انتہا پسند تنظیموں کے نظریات
کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی ضرورت ہے
اہم نکات:
1. القاعدہ امریکہ مخالف
بیان بازی پر پروان چڑھی
2. خلافت کے نعرے پر داعش
پروان چڑھی
3. طالبان اسلام کے حقیقی
نمائندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں
4. بوکو حرام جدید تعلیم
کی مخالفت کرتا ہے
----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
28 اگست 2021
کئی دہائیوں سے طالبان اور
دیگر انتہا پسند مسلم تنظیموں نے عبادت گاہوں کو تباہ کر کے، مسلمانوں اور غیر مسلموں
کو یکساں طور پر قتل کر کے اور جبرا غیر مسلموں کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کر کے اور
اپنے باشندوں پر اسلام کی انتہا پسندانہ اور عدم روادار تشریحات مسلط کر کے زمین پر
فتنہ و فساد برپا کیا ہے۔ پھر بھی علمائے اسلام اور اسلامی تنظیموں کا ایک بڑا طبقہ
ان کی کھل کر یا چھپ کر حمایت کرتا ہے اور یہاں تک کہ انہیں اسلام کا حقیقی نمائندہ
اور علمبردار بھی مانتا ہے۔ یہ ان لبرل مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے جو اسلام
کی اصل روح کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔
اس طرح کی دہشت گرد اور انتہا
پسند تنظیمیں ایک عظیم مقصد کا اظہار کر کے اکثریتی مسلمانوں کی حمایت حاصل کرتی ہیں۔
اور ان کے تمام خونریز اور انتہا پسندانہ رویہ ان کے نیک مقصد کی آڑ میں چھپے ہوتے
ہیں۔ وہ ایک عظیم مقصد کے پردے میں تشدد اور خونریزی انجام دیتے رہتے ہیں اور فرقہ
وارانہ نفرت پھیلاتے رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر القاعدہ نے
مسلمانوں میں یہ تاثر پیدا کر کے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل کی کہ وہ
امریکہ کی سامراجی طاقت سے لڑ رہا ہے اور مسلمانوں کے قتل اور اسلامی ممالک کی تباہی
کا بدلہ لے رہا ہے۔ القاعدہ کی غیر اسلامی سرگرمیوں کی مذمت اور تنقید کرنے والوں کو
اس کے حامی خاموش کر دیتے ہیں اور انہیں مسلم مخالف اور امریکہ کا ایجنٹ قرار دیتے
ہیں۔ در حقیقت، القاعدہ نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور امریکہ کو مسلم
ممالک کے سیاسی معاملات میں مداخلت اور ان ممالک پر حملے کرنے کا موقع دے کر اسلامی
ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ جہاں بھی گیا اس نے القاعدہ کا تعاقب
کیا اور القاعدہ کو تباہ کرنے اور دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر ان ممالک میں تباہی
مچائی۔ القاعدہ کی دو دہائیوں میں اسلام کی شبیہہ مسخ ہوئی اور لادن کی دہشت گردانہ
سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
القاعدہ کے کمزور ہونے کے
بعد 2014 میں ایک اور دہشت گرد تنظیم داعش کے نام سے سامنے آئی۔ اگر چہ کوئی بھی اس
کے لیڈر ابو بکر البغدادی سے واقف نہیں تھا لیکن کافی مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں نے
اسے امیر المؤمنین تسلیم کر لیا اور اس کی حکومت کو خلافت منتظرہ قرار دیا۔ بغدادی
کا دعویٰ تھا کہ اس نے خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد پھر سے خلافت قائم کی ہے۔ جبکہ
حقیقت یہ تھی کہ داعش کا معرض وجود میں آنا القائدہ کا احیاء نو تھا کیونکہ القاعدہ
کی امریکہ مخالف بیان بازی پرانی ہو چکی تھی جو کہ مسلمانوں کے لئے باعث کشش نہ بچی
تھی۔ یہ انتہاپسند مسلمانوں میں خلافت کی مقبولیت اور خلافت کے دوبارہ قیام کی آرزو
سے بخوبی آگاہ تھے کیونکہ صدیوں سے علماء نے یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ صرف خلافت
ہی مسلمانوں کے لیے حکومت کی مثالی شکل ہے اور ایک بار جب خلافت قائم ہو جائے گی تو
مسلمانوں کی تمام مصیبت اور پسماندگی دور ہو جائے گی اور مسلمان ایک ساتھ دنیا پر حاوی
ہو جائیں گے۔ ہندوستان کے ایک مشہور عالم شاہ ولی اللہ نے خلافت پر ایک تفصیلی کتاب
بھی لکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن خلافت کو حکومت کا نمونہ نہیں قرار دیتا۔ بلکہ قرآن
صرف ایسے ماحول کی تخلیق پر زور دیتا ہے جو حکومت کے قرآنی اصولوں کو پورا کرے۔
لہذا، جیسے ہی بغدادی کی خلافت
کا اعلان ہوا مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس کے آگے سر نگوں ہو گیا اور تمام مسلم ممالک
میں اس کی تعریف و توصیف کی مہم شروع ہو گئی۔ افریقہ، ایشیا اور فلپائن کی بہت سی دہشت
گرد اور انتہا پسند تنظیمیں جو منشیات کی تجارت، جسم فروشی کے کاروبار اور جبری استحصال
میں ملوث تھیں، اپنے اپنے ملکوں کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس کی تائید
کا اعلان کر دیا تھا۔ اس طرح، خلافت کے عظیم مقصد کو انہوں نے صرف اس لئے گلے لگایا
کہ انہیں ایک ایسی اسلامی تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا جائے جو مقامی طور پر خلافت
کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
صرف پانچ سالوں کے اندر ہی
داعش بھی بے نقاب ہو گیا جب اس نے القاعدہ کی طرح بنگلہ دیش، افغانستان، فلپائن، افریقی
ممالک اور عراق و شام اور سری لنکا میں دہشت گردانہ حملے کرنا شروع کیا۔ اور جو لوگ
اسے خلافت کا علمبردار کہہ رہے تھے وہ روپوش ہو گئے اور قانون سے بچنے کے لیے اس کی
تنقید کرنا شروع کر دیا۔
نائیجیریا میں بوکو حرام جدید
تعلیم کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا پھیلاتا ہے۔ وہ جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کے خلاف
ہیں۔ وہ سیکڑوں کی تعداد میں اسکولی لڑکیوں اور لڑکوں کو اغوا کرتے ہیں اور صوفی مسلمانوں
کو قتل کرتے ہیں۔ نائیجیریا کے بہت سے بڑے مسلم اسکالرز اور کچھ وزراء ان کے جھوٹے
پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ بھی یہی مانتے ہیں کہ بوکو حرام ایک حقیقی اسلامی
تنظیم ہے جو علاقے میں شریعت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ چونکہ وہ اسلامی شریعت کے نفاذ
کا ایک مقصد عظیم لیکر چل رہے ہیں اس لیے عیسائیوں کے خلاف ان کی پرتشدد مہمات کو مسلمانوں
کی اکثریت نظر انداز کر دیتی ہے۔
طالبان ایک ایسی تنظیم ہے
جو متشدد اسلامی نظریہ کی پیروی کرتی ہیں۔ وہ اسلامی شریعت پر مبنی حکومت کے قیام کے
لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ان کی شریعت کی تعبیر و تشریح ایسی ہے جو اکثر لبرل اسلامی
ماہرین اور علماء کو قبول نہیں ہے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت نہیں کرتے اور خواتین
کو گھروں سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہندو، عیسائی اور دیگر اقلیتیں اکثر
ان کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں وہ شیعوں، عیسائیوں اور اقلیتوں
پر پرتشدد حملے کرتے رہے ہیں اور جمہوری حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔
افغانستان میں 1996 سے
2001 کے درمیان اپنے دور حکومت میں انہوں نے انتہائی سخت صنفی علیحدگی، شیعوں، اقلیتوں
اور عورتوں کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی نافذ کی لیکن اسلامی تنظیموں اور علماء کے
ایک طبقے نے انہیں ایک حقیقی اسلامی تنظیم سمجھا اور ان کی چھوٹی موٹی زیادتیوں کو
نظر انداز کیا جو کہ ایک ہندوستانی عالم کے مطابق ایک عظیم مقصد کے حصول کے لیے ضروری
تھا۔
افغانستان کے لوگ اپنے ماضی
کے تجربے کی بنیاد پر طالبان سے خوفزدہ ہیں۔ وہ طالبان کی ایک اور ظالم حکومت سے بچنے
کے لیے امریکہ جانے والے جہاز پر سوار ہونے کے لیے کابل ائیرپورٹ پر جمع ہیں۔ خواتین
ایک بار پھر اپنے اوپر ظلم ستم، آزادی اور شخصی تعمیر و ترقی سے محرومی کا دور دیکھنے
کے لئے خوفناک زدہ ہیں۔ اپنی پرواز کے دوران بہت سے لوگ مر چکے ہیں۔ طالبان کے خوف
سے ہزاروں لوگ ترکی، پاکستان، تاجکستان، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک بھاگ چکے ہیں
لیکن ان اسلامی تنظیموں اور علماء کا اب بھی یہی ماننا ہے کہ طالبان ایک حقیقی اسلامی
تنظیم ہے۔ وہ ان عام افغانوں کی رائے سے غافل ہیں جو اپنے روز مرہ کے معاملات میں ان
کا سامنا کرتے ہیں اور ان کی اذیت، ہراسانی اور ذلت برداشت کرتے ہیں حتیٰ کہ موت کا
بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے مظالم اور انتہا پسند و ظالمانہ نظریات کو اسلامی تنظیمیں
اور علماء صرف اس لیے نظر انداز کر رہے ہیں کہ وہ ایک عظیم مقصد لیکر چلنے کا دعوٰی
کرتے ہیں اور وہ دعوٰی اسلامی ریاست کا قیام ہے۔
یہ تنظیمیں جدید تعلیم یا
سائنسی ترقی کی اہمیت کو نہیں سمجھتی ہیں اور ساتویں صدی کے اسلامی معاشرے کو دوبارہ
زندہ کرنا چاہتی ہیں۔ قرآن پاک سائنسی تحقیق اور جدید تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے
اور چاہتا ہے کہ مسلمان ایک عقلمند جماعت بنیں۔ لیکن طالبان، بوکو حرام اور داعش جیسی
تنظیمیں تشدد، خونریزی اور قتل و غارت گری اور تکفیری نظریے پر یقین رکھتی ہیں۔ تشدد
اور تکفیر ان کے نظریے کا مرکزی محور ہے۔ وہ انسانی زندگی یا آزاد فکر کا احترام نہیں
کرتے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ان تنظیموں
کے باطل ہونے پر ایک اتفاق رائے قائم کی جائے جو اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کی خلاف
ورزی کرتی ہیں اور عالم اسلام ان شدت پسند تنظیموں کی تردید میں ایک اجتماعی فیصلہ
صادر کرے۔ اسلام کی مذہبی فکر میں اصلاح انتہائی ضروری ہے۔
---------
English Article: Extremist Organizations Like Taliban, ISIS, Boko Haram And Al Qaida Espouse Noble Causes To Hide Their Terrorist Ideology
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism