نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
13 جون 2023
اگست 2021 میں افغانستان
میں غیر جمہوری طریقے سے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے خواتین اور لڑکیوں
کے خلاف جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مہم چھیڑی اور انہیں تعلیم ، معاش ،
ملازمت اور فنون لطیفہ کے شعبے سے الگ کردیا اس کے بھیانک نتائج اب سامنے آنے لگے
ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر طالبان کے ذریعہ
لگائی گئی پابندیوں کے ان پر نفسیاتی اثرات پر ایک تفتیشی رپورٹ شائع کی۔اس رپورٹ
میں خواتین پر پابندیوں کے نفسیاتی اثرات کا پہلی بار جائزہ لیا گیا۔ اس سے قبل
صرف معاشی اور سماجی نقطہ نظر سے ہی اس مسئلے پر بحث ہوتی رہی ہے۔
اس رپورٹ نے پہلی بار یہ
انکشاف کیا کہ طالبان کے ذریعہ لگائی گئی عورتوں پر پابندیوں کے نتیجے میں خواتین
خصوصا کم عمر لڑکیوں میں خودکشی کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ افغانستان میں پہلے
ہی سے قبائلی طرز زندگی میں لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا اور بارہ برس
کی عمر کے بعد لڑکیوں کا تعلیم کے لئے گھر سے باہر نکلنا ممنوع تھا۔ چونکہ طالبان
سے قبل والی جمہوری حکومت میں لڑکیوں کو پرائمری سے لیکر اعلی تعلیم تک کی آزادی
تھی اس لئے لڑکیاں اکثر سماجی پابندیوں کے باوجود اسکول اور کالج جاتی تھیں چونکہ
قبائلی سردار کھل کر ان کی تعلیم کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے اس لئے وہ اپنی لڑکیوں
کو تعلیم سے روکنے کے لئے انہیں خفیہ طور پر زہر دیکر مار دیتے تھے یا مار دینے کی
کوشش کرتے تھے۔
سماجی پابندیوں سے تنگ
آکر بہت سی لڑکیاں خودکشی کرلیتی تھیں۔ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر مردوں میں
خودکشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن افغانستان میں عورتوں میں
خودکشی کا رجحان مردوں کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ یہاں خودکشی کے 80 فی صد واقعات
عورتوں میں واقع ہوتے ہیں۔ 2021 ء کے بعد سے عورتوں میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ
ہوا ہے۔تعلیم پر پابندی کے نتیجے میں لڑکیاں خودکشی کررہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی
ہیں کہ تعلیم کے بغیر زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا ۔
افغانستان میں لڑکیوں کو
درجہ ششم تک ہی تعلیم کی اجازت ہے۔ کیونکہ قبائلی کلچر میں بارہ برس کی عمر کے بعد
لڑکیوں کا گھر سے باہر جانا اور غیر مردوں کے رابطے میں آنا ممنوع ہے۔اعلی تعلیم
حاصل نہ کرپانے کی وجہ سے لڑکیاں خود کو بے بس اور مظلوم محسوس کررہی ہیں اور
خودکشی کا اقدام کررہی ہیں۔
اس دوران یہ حقیقت بھی
سامنے آئی کہ لڑکیوں کا درجہ ششم تک بھی تعیم حاصل کرنا قبائلی سرداروں کو منظور
نہیں ہے۔ لڑکیوں کو زہر دے کر مارنے کی کوششوں کی رپورٹ بھی سامنے آئی ہے۔ چند دن
قبل سرپل میں ایک اسکول کی 80 لڑکیوں کو زہر دیکر مارنے کی کوشش کی گئی۔ انہیں
اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اسکولوں میں لڑکیوں کو زہر دینے کے واقعات نئے نہیں
ہیں۔ 2016ء میں کابل کے رضیہ ہائی اسکول کی 200 طالبات کو خفیہ طریقے سے زہر دیا
گیا تھا۔ 2015ء میں قدامت پسندوں نے دس ہزار لڑکیوں کو زہر دیکر مارنے کی کوشش کی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کے قبائلی سردار لڑکیوں کو ابتدائی تعلیم دینے کے
بھی مخالف ہیں۔چونکہ وہ کم سن لڑکیوں کی تعلیم۔کی کھل کر مخالفت نہیں کرسکتے اس
لئے وہ انہیں خفیہ طریقے سے زہر دیکر مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان حالات میں افغانستان
کی خواتین اور لڑکیاں ڈپریشن اور مایوسی کی شکار ہیں اور ان میں خودکشی کا رجحان
بڑھ رہا ہے افغان پارلیامنٹ کی سابق اسپیکر فوزیہ کوفی کا کہنا ہے کہ ہرروز ایک یا
دو لڑکیاں خودکشی کررہی ہیں۔ لیکن اس مسئلے پر افغانستان یا دیگر اسلامی ممالک کے
علماء بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام نے لڑکیوں کو
بھی تعلیم کا حق دیا ہےلیکن افغانستان کی لڑکیوں کے تعلیمی حق سلب کئے جانے پر
دیگر ممالک کے علماء خاموش ہیں۔ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ عندیہ دیا تھا
کہ وہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کریں گے اور خواتین کو شریعت کے دائرے میں تمام
آزادی دیں گے لیکن اب وہ اپنے وعدے سے مکر گئے ہیں۔ شریعت کے نام پر وہ افغانستان
کا قبائلی کلچر نافذ کررہے ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم۔پر
پابندی اور خواتین پر ملازمت ، تجارت اور دیگر معاشی سرگرمیوں پر پابندی سے
افغانستان کی نصف آبادی ملک کی معاشی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس
کے علاوہ اس پابندی کے نتیجے میں افغانستان میں مستقبل میں شدید مسائل پیدا ہونگے۔
افغانستان کے سپتالوں میں لیڈی ڈاکٹروں کی کمی سے طبی خدمات بری طرح متاثر
ہونگی۔دیگر شعبوں جیسے پولیس وغیرہ میں خواتین عملہ کی کمی سے خواتین کے انسانی
حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ملک کی معیشت بھی خواتین کی عدم شرکت کی وجہ سے متاثر
ہوگی۔بنگلہ دیش جیسے پسماندہ ملک نے کم وقت میں معاشی طور پر ترقی اس لئے کی ہے کہ
وہاں خواتین زندگی کے ہر شعبے میں سرگرم حصہ لیتی ہیں۔مغربی۔مالک ترقی کی دوڑ میں
اسی لئے آگے ہیں کہ وہاں عورتوں کو تعلیم اور دیگر شعبہ ہائے حیات میں مردوں کے
شانہ بہ شانہ کام۔کرنے اور اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی پوری زادی ہے۔
اگر طالبان حکومت کو
لڑکیوں کے مردوں کے ساتھ تعلیم حاصل۔کرنے پر اعتراض ہے تو وہ پردے میں لڑکیوں کی
تعلیم۔کا انتظام۔کرسکتے تھے۔ آج کل آن لائن تعلیم۔کو عالمی سطح پر منظوری مل چکی
ہے۔ اس نظام تعلیم۔کے ذریعہ بھی لڑکیوں کو تعلیم کی سہولت مہیا کرائی جاسکتی تھی۔
لڑکیوں کی علیحدہ تعلیم۔کے لئے بھی خاتون ٹیچروں کی کھیپ تیار کرنے کی ضرورت پڑے
گی۔ اگر واقعی طالبان کو صرف مخلوط تعلیمی نظام پر اعتراض ہوتا تو وہ لڑکیوں کے
الگ تعلیمی نظام کی تشکیل۔کرسکتے تھے۔ لیکن دراصل ان کی نیت میں کھوٹ ہے۔ وہ
اسلامی شریعت کا حوالہ دیتے ہیں لیکن وہ قبائلی ذہنیت کے پروردہ ہیں۔ اور قبائلی
کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔
افغانستان میں لڑکیوں کی
تعلیم۔پر پابندی صرف افغانستان کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ پوری اسلامی دنیا کا مسئلہ ہے۔
ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش اور دیگر ممالک۔میں لڑکیوں کی تعلیم۔پر پابندی
نہیں ہے اور وہاں کے علماء بھی لڑکیوں کی تعلیم۔کے خلاف نہیں ہیں۔ تو پھر وہ
ادغانستان میں طالبان کے ذریعہ لڑکیوں کی تعلیم۔پر پابندی کے خلاف آواز کیوں نہیں
اٹھاتے۔ ؟
------------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism