سلطان شاہین ، فاونڈر ایڈیٹر ، نیو ایج اسلام
18 مارچ 2021
ہندوستان
کی مسلم برادری مشتعل ہے کیونکہ شیعہ سیاستدان وسیم رضوی نے قرآن مجید کی ۲۶
آیات کو ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ
میں عوامی مفادات کا مقدمہ (پی آئی ایل) درج کیا ہے ۔یہ آیتیں عسکری، استثنائی اور
جنگی اوقات سے تعلق رکھتی ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ آیتیں اسلام کے پہلے تین
خلفاء کی خلافت کے دوران قرآن میں شامل کی گئی تھیں۔ان کا اشارہ اس بات کی طرف تھا
کہ ان سنی خلفاء نے قرآن مجید میں جوڑ توڑ کرنے کا کام انجام دیا اور شیعہ جو چوتھے
خلیفہ راشد حضرت علی کی اتباع کرتے ہیں وہ اس کام کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ سنیوں کے نزدیک
یہ پہلے تین خلفا حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان خلفائے راشدین میں سے تھے
جنہیں نہ صرف حضرت علی کی وفاداری حاصل تھی بلکہ وہ حضرت علی کی قیمتی مشوروں سے مسلسل
مستفید بھی ہوتے رہے تھے۔
ان
چاروں خلفاء کے زمانے میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوا تھا ، حالانکہ
یقینا سیاسی مقابلہ تھا اور ہوسکتا ہے کہ کچھ مخفی نا اتفاقی بھی رہی ہو ۔ یہ نااتفاقی
حضرت علی کے زمانے میں کھل کر سامنے آ گئی اور جنگ کا باعث بنی۔ لیکن ، میرے علم کے
مطابق ، شیعوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ پہلے تین خلفاء نے جنگی امور سے متعلقہ
ان ۲۶ آیتوں
کو قرآن پاک میں شامل کیں۔ شیعوں کے پاس بھی یہی قرآن ہے اور میرے علم کے مطابق ، انہوں
نے کبھی بھی کسی آیت کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا ، جیسا کہ سیاستدان وسیم رضوی اب
کر رہے ہیں۔
اس
کے جواب میں شیعہ اور سنی سمیت ہندوستان کی پوری مسلم برادری نے وسیم رضوی کو مرتد
اور مسلم برادری سے خارج قرار دے دیا ہے ۔وسیم رضوی کا کہنا ہے کہ ان کے اہل خانہ اور
دوستوں نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ۔بھارت میں شیعہ اور سنی کے درمیان فساد بھڑکانے
کی وسیم رضوی کی کوشش واضح طور پر پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے۔ ان کے سر قلم کرنے کی ایک
قیمت بھی طے کر دی جا چکی ہے ، یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے کچھ مسلمانوں کی پرتشدد ذہنیت
بے نقاب ہوتی ہے ۔انہیں کتا کہا جا رہا ہے ، یہودی کہا جا رہا ہے اور اس طرح مسلمانوں
کا ایک طبقہ اپنی یہود دشمنی کا ثبوت پیش کر رہا ہے ۔وسیم رضوی کے مقاصد ومفاد پر سوالیہ
نشان لگایا جا رہا ہے اور شاید یہ سوالیہ نشان لگانا بھی ٹھیک ہی ہے کیونکہ وہ کبھی
بھی ایک مصلح کی حیثیت سے معروف نہیں ہوئے ۔
اتر پردیش میں شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے وہ خوش تھے اور شاید خوش رہتے اگر وہ اس منصب کو دوبارہ حاصل کرنے یا اسی طرح کا دوسرا منصب پانے میں کامیاب ہو جاتے ۔ مگر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا بدلہ ملنے کہ ان کی امیدوں کا چراغ بھی اب دھندلا ہوتا جا رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے خود کشی کرنے کی بات شروع کر دی ہے، جو کہ واضح طور پر ایک غیر اسلامی عمل ہے ۔
ہو سکتا ہے وسیم رضوی اپنے کیریئر کے اقدام میں ناکام ہوجائیں مگر شاید نادانستہ طور پر وہ ہمارے ان علما کی منافقت اور دورخی کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو مسلم برادری میں بہت سارے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔علمائے کرام کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ رضوی کو کتا یا یہودی کہنے سے اس معاملہ کا حل نہیں ہوگا ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وسیم رضوی کے ساتھ کیا ہوگا مگر جو معاملہ انہوں نے اٹھایا ہے وہ ختم ہونے والا نہیں ہے ۔وہ اس مسئلے کو اٹھانے والے پہلے شخص نہیں ہے۔ اسلاموفوبز اس معاملہ کو برسوں سے اٹھاتے چلے آ رہے ہیں اور خاص طور پر جب سے انتہا پسند دہشت گردوں نے نائن الیون کو نیو یورک کے ٹوئن ٹاور پر حملہ کیا ۔
صحیفہ
کوئی بھیہو ،
اس کے کسی بھی جز یا حصہ کو ہٹانے کا مطالبہ کرنا لغو اور حماقت ہے ۔ متعدد صحیفوں
میں تشدد پر اُبھار نے والی
عبارتیں موجود ہیں ، جو ان ایام کی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں جب وہ نازل ہوئے تھے۔ اہم
سوال ان آیات کی مطابقت اور ان کے نفاذ کے متعلق ہے، کیا یہ آج نافذ العمل ہیں یا
نہیں ؟ قرآن کریم کی ان آیات سے آج کے مسلمانوں کے لیے کیا ہدایات ملتی ہیں؟ علمائے کرام کو ان سوالات
کے عمدہ جوابات دینے ہوں گے ۔
دوسرے
مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ان کے اپنے صحیفوں میں ترمیم کرنے کے لئے نہیں کہا
جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے موجودہ اقدامات و اعمال کا جواز پیش کرنے کے لئے پُرتشدد
عبارتوں کا حوالہ نہیں دیتے ہیں۔ مگر مسلمان ایسا کرتے ہیں اور وہ بھی پورے جوش و خروش
کے ساتھ، نیز اس عقیدے کے ساتھ کہ قرآن کا
ہر حکم پوری دنیا میں، اور ہر حالت میں نافذ العمل ہے ۔قرآن ان کے نزدیک غیر مخلوق
ہے یعنی وہ خدا کا درجہ رکھتا ہے اور اسی وجہ سے یہ سوال اورمباحثہ سے بالاتر ہے ۔
ہم
اکیسویں صدی کی دنیا میں رہ رہے ہیں نہ کہ ساتویں صدی کے صحرائی گاؤں میں ۔ کیا آج
ہم ان احکام کے پابند ہیں جن کا تعلق چودہ سو سال قبل ایک مخصوص حالت سے تھا، جس میں اس زمانے کے مسلمانوں
کو کافروں اور مشرکوں کے قتل و قتال کا حکم دیا گیا تھا ؟ واضح ہے کہ ہم آج اس صورتحال کا صحیح تعین نہیں
کر سکتے جس میں یہ احکامات دیے گئے تھے ، ہم
آج ان احکام پر عمل نہیں کر سکتے ۔ ہم آج عالمی اور فوری مواصلات کے دور میں زندگی
گزار رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی جھوٹی خبروں کا دور ہے۔ لہذا ، اگر آج ، فوری عالمی مواصلات
کے دور میں ، جب ہمیں پوری طرح اس بات کا یقین نہیں ہے کہ واقعی ہماری دنیا میں کیا
ہو رہا ہے ، تو ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ ایک عربی صحرا کے گاؤں میں 1400 سو سال
پہلے کیا ہوا تھا۔
اس
طرح قرآن کی ان ہدایتوں پر کافروں کو قتل کرنے یا یہودیوں اور عیسائیوں سے دور رہنے
یا مسلمانوں کے علاوہ کسی کو بھی اپنا دوست نہ سمجھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہمیں
یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب یہ ہدایات
دی گئیں تو اسلام اس وقت اپنے ابتدائی دور میں تھا اور اس وقت کی طاقتوں کے مقابلےاپنے
بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ تاہم، ہم مسلمانوں کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ: کیا ساتویں
صدی عرب کی جنگ کے وقت کی یہ ہدایات آج بھی ہم پر لاگو ہوں گی ؟
وسیم
رضوی کے رد میں علمائے کرام نے قرآنی آیات کے متعلق یہ کہا ہے کہ ان آیات کا تعلق
ایک خاص سیاق و سباق سے ہے اور جب تک ایک شخص ان آیات کے شان نزول سے واقف نہیں ہوگا
اس کے لیے انہیں سمجھنا مشکل ہے ۔بہت صحیح بات ہے لیکن سیاق و سباق سے تعلق رکھنے کا
مطلب یہ ہے کہ اگر یہ سیاق و سباق موجود نہیں ہے تو یہ ہدایات نافذ العمل نہیں ہیں۔
چونکہ ساتویں صدی کی جنگ کا سیاق و سباق آج کل موجود نہیں ہے، اور موجودہ دور میں اس
کا امکان بھی نہیں ہے تو ہمیں یہ ضرور مان لینا چاہیے کہ یہ ہدایات آج ہم پر لاگو نہیں
ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے۔ لیکن کیا کوئی فرد یا عالم دین اس بات کو قبول کریں
گے؟ نہیں کوئی بھی نہیں۔ کیا کوئی عالم یہ کہے گا کہ قرآن مجید کی یہ جنگی آیات اب
مسلمانوں پر لاگو نہیں ہیں؟ کوئی بھی ایسا کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔
ہمارے
علمائے کرام کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید غیر مخلوق ہے، یعنی یہ خدا کی ایک صفت ہے
، لہذا اس کی آیات کے اطلاق اور عدم اطلاق پر بحث کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ کسی بھی وقت ان کی عدم اطلاق کے بارے میں سوچنا بھی ان کے لئے نا قابل تصور
ہے۔ جیسا کہ ساتویں صدی کی طرح ، ہمارے علمائے کرام یہ مانتے رہتے ہیں کہ اسلام کو
پوری دنیا پر حاوی ہونا چاہئے ، تمام معاشروں میں شریعت کے قوانین کا غلبہ ہونا چاہئے
، خدا کی خودمختاری کو پوری دنیا میں قائم کرنا ہے، اور تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ
اس عمل میں وہ تعاون کریں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے کسی جہاد کو فعال
طور پر فروغ نہیں دے رہے ہوں ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا مقصد کیا ہے۔
ہند
وستان جیسے متعدد مذہبی معاشرے میں بارہ سال کے بچوں کو ہمارے علما کیوں کہتے ہیں کہ
کافروں مشرکوں کو قتل کرنے نکلیں تو اپنا دھیان رکھیں۔ ایک کتاب ہے ‘‘اسلامی اخلاق
و آداب’’ جس میں اسلام کی اخلاق و آداب کی تعلیم دی جاتی ہے اس میں وہ یہ مانتے ہیں
کہ ایک مسلمان بچہ فطری طور پر مشرکوں کو مارنے کے لئے نکلے تو اسے راستے میں آنے والے
خطرات سے بچنے کے لئے احتیاط برتنی چاہیے ۔ یہ اس کتاب کے صرف ایک پیراگراف میں لکھا
ہوا ہے لیکن اس کی تفصیل بہار شریعت میں ان لوگوں کے لئے بیان کی گئی ہے جو 17 سال
کی عمر میں عالمیت کا کورس کر رہے ہیں۔ یہ وہ تربیت ہے جو ہمارے تمام علمائے کرام نے
حاصل کی ہے۔ کیسے ہم ان سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس تربیت کو چھوڑ دیں گے جب
وہ رضوی کے چیلینج کا سامنا کریں؟
تاہم
میں اب بھی مانتا ہوں کہ رضوی اور ان جیسے لوگ نہ صرف ایک چیلنج پیش کر رہے ہیں ، بلکہ
ہمارے علمائے کرام کو ایک موقع بھی فراہم کر
رہے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام کے پاس آج ایک موقع ہے کہ وہ آج ان آیات کے نافذ العمل
ہونے یا ان کی نافذ العمل نہ ہونے کے بارے میں اپنا موقف واضح کریں۔ چونکہ عسکریت پسند
ان آیات کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تشدد کا جواز پیش کرنے کے لئے استعمال کرتے
ہیں ، اس لئے علمائے کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کے نام
پر جاری انتہا پسندی اور تشدد کے بارے میں بھی اپنا موقف واضح کریں۔ اسلام کی امن و
سلامتی پر مبنی آیات جو کہ پوری دنیا کے لیے نافذ العمل ہیں ان کا حوالہ دے کر اس
معاملہ کو نظر انداز کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے
کرام ان آیات جہاد پر اپنا موقف خوب اچھی طرح واضح کریں ۔
معاملہ
صرف ان چھبیس آیات کا نہیں ہے۔اصل مسئلہ مسلمانوں کی سمجھ کا ہے کہ وہ کس طرح اپنے
دین و مذہب کی فطرت کو گزشتہ ۱۴ سو
برسوں سے سمجھتے چلے آرہے ہیں، نیز آج وہ کس طرح سمجھ رہے ہیں۔قرآن کی آیات نے
عقائد کے باب میں کس طرح کی سمجھ پیدا کی ہے ۔فہم حدیث کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے کیونکہ
ان احادیث کے ذریعے قرآن کی آیات کے سیاق و سباق کا علم ہوتا ہے ۔ اکثر علما حدیث
کو تقریبا وحی الہی کا درجہ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کوئی فرق
نہیں۔
اس نقطہ پر سوال یہ ہے کہ: کیا مسلمان اسلام کو ایک سیاسی اور ٹوٹیلیٹرین مذہب مانتے ہیں کہ جس کا مقصد دنیا کو فتح کرنا ہے یا کیا اسے روحانیت پر مبنی نجات کا ذریعہ مانتے ہیں ؟ چھبیس آیات اور متعدد دیگر آیات کی روشنی میں عالم اسلام کے مقبول و معروف ، ماضی و حال کے معزز علمائے کرام اور مفسرین کے اقوال کیا ہیں ۔ اسلامی مشن کے بارے میں ان کی کیا سمجھ رہی ہے اور جارحانہ جہاد کے مسئلہ پر ان کا موقف کیا ہے ۔درج ذیل میں ان مسائل پر ان کے اقتباسات پیش کرنے جا رہا ہوں۔ نسخ کے اصول وقواعد کی جہاں تک بات ہے تو بہت سارے علمایہ مانتے ہیں کہ وسیم رضوی کے ذریعے پیش کردہ آیت سیف نے مکہ میں نازل ہونے والی امن و سلامتی پر مبنی ان آیات کو منسوخ کر دیا ہے جو آپسی رواداری اور ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہیں ۔ ہمارے مدارس میں بھی یہی تعلیم دی جاتی ہے۔
موجودہ
دور کے علمائے کرام کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ وہ اسلامی مشن
کی ایسی روایتی اور مروجہ افہام و تفہیم سے اتفاق نہیں کرتے ہیں جیسی کہ درج ذیل مصنفین
کے اقوال سے واضح ہوتی ہیں اور جیسی کہ بہت سارے لوگ جو گذشتہ 1200 سالوں میں لکھ چکے
ہیں۔ میں جدید دور کے علمائے کرام کے اقتباسات سے شروع کروں گا جو معذرت خواہ کا رویہ
اپنا تے معلوم پڑتے ہیں ، لہذا قارئین یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کیا یہ معذرت خواہی کا
رویہ عالمی سطح پر سراہے جانے والے فقہائے کرام اور مذہبی ماہرین کے ذریعہ ان مضبوط
نظریات کے مقابلے مفید ہو سکتی ہے جن کی کتابوں کو ہمارے تمام مدرسوں میں پڑھایا جاتا
ہے ، چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر سے متعلق ہوں۔
(درج
ذیل حوالہ جات وقتا فوقتا اس ویب سائٹ پر شائع ہونے والے متعدد مضامین سے لیا گیا ہے
جن میں میرے اپنے مضامین بھی شامل ہیں ، لیکن زیادہ تر حوالے عبدالرحمٰن حمزہ کے ایک
مضمون "اقدامی جہادپرواضح موقف اختیارکرنے کی ضرورت" (offensive jihad requires a clear and unambiguous stand,
published on 3 July 2016 by New Age Islam.com (سے لیا گیا ہے۔
---
سید
حامد محسن کی کتاب کو بنگلور کے سلام سینٹر نے ’’غلط فہمیا ں‘‘ کے نام سے شائع کیا
ہے۔۔اس کتاب میں جہاد سے متعلق ایک مضمون ،‘‘قرآن کی منتخب آیات پراعترضات اورانکا
جواب’’ کے تحت رقم طرازہیں:
‘‘اسلام کے اپنے ناقدین بھی ہیں اوردشمن بھی۔ انکی
تہمت سازیوں میں اسلام پر تشدد کوبھڑکانے کاالزام اہم مقام رکھتاہے، انکے مطابق اسلام
نے غیرمسلموں کے خلاف تشدد کی مسلمانوں کو اجازت دے رکھی ہے’’۔ وہ مزیدلکھتے ہیں
‘’’اس بات کوذہن نشیں کرنا ضروری ہے کہ قرآنی آیات کوان کے خاص پس منظر اورسیاق وسباق
سے علیٰحدہ کرکے پڑھنے کی کوشش عموما قرآن کی تفہیم اوراس سے نصیحت حاصل کرنے میں مانع
ہوتی ہے۔ ہندوستان اوردیگر ممالک میں ایسی کئی کوششیں ہوئی ہیں جس سے آیات کو غلط معنٰی
پہنائے گئے ہیں اورعوامی ذہنوں کوگمراہ کیاگیا ہے یہاں ذیل میں ہم ایسی آیات پیش کرتے
ہیں جوکئی ایک مصنفین نے قارئین کو گمراہ کرنے کیلئے سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے پیش
کی ہیں۔
اس
کے بعدانہوں نے جن آیات کا ذکرکیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں‘‘سورۃ بقرہ کی آیات نمبر ۱۹۱
تا ۱۹۴۔اور
سورۃ برأۃ کی قتال سے متعلق متعدد آیات خاص طورپر آیت نمبر ۔۵جسے
آیت سیف یعنی تلواروالی آیت بھی کہاجاتا ہے اورجس کے بارے میں فقہا کا موقف یہ ہے کہ
اس نے امن سے متعلق پچھلی تمام آیتوں اور معاہدوں کو منسوخ کردیاہے (بحوالہ الموسوعۃ
الفقہیہ ،کتاب الجہاد جس کااردومیں ترجمہ قاضی مجاہدالاسلام صاحب کی نگرانی میں انجام
پذیرہواہے )
سورۃ
بقرہ کی آیت نمبر۱۹۱ /۱۹۲ کامفہوم
یہ ہے: ’’اورانہیں قتل کرو جہاں بھی ان کوپاؤ اوران کونکال باہرکرو وہاں سے جہاں سے
انہوں نے تمہیں نکلنے پرمجبورکیاہے اورفتنہ قتل سے زیادہ براہے ۔‘‘
سورۃ
بقرہ کی آیت نمبر۱۹۳ کاترجمہ
یوں ہے: ’’اورتم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین اللہ کے لیے ہوجائے
پھراگروہ بازآجائیں توسمجھ لوکہ ظالموں کے سوااورکسی پردست درازی روانہیں’’۔
اس
آیت میں مضمون نگارلفظ فتنہ کاترجمہ ظلم سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آیت نمبر۱۹۳کے
الفاظ پرغورکیجئے ۔اوروہ یہ ہے کہ ’’ کفار سے اس وقت تک لڑتے رہوجب تک کہ’ فتنہ‘یعنی
’ظلم ‘کاخاتمہ نہ ہوجائے اوردین محض اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔اس آیت کا کوئی تعلق اسلام
کے غلبہ اورغیرمسلموں کے خلاف ظلم سے نہیں ہے۔
عبد
الرحمن حمزہ مزید لکھتے ہیں: ‘‘مندرجہ بالاباتوں کومدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ
اب ہم ملک اوربیرون ملک پچھلے پندرہ سوسال میں لکھی گئی مستندعلماء کی تفاسیرپرایک
نگاہ ڈالیں کہ انہوں نے لفظ’ فتنہ‘سے کیاسمجھاہے اورکیاوہ بھی ان آیات کی غلط تشریح
کرکے جانے انجانے میں اسلام کے خلاف پروپگنڈہ کرنے والوں کوایندہن فراہم کرنے کے مرتکب
ہوگئے ہیں۔’’
ہم
اس کی طرف تھوڑی دیر بعد لوٹیں گے۔
----
قرآن
میں آیات جہاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سنی صوفی عالم اور اردو کے معروف
مصنف مولانا یاسین اختر مصباحی رقم طراز ہیں:
" اگر چہ قرآن کی بعض آیات کریمہ
میں جہاد، قتل اور قتال کا ذکر ہے لیکن ان آیات کا مصداق ہر کس وناکس نہیں اور نہ ہی
ان کا انطباق موجودہ دور کی نام نہاد جہادی تنظیموں کی طرف سے جاری دہشت گردانہ کارروائیوں
پر کیا جاسکتا ہے۔بلکہ ان کے پیچھے ایک مخصوص وجہ اور سیاق و سباق ہے۔ تاہم، آج مسلم
ممالک میں انتہاپسندوں کے ایک گروہ نے ان آیات کا استعمال سیاق و سباق کا اعتبار کیے
بغیر کرنا شروع کردیا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ ان جہادیوں اور نام نہاد اسلام پسندوں کے
کرتوت کی وجہ سے آج دنیا بھر میں بالعموم آیات جہاد اور بالخصوص قرآن کریم کے خلاف
اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں۔ اسلام کو قتل و غارت گری کے ایک مذہب کے طور پیش کیا جا
رہا ہے۔ عوام کو اسلام اور اس کی تعلیمات سے بر گشتہ کرنے کے لیے ان آیات کا غلط اور
بے جا استعمال کیا جارہا ہے ۔دراصل اسلام کو ایک پر تشدد اور خطرناک مذہب اور مسلمانوں
کو ایک جارحیت پسند اور شرانگیز قوم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش اس لئے جاری ہے تاکہ
عالمی رائے عامہ مسلمانوں اور دین اسلام کے خلاف ہوجائے۔ "( پیش لفظ، آیات جہاد
کا قرآنی مفہوم)
------
War and peace in
Quranic Terminology: امن اور فساد فی الارض قرآن کی اصطلاح
میں
ڈاکٹر
اسرار احمد
از
روئے قرآن فساد کیا ہے؟ فساد فی الارض کیا ہے؟ فساد فی الارض یہ ہے کہ یہ زمین اللہ
کی ہے۔ اللہ ہی اس کا حاکم حقیقی ہے۔ اللہ ہی کی مرضی کے مطابق یہاں انسان کو زندگی
گزارنی چاہیے۔ یہ ہے اصل میں حق۔ یہ ہے امن ۔ اس کے خلاف جو روش بھی ہے وہ فساد ہے
۔ وہ بغاوت ہے۔
ایک
شخص جو خود بادشاہ بن کر بیٹھ گیا ہے اپنی مرضی کا مالک ۔ ایک شخص جو اپنی مرضی کا
مالک ہے وہ بھی گویا کہ خدائی کا دعوی کر رہا ہے ۔ وہ جو کہا مولانا روم نے کہ :
‘‘نفسِ ما ہم کمتر از فرعون نیست آں کہ اُو را عون ما را عون نیست’’ یعنی میرا نفس
بھی کسی فرعون سے کم نہیں ہے ۔ وہ خدائی کا مدعی ہے کہ یہ وجود میرا ہے اور اس پر میری
مرضی چلے گی۔مجھے یہ شی پسند ہے ۔میں نہیں جانتا کہ صحیح ہے یا غلط ہے ، جائز ہےیا ناجائز ہے ، مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں۔مجھے یہ
شی ملنی چاہیے۔ میری یہ طلب ہے ۔یہ مطلوب ہے میری ۔
تو
‘‘نفسِ ما ہم کمتر از فرعون نیست اس لیے کہ ‘‘اُو را عون ما را عون نیست’’ یعنی فرعون
کے پاس عون تھی ، مدد تھی ، لشکر تھا ۔اس نے زبان سے بھی دعوی کر دیا کہ ‘‘انا ربکم الاعلی ’’ (یعنی میں تمہارا سب سے
بڑا رب ہوں)۔
میں
فقیر ہوں ، غریب ہوں ، درویش ہوں ، میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ زبان سے تو کچھ نہیں کہتا
لیکن میرا نفس اندر یہی دعوی کر رہا ہے کہ ‘‘نفسِ ما ہم کمتر از فرعون نیست’’۔ تو در
حقیقت یہی فساد ہے ۔ انفرادی سطح پر فساد یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کی بجائے اپنے نفس
کی بندگی کی۔معاشرے کی بندگی کی ۔ زمانے کے چلن کی پیروی کی۔ چلو تم ہوا ہو جدھر کی
۔ چاہے آپ بظاہر کتنے ہی امن میں ہیں ۔ حقیقت میں فساد ہے آپ کی زندگی میں ۔
اسی
طرح ایک معاشرہ ہے ۔ بغاوت پر مبنی ہے وہ معاشرہ ۔اس کو یوں سمجھیے کہ جیسے ڈاکووں
کا کوئی اڈہ ہو ۔ڈاکو ایک دوسرے کو کچھ نہیں کہتے ۔خود وہ ڈاکے تو ڈالتے ہیں باہر جاکر
۔۔اپنے اس اڈے میں وہ پر امن ہے ۔لیکن اس کو فساد ہی کہا جائے گا ۔ فساد کا گڑھ ہے
۔فساد کی بنیاد اور جڑ ہے ۔ نہ یہ کہ امن ہے ۔
اگر
سانپ بہت سے ہوں کسی جگہ پر ، اور بچھو ہوں ۔اور وہ ایک دوسرے کو ڈس نہ رہے ہوں۔تو
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں امن ہے ۔حقیقت میں تو ان کی فطرت کے اندر فساد موجود
ہے ۔
تو
در حقیقت قرآن مجید کی اصطلاح میں اصل امن کیا ہے ؟ اللہ کی مرضی کے مطابق اس دنیا
کا نظام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر چلایا جائے ۔ اس کے خلاف جو روش ہے چاہے
وہ کتنا ہی پر امن معاشرہ نظر آتا ہو ۔ امریکا کا معاشرہ نظر آتا ہو کہ صاحب بڑا
امن ہے وہاں ۔ وہاں بڑے لوگ مہذب ہیں۔اور لوگ بہت ہی خوش اخلاق ہیں۔ ایک دوسرے کا بڑا
پاس و لحاظ کرنے والے ہیں۔لیکن جنہیں یہ معلوم ہے کہ کس طریقہ سے پوری دنیا کی ایکسپلوئٹیشن
، لوگوں کی محنت اور مزدوری سے کمائی ہوئی دولت کس طرح سے کھینچ رہا ہے امریکا ۔ خون
چوس رہا ہے ۔یہ پورا استعمار ۔ ۔۔۔انہیں معلوم ہے کہ اصل میں یہ تو ڈاکو ہیں۔ یہ ایمپریلزم
۔۔۔۔۔یہ تو ڈاکہ ہے ۔ پوری نوع انسانی کے اوپر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ۔ چاہے اپنے یہاں
یہ ڈاکووں کا اڈہ ہے جس میں کہ انہوں نے امن فراہم کر رکھا ہے ۔
تو
فساد اورامن کی اس حقیقت کو سمجھیے ۔ اب اگر کہیں فساد ہے یعنی اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں ، اللہ کے خلاف
بغاوت ہے ۔چاہے وہاں بڑا امن ہے۔ مکہ میں بڑا امن تھا ۔جو بھی ظلم ہو رہے تھے وہ غلاموں
کے اوپر ہو رہے تھے وہ بھی سہہ رہے تھے بیچارے ، کوئی چیخ پکار نہیں تھی ۔بڑا امن تھا
۔ لیکن نظام غلط ہے ۔یہ فاسدانہ نظام ہے ۔ مفسدانہ نظام ہے ۔اس کو بدلنے کے لیے ‘‘محمد
رسول اللہ واللذین معہ (۴۸:۲۹)’’ اب
کوشاں ہے ۔
ایک
پیدا ہوا ہے تصادم ماحول کے اندر ۔ اسی کا اگلا مرحلہ وہ ہے جو مدنی دور میں آیا ہے۔
جس میں اب جنگ وجدال بھی ہے ۔‘‘قاتلو ا فی سبیل اللہ اللذین یقاتلونکم’’ ۔(سورہ بقرہ
: ۱۹۰)
تو
در حقیقت اس فساد کو ختم کو کرنے کے لیے چاہے بظاہر یہاں جنگ کی جا رہی ہے۔ خونریزی
کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ امن ہے ۔اور وہ لوگ جو کہتے ہیں نہیں لڑو بھڑو نہیں ۔ امن سے
رہو ۔چلو مان لو۔ باطل کو بھی مان لو ۔ کچھ تم ان کی مانو اور کچھ اپنی منوا لو ، بجائے
اس کے کہ یہ جو جد و جہد کر رہے ہو اس میں اپنا بھی نقصان کر رہے ہو ۔اپنا بھی تن من
دھن ۔ اپنی بھی قربانیاں ۔ اپنے لیے بھی مسائل ۔ اپنے لیے بھی مشکلات ۔ اور دوسروں
کا بھی بہر حال خون گر رہا ہے ۔ خون ریزی ہو رہی ہے ۔ اس کے بجائے ، اس سب کو چھوڑو
، اور امن کی کیفیت اختیار کرو ۔ یہ فساد ہے اصل میں ۔
اس
جد و جہد کو سیبو ٹاز کرنا جو اس بغاوت فی الارض جو ہے اللہ تعالی کے خلاف ۔ اس کو
رفع کرنے کے لیے اللہ کے وفادار بندے ایک جماعت ، ایک جمعیت کی شکل میں کھڑے ہو جائیں
۔ باطل کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے لیے ،۔ تو جو کوئی اب اس راستے میں رکاوٹ بنے گا
۔ چاہے وہ مصالحت کے نام پر ہو ۔ چاہے وہ صلح کل ہونے کے اعتبار سے ہو ۔ چاہے وہ کہا جا رہا ہو کہ لڑنا بھڑنا کیا ہے رواداری
ہونی چاہیے ۔بڑے خوشنما عنوانات ہوں ۔لیکن حقیقت میں یہ فساد ہے ۔
یہاں
وہ کردار سامنے لے آئیے ۔منافقین کا کردار ۔ اصل میں تو جان و مال عزیز تھے ۔میدان
میں آنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ رشتے بڑے عزیز تھے۔ ۔ رشتوں پر آنچ جو ہے وہ گوارانہیں
تھی ۔ اور یہ جو حق کی تلوار آئی تھی وہ رشتہ کاٹ رہی تھی ۔ باپ سے بیٹا جدا ہو رہا
ہے ۔ بھائی بھائی سے جدا ہو رہا ہے ۔ اس اعتبار سے جب وہ اس کے خلاف کوشش کرتے تھے
۔ اور مومنین صادقین ان سے کہتے تھے، ‘‘واذا قیل لھم لا تفسدو فی الارض ’’ (سورہ البقرہ
، آیت ۱۱، ۱۲)
۔ غور کیجیے یہ فساد کونسا ہے
۔مت فساد مچاو زمین میں ۔ وہ فساد یہ ہے کہ اصلاح فی الارض کی جو کوشش ہو رہی ہے اس
کو سیبوٹائز نہ کرو ۔ ساتھ دو ۔ جس طرح سے کہ مومنین صادقین ساتھ دے رہے ہیں محمد کا
(صلی اللہ علیہ وسلم) ۔
جب
تم بھی کہتے ہو کہ ہم توحید کو مانتے ہیں ۔ آخرت کو بھی مانتے ہیں۔ تورات کی تصدیق
کرتے ہوئے یہ قرآن آیا ہے اس کو بھی مانو ۔ اور دست و بازو بنو ۔ وہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی پکار ‘‘من انصاری الی اللہ ’’۔ تو سب کے سب اب مددگار بنو ۔ تاکہ یہ اللہ
کے خلاف جو بغاوت ہے زمین میں یہ دور ہو۔ اور اللہ کا نظام قائم ہو ۔ اللہ کی حکومت
قائم ہو ۔حق بحق دار رسیل ۔ اصل امن تب ہو۔ لیکن یہ منافقین اور یہود دونوں کی روش۔اس
کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا ۔ ‘‘محمد رسول اللہ واللذین معہ (۴۸:۲۹)’’۔
کہ جد و جہد کو سیبوٹائز کرنے کی کوشش ہے ۔جس کو قرآن یہاں کہہ رہا ہے کہ یہ فساد
فی الارض ہے ۔ اور وہ جو کہہ رہے ہیں کہ ہم تو مصلح ہیں ۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ لڑائی
بھڑائی نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ خواہ مخواہ کی خونریزی نہیں ہونی چاہیے ۔یہ اس طریقہ سے
کٹ جانا بھی کیا ضروری ہے ۔ٹھیک ہے رواداری ہونی چاہیے ۔ ان کی بات بھی ٹھیک ہے ۔وہ
اپنی جگہ پر خوش ہیں اور ہم اپنی جگہ پر خوش ۔ بات جو ہے ذرا میٹھے انداز میں صرف کی
جانی چاہیے ۔بجائے اس کے یہ تلخ انداز اختیار کیے جائیں ۔ بجائے اس کے کہ کٹنے اور
جڑنے کا عمل کیا جائے ۔ اس کی بجائے مصالحت کی روش اختیار کی جائے ۔
جیساکہ
میں عرض کر چکا ہوں کہ ولید بن مغیرہ کا کردار مکی دور میں یہی تھا ۔ اور یہاں مدینے
میں آکر یہود کا اور پھر منافقین کا ان کے زیر اثر کردار یہی تھا۔ چنانچہ کہا گیا: ‘‘واذا قیل لھم لا تفسدو فی الارض’’ (سورہ البقرہ
، آیت ۱۱، ۱۲)
یعنی جب ان سے کہا جاتا زمین میں
فساد مت مچاو ۔ اور فساد سے مراد مخالفت اللہ کے رسول اور ان کے ساتھیوں کی ۔ ان کی مخالفت کرنے کی بجائے ان کے دست و بازو بنو
۔ ان کا ساتھ دو ۔ ‘‘قالو ا’’ وہ یہ کہتے: ‘‘انما نحن مصلحون ’’ ۔ دیکھو بھئی ہم تو چاہتے
ہیں کہ بھائی چارے کی فضا بر قرار رہے ۔ یہ تصادم نہ ہو ۔ یہ کشاکش نہ ہو ۔یہ خونریزی
نہ ہو ۔ یہ خواہ مخواہ کا جو ہے ۔ ایک دوسرے سے کٹ جانا اچھا نہیں ہے ۔ ‘‘الا انھم
ھم المفسدون ’’ (سورہ البقرہ ، آیت ۱۱، ۱۲)
۔ اب جو میں نے وضاحت کی ہے فساد
کی وہ ڈیفینیشن اور امن کی وہ ڈیفینیشن اگر سامنے ہو تو اب یہ ایک ایک حرف اس کا ابھر
کر آئے گا ۔ اجاگر ہوگا ۔ ‘‘الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون ’’ (سورہ البقرہ
، آیت ۱۱، ۱۲)
۔انہیں پتہ نہیں ہے ۔حقیقت ان کے
سامنے واضح نہیں ہے ۔ یہ دیکھ رہے ہیں ۔ شورٹ سائٹیڈ ہیں ۔ یہ صرف اس وقت دیکھ رہے
ہیں کہ کوئی تکلیف نہ آجائے ۔ کوئی مصیبت نہ آجائے ۔ کوئی جھگڑا نہ ہو ۔کوئی ایک
دوسرے کے خالف صف آرا ہونے کی پوزیشن نہ ہو جائے ۔ ایک دوسرے سے کٹ نہ جائے۔ بلکہ
یہ کہ صلح کل اور رواداری کے انداز میں معاشرے کے اندر ہم مل جل کر رہیں ۔حقیقت میں
یہ فساد ہے ۔ اس لیے کہ یہ جو فساد کو رفع کرنے کی جد و جہد ہو رہی ہے اس کا ساتھ دینا
ہے ۔یہ ضروری ہے ۔ لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
---
(مولانا مودودی ، حقیقت جہاد ، ص ۶۴،
تاج کمپنی لیمیٹیڈ، لاہور ، پاکستان ، ۱۹۶۴)
اپنے
اسلامی معتقدات و اعمال کی سیاسی تشریح کو فروغ دینے کے لیے مولانا مودودی نے ان عبادات
کے متعلق مسلمانوں کے اتفاق رائے اور اجماع کو بھی چیلینج کیا جن کو مسلمان اللہ کی
رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔مولانا مودودی نے ان عبادات کو
"مسلمانوں کو جہاد کے لئے تیار کرنے کا آلۂ کار" قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
"نماز جہاد کے لئے ایک تربیتی
مشق ہے۔ زکوٰۃ (صدقہ) جہاد کے لئے ایک فوجی فنڈ ہے۔ روزہ فوجیوں کی طرح ایک تربیت ہے
جنہیں جہاد کے دوران طویل مدت کھانے کے بغیر رہنا پڑتا ہے۔ حج بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں
کی سازش کے لئے فطری اعتبار میں ایک بہت بڑی کانفرنس ہے۔ پس، نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور
حج کا حقیقی مقصد اسی جہاد کی تیاری اور تربیت ہے" (Fundamental
of Islam صفحہ 250)۔
مولانا
مودودی نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی وکالت کی جہاں نام نہاد "اسلامی جہاد"
اس وقت تک ہر مسلمان پر فرض ہوگا جب تک تمام روئے زمین پر اللہ کی حکومت قائم نہ ہو
جائے، جہاں غیر مسلموں کے حقوق محدود کر دیے جائیں گے اور انہیں ان کے مذہب، رسومات،
عبادات یا سماجی روایات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جہاں "اسلامی
جہاد" ریاستی امور شرکت کے ان کے حق کو تسلیم نہیں کریگا، جیسا کہ مولانا کی تحریروں
میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔
مولانا
مودودی نے تقریبا 120 کتابیں تصنیف کیں ہیں جن میں انہوں نے بنیاد پرست اسلام پسند
نظریات کی عقلی اور فقہی سطح پر حمایت کی۔ اپنی کتاب حقیقت جہاد میں انہوں نے اپنے
نقطہ کو اس طرح واضح کیا ہے:
"ایک ‘مسلم جماعت’ اپنی حفاظت
اور عام اصلاحات دونوں کے پیش نظر محض کسی ایک خطۂ ارض پر اسلام کے قیام سے مطمئن
نہیں ہو سکتی۔ انہیں روئے زمین کے تمام خطوں پر اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایک طرف وہ اپنے نظریات کی اشاعت کرے گی؛ اور دوسری طرف اس میں پوشیدہ نجات حاصل کرنے
کے لئے اس کے معتقدات و نظریات کو قبول کرنے کے لیے تمام قوموں کو مدعو کرے گی۔ اگر
اسلامی ریاست کے پاس طاقت اور وسائل ہوں تو وہ غیر اسلامی حکومتوں کا مقابلہ کرے گی
اور انہیں تباہ کر کے اور ان کی جگہ اسلامی ریاستیں قائم کرے گی۔
(مولانا مودودی، حقیقت جہاد، ص 64، تاج کمپنی لمیٹڈ،
لاہور، 1964 پاکستان)
ایک
اور کتاب "الجہاد فی الاسلام" (اسلام میں جہاد) میں، انہوں نے اپنی بنیاد
پرست ذہنیت اور جہاد کی عسکریت پسند تشریح کو اس طرح بیان کیا ہے:
"اس بحث سے آپ پریہ بات واضح ہو
گئی ہو گی کہ اسلامی جہاد کا مقصود غیر اسلامی نظام کی حکومت کو مٹا کر اسلامی حکومت
قائم کرنا ہے۔ اسلام یہ انقلاب صرف ایک ملک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں
برپا کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ ابتداء ً مسلم پارٹی کے ارکان کا فرض یہی ہے کہ جہاں جہاں
وہ رہتے ہوں ، وہاں کے نظامِ حکومت میں انقلاب پیدا کریں لیکن ان کی آخری منزلِ مقصود
ایک عالم گیر انقلاب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
(جہاد فی سبیل اللہ: اسلام میں جہاد،
سید ابو الاعلی مودودی، باب 3، ص 10)
اپنی
تحریروں میں مولانا نے مسلمانوں کو جسمانی طور پر "بری طاقتوں" کے خلاف جنگ
کرنے کی نصیحت کی اور "دنیا کی بری طاقتوں" کے خلاف جنگ میں ان کی زندگی،
جائداد، طاقت، مال و دولت اور صحت سب کو تباہ کرنے تک کا حکم دے دیا۔ وہ اپنی کتاب
"اسلام میں جہاد" میں لکھتے ہیں: "ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے
پورا زور صرف کر رہا ہے۔ لیکن ‘‘مسلمان’’ جس انقلابی جماعت کا نام ہے اس کے انقلابی
نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپاؤ،
دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو، اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کر دو، نہ اس
لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم ان کی جگہ لے لو، بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی
و طغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذ ہو۔"
وہ
مزید لکھتے ہیں: یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر جب آپ غور کریں گے تو یہ بات بآسانی
آپ کی سمجھ میں آ جائے گی کہ جنگ کی جو تقسیم جارحانہ (Aggressive)
اور مدافعانہ (Defensive)
کی اصطلاحوں میں کی گئی ہے،اس کا اطلاق سرے سے اسلامی جہاد پر ہوتا ہی نہیں۔ یہ تقسیم
صرف قومی اور ملکی لڑائیوں پر ہی منطبق ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اصطلاحاً ‘‘حملہ’’ اور
‘‘مدافعت’’ کے الفاظ، ایک ملک یا ایک قوم کی نسبت سے ہی بولے جاتے ہیں۔ مگر جب ایک
بین الاقوامی پارٹی ایک جہانی نظریہ و مسلک کو لے کر اٹھے اور تمام قوموں کو انسانی
حیثیت سے اس مسلک کی طرف بلائے اور ہر قوم کے آدمیوں کو مساویانہ حیثیت سے پارٹی میں
شریک کرے اور محض مسلکِ مخالف کی حکومت کو مٹا کر اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کے
لیے جدوجہد نہ کرے، تو ایسی حالت میں اصطلاحی حملہ اور اصطلاحی مدافعت کا قطعاً کوئی
سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اصطلاح سے قطع نظر کر لی جائے تب بھی اسلامی جہاد
پر جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم منطبق نہیں ہوتی۔ اسلامی جہاد بیک وقت جارحانہ بھی
ہے اور مدافعانہ بھی۔ جارحانہ اس لیے کہ مسلم پارٹی مسلک مخالف کی حکمرانی پر حملہ
کرتی ہے اور مدافعانہ اس لیے کہ خود اپنے مسلک پر عامل ہونے کے لیے حکومت کی طاقت حاصل
کرنے پر مجبور ہے۔ "(مولانا مودودی:۔ الجہاد فی الاسلام )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب
ہم عبدالرحمن حمزہ کے مضمون کی طرف واپس لوٹتے
ہیں
تفسیرابن
کثیرمیں سورہ بقرہ کی آیت۱۹۱ اور
۱۹۳
جن میں فتنہ کالفظ الگ الگ آیا
ہے اس طرح بیان کیاگیاہے ، ’’ظلم زیادتی اللہ کو ناپسندہے اورایسے لوگوں سے اللہ ناخوش
رہتاہے۔ چونکہ جہاد کے احکام میں بہ ظاہرقتل وخون ہوتاہے اس لئے یہ بھی فرمادیا کہ
اِدھراگرقتل و خون ہے تواُدھر اللہ کے ساتھ شرک اورکفرہے اوراس مالک کی راہ سے اس کی
مخلوق کوروکنا ہے اوریہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے ‘‘یہ تو آیت نمبر ۱۹۲کی
تشریح ہے۔آیت نمبر۱۹۳ کی
تشریح اس طرح بیان ہوئی ہے ،’’پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تاکہ
یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اوراللہ تعالی کا دین غالب آجائے اوربلند ہوجائے اورتمام دنیا
پر ظاہر ہوجائے ‘‘۔
تفہیم
القرآن میں ان دونوں آیات کی تشریح مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب نے مندرجہ ذیل الفاظ
میں کی ہے۔
آیت
نمبر۱۹۱/۱۹۲ جس
کا مفہوم ہے’’ ان سے لڑوجہاں بھی ان سے تمہارا مقابلہ ہواورانہیں نکالوجہاں سے انہوں
نے تمہیں نکالا اس لئے کہ قتل گرچہ بُراہے مگرفتنہ اس سے بھی زیادہ براہے۔پھراگروہ
بازآجائیں توتم سمجھ لوکہ ظالموں کے سواکسی پر دست درازی روانہیں’’
اس
پر اپنے نوٹ نمبر۲۰۲ میں
مولانا مودودی صاحب لکھتے ہیں’’یہاں فتنے کالفظ اسی معنی میں استعمال ہواہے جس میں
انگریزی کا لفظ persecution
بمعنی ظلم استعمال ہوتاہے ۔
آیت
نمبر۱۹۳ جس
کا مفہوم ہے (تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین اللہ کے لئے ہوجائے
پھراگروہ بازآجائیں توتم سمجھ لو کہ ظالموں کے سواکسی پردست درازی روانہیں)
اس
پراپنے نوٹ نمبر۲۰۴ اور۲۰۵
میں مولانا مودودی صاحب رقمطرازہیں:
’’یہاں فتنہ کا لفظ اوپرکے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے سیاق وسباق سے
صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر’فتنہ‘ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی
اورکے لئے ہو،اورلڑائی کامقصد یہ ہے کہ فتنہ ختم ہوجائے اوردین صرف اللہ کے لئے ہوجائے۔
بازآجانے
سے مراد ہے کافروں کا اپنے کفروشرک سے بازآجانا نہیں، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے۔ کافرمشرک،
دہریے ہرایک کواختیارہے کہ اپنا جوعقیدہ رکھتا ہے رکھے اورجس کی چاہے عبادت کرے یا
کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اسکو نکالنے کے لئے ہم اسے فہمائش اورنصیحت کریں گے مگراس
سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اسے یہ حق ہرگزنہیں ہے کہ خدا کی زمین پرخدا کے قانون کے بجائے
اپنے باطل قوانین جاری کرے اورخدا کے بندوں کوغیر از خدا کسی کا بندہ بنائے ۔اس فتنے
کو دفع کرنے کے لئے حسب موقع اورحسب امکان تبلیغ اورشمشیر دونوں سے کام لیا جائے گا
اورمؤمن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا جب تک کفار اپنے فتنے سے بازنہ آجائیں۔
مفتی
شفیع عثمانی کی معارف القرآن
مفتی
شفیع عثمانی صاحب اپنی تفسیرمعارف القرآن میں مذکورہ بالاآیات کے لفظ فتنہ کے بارے
میں لکھتے ہیں،’’یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ کسی کوقتل کرناسخت براکام ہے مگرکفارمکہ
کا اپنے کفروشرک پہ جمے رہنا اورمسلمانوں کوادائے عبادت حج وعمرہ سے روکنااس سے زیادہ
سخت وشدید ہے ،اس سے بچنے کے لئے انکو قتل کرنے کی اجازت دیدی گئی ،آیت میں لفظ فتنہ
سے کفروشرک اورمسلمانوں کو ادائے عبادت سے روکناہی مرادہے (جصاص،قرطبی وغیرہ)
البتہ
اس آیت کے عموم سے جویہ سمجھاجاسکتاتھاکہ کفارجہاں کہیں ہوں انکاقتل کرناجائزہے اس
عموم کی ایک تخصیص آیت کے اگلے جملے میں اسطرح کردی گئی ولاتقاتلوہم عندالمسجدالحرام
حتی یقاتلوکم فیہ یعنی مسجد حرام کے آس پاس جس سے مراد پورا حرم مکہ ہے اس میں تم ان
لوگوں سے اس وقت تک قتال نہ کرو جب تک وہ خودقتال کی ابتدا نہ کریں۔
وہ
مزیدلکھتے ہیں کہ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابتدائی جہادوقتال (offensive
jihad )(یعنی اقدامی جہادجس میں مسلمان کفروشرک کومٹانے اوراللہ کے دین کو
غالب کرنے کے لئے خودپہل کریں) کی ممانعت صرف مسجدحرام کے آس پاس حرم مکہ کا احاطہ
مخصوص ہے دوسرے مقامات میں جیسے دفاعی جہاد ضروری ہے اسی طرح ابتدائی جہادوقتال (offensive
jihad)بھی درست ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ
توبہ (۹: ۱ تا
۵) کی تفسیر میں مولانا محمد صاحب جونا گڑھی اور مولانا صلاح
الدین یوسف
سعودی
عرب سے تقسیم ہونے والی تفسیرقرآن جس کا ترجمہ مشہوراہل حدیث عالم دین مولانامحمدصاحب
جوناگڑھی اورحواشی مولانا صلاح الدین یوسف صاحبان کے قلم سے ہیں اس میں سورہ برأت کی
ان آیات کی تشریح اس طرح بیان ہوئی ہے ۔ ’’یہ اعلان برأت (یعنی تمام پچھلے معاہدے ختم
کرکے چارماہ کی مدت مشرکین کودیکرپھرانہیں اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں قتل کرنے
کی اجازت)ان مشرکین کے لئے تھاجن سے غیرموقت معاہدہ تھا یاچار ماہ سے کم کاتھا یاچارماہ
سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھالیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ان
سب کوچارمہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔جہاں تک ان قبائل کاسوال ہے جنہوں نے
پوری ایمانداری سے معاہدوں اورجنگی اصولوں کااحترام کیاتھاانکے ساتھ معاہدے کی بچی
ہوئی مدت (غالبا ۹مہینے )کالحاظ رکھنے کاحکم مسلمانوں کودیاگیالیکن انکی مدت
ختم ہوجانے کے بعدوہ بھی اس اعلان برأت کے مخاطب قرارپائے جیسا کہ آیت نمبر۴ جسکامفہوم ہے ’’بجزان مشرکین کے جن سے تمہارامعاہدہ ہوچکاہے
اورانہوں نے تمہیں ذرا بھی نقصان نہیں پہنچایانہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے توتم
بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو‘‘صاف ظاہرکرتی ہے کہ انکی مدت ختم ہونے
کے بعد انکے سامنے بھی تین صورتیں بچیں گی، یا تواسلام قبول کریںیاجزیرۂ عرب سے باہرنکل
جائیںیاموت کاسامنا کرنے کے لئے تیارہوجائیں۔
تفسیر
نور العرفان جو ایک مشہور بریلوی تفسیر ہے، اس میں سورہ بقرہ کی آیت ۲:۱۹۳
کے تحت ہے:
‘‘اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کا مقصود
کفار کا مٹانا نہیں بلکہ کفر کا زور توڑنا ہے تاکہ اسلام کی اشاعت میں دشواری نہ واقع
ہو۔ اس طرح کہ مسلمانوں کو رب کی عبادت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے یا یہ مطلب ہے کہ
مکہ معظمہ میں صرف مسلمان ہی رہیں جو ایک اللہ کی عبادت کریں، دوسری قوم نہ رہے۔
’’
مشہور
بریلوی عالم مولانا نعیم الدین مرادآبادی کی تفسیر خزائن العرفان
دلچسپ
بات یہ ہے کہ ایک اور بریلوی مفسر مولانا نعیم الدین مرادآبادی اپنی تفسیر خزائن العرفان
میں سورہ بقرہ آیت ۱۹۳ میں
مذکور لفظ فتنہ کی تفسیر کفر و شرک سے کرتے ہیں۔ وہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۱
یعنی (اور کافروں کو جہاں پاو مارو)
کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ‘‘جو جنگ کے قابل نہیں ہیں ان سے جنگ نہ کرو، یا جن سے تم
نے عہد کیا ہو ان سے بغیر دعوت کے جنگ نہ کرو کیونکہ طریق شرع یہ ہے کہ پہلے کفار کو
اسلام کی دعوت دی جائے اگر وہ انکار کریں تو جزیہ طلب کیا جائے، اب اگر اس سے بھی انکار
کریں تو ان سے جنگ کی جائے۔ اس منع پر اس آیت کا حکم باقی ہے، منسوخ نہیں ہوا ہے۔’’
وہ مزید لکھتے ہیں: ‘‘فتنہ سے شرک مراد ہے کا مسلمانوں کا مکہ مکرمہ میں داخل ہونے
سے روکنا’’۔ پھر سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۳ کے
تحت رقمطراز ہیں: ‘‘پھر اگر وہ باز آ جائیں یعنی اگر کفر و شرک سے باز آ جائیں’’۔۔۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی منہاج القرآن
193. اور ان سے جنگ کرتے رہو حتیٰ کہ
کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے تابع ہو جائے (یعنی امن و سلامتی اور انسانی
تکریم کے تحفظ کا نظام عملاً قائم ہوجائے)، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں
کے کسی پر زیادتی روا نہیں’’
مذکورہ
بالا آیت ۲:۱۹۳ کے
حاشیہ میں ڈاکٹر طاہر القادری رقمطراز ہیں: ‘‘جہاد اور انقلابی جد و جہد دینی فریضہ
ہیں۔اور فتنہ باطل کے مکمل خاتمہ اور قیام امن تک انقلابی جنگ جاری رہنی چاہیے۔ غلبہ
اور نفاذ دین جہاد اور انقلابی جنگ آخری منزل ہے۔ہاں اگر مخالف قوت فتنہ پروری سے
باز آ جائیں تو ان پر سختی نہ کی جائے ۔
عبد
الرحمٰن حمزہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "کوئی بھی شخص جو اسلام اور جہاد کا
کافی علم رکھتا ہے وہ آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری آیت
2: 193 میں لفظ فتنہ سے در حقیقت کیا مراد ہے ، حالانکہ انہوں نے بڑے احتیاط سے الفاظ
اور جملے استعمال کیے ہیں تاکہ وہ ہجومی یا جارحانہ جہاد کا اصل مقصد چھپائیں جو ان
کے اپنے بیان کے مطابق "پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ اور شریعت کا نفاذ ہے۔"
“میں واقعی حیران ہوں! دیوبندی اور بریلوی علما کیا
کہہ رہے ہیں اور مولانا مودودی نے کیا لکھا ہے ان کی باتوں میں ذرہ برابر بھی فرق نظر
نہیں آرہا ہے۔ یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں بھی مسلمان قدرت رکھتے ہیں وہاں جہاد
کا مقصد کفر و شرک کی طاقتوں کو ختم کرنے کے بعد پوری دنیا میں اسلام کا تسلط و غلبہ
قائم کرنا ہے۔ لہذا ہمیں اس پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ داعش ، بوکو حرام، الشباب ،القاعدہ
،لشکر طیبہ اور طالبان اپنے دینی علماء کی رہنمائی میں اپنی سرزمینوں میں اپنے دینی
فرائض کو انجام دینے کے لئے کیا کیا کر رہے ہیں۔ .
‘‘اب آئیے قرآن کریم کی آیت ۹:۵
کے متعلق سید محسن حامد کے دعوی
پر غور وفکر کرتے ہیں، جس میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: (پھر حرمت والے مہینوں کے
گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصره کرلو اور ان کی
تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وه توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں
اور زکوٰة ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ
مہربان ہے)۔
‘‘حامد محسن صاحب کا اس آیت کے تعلق سے کہنا ہے
کہ اس آیت کو تمام زمانوں کے لیے بطور حکم کے نہیں مانا جا سکتا ہے۔ یہ آیت امن و
سلامتی کے عہد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے ایک مخصوص ہدایت ہے۔ اس آیت میں مقدس
مہینوں کا تذکرہ ہے جن میں ایک طرح کا معاہدہ برقرار رہنا تھا ۔ لیکن دراصل بنی ضمرہ
اور بنی کنانہ کے قبائل (جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا احترام کیا)
کے سوا، مدینہ کے دوسرے تمام قبائل اکثر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے رہے اور مسلمانوں
کا قتل عام کرتے رہے۔ در حقیقت اس طرح کی خلاف ورزی عرب قبائل کی مشترکہ خصوصیت تھی۔
یہ وہ مخصوص لوگ ہیں جن کی طرف اس آیت کا اشارہ ہے، نہ کہ وہ مشرکین جنہوں نے امن معاہدوں
کا احترام کیا۔
ابن
کثیر کہتے ہیں: ‘‘اللہ تعالی نے فرمایا (۹: ۱ تا ۲)
‘اللہ اور اس کےرسول کی بیزاری کا
اعلان ہے ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا۔ پس اے مشرکو تم ملک
میں چار مہینے تک چل پھر لو’’
اس
آیت سے مراد وہ مشرکین ہیں جن کے ساتھ غیر معینہ معاہدہ کیا گیا تھا اور وہ جن کے ساتھ
مسلمانوں کا معاہدہ چار ماہ سے بھی کم عرصے میں ختم ہوا۔ ان معاہدوں کی شرائط صرف چار
ماہ تک محدود تھیں۔ تو ان لوگوں کے لئے جن کی مدت ایک خاص مدت (چار مہینوں کے بعد)
ختم ہوئی ، پھر ان کے معاہدوں کا خاتمہ اس وقت ہوگا جب ان کی شرائط ختم ہوجائیں ، چاہے
اس کے بعد کتنا ہی عرصہ گزرے ، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
۹:۴ ‘‘البتہ جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے
ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ
جس مدت کے لیے معاہدہ ہوا ہے اسے پورا کرو، بتحقیق اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔’’
بعض
مشرک قبائل جو اپنے وعدے پر قائم رہے ان میں سے بنو حمزہ اور بنو کنعانہ کے قبائل تھے
جنہوں نے مسجد حرام کے نزدیک عہد کیا تھا اور اس پر قائم رہے ۔ ان کے بارے میں اللہ
تعالی نے فرمایا: ”تو ان کے ساتھ ان کا معاہدہ ان کی مدت کے اختتام تک پورا کرو
(9:4)۔ ایک قول یہ ہے کہ باقی مدت نو ماہ تھی۔
۹:۵ ‘‘پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو تم جہاں پاؤ
قتل کرو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات پر ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر وہ
توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ
بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے’’۔
"تمام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
اس شرط (جزیرہ نما عرب کو چھوڑنا یا مرنے کے لئے تیار ہونا یا معافی کے لیے اسلام کے
تابع ہونا) تمام مشرکین پر بغیر کسی استثنا کے یکساں طور پر لاگو تھا: وہ لوگ جو اکثر
معاہدہ توڑدیا کرتے تھے اور وہ جو معاہدہ کی مدت پوری ہونے تک معاہدہ پر قائم رہے وہ سب اس میں شامل ہیں۔لہذا یہ بات بالکل واضح ہے
کہ لڑائی غدار دشمن کے خلاف نہیں تھی بلکہ کفر و شرک کے خلاف تھی۔’’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاد
پر جاوید احمد غامدی کا نظریہ
غامدی
صاحب کا عقیدہ ہے کہ جنگ سے متعلق قرآن کی کچھ ہدایت موجود ہیں جو صرف حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم اور ان کے زمانے کے کچھ مخصوص لوگوں (خاص طور پر آل ابراہیم: اسماعیلیوں،
بنی اسرائیل اور نزاریوں) کے لئے مخصوص تھیں۔ چنانچہ ، نبی علیہ السلام اور ان کے نامزد
متبعین اپنے وقت کے قرآن کے طرف سے مخصوص کیے گئے لوگوں (مشرکین ، اسرائیلیوں اور
عرب کے نزاریوں اور بعض یہودیوں ، عیسائیوں وغیرہ) کے ساتھ مقدس جنگ کی ایک شکل کے
طور پر لڑے اور مشرکین عرب سے کہا گیا کہ کفارہ کی شرط کے طور پر وہ اسلام قبول کریں
یا جزیہ ادا کریں اور مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو قبول کرتے ہوئے سزائے موت سے بچیں
اور ذمی کی حیثیت سے مسلم فوج کے ذریعے تحفظ حاصل کریں۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
اور ان کے ساتھیوں کے بعد اب اسلام میں اب ایسا تصور نہیں کہ وہ مسلمانوں کو اسلام
کہ تبلیغ یا شریعت کے نفاذ کے لئے جنگ لڑنے پر مجبور کریں۔ اسلحے کے ذریعے جہاد کی
واحد جائز صورت ظلم کا خاتمہ ہے لیکن اس وقت جب دوسرے تمام اقدامات ناکام ہو چکے ہوں۔
حوالہ:
میزان ، اسلامی قانون جہاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا
وحید الدین خان کا نظریہ
ہزاروں
برس کی پیغمبرانہ کوشش ثابت کر چکی تھی کہ مجرد فکری اور دعوتی جد و جہد انسان کو توہمات
کے اس دور سے نکالنے کے لیے ناکافی ہے ۔اس زمانہ کی حکومتیں بھی انہیں توہماتی عقائد(شرک
و کفر) کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں۔ اس لیے حکمرانوں کا مفاد اس میں تھا کہ توہماتی
دور دنیا میں باقی رہے ۔تاکہ عوام کے اوپر ان کی بادشاہی کا حق مشتبہ نہ ہونے پائے
۔اس لیے وہ اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کو ہر اس دعوت کے خلاف بھرپور طور پر استعمال
کرتے تھے جو شرک اور توہم پرستی کو ختم کرنے کے لیے اٹھی ہو۔
اب
سوال یہ تھا کہ کیا جائے ۔یہی وہ وقت ہے جب کہ چھٹی صدی عیسوی میں پیغمبر آخر الزماں
صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا ۔اللہ تعالی نے اپنے خصوصی فیصلہ کے تحت آپ کو ‘‘داعی’’
بنانے کے ساتھ ‘‘ماحی’’ بھی بنایا ۔یعنی آپ کے ذمہ یہ مشن سپرد ہوا کہ آپ نہ صرف
اس توہماتی نظام کے باطل ہونے کا اعلان کریں بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی خاطر
اس کے خلاف فوجی کارروائی (میلیٹری آپریشن) بھی فرمائیں۔
انسانوں
کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کا یہی کام تمام پیغمبروں کے سپرد ہوا تھا ۔تاہم
پیغمبر اسلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لیے اللہ تعالی نے فیصلہ کیا کہ آپ صرف
پیغام پہنچا کر انسانیت کو اس کے حال پر نہ چھوڑ دیں بلکہ اقدام کرکے ان کی حالت کو
عملا بدل ڈالیں۔
اس
عملی اقدام کو کامیاب بنانے کے لیے جو ضروری اسباب درکار تھے ، وہ سب اللہ تعالی نے
آپ کے لیے مہیا فرمائے۔ نیز یہ ضمانت بھی دے دی کہ دنیوی اسباب کی ہر کمی فرشتوں کی
خصوصی مدد سے پوری کی جائے گی ۔
یہ
بات حدیث میں مختلف انداز سے بیان ہوئی ہے۔ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: وانا الماحی الذی
یمحو اللہ تعالی بی الکفر (یعنی میں مٹانے والا ہوں جس کے ذریعے سے اللہ تعالی کفر
کو مٹائے گا ) گویا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم صرف داعی نہ تھے۔اسی کے ساتھ وہ
ماحی بھی تھے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر کے مشن کی تکمیل کے لیے صالح انسانوں
کے علاوہ اللہ اور فرشتے تک اس کے مددگار ہیں۔
ایسا
اس لیے ہوا کہ اللہ تعالی کو جو نیا دور ظہور میں لانا تھا ، اس کا ظہور ممکن ہو سکے
۔ (ماخوذ از ، مولانا وحید الدین خان : اسلام دور جدید کا خالق)
“لیکن مولانا وحیدالدین خان کی باتوں میں بہت سارے
مواقع پر تضاد ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر، وہ اپنی کتاب ، "اسلام میں حقیقی جہاد
: امن کا تصور ، امن میں رواداری اور عدم تشدد " میں لکھتے ہیں :‘‘قرآن مجید میں
کچھ ایسی آیات ہیں جو مندرجہ ذیل آیت سے ملتے جلتے احکامات پیش کرتی ہیں:
‘‘مشرکوں کو جہاں پاو قتل کردو ’’
(2:191)
ایسی
آیات کا حوالہ دیتے ہوئے ، کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں
کہ اسلام جنگ اور تشدد کا مذہب ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ ایسی آیات کا تعلق محدود معنی
میں ہے۔ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے یک طرفہ طور پر مسلمانوں پر حملہ کیا۔ مذکورہ
بالا آیت اسلام کے عمومی حکم کو بیان نہیں کرتی ہے۔ (صفحہ 42-43) "
"مذکورہ بالا عبارت کے برخلاف
، وہی مولانا وحدن الدین خان اپنی اردو تفسیر ،" تذکیر القرآن "میں اسی آیت
پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
‘‘مومن کو دین کا عامل بننے کے ساتھ دین کا مجاہد
بھی بننا ہے ۔ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے وہ جہاد وہ ہے جو رسول اللہ کے زمانہ میں پیش
آیا۔عرب کے مشرکین اتمام حجت کے باوجود رسالت سے انکار کرکے اپنے لیے زندگی کا حق
کھو چکے تھے۔ نیز انہوں نے جارحیت کا اظہار کر کے اپنے خلاف فوجی اقدام کو درست ثابت
کر دیا تھا ۔اس بنا پر ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم ہوا ، ‘‘اور ان لڑو یہاں تک
کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے ’’ کا مطلب یہ ہے کہ ساری زمین عرب سے
شرک کا خاتمہ ہو جائے اور دین توحید کے سوا کوئی دین وہاں باقی نہ رہے ۔اس حکم کے ذریعے
اللہ تعالی نے عرب کو توحید کا دائمی مرکز بنا دیا’’۔
تاہم
مولانا وحیدالدین خان یہ بھی مانتے ہیں کہ جنگ سے متعلق قرآن میں کچھ ہدایات موجود
ہیں جو صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دور کے بعض لوگوں کے لئے مخصوص
تھیں۔ نبی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے بعد اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے
کہ وہ مسلمانوں کو اسلام کی تبلیغ یا اس کے نفاذ کے لئے جنگ لڑنے پر مجبور کرے کیونکہ
ہمارے دور میں یہ ممکن نہیں ہے’’۔
عبد
الرحمن حمزہ نتیجہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ظاہر ہے کہ علما کا صرف یہ بیان
کرنا کہ اسلام کا جارحانہ یا ہجومی جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے جیساکہ آج دنیا بھر
میں ایسا ہی ہو رہا ہے مفید نہیں ہوگا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انہیں کچھ نہ کچھ
کرنا ہوگا۔ انہیں لازمی طور پر ایک موقف اپناکر یہ واضح کرنا ہوگا کہ آخر کیوں صدیوں
تک معروف ہندوستانی علمائے کرام سمیت اسلام کے ائمہ ، مفسرین ، محدثین وغیرہم جنگی
وقت کی قرآنی آیات کی جارحانہ جہاد کی ترجمانی کی۔ جہادی اور اسلامو فوبز دونوں ہی
ان آیات کا استعمال اپنے اپنے نظریہ کا جواز پیش کرنے کے لئے کر رہی ہیں۔ علما کا
یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلہ کو پوری طرح واضح کریں تاکہ ان مسلم نوجوانوں کی
اصلاح ہو جو بڑی تعداد میں داعش میں شامل ہورہے ہیں اور ساتھ ہی غیر مسلم کے لیے بھی
مفید ہو جو واضح وجوہات کی بناء پر اسلام سے خوف کھاتے ہیں۔
Releted Article:
Ulema
should take a clear stand on offensive Jihad اقدامی جہادپرواضح موقف اختیار کرنے
کی ضرورت
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/waseem-rizvis-challenge-opportunity-ulema/d/124599
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism