New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 04:17 PM

Urdu Section ( 9 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What about Takfir, Divine Mercy, Hell, Heaven, So-Called Jihad, Radicalism and Misinterpretations of the Quran and Hadith, and Battling Radical Ideologies? تکفیر، رحمت الٰہی، جہنم، جنت، نام نہاد جہاد، انتہاپسندی اور قرآن و حدیث کی غلط تشریحات، اور انتہا پسند نظریات؟

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 29 اپریل 2023

 اسلامی اسکالر محمد رفعت نے البوابہ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سوالات کے جواب دیے

 اہم نکات

1.      اللہ تعالی نے جنت اور جہنم کی کنجیاں کسی کو نہیں دیں۔

2.      اللہ تعالی کی رحمت ہر چیز پر محیط  ہے۔

3.      انتہا پسند گروہ اپنی گمراہ کن سوچ اور خواہشات کے مطابق نصوص کی تشریح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 ------

تقابل ادیان کے مصنف اور محقق محمد رفعت نے زگازگ یونیورسٹی سے تقابل ادیان میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے۔ شدت پسند گروہوں اور انتہا پسندانہ نظریات کے بارے میں البوابہ نیوز کے ساتھ ایک عربی انٹرویو میں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انتہا پسند گروہ اپنی خواہشات اور غلط سوچ کے مطابق نصوص کی تشریح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اپنے مقاصد اور مفادات کو پورا کر سکیں۔

 رفعت کے مطابق، مذہب میں انتہا پسندی، تکفیری کلچر کی ایک اہم وجہ ہے، یہ ایک ایسا رجحان ہے جو اسلام کے تمام رواداری کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ عام طور پر جہالت اور مذہبی تصورات کی ادھوری سمجھ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصر کے مذہبی ادارے، خاص طور پر الازہر الشریف، نوجوانوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے اور انہیں انتہا پسندوں کے چنگل میں پھنسانے کی کوشش کرنے والوں کا جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Muhammad Raafat, an Islamic Scholar

------

 انٹرویو کا مکمل مضمون

 عربی سے  انگریزی ترجمہ غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

 سوال: آپ ان محققین میں سے ہیں جو ادیان کا تقابل کرتے ہیں۔ آپ مختلف مذاہب کے یکجا ہونے کا تصور کیسے کرتے ہیں؟

 جواب: اللہ تعالی نے پوری کائنات کو کامل ہم آہنگی کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ فرق صرف ایک کائناتی معیار ہے جسے خدا تعالی نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے۔ لہٰذا، زبانوں، لہجوں اور رنگوں کا تنوع اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔" (30:22)

 اللہ تعالی نے انسانوں کے درمیان فرق اور تنوعات کو، جیسا کہ ہم نے کہا، ایک کائناتی معیار بنایا ہے، لہٰذا اگر وہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک قوم کے طور پر متحد کر دیتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 "اگر اللہ چاہتا تم سب کو ایک ہی گروه بنا دیتا لیکن وه جسے چاہے گمراه کرتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، یقیناً تم جو کچھ کر رہے ہو اس کے بارے میں باز پرس کی جانے والی ہے۔ (16:93)

 اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا، ''اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راه پر ایک گروه کر دیتا۔ وه تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے۔ بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے، انہیں تو اسی لئے پیدا کیا ہے، اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا۔‘‘ (11:118-119)

 تمام مذاہب باہم مربوط ہیں اور یہ سب خدا تعالیٰ کی وحدانیت (توحید) کے پیغام کے حامل ہیں اور یہ سب اخلاقی کمالات اور خوبیوں کی تعلیم دیتی ہیں۔ تاہم، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کے اپنے اصول اور نظریات دیے ہیں۔

سوال: اگر مذاہب باہم مربوط ہیں پھر ہم اب بھی شکوک و شبہات کا سامنا کیوں کرتے ہیں؟

 جواب: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تمام انبیاء کے ساتھ ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: "رسول ایمان یا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان ئے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ئے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ (2:285)

 اگر ایک مومن تمام انبیاء اور تمام آسمانی کتابوں کو قبول نہیں کرتا تو اس کا ایمان کامل نہیں ہے۔ ایک مشہور حدیث کے مطابق جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کا مطلب ہے خدا، اس کے فرشتوں، اس کے صحیفوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا ہے۔

 ہمارے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیں تورات عطاء کی اور ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت دی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: '' اور [ذکر کرو] جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا۔ ’’اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو مجھ سے پہلے تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے۔‘‘ (61:6)

نتیجہ یہ ہے اب شک یا الزامات کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔

سوال: تکفیر کے مسئلے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جس کی حمایت انتہا پسند نظریات کے حامل لوگ کرتے ہیں؟

جواب:  تکفیر ایک اہم  مسئلہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کی مذمت کی ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اس نظریے کو سب سے پہلے خوارج نے اپنایا جب انہوں نے امام علی رضی اللہ عنہ  کو کافر قرار دیا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو قرآنی آیات یا اقوال پیغمبر علیہ السلام کی غلط تشریحات سے پیدا ہوتا ہے۔ انتہا پسند تنظیمیں نصوص کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے ان کے مقاصد اور مفادات کی تکمیل ہو سکے۔ اس بارے میں قرآن میں تنبیہ کی گئی ہے۔

 اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

 "اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو تو (دوست اور دشمن کے درمیان) تمیز کرو۔ اور جو لوگ آپ کو سلام پیش کرتے ہیں ان سے مت کہو، "تم مومن نہیں ہو!" - ایک عارضی دنیاوی فائدے کی تلاش میں۔ اس کے بجائے، اللہ کے پاس لامحدود فضل ہے۔ آپ شروع میں ان جیسے تھے پھر اللہ نے آپ کو [اسلام سے] نوازا۔ تو یقین رکھو! بے شک اللہ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔" (4:94)

 یہ بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا جب حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو قتل کیا تھا جس نے لا الہ الااللہ کی صدا بلند کر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم نے اس کے ’’لا الہ الااللہ‘‘ کہنے کے بعد اسے قتل کیا؟ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! "اس نے ہمارے ہتھیاروں کے خوف سے ایسا کہا تھا۔" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں اچھا تھا یا نہیں؟"

 اسلامی قانون دوسروں پر کفر کے ارتکاب کا جھوٹا الزام لگانے سے منع کرتا ہے، جیسا کہ قرآنی نصوص کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گا۔ (جامع ترمذی 2637)

 ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص کسی دوسرے پر کفر کی تہمت لگائے یا اسے اللہ کا دشمن کہے تو یہ الزام اسی کی طرف لوٹ آئے گا۔ الزام لگانے والے کی طرف) اگر ملزم بے قصور ہے۔" [بخاری ومسلم]

لہٰذا، مذہبی انتہا پسندی تکفیری کلچر کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے۔ دین میں انتہا پسندی بلاشبہ اسلام کے تمام رحمت و مروت کے اصولوں کے خلاف ہے، اور یہ اکثر مذہبی معاملات کے علم اور فہم کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔

سوال:  تاہم، بعض انتہا پسند گروہ اپنی کارستانیوں ا جواز پیش کرنے کے لیے اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ "مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔" کیا یہ حدیث جہاد کے بہانے غیر مسلموں پر حملہ اور ان کے قتل کو جائز قرار دیتی ہے؟

جواب:  جیسا کہ میں پہلے ہی اشارہ کر چکا ہوں، بنیاد پرست تنظیمیں مذہبی صحیفوں کی اس انداز میں تعبیر و تشریح کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے ان کی خواہشات اور منحرف سوچ کی حمایت ہوتی ہو۔ حدیث میں صرف یہ ہے کہ ’’مجھے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے،‘‘ نہ کہ، ’’مجھے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان دونوں الفاظ کے معانی و مفاہیم ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ چنانچہ حدیث "مجھے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے" کا مقصد انتہاء پسندی کو ناکام کرنا اور روکنا ہے۔ خداتعالیٰ نے جارحیت کا آغاز کرنے سے منع کیا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کی وجہ کوئی مذہبی اختلاف ہو یا نظریات کا تصادم ہو۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں یہودیوں سے اسی لیے عہد کیا تھا؟

 جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الحدیبیہ میں قریش کے ساتھ صلح کی تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی آزادی عطاء کر دی کہ وہ کس کی عبادت کرتے ہیں اور کون سا مذہب اختیار کرتے ہیں اور ان کے حساب و کتاب کا معاملہ اپنے لیے مخصوص کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔ اسلام کی دعوت میں جبر اور تشدد شامل نہیں ہونا چاہیے۔

اسلام کی دعوت کے کچھ ذرائع قرآن پاک میں بیان کیے گئے ہیں: "اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے" (16:125)

 اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرسکتے ہیں یہاں تک کہ وه مومن ہی ہوجائیں" (10:99)

 انتہا پسند تنظیمیں اپنے عقیدے میں ایسی عبارتوں کا خیال نہیں رکھتیں، بلکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے غلط فہمیوں کو ہوا دینے کا کام کرتی ہیں۔

 جواب: لیکن ان لوگوں کا کیا  جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں جنت میں جائے گا اور فلاں جہنم میں جائے گا؟

 جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف خدا کو ہے۔ نصوص کی اپنی غلط تشریحات کی وجہ سے، جو لوگ خدا کے نام پر قسم اٹھاتے ہیں انہیں خدا کی طرف سے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو یہ اختیار دیدیا ہے کہ وہ خدا کی بادشاہی میں خدا کے بندوں کا فیصلہ اس طریقے سے کریں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہو۔ پھر، میں ان لوگوں سے خوفزدہ ہوں جو کسی کی زندگی اور اعمال کا مشاہدہ کرنے کے بعد کسی کی سزا یا جزا کا فیصلہ کرتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 "اے ایمان والوں! اپنی فکر کرو، جب تم راه راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وه تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔" (5:105)

 اختیار والا واحد اللہ ہے۔ وہ واحد ہے جو فیصلہ کرتا ہے اور دوسروں کو جوابدہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو وسیع کیا، انتہا پسند عناصر اسے محدود کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا کہ میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔ اسی کے پاس جنت اور جہنم دونوں کی کنجیاں ہیں۔ تو اب کسی اور کو کیا حق بنتا ہے وہ ان کا مالک بن جائے اللہ کی طرف سے لوگوں کو اس کا مالک بنا دے۔

سوال: مذہبی تنظیمیں بنیاد پرست نظریات سے لڑنے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟

 جواب: مصر میں مذہبی تنظیمیں، جن کی قیادت الازہر الشریف کرتی ہے، انتہا پسندوں کے شکوک و شبہات کو ختم کرنے اور ان کا جواب دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ الازہر نے عالمی رصد گاہ قائم کی، جو متعدد زبانوں میں انتہاپسندانہ نظریات اور دعووں کا خواب دیتی ہے، نیز دی ولڈ آرگنائزیشن آف الازہر گریجویٹس نے بھی بڑی تعداد میں کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سب سے قابل ذکر سیریز Refuting Extremist Ideology، جس میں انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والوں کی طرف سے اٹھائے گئے تمام خدشات اور اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ الازہر ٹریننگ اکیڈمی اس سلسلے میں ایک اضافی کوشش ہے۔ دار الافتاء بھی اپنی رصد گاہ اور اپنی اشاعتوں کے ذریعے نمایاں کوششیں کر رہا ہے۔ وزارت برائے مذہبی اوقاف نے غیر ازہریوں کو منبر پر بیٹھنے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔بنیاد پرست نظریات کے حامل افراد کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام کوششیں کی جا رہی ہیں جو نوجوانوں کے ذہنوں کو اغواء کرنے اور انھیں انتہا پسندی کے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(انگریزی سے اردو ترجمہ :مصباح الہدی ، نیو ایج اسلام)

 عربی انٹرویو کا لنک: https://www.albawabhnews.com/4785702

-----------------------

English Article: What about Takfir, Divine Mercy, Hell, Heaven, So-Called Jihad, Radicalism and Misinterpretations of the Quran and Hadith, and Battling Radical Ideologies?

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/takfir-mercy-hell-heaven-jihad-quran-hadith-radical/d/129733

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..