کشمکش کی جو حالت ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ طالبان کو
تعلیم، میڈیا، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے میدان میں کچھ تو سمجھوتہ کرنا
ہی ہو گا۔ نظام خلافت میں ایک عام مسلمان کو خلیفہ سے جواب طلب کرنے کا حق حاصل ہوتا
ہے۔ (حضرت عمرؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے)۔ احتساب کے بغیر وہ اپنی حکومت نہیں چلا سکتے۔
جدید عالمی ماحول میں وہ نہ صرف اپنی قوم کے سامنے بلکہ عالمی برادری کے سامنے بھی
جوابدہ ہوں گے۔
طالبان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے
کہ تمام معاملات کا فیصلہ ایک فوجی قیادت کر رہی ہے، مختلف امور کو دیکھنے کے لیے ان
کے پاس مختلف کمیٹیاں نہیں ہیں۔ اعلیٰ عسکری قیادت سمجھتی ہے کہ اس کے پاس تمام شعبوں
کا علم ہے۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ اب تک انہوں نے اقتدار میں 7 ماہ مکمل کر لیے ہیں لیکن
لڑکیوں کے یونیفارم پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔ کیا کسی ملک کا وزیراعظم یہ طے کرتا
ہے کہ طلباء کی یونیفارم کیسی ہو گی؟
گزشتہ 7 ماہ کے دوران وہ ملک
میں استحکام پیدا کرنے اور معمولات زندگی کو بحال کرنے ناکام رہے ہیں۔ لاکھوں بچے غذائی
قلت سے موت کے دہانے پر ہیں اور امریکہ نے امریکی بینکوں میں جمع افغانستان کے اربوں
روپے جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ طالبان نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ
سمجھوتہ کرنے کے بجائے ان کے خلاف محاذ آرائی کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ،
بی بی سی اور ڈوئچے ویلے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے ان میڈیا
اداروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق طالبان
نے سرکاری ملازمین کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے۔ ایڈوائزری کے مطابق ہر ملازم کو
عائد کردہ ڈریس کوڈ کی رعایت کرنا، داڑھی رکھنا، ٹوپی یا پگڑی پہننا اور ٹخنوں سے اوپر
ڈھیلی قمیض اور شلوار پہننا ضروری ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان وہابی طرز زندگی
کو مسلط کرنے کے لیے قدم بڑھا رہے ہیں۔
اس لیے سمجھا جا سکتا ہے کہ
خواتین، میڈیا اور تعلیم کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہو گی۔
مختصر یہ کہ طالبان اپنا نظریہ
بدل نہیں سکتے اور افغانستان کے عوام کے پاس اب کوئی راستہ بچانہیں ہے۔ اگر وہ افغانستان
میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں غلامی کی زندگی گزارنی ہوگی اور اگر وہ آزادی چاہتے ہیں
تو انہیں اپنا وطن چھوڑ کر کسی مغربی ملک میں پناہ لینا پڑے گی۔ وہ شیطان اور بحیرہ
اسود کے درمیان پھنس چکے ہیں۔
English
Article: Taliban And Girls' Education: Girls Are Being
Deprived Of Their Educational Rights Granted By Islamic Shariah
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism