New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 10:58 AM

Urdu Section ( 24 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Sufi Saint of Silsila Shattariyya - Shah Muhammad Ghaus Gwaliyari سلسلۂ شطاریہ کے شیخ - شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ – ان کی حیات و تعلیمات

غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

13 مئی 2024

غوث محمد گوالیاری نے اپنے وسیع ادبی لٹریچر میں، ہم آہنگ ہندوستانی ثقافت کی ایک انمٹ میراث چھوڑی ہے۔ ان کی روحانی تعلیمات، فن، ثقافت اور ادب میں، ہندوستانی مسلمانوں کی زندگیوں اور افکار کی رہنمائی کرتی رہیں گی، اور ساتھ ہی ساتھ ایک فلسفہ اور مشق کی حیثیت سے یوگا کی مختلف شکلوں میں بھی۔

اہم نکات:

1۔16 ویں صدی کے ہندوستان میں، صوفی شیخ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری ، برصغیر پاک و ہند میں، طیفوری خانوادہ کی ایک شاخ، سلسلہ شطاریہ  کے ایک عظیم مبلغ تھے۔

2. غوث گوالیاری اور دارا شکوہ جیسے ہندوستان کے مسلم صوفیاء نے فارسی اور دیگر ترک زبانوں میں یوگا کتابوں کا وسیع پیمانے پر ترجمہ، ان کی تشریح اور اشاعت کی ہے۔

3. آج کے ہندوستان میں انہیں دوبارہ روشناس کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ انہیں ایک "صوفی یوگی" کے نام سے جانا جاتا ہے – جوکہ ایک ایسی اصطلاح ہے، جو بنیاد پرستوں اور قدامت پسندوں کو اچھی نہیں لگے گی۔ لیکن ان کی علمی اور روحانی قد، اتنی بلند ہےکہ انہیں یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

--------

ایک عربی نژاد فارسی لفظ، شطار کا مطلب ہے، "بجلی" اور "سب سے زیادہ چمکدار"، جس سے ایک روحانی ضابطہ عمل  کی نشاندہی ہوتی ہے، جو نور  الٰہی کے حصول میں حالت "تکمیل" کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، کہ سلسلہ شطاریہ کی ابتدا فارس میں ہوئی تھی، لیکن اس کی تشکیل اور تکمیل ہندوستان میں ہوئی،  جو کہ نور الہی سے منور ہزاروں روشن ضمیر صوفیاء کی سرزمین ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں، سلسلۂ شطاریہ طیفوری خانوادہ کی ایک شاخ کے طور پر معروف ہوا،  اور اسی سلسلہ کی شاخ کے طور پر، وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی، جسے شطاریہ قادریہ کہتے ہیں۔

 16 ویں صدی کے ہندوستان میں صوفی شیخ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری ، برصغیر پاک و ہند میں طیفوری خانوادہ کی ایک شاخ، سلسلہ شطاریہ  کے ایک عظیم مبلغ تھے۔ اسے صفوی دور کے ایران میں، سب سے پہلے 15ویں صدی کے فارسی صوفی بزرگ، شیخ سراج الدین عبداللہ شطار رضی اللہ عنہ نے قائم کیا، روحانی سلسلہ شطاریہ، ایک منفرد صوفی سلسلہ ہے، جس کا سلسلہ طریقت، سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی (845- 753عیسوی)  کے وسیلے سے،  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے، جو ان چند اولیاء میں سے ایک ہیں، جو فنا کی منزل پر فائز تھے۔

ہندوستان میں شطاری سلسلہ طریقت کے بانی، اور عظیم صوفی، موسیقار، اور گوالیار شریف کے ایک عہد ساز شاعر اور فلسفی کی حیثیت سے، حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ، کو پھر آج ہندوستان میں متعارف کرانا ضروری ہے۔ کیونکہ انہیں ایک "صوفی یوگی" کے نام سے جانا جاتا ہے – جوکہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو بنیاد پرستوں اور قدامت پسندوں کو اچھی نہیں لگے گی۔ لیکن ان کی علمی اور روحانی قد، اتنی بلند ہےکہ انہیں یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا سلسلہ نسب عظیم صوفی بزرگ حضرت خواجہ فرید الدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ سے جا ملتا ہے، جنہوں نے پوری دنیا میں صوفی فکر اور فارسی شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔ اس سلسلہ طریقت میں، برصغیر پاک و ہند کے اہم اولیاء اور شیوخ میں سے ایک، شاہ محمد غوث گوالیاری کا سلسلہ، گوپال گنج، بہار کے حاجی حمید حسور سے بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روحانی فیض حاصل تھا، اسی وجہ سے آپ کےفضل سے ، انہیں غوثیت کا اعلیٰ ترین روحانی مقام حاصل ہوا۔ شاہ گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ، نیشاپور سے ہندوستان آئے اور تصوف کی خدمت کرتے ہوئے اور لوگوں کو محبت الٰہی اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہوئے، اپنی آخری سانس تک یہیں رہے۔ انہوں نے برصغیر میں نہ صرف شطاری صوفی سلسلے کی اشاعت کی، بلکہ اسے ایک عظیم سلسلہ طریقت کی پہچان بھی عطا کی۔ اس کے ساتھ ہی، وہ ایک عظیم مصنف، شاعر، اور فلسفی اور ایک نامور یوگا گرو بھی تھے، جنہوں نے قدیم یوگا کتابوں کی تشریح و توضیح میں، جواہر خمسہ اور بحر الحیات نامی مشہور و معروف کتابیں تصنیف کیں۔ اور اس طرح،غوث محمد گوالیاری نے اپنے وسیع ادبی لٹریچر میں، ہم آہنگ ہندوستانی ثقافت کی ایک انمٹ میراث چھوڑی ہے۔ ان کی روحانی بصیرت نے، ایک ہزار سالوں تک ہندوستانی مسلمانوں کی زندگیوں اور افکار و خیالات کو روشنی بخشنے کا کام کیا، جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے، کہ کس طرح صوفیاء کرام نے ہندوستان کے ثقافتی معمولات کو، نہ صرف فن، ثقافت اور ادب کے ذریعے گلے لگایا، بلکہ یوگا کی مختلف شکلوں کے ذریعے بھی۔ خود آگاہی پر مبنی بہت سے ہندوستانی صوفی معمولات کو، فطری اعتبار سے یوگاسمجھا جا سکتا ہے، حالانکہ یوگا کو متعدد نقطہ نظر سے مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔

شطاری سلسلہ طریقت کے بانی ہونے کے علاوہ، حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری، 16ویں صدی میں فارسی میں یوگا کتب کے پہلے مترجمین میں سے ایک ہیں۔ ان سے پہلے، شیخ عبدالقدوس گنگوہی (1537-1456)، جو صابری سلسلے کے ایک بڑےصوفی شاعر مانے جاتے ہیں، ہندوستان میں یوگا کتب اور روایات سے واقف تھے، مثلاًنتھ یوگا – جو 13 ویں صدی کے آس پاس متعارف ہونے والی، شیو مت سے متعلق یوگا مشق تھی۔ ہتھ یوگا کی طرح، نتھ کی مشق، اپنے جسم کو مطلق حقیقت (سہجا سدھا) کے ساتھ بیدار خود شناسی کی حالت میں، تبدیل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ نتھ یوگیوں نے سلسلہ بہ سلسلہ، کنڈالینی کریا یوگا کے  علم کو، ہندوستان کے اندر، ہر زمانے میں زندہ رکھا۔

شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور شاہ محمد غوث گوالیاری جیسے صوفی بزرگوں نے، قدیم ہندوستانی وراثت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یوگا پر عمل کیا،  اور اس کی تبلیغ کی، حالانکہ اس پر ایسے چند بنیاد پرست علماء نے تنازع بھی کھڑا کیا،  جو یوگا کو اپنے خالص مذہبی معتقدات کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس طرح کے ہم آہنگ نظریات اور طرز عمل کی وجہ سے، حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری کی، رجعت پسند علماء نے شدید مخالفت کی۔ لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے ہمت نہیں ہاری۔ بلکہ، آپ نے فارسی میں یوگا کتب پر اپنے وسیع ترجمے اور تحقیق کے کاموں کو جاری رکھا۔ انہیں کی بدولت، ہندوستانی یوگا کتب کو بعد میں عربی، ترکی، اردو اور دیگر ترک زبانوں میں پیش کیا گیا۔

شاہ محمدگوالیاری نے، جن یوگا کتب کے تراجم کیے، ان میں سب سے اہم اور نمایا بحر الحیات (زندگی کا سمندر) ہے – جو کہ  یوگا پر سنسکرت کی ایک اہم کتاب امرتا کنڈا کا فارسی ترجمہ ہے۔

یہ قابل ذکر فارسی ترجمہ 1550 میں، گجرات کے شہر بروچ میں پیش کیا گیا تھا، اور اس کا مقصد، حوض الحیات (زندگی کا تالاب) کی توضیح و تشریح کرنا تھا، جو امرتاکنڈا کا پہلا عربی ترجمہ ہے۔ اس کتاب کو ہندوستان میں شطاری صوفیاء کے درمیان اس حد تک قبولیت عام حاصل ہوئی، کہ یہ شاہ محمد گوالیاری کے بہت سے پیروکاروں کے لیے ایک نصابی کتاب بن گئی۔ شاہ محمد گوالیاری کی ایک کتاب، جس سے شطاری صوفی معمولات اور یوگا کے درمیان قریبی مشابہت اجاگر ہوتی ہے، جواہر خمسہ (پانچ جواہرات) ہے، جس کا بعد میں مکہ میں شطاری شیخ صبغت اللہ نے عربی میں ترجمہ کیا۔ اس کتاب میں، شاہ محمد گوالیاری نے، اپنے روحانی عروج کے صوفیانہ تجربے پر روشنی ڈالی ہے،جس کی وجہ سے وہ ذات حق کے ساتھ محو گفتگو ہو سکے۔

ان کی سب سے مشہور کتابوں میں جواہر خامسہ ، جو پانچ ابواب پر مشتمل ہے، جن میں سے ایک کا عنوان خدا کی عبادت ہے، اور بحر حیات (زندگی کا سمندر)  کو مانا جاتا ہے، جس میں زندگی کے یوگا سے متعلق  رازوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ دونوں کتابیں ہندوستان میں، جدید تصوف پر بے مثال روحانی بصیرتیں پیش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، بحرِحیات، حوض الحیات (زندگی کا تالاب)  پر، ان کا ترجمہ اور تشریح ہے، جو یوگا پر گمشدہ سنسکرت کتاب، امرتاکنڈا کا عربی ترجمہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح غوث گولیاری اور دارا شکوہ جیسے ہندوستانی مسلم صوفیاء نے، فارسی اور دیگر ترک زبانوں میں یوگا کتب کا بڑے پیمانے پر ترجمہ، تشریح اور اشاعت کی ہے۔ غوث گوالیاری نے تصوف کے مختلف اہم مسائل پر جو دوسری کتابیں لکھیں یا تالیف کیں، ان میں: (1) اورادِ غوثیہ، (2) معراج نامہ، (3) ضمائر بصیر، (4) کلیدِ مخازن، (کنز الوحدت) وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

ان کے مریدوں اور روحانی وارثوں اور شاگردوں میں، گجرات کے عظیم صوفی بزرگ شیخ وجیہہ الدین علوی گجراتی، بنگال کے صوفی شیخ علی شیر بنگالی، شیخ ودود اللہ شطاری، شیخ شمس الدین شیرازی، شیخ صدر الدین ذاکر، شیخ لشکر محمد عارف، شیخ عیسی جند اللہ وغیرہ شامل ہیں ۔ شاہ محمدغوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 15 رمضان 970 ہجری کو ہوا، اور ان کا زیارت گاہ عام و خاص روضہ، مدھیہ پردیش میں واقع ہے، جو اس اردو مصرعے کا زندہ نمونہ ہے۔

دربارِ شہنشاہ سے خوشتر

مردانِ خدا کا ہے آستا

English Article: The Sufi Saint of Silsila Shattariyya - Shah Muhammad Ghaus Gwaliyari (RA)-- and His Significance Today!

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-saint-silsila-shattariyya-gwaliyari/d/132377

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..