New Age Islam
Thu May 15 2025, 03:54 PM

Urdu Section ( 14 Jun 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Has Tablighi Jamat Lost Its Relevance? کیا تبلیغی جماعت اپنی معنویت کھوچکی ہے؟

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

14 جون،2024

تبلیغی جماعت کی بنیاد مولانا الیاس کاندھلوی نے 1926 ء میں ڈالی تھی۔ یہ جماعت مسلمانوں کی ایک دینی و اصلاحی تحریک تھی جس کا مقصد مسلمانوں میں دین اسلام کی صحیح سمجھ پیدا کرنا، انہیں دینی فرائض جیسے نماز ، روزہ وغیرہ کی طرف بلانا اور انہیں بدعات و خرافات سے آگاہ کرکے ان کے اندر نیک و بد کی تمیز پیدا کرناتھا۔ بیشک جس دور میں تبلیغی جماعت کا آغاز ہوا اس دور میں مسلمانوں میں خواندگی کی شرح بہت کم تھی۔ نیز مسلمانوں کی اکثریت اسلا کے بنیادی احکام و رتعلیمات سے بھی نابلد تھی۔ مسلمان بدعات و خرافات کو ہی دین سمجھتے تھے۔ بہت سے مسلمان اپنے گھروں میں مورتیاں رکھتے تھے اور لہوو لعب میں مبتلا رہتے تھے۔ دہن سے لاعلمی کیوجہ سے مسلمانوں میں بہت سے لوگ مرتدبھی ہوجاتے تھے۔

اس تناظر میں تبلیغی جماعت کی اصلاحی تحریک نے میوات میں مسلمانوں میں دین کا,احیاء کیا اور رفتہ رفتہ یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ اس تحریک۔میں شامل افراد تین دن یا چالیس دن کے لئے گروہ بنا کردوسرے شہروں اور قصبوں میں جاتے ہیں اور مسلمانوں کو توحید اور نماز کی تعلیم دیتے ہیں ۔ نیز انہیں دین کے بنیادی اعمال و وظائف سکھاتے ہیں۔اس اصلاحی تحریک کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ بیرون ملک بھی اس کےمراکز بن گئے اور ایشیا سےلیکر یوروپ ، امریکہ اور افریقہ تک میں بھی تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔

ایک طرف تو تبلیغی جماعت کے کام کی ستائش کئی اسلامی علماء اورمفکرین نے کی تو دوسری طرف اسلامی علماء کے ایک طبقے نے اس کے طریقہء کار پر تنقید بھی کی۔ اس پر ایک تنقید تو یہ ہوئی کہ اس کا دائرہ بہت محدود تھا۔ یہ جماعت مسلمانوں کو نماز کی طرف بلاتی تھی اور دین کے دیگر فرائض پر عمل کرنا سکھاتی تھی لیکن اس کی ساری سرگرمیاں زبانی تھیں اس لئے اس تحریک نے مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔اس جماعت نےمسلمانوں کی دینی یا جدید تعلیم کے لئے ادارے قائم نہیں کئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک اوربیرون ملک دیندار مسمانوں کا ایک گروہ تو پیدا ہوگیا لیکن اس گروہ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔میوات جہاں سے تبلیغی جماعت کا,آغاز یوا آج بھی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب میوات میں پرائیویٹ اسکول کھولے جارہے ہیں اور مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آرہی ہے ۔مسلمانوں میں یہ تعلیمی بیداری تبلیغی جماعت کے اثر سے نہیں بلکہ وہاں کی تعلیم یافتہ جدید نسل سے آئی ہے جس نے دہلی اور علی گڑھ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔

دوسری تنقید اس جماعت پر یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو دین کی طرف بلانے کا اس کا طریقہ بیسویں صدی کے نصف اول میں مؤثر رہا ہوگا لیکن اکیسویں صدی میں یہ طریقہ فرسودہ ہوچکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امربالمعروف ونیی عن المنکر کا کام جس سطح پربھی کیا جائے وہ باعث ثواب ہوتا ہے لیکن جب کوئی قوم تعلیم کے فرسودہ طریقے پر ہی قائم رہتی ہے اور جدید دور کے وسائل کا فائدہ نہیں اٹھاتی تو وہ دوسری قوموں سے پیچھے رہ جاتی ہے۔آج دنیا کی دوسری ترقی یافتہ قومیں دینی اصلاح یا دینی تعلیم کے لئے جدید دور کی تکنالوجی اور سائنسی آلات کا استعما ل کررہی ہے۔ ایسے میں اگر مسلمان سو سال پرانا اور فرسودہ طریقہ تعلیم و اصلاح اختیار کرینگے تو وہ اپنی سعی کے لئے ثواب کے حق دار تو ہونگے لیکن اس طریقہ ء کار سےزیادہ فائدے حاصل نہیں کرپائینگے۔

تبلیغی جماعت کے اسی فرسودہ طریقہ ء کار پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے معروف اسلامی اسکالرمولانا سجاد نعمانی نےکہا کہ تبلیغی جماعت کی محنت کا وقت پورا ہوچکا ہے۔وہ اپنی ایک تقریر میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ ہردور کا ایک مرکز ہوتا ہے اور کوئی بھی دینی مرکز ہمیشہ کے لئے فعال اور مؤثر نہیں رہتا۔ ایک دور میں شیخ احمد سرہندی کامرکزسرگرم تھا لیکن آج وہاں لوگ ٹکٹ لیکر صرف فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں۔ اسی طرح تبلیغی جماعت میں پھوٹ بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ وہ بالواسطہ طورپرتبلیغی جماعت میں ہر کس و ناکس کو وعظ کرنے کے لئے کھڑا کردینے پربھی طنزیہ اندازمیں کہتے ہیں ۔" جہاں کسی نے تین دن یا چالیس دن لگالئے اسنےسرمہ لگا لیا اور صافہ باندھ لیا اور ڈپٹی حضرت جی توبن ہی گیا۔" وہ کہتے ہیں کہ بیان کرنا آسان کام نہیں ہے اور یہ ایک فن ہے جو برسوں ریاضت کے بعد آتا ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے تبلیغی جماعت پرپابندی بھی شائد قدرت کی طرف سے یہ اشارہ ہے کہ اس جماعت کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ کورونا کے دور میں جماعت کے لوگ نظام الدین مرکزمیں پھنس گئے تھے اور جو لوگ چلے کے لئےنکلے تھے وہ ملک کی مختلف مساجد اور مدرسوں میں ایک عرصے تک پھنسے رہے اور میڈیا نے بھی ان کے خلاف متعصبانہ مہم چلائی ۔

آج کے جدید دور میں جب بچہ بچہ آلات ترسیل و ابلاغ کے ذریعہ پوری دنیا سے جڑا ہوا ہے اس دور میں دین کی تعلیم و اصلاح معاشرہ کے لئے گزشتہ صدی میں اختیار کئے گئے طریقہ ءکار پر اصرار کرنا غیر دانشمندانہ طرز عمل ہے جس میں محنت اور مشقت توزیادہ ہے نتائج معمولی ہیں ۔جو قومیں یا گروہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اپنے طریقہ ء کار اورطرزفکرمیں تبدیلی نہیں لاتے وہ رفتہ رفتہ ازکار دفتہ ہوجاتے ہیں۔ تبلیغی جماعت قرآن کے حکم امربالمعروف نہی عن المکر پر عمل کرتی ہےلیکن اس حکم پر عمل۔کرنے کے آج بہتر طریقے اور وسائل دستیاب ہیں۔ تبلیغی جماعت کو جدید وسائل کی مدد سے اپنے طریقہ ءکار میں تبدیلی لانی چاہئے۔ ۔ مولانا سجاد بعمانی بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگر تبلیغی جماعت نے مسجدوں کو اصلاحی مہم میں استعمال کرنے کی بجائے خود اپنے تعلیمی مراکز تعمیر کئے ہوتے جہاں جماعتیں ٹھہرتیں اور مسلمانوں کو صرف نماز پڑھانا سکھانے کی بجائے وہاں انہیں دیگر علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تو آج مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کچھ اور ہوتی۔

--------------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/tablighi-jamat-relevance/d/132509

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..