سمیت پال، نیو ایج اسلام
8 جون 2022
یہ بنی نوع انسان کی خوش
قسمتی ہے کہ توہین کا قانون صرف اسلام میں ہی موجود ہے اور یہ بلا دیگر مذاہب میں
نہیں ہے
-----
(فائل فوٹو)
-----
محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کے بارے میں نوپور شرما کے تبصرے پر جس طرح سے اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے
مسلمان رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے کائی نیلسن کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں،
"ایک طرح سے، انسانیت کی خوش قسمتی ہے کہ توہین کا قانون صرف مذہب اسلام تک
ہی محدود ہے اور یہ پاگل پن دوسرے مذاہب اور مذہبی فرقے میں نہیں پایا جاتا۔ اگر
یہ دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہوتا تو ہم اب بھی اپنی مذہبی شخصیات کی توہین پر
ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہوتے۔" بالکل سچ ہے۔
اب جب کہ القاعدہ کے دہشت
گرد رسول سے اپنی اندھی اور غلامانہ وفاداری ثابت کرنے کے لیے خود کو دھماکے سے
اڑانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو دنیا پھر وہی سوال پوچھ رہی ہے کہ کیا اسلام واقعی
امن کا مذہب ہے یا ٹکڑوں کا؟ ٹھیک ہے، اس سے پہلے کہ میں اس پر بحث کروں، میں
اسلام میں توہین رسالت یا (کفر) کے تصور پر کچھ روشنی ڈالنا چاہوں گا۔
ویسے، میں TOI میں درج ذیل عنوان
سے ایک مضمون بھی لکھ چکا ہوں: Why Blasphemy Is Alien
To Hinduism
یاد رکھیں، میں ہندو نہیں ہوں۔ اخبار نے واضح طور پر لکھا ہے کہ مصنف ایک ملحد ہے
جو ہمیشہ خدا کو چھوٹے حروف میں لکھتا ہے۔
توہین مذہب اسلام کا ایک
جزو لاینفک ہے اور اس کی ابتدائی مثال فارسی صوفی منصور الحلاج (922 عیسوی) کا انا
الحق کا دعوی کرنے پر ان کی کھال اتار دیا جانا ہے۔ بعد میں ابن تیمیہ (1328-1263)
نے مرتدوں اور ملحدوں کے لیے توہین رسالت کا باضابطہ قانون اور نظام پیش کیا۔
زیادہ تر مسلمانوں کا
اسلام کے ساتھ فرقہ وارانہ تعلق ہے اور ایک فرقہ ہمیشہ اپنے پیروکاروں سے اپنے
فرقے پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہنے کا مطالبہ کرتا ہے جو اکثر مطلق العنانیت میں
تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ اسلام یا
کوئی بھی فرقہ ایک مطلق العنان وحدت ہے، اور بنیادی طور پر، ابتدائی
مسلمانوں کی ایک قبائلی، صحرائی وحدت ہے
جو ابتدائی مسلمانوں کے حکم پر یقین رکھتے ہیں اور ایک (آمرانہ) رہنما کی
اندھی تقلید کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ ہمیشہ شک و شبہ سے آزاد ہوتا ہے (ماخوذ از: Sociology
of religion-New World Encyclopaedia)۔
بنیاد پرست یہودیت اور
قرون وسطیٰ کی عیسائیت کی طرح اسلام بھی مطلق العنان ہے۔ یعنی یہ انسان پر مکمل دعوی کرتا ہے۔ بے شک تصور کسی
فرد کانہیں بلکہ صرف امت کا – یعنی مومنوں
کی جماعت کا ہے۔ اسلام ہر جگہ آپ کا پیچھا کرتا ہے، باورچی خانے سے لیکر سونے کے
کمرے ، غسل خانے ، اور موت اور ابدیت سے آگے تک۔ اسلام کا مطلب ہے - 'تسلیم و رضا'
- ذہن کی آزادی سے دستبردار ہو جانا۔ اور تسلیم و رضا کا وزن اب 60 نسلوں اور 14 صدیوں سے زیادہ ہے۔
اب جب کہ دیگر تمام انسان
ساختہ مذاہب کے پیروکار پختہ ہو چکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ کسی حد تک ترقی بھی
کی ہے، لیکن زیادہ تر مسلمان اب بھی پتھروں کے دور میں ہی اپنی زندگی جی رہیں ہیں۔
وہ خود کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اللہ، محمد، قرآن اور حدیث کے ساتھ ان کی
ثقافتی وابستگی بہت مضبوط ہے۔ ان کے مقدس ہونے کا احساس تقریباً تمام مسلمانوں میں
رچ بس گیا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی تباہی مچائی تھی
اور کافروں کو نذر آتش کیا تھا، لیکن اب وہ ایسے قابل مذمت کام نہیں کرتے، کیونکہ
صدیاں بیتنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر کافی پختگی آ چکی ہے۔ لیکن اب بھی زیادہ تر
مسلمان عقل اور سمجھداری سے دور ہیں۔
ماضی میں ہندوؤں نے بھی
چارواک اور اس کے پیروکاروں کو بے رحمی سے زندہ جلایا اور جینوں اور بدھ مت کے
پیروکاروں کو اپنے مذہبی آقاؤ کے کہنے پر تشدد کا نشانہ بنایا لیکن یہ فرقہ واریت
(برہمنی) اور ذات پات (قابل مذمت) پر مبنی تھا اور مذہبی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
کہیں نہ کہیں، تمام مذاہب
نے بنی نوع انسان کے ساتھ چلنے کے لیے، اپنے پیروکاروں کے ذریعے ماضی میں کیے گئے
مذہبی جرائم کو با دل ناخواستہ قبول کیا
اور کسی زمانے میں اس کے لیے معافی بھی
مانگی، اگر چہ دکھاوے کے لیے ہی سہی۔ لیکن یہ رضامندی، با دل ناخواستہ ہی سہی،
مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی۔
سی طرح آج اگر آپ یسوع کی
مذمت کرتے ہیں اور مریم کی پارسائی کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیتے ہیں، تو کوئی بھی مسیحی آپ کا سر قلم
کرنے کے لیے نہیں اٹھے گا۔ یہاں تک کہ اگر آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کو
کبھی مصلوب ہی نہیں کیا گیا تھا (اسلام مسیح کے مصلوب ہونے پر یقین نہیں رکھتا اور
اسے صلیبی افسانہ کہتا ہے!)، توایک عیسائی
آپ پر لعن طعن کرے گا اور آپ کو برا بھلا کہے گا لیکن آپ کو جسمانی طور پر نقصان
نہیں پہنچائے گا۔
اسی طرح، اگر آپ کسی یہودی
(یا یہاں تک کہ کسی عیسائی) کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ موسیٰ کے کوہ سینا پر خدا کی
طرف سے دس احکام حاصل ہونے والی بات ایک فریب ہے یا موسیٰ نشے میں تھے (https://www.iol.co.za/news/world/moses-was-high-on-drugs-researcher-391832)، تو کوئی یہودی یا
عیسائی آپ کو پھانسی نہیں دے گا۔ لیکن اگر آپ محمد کے بارے میں کچھ بھی ناخوشگوار
اور ہلکی سی بے ادبی والی بات کہتے ہیں آپ
کا مرنا طے ہے۔ یہ ایک بچکانہ رویہ ہے جو
اسلام کے پیروکاروں میں عقل سلیم کے مکمل فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔
یاد رکھیں، جب بھی یہودیت،
زرتشتی (پہلا توحیدی مذہب)، عیسائیت اور ہندومت
کو دیکھا جائے تو اسلام کی عمر اب بھی نسبتاً کم ہے۔ دوسرے صرف فرقے ہیں۔
چنانچہ اسلام کی اجتماعی پختگی کی سطح اب بھی نسبتاً کم ہے۔
امید ہے کہ یہ کافی ترقی
کرے اور آنے والے دنوں میں اسے 'امن' اور عقل کا مذہب کہا جائے، افسوس، اس کے لیے
ذدیا بھی لگ سکتی ہیں۔
English Article: Mankind Is Fortunate That Blasphemy Exists Only In
Islam, Not In All Faiths
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism