ارشد عالم، نیو ایج اسلام
18 مارچ 2017
آسام کی ناہید آفرین اور بنگلور کی سہانا سید دونوں ایک غم میں شریک ہیں۔ وہ اس پر رنجیدہ ہیں جو مولویوں نے اسلام کو بنا دیا ہے: عدم روادار ، جذبات اور احساسات سے عاری ایک غیر مہذب دین جو مسلمانوں کو بدنام کرنے پر کمر بستہ ہے۔ آسام میں ناہید آفرین خلاف علماء کا فتوی اور ‘منگلور مسلمانوں’ کی جانب سے سہانا کے خلاف آن لائن دشنام طرازی ایک شدید بے چینی کی علامت ہے جو ہندوستان میں مسلم معاشرے کی خصوصیت بن چکی ہے۔ سہانا کو تقریبا خاموش کر دیا گیا ہے جبکہ ناہید کو اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی کرنے کا دعوی کرنے والی متعصب تنظیموں کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ظاہر کرنے کے لئے سلامی پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
رجعت پسند مسلم تنظیموں نے ان دو لڑکیوں کے خلاف دو بنیادی اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان پر خونی رشتہ داروں کے علاوہ کو اپنا چہرہ دکھانے کی وجہ سے اسلام میں پردہ کا قانون توڑنے کا الزام ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ان پر گانا اور اس موسیقی میں ملوث ہونے کا الزام ہے جس کی اجازت قدامت پرستوں کے مطابق اسلام میں نہیں ہے۔ سہانا پر ہندو بھجن گانے کی وجہ سے اسلام کے توحیدی اصول کو پس پشت ڈالنے کا بھی الزام ہے جو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے حمد و ثنا کرنے سے واضح طور پر منع کرتا ہے۔ اب ہم ان تمام اعتراضات کا ایک ایک کر جائزہ لیتے ہیں۔
اسلام میں پردہ کے نظام کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ کیا اسلام میں پردہ سے مراد وہ لباس ہے جو عورت کو ایک خاص عمر میں پہنچنے کے بعد عوام میں زیب تن کرنا چاہئے یا اس سے مراد عوامی مقامات پر اور گھر کے اندر جدا جدا لباس کی تقسیم ہے۔ قدامت پسند طبقہ کی دلیل یہ ہے کہ اسلام میں پردہ کے حکم سے مراد عملی طور پر یہ ہے کہ عورتوں کو عوام میں اور خاص طور پر اجنبی لوگوں کے سامنے اپنے جسم کی نمائش نہیں کرنی چاہئے۔ تاہم، اس بات پر کوئی اتفاق نہیں ہے کہ جسم کا کون سا حصہ دکھایا جا سکتا ہے اور کون سا حصہ نہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ چہرے کو ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اس کی نفی کرتا ہے۔ یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ خواتین کے چہرے اور بال کے اندر مردوں کو 'برانگیختہ' کرنے کی صلاحیت ہےاسی لئے خواتین کو ہر وقت ان کا پردہ کرنا چاہیے۔ چونکہ جنسیت اور ثقافت ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اسی لئے ہو سکتا ہے کہ بعض معاشروں میں مسلمان عورتوں کے ہاتھ کو بھی برانگیختہ کرنے والا مانا جاتا ہو اور اسی بنیاد پر عوام میں اپنے ہاتھوں کو بھی ظاہر کرنے پر بھی ہو سکتا ہے کہ ان پرپابندی عائد کر گئی ہو۔ اور قرآن کی ایسی مضحکہ خیز تعبیر کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ چونکہ اسلام مختلف ثقافتی نمونوں سے متاثر ہے اسی لئے ہم پردہ کے اصل معمول میں وسیع تنوعات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بعض دانشوروں کا یہ ماننا ہے کہ پردہ سے اصل میں عوامی اور نجی مقامات کے درمیان جسمانی علیحدگی مراد ہے ، جبکہ اس طرح کی تشریح بہت کم لوگ تسلیم کرتے ہیں۔ کم و بیش اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ خواتین کو عوام میں اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہئے۔
دوسرا اعتراض اسلام میں موسیقی اور گانے کے جواز سے متعلق ہے۔ مسلم معاشروں کے اندر طویل عرصے سے اس امر پر بحث جاری ہے کہ آیا اسلام موسیقی اور گانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ مجموعی طور پر علماء کی اتفاق رائے اس بات پر ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام میں صرف ایسے گانوں اور موسیقی کی اجازت ہے جو اللہ کی حمد و ثناء اور مدح و توصیف پر مشتمل ہو۔ دیگر تمام قسم کی موسیقی، خاص طور پر جو 'تفریح' کے لئے ہو اسے غیر اسلامی اور حرام سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح کی مذہبی اتفاق رائے کے باوجود، ہندوستان میں مسلم معاشرے نے کئی موسیقی کار اور گلوکار پیدا کئے ہیں۔ موسیقی میں ان کا تعاون اتنا عظیم ہے کہ ان کے حوالے کے بغیر کوئی ہندوستانی موسیقی کی تاریخ لکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان میں سے تقریبا تمام مذہبی اور متقی مسلمان تھے اور انہوں نے موسیقی اور گانوں پر قدامت پسندانہ مزاحمت پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ موسیقی میں اپنی کامیابیوں کی بنیاد پر ملک کا نام روشن کرنے کے باوجود آج تک علماء انہیں اچھا مسلمان نہیں سمجھتے ہیں۔ کئی صدیوں سے اس پر علماء کی رائے وہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اسی بنیاد پر سہانا اور ناہید کے دفاع میں ہندوستانی مسلم موسیقی کاروں اور گلوکاروں کا حوالہ پیش کرنا بے سود ہے۔ یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ گئے تو خواتین نے ان کے اعزاز میں گانا گایا۔ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ سے مروی یہ حدیث پیش کرنا بھی کافی نہیں کہ خواتین ان کے گھر آ کر نبی ﷺ کی موجودگی میں گانے گاتی تھیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء کی اس اتفاق رائے کو تحلیل کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلام میں موسیقی اور گانا حرام ہے۔ اور ایسا کرنے کے لئے اسلامی کتب کے صفحات کھنگھالنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ پورے زور و شور کے ساتھ یہ دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام معاصر جدیدیت کا بنیادی علم بردار ہے جو کہ انتخاب اور آزادی کو وسعت عطا کرتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا ان مولویوں اور انتہائی حساس مسلمانوں کا کام ہے کہ آیا وہ اسلام کو غیر افادیت بخش اور بے روح بنانا چاہتے ہیں یا وہ اسے جامعیت اور آزادی کا علم بردار بنانا چاہتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/islam-tolerance/suhana,-nahid-curse-muslim-intolerance/d/110445
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/suhana-nahid-curse-muslim-intolerance/d/113210
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism