نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
31 دسمبر 2022
برلن، جرمنی میں واقع ورلڈ پیس
انسٹی ٹیوٹ آف صوفی ازم کے بانی اور ہائی صوفی کونسل آف یروشلم ہولی لینڈ کے سفیر شیخ
اشرف آفندی، اس وقت 'Sufi Peace Way to India' کے سفر پر ہیں۔ ایک
عالمی صوفی شیخ کا یہ ایک ماہ طویل دورہ جو یورپی یونین سے کئی پیس ایوارڈز بھی حاصل
کرچکے ہیں اور صوفی مرکز ربانیہ، جرمنی کے بانی اور سربراہ ہیں، ہندوستان کی کئی ریاستوں
کو امن اور مکالمے کا مضبوط پیغام دے رہے ہیں۔ صوفی شیخ 17 دسمبر 2022 کو ہندوستان
میں کی سرزمین پر اترے اور اس کے بعد سے وہ ان دو نکات کو مضبوط کرنے کے لیے پورے ملک
کا سفر کر رہے ہیں: 'اندر امن اور باہر امن'۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ حال ہی
میں دہلی، جے پور، اجمیر شریف (راجستھان)، حیدرآباد، اڈیشہ اور مغربی بنگال میں منعقدہ
مختلف بین المذاہب اور بین الثقافتی تقریبات میں مکالمے میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ قابل
ذکر بات یہ ہے کہ اتر پردیش میں جو کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے کافی اہمیت
کی حامل ریاست ہے، صوفی شیخ نے مختلف وقتوں میں دریائے گنگا کی مقدس سرزمین کا دورہ
کرنے کا فیصلہ کیا، جسے تاریخی طور پر کاشی- بنارس- وارانسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
28 دسمبر کو، شیخ اشرف آفندی،
اتر پردیش کے وارانسی کے راج گھاٹ میں واقع بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک مشہور تعلیمی،
ثقافتی اور روحانی ادارہ کرشنامورتی فاؤنڈیشن پہنچے، جسے ایک ہندوستانی صوفی اور عارف،
جے کرشنا مورتی نے قائم کیا تھا، جو کہ عالم مغرب، یوروپین ممالک اور خاص طور پر جرمنی
اور سوئٹزرلینڈ میں جے کے کے نام سے مشہور ہیں۔
ایک اردو اسکالر اور سینئر
صحافی، ڈاکٹر افضل حسین مصباحی (اسسٹنٹ پروفیسر اور اردو سیکشن، ایم ایم وی، بنارس
ہندو یونیورسٹی کے سیکشن انچارج) کے ہمراہ شیخ آفندی کے صوفی وفد کا وارانسی کے کرشنامورتی
فاؤنڈیشن میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر کرشنا مورتی اسکول کے پرنسپل مسٹر
کمار رادھا کرشنن اور ان کے ساتھیوں نے سات رکنی صوفی وفد کا نہایت خوش دلی اور مہمان
نوازی کے ساتھ استقبال کیا۔ وفد میں دارالسلام، تنزانیہ کے مفتی شیخ الاحاد موسیٰ سلیم
شامل تھے جو تنزانیہ کی بین المذاہب کونسل کے صدر بھی ہیں۔
اپنے طے شدہ دورے میں، صوفی وفد
کی کرشنا مورتی فاؤنڈیشن انڈیا (KFI) میں پوری گرمجوشی کے
ساتھ میزبانی کی گئی۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، KFI کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے، جو 90 سالوں سے مقدس
شہر وارانسی میں موجود ہے۔ کرشنا مورتی (1895-1986) جن کی زندگی اور تعلیمات 20ویں
صدی کے بڑے حصے پر محیط ہیں، بہت سے لوگوں کے نزدیک جدید دور میں انسانی شعور پر سب
سے زیادہ گہرا اثر ڈالنے والی شخصیت ہے۔ وہ ایک ایسے سادھو تھے جن میں بات چیت کا ایک
انوکھا انداز پایا جاتا تھا، جو بنیادی طور پر انسانی مسائل کو واضح کر دیتے تھے اور
ان پر قابو پانے کے راستے بھی کھول دیتے تھے۔ پبلشرز ویکلی کے الفاظ یہ ہیں کہ: چند
جدید مفکرین نے نفسیات، فلسفہ اور مذہب کو کرشنا مورتی کی طرح شاندار انداز میں یکجا
کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
منظم مذاہب سے الگ ہو کر، انہوں
نے اپنے مشن کو اس انداز میں بیان کیا: 'انسان کو مطلق اور غیر مشروط طور پر آزاد کرنا'۔
انہوں نے گفتگو کرتے، لکھتے اور مباحثے کرتے ہوئے دنیا بھر کا سفر کیا۔ انہوں نے ان
چیزوں کے بارے میں بات کی جو ہم سب کو ہماری روزمرہ کی زندگی میں ضروری ہیں؛ جدید معاشرے
میں زندگی گزارنے کے مسائل، فرد کی سلامتی کی تلاش، اور انسانوں کو تشدد، خوف اور غم
کے اپنے اندرونی بوجھ سے آزادی۔ 14 سال کی عمر میں، انہیں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدر
اینی بیسنت نے گود لیا، ان کی پرورش کی اور عالمی استاد بننے کے لیے انہیں تیار کیا۔
اب وارانسی میں کرشنا مورتی فاؤنڈیشن، جے کرشنامورتی کے فلسفے کی رہنمائی میں راجگھاٹ
بیسنت اسکول کے نام سے ایک عمدہ سی بی ایس ای بورڈنگ اسکول چلاتی ہے۔ اسکول کا مقصد
خوف اور تقابل سے پاک ماحول تیار کرنا ہے جس سے بچے کی دیکھ بھال کرنے والے اساتذہ
کی نگاہوں میں فطری طور پر پھل پھول سکیں گے۔ جیسا کہ میرے دوست، مفکر اور کے ایف آئی
کے ڈائریکٹر، مسٹر وشواناتھ الوری نے مختصراً بتایا، کرشنا مورتی معلم حیات اور عارف
تھے جن کا تعلیم اور امن کا شاندار فلسفہ ہماری روحانی زندگی اور خیالات میں کافی اہمیت
رکھتا ہے۔
اپنے مکالمے میں صوفی شیخ
اشرف نے تخلیق کے الہی ارادے اور اشیاء کی روحانی حیثیت میں انسانوں کے خصوصی مقام
پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں کو خدا کا نائب بنا کر تخلیق کیا گیا، اسے اختیار
سے نوازا گیا اور اچھے اور برے کے درمیان فیصلہ کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ انہوں نے
سامعین کو کہا کہ وہ دوسروں کو جسمانی یا نفسیاتی طور پر تکلیف نہ دیں اور ان چیزوں
سے دور رہیں جو انسان میں فساد پیدا کرتی ہیں۔ سامعین کے اس سوال پر کہ کیا کسی دوسرے
انسان سے محبت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر یقین ضروری ہے، شیخ نے کائناتی طاقتوں سمیت
ہر چیز کے باہم مربوط ہونے کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہ ایک کو دوسرے سے الگ تھلگ کر
کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ صوفیاء کا مشن
تمام مذہبی روایات کے لوگوں کو اپنے سفر کے ذریعے جوڑنا ہونا چاہیے اور خطبہ کو چھوٹے
بچوں کو نیکی کے جذبے کی تعلیم دینے کے لیے درسگاہوں کی کوششوں کا ذریعہ بنایا جانا
چاہیے۔ تعلیم ایسی ہو کہ ایک بچے کے اندر اس دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت
پیدا ہو، لیکن ساتھ ہی دوسروں کے یا اپنے تجربات سے متعصب بھی نہ ہوں۔ کسی دوسرے کی
شناخت کی بنیاد پر کسی پیشگی تصور کے بغیر تعلق قائم کرنا خالص محبت کی علامت ہے۔ اس
میں صوفیوں اور درسگاہوں کو ایک دوسرے کے معاون کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
اپنی گفتگو کے اختتام میں شیخ آفندی
نے کہا کہ خالق اور اس کی تمام مخلوقات کے ساتھ انسان کا رشتہ گہرا اور آپس میں جڑا
ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص نیک کاموں میں لگا ہوا ہو تو قدرتی طور پر امن و خوشحالی کی فراوانی
ہو گی لیکن اگر انسان برائیوں میں مبتلا ہو تو اس پر آسمانی آفتیں نازل ہوتی ہیں۔ انہوں
نے اس بات پر زور دیا کہ انسان اور حیوان میں فرق یہ ہے کہ انسان کے پاس عقل کی دولت
ہے۔ اس لیے اسے عقل سے کام لینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص عقل سے کام نہ لے اور 'خود' پر
قابو نہ رکھے تو وہ حیوان بن جاتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیخ اشرف
آفندی کو علم آخر الزمان (آخر زمانہ کا علم) کے سنجیدہ موضوعات پر روحانی گفتگو اور
ذکر کی مجلس کے لیے بھی جانا جاتا ہے جو کہ بنیادی اسلامی کتب میں مذکور المحمۃ الکبریٰ
سے متعلق ہے۔
کسی کو یہ محسوس کرنے کے لئے معاف
کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کا خاتمہ بہت زیادہ قریب ہے۔ نیوکلیائی جنگ کی باتوں کے ساتھ
جو ہر وقت اپنا سر اٹھا رہا ہے، ایسا ہی محسوس ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہارورڈ
میں پروفیسر آف سائیکالوجی اسٹیون پنکر، جیسے کچھ ماہرین کے اندازے کے لحاظ سے اکیسویں
صدی کو ایک طویل عرصے میں سب سے زیادہ پرامن صدی مانا گیا ہے۔ لیکن بیان یہ کیا جاتا
ہے کہ ایک اوسط فرد کے اندر مذہب، نظریے، سیاست، ذات پات، جنس، جنسی رجحان، قومیت اور
بہت سی دوسری چیزوں کی بنیاد پر فساد پیدا ہو جاتا ہے جس کے ردعمل میں اسے کسی نہ کسی
راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی وفاداریوں کے درمیان بٹا ہوا ہوتا ہے پھر بھی
اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ وہ کیا کر سکتا تھا؟
ایسے ہی وقتوں میں ہمیں اپنے
دل اور ضمیر کی آواز سننے میں مدد کے لیے سمجھدار اور پُرسکون آوازوں کی ضرورت پیش
آتی ہے۔ ایسی ہی ایک آواز جو بین المذاہب ہم آہنگی کی تبلیغ کرتی رہی ہے وہ شیخ اسریف
آفندی کی صوفی سرزمین ہے جو جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان سرحدوں پر واقع ہے۔ خدا
کی وحدانیت اور بنی نوع انسان کی یکسانیت سے متاثر، یہ صوفی سرزمین تمام مذہبی روایات
کے لیے عالمگیر محبت اور احترام کا مرکز ہے، جس کی قرآن میں ہدایت دی گئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صوفی وفد کو کرشنامورتی
فاؤنڈیشن کے راج گھاٹ اسکول میں لانا اس کی تاریخ کا ایک شاندار باب مانا جائے گا کیونکہ
جے کرشنا مورتی خود مکالمے کے پرجوش حامی تھے۔ لیکن مکالمے کا ان کا نظریہ روایت سے
ہٹ کر تھا اور آج اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی کتاب کے 9ویں باب "book
‘In the problem is the solution"میں مکالمے پر لکھتے ہیں :
"ان سوالات کی تحقیقات
میں ہم ایک مکالمہ کرنے جا رہے ہیں، ایک مکالمہ دو لوگوں کے درمیان ہونے والی بات چیت
ہے، آپ ایک سوال پوچھتے ہیں، اسپیکر اس کا جواب دیتا ہے، پھر آپ اس جواب کا جواب دیتے
ہیں، اور جب آپ اس جواب کا جواب دیتے ہیں، تو اسپیکر آپ کے جواب کا جواب دیتا ہے۔ سوال
و جواب کے اس عمل میں جواب پر ہی سوال کیا جاتا ہے، یہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک
کہ سوال کرنے والا اور جواب دینے والا والا دونوں بالکل غائب نہ ہو جائیں اور سوال
اپنی جگہ باقی ہی رہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ سوال جیسا تھا اسی طرح معطل رہے، اور جوں
جوں سوال باقی رہتا ہے، اس میں قوت و توانائی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ
اگر آپ بالکل سنجیدہ ہیں تو آپ کو سوال ضرور کرنا چاہیے۔ جواب درست یا غلط ہو سکتا
ہے، لیکن آپ کو اس جواب کا جواب ضرور دینا چاہیے، اور جب آپ جواب دیتے ہیں، اور اسپیکر
آپ کے جواب پر سوال کرتا ہے۔ ہم عام طور پر یہ چاہتے ہیں کہ جواب آرام دہ، موزوں، آسان
ہو؛ لیکن سوال کرنے اور جواب دینے میں، یہ سب باتیں غائب ہو جاتی ہیں۔ ہم یہ جاننے
کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا سچ ہے، حقیقت کیا ہے، کیا درست ہے اور صحیح جواب کیا ہے۔ یہ
جاننے کے لیے، آپ اور مجھے مکمل طور پر غائب ہو جانا چاہیے اور صرف سوال باقی رہنا
چاہیے۔ آپ نے کیا سمجھا؟
------------
English
Article: Sufi-Master Sheikh Eşref Efendi's Visit to
Krishnamurti Foundation during his "Peace Tour to India" is
Remarkable!
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism