New Age Islam
Sun May 18 2025, 07:41 PM

Urdu Section ( 29 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sudan Civil War سوڈان کی خانہ جنگی

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

29 اپریل،2023

گزشتہ 15 اپریل سے سوڈان میں خانہ جنگی جاری ہے جس کے نتیجے میں اب تک 500 سے زیادہ افراد ہلاک اور چار ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ خانہ جنگی سوڈان کے دو فوجی جرنیلوں کے ذاتی مفادات کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔ سوڈان کے برطرف ڈکٹیٹر عمر البشیر نے عوامی بغاوت کو کچلنے اور کسی بھی فوجی بغاوت سے نپٹنے کے لئے 2002 میں ریپڈ سپورٹ فورسیز نام کی پیرا ملٹری فورس کی تشکیل کی تھی جس کا سربراہ محمد ہمدان دگالو کو بنایا تھا۔ جبکہ سوڈان کی افواج کے سربراہ عبدالفتح البرہان تھے۔ سوڈان 1956 میں آزاد ہوا تھا اور آزادی سے لیکر 2021 تک اس ملک میں درجنوں بار فوجی بغاوت ہوچکی ہے اور جمہوری حکومت بہت کم وقت کے لئے رہی ہے۔ لہذا عمر البشیر نے اپنے دور حکومت میں فوجی بغاوت کو روکنے کے لئے ایک متوازی نیم عسکری فورس تشکیل دی تھی جو انکی وفادار تھی ۔اس فورس نے عوامی بغاوتوں اور احتجاج کو کچلنے میں بڑی سنگدلی سے کام لیا تھا۔ اس فورس پر عوام کے قتل عام ، عورتوں کی اجتماعی عصمت دری ، اذیت رسانی اور گاؤں کی تباہی کے سنگین الزامات ہیں۔ چونکہ ریپڈ سپورٹ فورس کے سربراہ دگالو عرف ہیمدتی تھے اس لئے عمر البشیر نے انہیں کافی اختیارات دے رکھے تھے۔دگالو نے انہی اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دارفور کے سونے کی کانوں کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور ان کانوں سے بے پناہ دولت کمائی تھی۔ان کے ماتحت جو فورس تھی اسے عمر البشیر نے 2017 میں قانونی حیثیت دے دی تھی اور اس کے افسروں کو فوج کے برابر رینک دے دئیے تھے۔ اس طرح دگالو سوڈان کے ایک متوازی فورس کے جنرل بن گئے تھے اور خود کو سوڈانی فوج کے جنرل البرہان کا ہم پلہ سمجھنے لگے تھے۔

اس دوران عمر البشیر کے خلاف عوامی مخالفت میں شدت آتی جارہی تھی جس کو کچلنے کے لئے دگالو کی ریپڈ سپورٹ فورس نے احتجاجیوں کا قتل عام کیا۔ 2019 میں دگالو کی فورس نے 118 احتاجیوں کو قتل کردیا لیکن جب انہیں یہ ادراک ہوگیا کہ اب عوامی مخالفت کو دبانا ممکن نییں ہے تو اس نے البرہان کے ساتھ ملکر عمر البشیر کا تختہ پلٹ دیا اور عوام کے نمائندوں کے ساتھ ملکر ایک نیم جمہوری حکومت کی تشکیل کی جس کے چیرمین البرہان اور ڈپٹی چیر مین دگالو تھے۔ لیکن اس دوران بھی البرہان اور دگالو کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی اور 2021 میں ایک بار پھر فوج نے جہموری حکومت کو برطرف کرکے فوجی حکومت قائم کردی۔ اس سے دگالو کو اپنی ساکھ متزلزل ہوتی نظرآئی کیونکہ وہ بھی خود کو فوج کا جنرل سمجھتے تھے اور اقتدار میں حصہ داری کا دعوی کرتے تھے۔ انہوں نے سوڈان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں اپنی ریپڈ سپورٹ فورسیز کو تعینات کرنا شروع کردیا اور اپنی طاقت بڑھانے لگے۔ انہوں نے روس سے فوجی اسلحے حاصل کئے اور اپنی فورس کو روس سے تربیت دلوائی ۔معاوضے کے طور پر اپنے قبضے والے سونے کی کانوں سے سونے روس کو دئیے۔ دگالو کی فورس میں ایک اندازے کے مطابق 70 ہزار سے ایک لاکھ دس ہزار لڑاکے ہیں جن میں سینکڑوں سبکدوش فوجی بھی ہیں ۔جبکہ سوڈان کی فوج میں 2 لاکھ 20 ہزار فوجی ہیں لیکن دگالو کے لڑاکے بہتر طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ دگالو نے روس کو سوڈان۔میں بحری اڈہ قائم کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے جس سے امریکہ اور برطانیہ فکرمند ہیں۔ عمر البشیر نے اپنے دور میں ریپڈ سپورٹ فورس کو یمن میں سعودی حکومت کی طرف سے بھی لڑنے کے لئے بھیجا تھا۔

سوڈان کے عوام ایک عرصے سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ریپڈ سپورٹ سروسز کو سوڈانی فوج میں ضم کردیا جائے۔دگالو ریپڈسپورٹ سروسز کے سوڈانی فوج کے انضمام کے لئے تیار تو ہیں لیکن وہ اس کے لئے دس سال کا وقت چاہتے ہیں جبکہ البرہان چاہتے ہیں کہ یہ انضمام دو برسوں ہی میں ہو جائے۔ دراصل دگالو جانتے ہیں کہ ریپڈ سپورٹ سروسز کے فوج میں انضمام کے بعد دارفور کے سونے کی کانوں پر سے ان کا کنٹرول ختم ہو جائیگا اور ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہاتھ سے چلا جائیگا۔ دوسری طرف البرہان چاہتے ہیں کہ ریپڈ سپورٹ سروسز کا انضمام جلد از جلد ہو تاکہ دگالو کو فوج سے بے دخل کرکے دارفور کے سونے کی کانوں پر اپنا کنٹرول قائم کیا جائے۔ لیکن دگالو اتنی آسانی سے اپنے اختیارات سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فوج میں انضمام کے بعد انہیں بھی فوج میں البرہان کے ہم پلہ عہدہ دیا جائے۔ انہی سب وجوہات سے دونوں جنرلوں میں نضمام۔کو لیکر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے ۔ نتیجے میں دونوں کے درمیان مفادات کی رسہ کشی شدید ہوتی چلی گئی۔ دگالو نے خرطوم سمیت ملک کے ایک بڑے حصے پر اپنی فورس تعینات کردی ہے اور نئے نئے علاقوں میں اپنی فوجی طاقت کو وسعت دینے لگے۔ گزشتہ 11 اپریل کو دگالو نے میرووے اور خرطوم۔میں اپنے فوجی تعینات کردئے۔ سوڈانی فوج نے اس کو اپنے لئے خطرہ تصور کیا اور دگالو کی فوج کو وہاں سے ہٹنے کا حکم دیا۔ دگالو نے ہٹنے سے انکار کیا اور سوبو کے ملٹری بیس پر قبضہ کرلیا۔ لہذا 15 اپریل کو البرہان کی فوجوں نے دگالو کی فوجوں پر حملہ کردیا جس کے بعد خانی جنگی کا آغاز ہوگیا۔

بدقسمتی سے دونوں افواج نے لڑائی کا,آغاز رمضان کے مہینے میں کیا اور عید کے دن بھی جنگ بندی نہیں ہوئی۔ جبکہ سوڈان ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں کی 97 فی صد آبادی مسلم ہے اور دونوں جرنیل مسلم ہیں۔ اس خانہ جنگی سے عوام کو ناقابل بیان تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں۔ لوگ پانی ، غذا بجلی اور ادویات کے بحران کے شکار ہیں۔ اس افراتفری کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کرنے والے لوگ لوٹ مار کررہے ہیں۔ اسی افراتفری کا فائدہ اٹھا کر خرطوم کی جیل سے سابق ڈکٹیٹر عمر البشیر اور ان کے دیگر رفقاء فرار ہوگئے جنہیں بعد میں فوج نے اپنی حراست میں لے لیا۔ عمر البشیر اور ان کے رفقاء کے خلاف انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے وارنٹ جاری کر رکھا ہے اور انہیں جنگی مجرم قرار دے دیا ہے۔ لیکن سوڈان کی فوج نے انہیں آئی سی سی کے حوالے نہیں کیا ہے۔

دگالو اور البرہان نے تین دنوں کی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ عوام تک امداد اور راحت رسانی کا کام آسان ہو۔ تین دن کی جنگ بندی کے بعد دونوں جنگ بندی کی توسیع پر راضی تو ہوگئے لیکن خبروں کے مطابق دونوں طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ اقوام۔متحدہ فریقین کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوشش کررہا ہے جس میں ابھی تک اسے کامیابی نہیں ہوئی ہے کیونکہ دونوں جرنیل جنگ کے ذریعہ ہی اس تنازع کے حل۔میں یقین رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو غدار قرار دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ دونوں کا یہ دعوی ہے کہ صرف وہ سوڈان کے عوام کی بہتری کے لئے لڑرہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں اپنے ذاتی مفادات کے لئے خون خرابہ کررہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ سوڈانی فوج کا سربراہ بنے جبکہ ایک نیام۔میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ دونوں کی اس لڑائی میں سوڈان کے عوام۔پس رہے ہیں۔عمر البشیر نے تین دہائیوں تک طاقت کے بل پر حکومت کی اور عوام کی مخالفت کو طاقت کے بل پر دبایا۔ اس دوران لاکھوں افراد قتل ہوئے اور لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ اور عوام کی مصیبتوں کا سلسلہ عمر البشیر کی برطرفی کے بعد بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ڈکٹیٹروں اور فوجی آمروں کی جنگ میں گھٹ گھٹ کر مرنا سوڈانی عوام کا مقدر بن چکا ہے اور اسلامی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

-----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sudan-civil-war/d/129667

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..