مولانا کبیر الدین فوزان
18اپریل،2017
تین طلاق کامسئلہ شروع ہی سے اختلافی رہا ہے۔ ایک مسلک (حنفی) کے علماء یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ اگر کسی نے بے ساختہ اپنی بیوی کو کہہ دیا ۔ طلاق، طلاق، طلاق تو اس پر مغلّظہ یعنی تینوں طلاق واقع ہوگئیں ۔ اب شوہر کو عدت کے اندر نہ رجوع کرنے کا حق اور اختیار رہا او رنہ دونوں تجدیدی نکاح کے ذریعہ دوربارہ ازدواجی رشتہ قائم کرسکتے ہیں ۔ ایسا کرنے کی بس ایک ہی صورت ضروری ہے یعنی حلالہ۔ دوسرے مسلک (اہل حدیث ۔شیعہ)کا موقف یہ ہے کہ ایک مجلس میں دس بار بھی لفظ طلاق دہرانے سے صرف ایک طلاق رجعی ہی واقع ہوتی ہے اس لئے شوہر کو عد ت کے اندر رجوع کرنے کا حق ہے اور عدت گذر جانے پر باہمی رضا مندی سے حلالہ کے بغیر تجدید نکاح جائز ہے۔
اس سلسلے میں میری خیال سے حنفی مسلک نہایت کمزور ہے۔ اور حقیقت میں حنفی مسلک کے علماء یا تو ایک ہی طلاق کو مغلظہ قرار دیتے ہیں یا پھر یہ مانتے ہیں کہ بیوی کے علاوہ غیر عورت کوبھی طلاق دی جاسکتی ہے اور وہ واقع بھی ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں باتیں غلط ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہیں۔ کیونکہ جب شوہر نے کہا ۔ طلاق،1طلاق، 2طلاق ،3 طلاق نمبر ایک1 دیتے ہی واقع ہوگئی او ربیوی نکاح سے خارج ہوکر غیر عورت ہوگئی اس لئے اس پر اگلی یعنی طلاق نمبر دو 2 واقع ہی نہیں ہوسکتی ۔ مگر حنفی علماء مانتے ہیں کہ طلاق نمبر دو 2اور طلاق نمبر تین 3بھی واقع ہوگئی جو مغلظہ ہے۔ یعنی غیر عورت پر بھی طلاق پڑسکتی ہے۔
اور اگر یہ مانتے ہیں کہ طلاق 1 سے بیوی نکاح سے خارج نہیں ہوئی تو پھر یہ ماننا ہوگا کہ وہ یعنی طلاق1رائیگا ں چلی گئی۔ اس صورت میں اس پر طلاق 2واقع ہوسکتی ہے۔ اگر اس کے واقع ہوجانے او ربیوی کے نکاح سے خارج ہونے کوتسلیم کیا جائے تو پھر اس پر طلاق 3 واقع نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ غیر عورت ہوگئی ۔ اور اگر یہ مانتے ہیں طلاق2 سے بھی خارج نہیں ہوئی تو اس طلاق 2کے متعلق بھی یہی ماننا ہوگا کہ وہ بھی رائیگاں چلی گئی اس لئے اس پر طلاق 3واقع ہوسکتی ہے، مگر یہ تو حقیقت میں ایک ہی طلاق ہوئی ۔ گویا حنفی علماء اسی ایک طلاق کومغلظہ قرار دیتے ہیں جو غیر معقول بات ہے ۔ اس لئے جو مسلک ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دیتا ہے میں اسے ہی درست سمجھتا ہوں ۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ حنفی علماء طلاق 1کو واقع قرار دیتے ہیں یعنی بیوی کے نکاح سے خارج ہوجانے کو مانتے ہیں چنانچہ اگر شوہر عدت کے اندر رجوع نہ کرے تو عدت گذرتے ہی وہ بائنہ ہوجاتی ہے۔ مطلب یہ کہ بیوی کا نکاح میں دوبارہ لانے کے لئے رجوع یا تجدید نکاح ضروری ہے۔ یہ ایک بات کی دلیل او رثبوت ہے کہ طلاق1 واقع ہوگئی ۔ وہ رائیگا ں نہیں ہوئی ۔
طلاق سے قبل تحکیم کا حکم
حنفی ،اہل حدیث اور شیعی تینوں مسلکوں کے برخلاف میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآنی ہدایت کے علیٰ الرغم دی گئی طلاق خواہ ایک ہو یا زیادہ دو واقع نہیں ہوگی ۔ ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں قارئین نے دیکھا کہ ائمہ کرام کی رائیں ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں ۔ اس لیے دونوں رائیں عین شریعت قرار نہیں دی جاسکتی ۔ ورنہ لازم آئیگا کہ خدا کی کتاب اور اس کی شریعت میں تضاد بیانی پائی جاتی ہے۔ جو بہت بڑا نقص اور عیب ہے ۔ البتہ دونوں متضاد رائے رکھنے اور ماننے والے یعنی مقلداور غیر مقلد سبھی قسم کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۔۔۔شوہر کومکمل اختیار ہے کہ وہ جب چاہے یکطرفہ طور پر لفظ طلاق بول کر نکاح کوختم کرسکتا ہے۔ اس معاملہ میں مسلم معاشرہ یا عدالت کودخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مگرکوئی عورت نکاح کو ختم یا فسخ کرناچاہے تو اسے عدالت سے رجوع کرناپڑے گا ۔کیا اسے شرعی اور انصاف پر مبنی قانون قرار دیا جاسکتا ہے؟
میں اپنے ناقص علم و فہم کی بناء پر یہ سمجھتا ہوں کہ نکاح کرنا۔ روزہ،نماز ، حج کی طرح کوئی عبادت یافریضۂ خدا وندی یعنی خالص تعبّدی امریا دینی معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک دنیاوی اور سماجی معاملہ ہے جس میں بندے کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے تو نکاح کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ اسی طرح طلاق کا تعلق بھی تعبدی امور کی بجائے دنیاوی امور سے ہے۔ اور شوہر و بیوی دونوں کو یکساں طور پر یہ حق اور اختیار ہے کہ وہ معاہدہ نکاح کو باقی رکھے یا اسے توڑے۔ البتہ قرآن نے جس طرح دیگر دنیاوی معاملات اور سماجی امور سے متعلق کچھ رہنما اصول، احکام اور شرائط دئے ہیں اسی طرح نکاح وطلاق کے لیے بھی دیئے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ نکاح جبراً نہ ہو بلکہ باہمی رضامندی سے اور مقررہ مہر پہ ہو اور انعقاد نکاح کے لئے دو گواہ ہوں اور ایجاب و قبول کوئی قاضی یعنی عدالت کانمائندہ کرائے تاکہ شوہر اوربیوی میں سے کوئی بات سے انکار نہ کرسکے۔
اگرنکاح وطلاق کاتعلق تعبدی امور سے ہوتا تواس کے لئے گواہ وغیرہ کا ہوناضروی نہیں ہوتا جیسا کہ نماز روزہ کیلئے ضروری نہیں ہے اسی طرح قرآن نے طلاق و خلع کے سلسلے میں یہ حکم دیا ہے۔۔ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان کسی وجہ سے شقاق او رپھوٹ کا اندیشہ ہو اور دونوں میں سے کوئی معاہدۂ نکاح کو توڑناچاہے تو مسلم معاشرہ عدالت شوہر او ربیوی دونوں کے خاندان سے ایک ایک حکم(پنچ) مقرر کرے تاکہ وہ شوہر اور بیوی کے درمیان صلح صفائی کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں ناکامی ہونے پر خود پنچ ( مسلم معاشرہ) طلاق دلانے کا فیصلہ کرے یا پھر اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت طلاق یا خلع کا فیصلہ کرسکے او رکسی سے متعلق مالی امور جیسے مہر، نان و نفقہ یا معاوضہ نکاح کا تصفیہ کرسکے اور کسی فریق کیساتھ ظلم ، نا انصافی اور حق تلفی نہ ہوسکے۔ یعنی قرآن فسخ نکاح یا طلاق سے قبل تحکیم ( ثالثی) کا حکم دیتا ہے۔ یہ مسلم معاشرہ پر قرآن کا عاید کردہ صریح حکم اور فریضہ ہے ۔ اور معاشرہ کو اس فریضہ کی ادائیگی کا حق بھی ہے ۔ جسے منسوخ ، کالعدم او رلغو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
شریعت یا شرعی قانون کا اصل سرچشمہ صرف ایک ہے یعنی قرآن یا خدا کا فرمان۔ شریعت یا شرعی قانون دائمی ، غیر متغیر اور تقدس کا حامل ہوتا ہے۔ اس پر عمل کرنا فرض اور واجب ہوتا ہے اس کا انکار کرنے والا مسلم نہیں رہتا ہے ۔ خدا کے کلام یا فرمان میں اختلاف اور تضاد نہیں ہوسکتا جس حکم یا مسئلہ میں اختلاف یا تضاد پایا جاتا ہے یا نظر آتا ہے اس کی وجہ انسانی فہم کا قصور ہے۔ خدا کے سوا کسی انسان کویہ حق اور اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی چیز یا کسی بات کودوسروں پر فرض اور واجب یا کسی چیز کو حرام قرار دے۔ حتیٰ کہ نبی کو بھی یہ حق اور اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ نہ ہی کسی انسان کو یہ حق اور اختیار ہے کہ وہ قرآن کے کسی صریح حکم کو قولاً یا عملاً منسوخ اور کالعدم قرار دے۔
فقہ ایسے پیش آمدہ مسائل جن کے متعلق قرآن نے کوئی واضح حکم نہیں دیا ہے ان میں اجتہاد کرنا جائز ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کو پسند فرمایا تھا ۔ چنانچہ صحابہ کرام اور ان کے بعد ائمہ مجتہدین نے اجتہاد سے کام لیا بھی ہے۔ اجتہاد کا دورازہ بند کردینا ایک تاریخی غلطی تھی جس کا خمیازہ امت مسلمہ کو بھگتنا پڑا اور بھگت رہی ہے۔ جو حکم قرآن سے صریحاً ثابت ہو اس میں اجتہاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن سے صریحاً ثابت شدہ کسی حکم کو نہ حدیث منسوخ کرسکتی ہے نہ صحابہ تابعین اور ائمہ مجتہدین کا اجماع۔
فقہ یا فقہی احکام کے چار مآخذ یا سر چشمے ہیں :(1) قرآن(2) حدیث(3) اجماع اور(4) قیاس
صحابہ اور ائمہ مجتہدین کے درمیان جن جن مسائل اوراحکام میں اختلاف پایا جاتا ہے یا ان کی رائیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔ وہ وہی ہیں جو نص قطعی سے ثابت نہیں ہیں۔جو مسائل یا احکام نص قعطی کی بجائے ائمہ ، مجتہدین کے اجتہادی آراء پر مبنی ہیں یعنی احادیث ،اجماع اور قیاس کے ذریعہ مستنبط کئے گئے ہیں ۔ وہ فقہ یا فقہی احکام ہیں ۔ فقہی قانون کو وہ تقدس حاصل نہیں ہے جو شرعی قانون کو ہے۔ نہ وہ اٹل ، دائمی اور ناقابل تغیر ہوتے ہیں ۔ خود ائمہ مجتہدین نے یہ نظر یہ پیش کیا ہے زمان و مکان اور احوال و ظروف کے تغیر سے فقہی احکام میں تغیر اور تبدیلی جائز ہے چنانچہ ماضی میں بہت سے فقہی اور اجتہادی احکام اور قوانین میں تبدیلی لائی جاچکی ہے اور سابقہ احکام کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔ جس سے علمائے دین بخوبی واقف ہیں ۔ نیز کسی امام مجتہد نے صرف اپنی تقلید کو دوسرے لوگوں کے لئے ضروری نہیں دیا ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ ائمہ و مجتہدین کرام سے اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے او رہوئی ہے۔ چنانچہ فقہ کی ان کتابوں میں جن کی تدوین مسلمانوں کے عروج اور سیاسی اقتدار کے زمانے میں ہوئی تھی ان میں بہت سے غلط فقہی احکام اب بھی موجود ہیں جن کی کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مفسرین کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد قرآن کی سینکڑوں آیات کو منسوخ قرار دیا تھا ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے صرف پانچ آیتوں کو منسوخ ہونے کے امکان کو تسلیم کیا تھا۔ پھر مولانا عبدالصمد رحمانی نے ایک کتاب ’’ محکم قرآن‘‘ میں کسی بھی آیت کے منسوخ نہ ہونے کو ثابت کیا ۔
کتب فقہ میں کتابیہ (یہودی ۔ عیسائی) عورتوں سے نکاح کے جواز کا حکم اس طرح باقی ہے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اور ائمہ مجتہدین کے زمانے میں جائز تھا۔ مگرمسلمانوں کے سیاسی زوال اور انگریزوں کے تسلط کی حالیہ صدیوں میں مفتیان دین متین نے خدا کے اس حکم جواز کو نامناسب خیال کر کے یعنی قرآن کی صریح آیات کو منسوخ قرار دیتے ہوئے کتابیہ عورت سے نکاح کے ناجائز او رممنوع ہونے کا فتویٰ صادر کئے ہوئے ہیں ۔
میں نے چالیس سال پہلے باراعیدگاہ پورنیہ میں منعقد ہ عظیم الشان مسلم پرسنل لاء کانفرنس میں اپنی رائے اور نقطۂ نظر کا اظہار کیا تھا کہ یتیم پوتے کی مخجوبیت کا فقہی قانون بالکل غلط ہے کیونکہ اس کی بنیاد نہ تو کوئی قرآنی آیت ہے نہ حدیث او رنہ عقل ہی اس کی تائید کرتی ہے۔ اس قانون کے باعث لا تعداد یتیم پوتے اپنے دادا کی میراث سے ناجائز طور پر محروم کئے گئے ہیں او رکئے جاتے ہیں ۔
اسی طرح اکٹھے دی گئی تین طلاق کو مغلّظہ قرار دیناغلط ہے۔ اس کے نتیجہ میں مطلقہ عورتوں کا جس طرح حلالہ کیا جاتا ہے وہ حلالہ نہیں بلکہ سراسر حرامہ ہے۔ اس کی روک تھام ضروری ہے ان دونوں مسئلوں پر پرسنل لاء بورڈ کو نظرثانی کرنی چاہئے ۔۔ مگرمیری آواز نقار خانہ میں طوطی کی آوازبن کر رہ گئی ۔ پھر ان دونوں مسئلوں پر الگ الگ کتابچے شائع کرکے میں نے بورڈ کے ذمہ داروں کودیئے مگرانہوں نے خاموشی کا دائمی روزہ رکھ لیا ۔
دین و شریعت کے سرکاری ترجمانوں سے سورۂ نساء کی آیت 35کو ( جس میں طلاق سے قبل تحکیم یعنی شوہر وں و بیوی کے درمیان ثالثی کے ذریعہ مصالحت کرانے کا حکم مسلم معاشرہ کو دیا ہے او راس پر فریضہ عاید کیا گیا ہے) اس آیت کو فضول او ربکواس سمجھا اور اس حکم کو ناقابل عمل بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہے اللہ کی کتاب کے ساتھ مسلمانوں اوران کے علماء کاسلوک!
خدا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے طلاق طلاق طلاق تین باربولنے سے اس کی بیوی کے حرام ہونے کی بات ہر گز نہیں کہی ہے۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ایک آرڈنینس کے ذریعہ یہ حکم ضرور نافذ کردیا تھا۔ ان کے اس وقتی اور سیاسی فرمان کو حنفی مسلک کے علماء او رفقہاء آج تک ۔ قرآن اور حدیث سے زیادہ اہم ، دائمی مقدس اور ناقابل ترمیم مان رہے ہیں ۔ گویا شریعت سازی یا شرعی قوانین کی تشکیل کا کارنامہ صرف خدا نے نہیں انجام دیا ہے بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ہاتھ بٹایا ہے۔ اب جو مظلوم ہندوستانی مسلم عورتوں کے نمائندوں نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور عدالتِ عظمیٰ ( سپریم کورٹ) اس قانون کی اصلاح پر غور کرنے لگی ہے تو کچھ علماء اسے شریعت میں مداخلت قرار دے رہے ہیں ۔ حالانکہ دین میں بگاڑ پیدا کرنے اور شریعت میں مداخلت کرنے کا کام تو بہت پہلے سے خود مسلمان اور ان کے رہنما کرتے رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ اگر تین طلاق کے مغلظہ نہیں ہونے یا ماننے اور عدالت سے باہر دی گئی طلاق کے نافذ نہیں ہونے کی سفارش کرتی یا ہدایت دیتی ہے جس کا مطالبہ خود مسلم عورتیں کررہی ہیں تو یہ ایک طرح سے غلط فقہی قانون کی اصلاح ہے۔ آخر اہل حدیث اور شیعی مسلک تو قریب قریب ایسا ہی ہے۔
نوٹ :۔ میں تحکیم ( ثالثی) سے قبل دی گئی طلاق کو واقع او رایک ساتھ دی گئی تین طلاق کوتین طلاق مغلظہ قرار نہیں دینے بلکہ اسے ایک طلاق رجعی قرار دینے کے حق میں ہوں ۔ لیکن یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے خلاف ہوں ۔
18اپریل، 2017 بشکریہ : روزنامہ ہمارا سماج، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/talaq-quran-muslim-personal-law/d/110829
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism